أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

كُنۡتُمۡ خَيۡرَ اُمَّةٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَتَنۡهَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡكَرِ وَتُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ‌ؕ وَلَوۡ اٰمَنَ اَهۡلُ الۡكِتٰبِ لَڪَانَ خَيۡرًا لَّهُمۡ‌ؕ مِنۡهُمُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ وَاَكۡثَرُهُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ‏

ترجمہ:

جو امتیں لوگوں کے لیے ظاہر کی گئی ہیں تم ان سب میں بہترین امت ہو تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو ‘ اور اگر اہل کتاب ایمان لے آتے تو ان کے حق میں بہتر تھا ‘ ان میں سے بعض مومن ہیں اور اکثر کافر ہیں

تفسیر:

ربط آیات ‘ مناسبت اور شان نزول : 

اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا تمام کام اللہ ہی کی طرف لوٹائے جائیں گے ‘ جس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ جس کو چاہے ہدایت دے اور جس کو چاہے گمراہی پر رہنے دے ‘ پھر اس امت کی مدح کرتے ہوئے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تم کو جبلۃ ‘ وفطرۃ “ سب سے بہتر پایا کیونکہ تم تمام لوگوں کو نیکی کی ہدایت دیتے ہو اور ان کو برائی سے روکتے ہو۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے مومنین سے فرمایا تھا کہ تم اہل کتاب کی طرح سرکش اور نافرمان نہ ہوجانا ‘ پھر ان کو نیکی اور اطاعت شعاری پر برانگیختہ کرنے کے لیے آخرت میں مومنوں کی سرخ روئی اور ان کے درجات کو بیان فرمایا اور کافروں کی روسیاہی اور ان کے عذاب کو بیان فرمایا ‘ اور اب ایک اور طریقہ سے مومنوں کو نیکی اور اطاعت شعاری کی ترغیب دی ہے اس لیے فرمایا تم بہترین امت ہو یعنی تم لوح محفوظ میں سب سے بہتر اور سب سے افضل امت ہو اس لیے مناسب یہ ہے کہ تم اپنی اس فضیلت کو ضائع نہ کرو اور اپنی اس سیرت محمودہ کو زائل نہ کرو۔

امام ابوجعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

سعید بن جبیر بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ اس آیت میں امت سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مکہ سے ہجرت کی۔

سدی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن الخطاب نے فرمایا اس آیت سے خصوصیت کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب مراد ہیں اور جو مسلمان ان کے طریقہ پر گامزن ہوں۔

بہزبن حکیم اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سنو تم نے ستر امتوں کو پورا کردیا تم ان کے آخر میں ہو اور تم اللہ کے نزدیک سب سے مکرم ہو۔

قتادہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دین نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کعبہ سے ٹیک لگائے ہوئے تھے آپ نے فرمایا ہم قیامت کے دن ستر امتوں کو پورا کردیں گے ہم ستر امتوں میں سب سے آخر میں ہیں اور سب سے بہتر ہیں۔ (جامع البیان ج ٤ ص ‘ ٣٠ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ)

تمام امتوں سے افضل امت ہونے کا مدار :

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو یہ خبر دی ہے کہ وہ اس وقت تمام امتوں سے افضل ہے ‘ اور جب تک یہ امت نیکی کا حکم دیتی رہے گی اور برائی سے روکتی رہے گی اور اللہ پر صحیح ‘ صادق اور کامل ایمان رکھے گی اس وقت تک یہ امت تمام امتوں سے افضل ہی رہے گی ‘ اس آیت میں نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کو ایمان پر مقدم کیا ہے ‘ اس لیے کہ ان ہی دو وصفوں کی وجہ سے مسلمانوں کو دوسروں پر فضیلت ہے ‘ کیونکہ ایمان کا تو دوسری امتیں بھی دعوی کرتی ہیں لیکن دوسری امتوں نے ایمان کی حقیقت کو بگاڑ دیا تھا اور ان میں شر اور فساد غالب آچکا تھا ‘ اس لیے ان کا ایمان صحیح نہیں تھا ‘ اور وہ نیکی کا حکم دیتے تھے نہ برائی سے روکتے تھے۔

صحیح ‘ صادق اور کامل ایمان کا معیار :

اللہ تعالیٰ نے جس صحیح ‘ صادق اور کامل ایمان لانے کا حکم دیا ہے اس کا معیار اللہ تعالیٰ نے خود بیان فرمایا ہے :

(آیت) ” انما المؤمنون الذین امنوا باللہ ورسولہ ثم لم یرتابوا وجاھدوا باموالھم وانفسھم فی سبیل اللہ اولئک ھم الصادقون “۔ (الحجرات : ١٥)

ترجمہ : ایمان والے تو وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر انہوں نے شک نہ کیا اور اپنے مال اور جان سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا وہی سچے ہیں۔

(آیت) ” انما المؤمنون الذین اذا ذکر اللہ وجلت قلوبھم واذا تلیت ایتہ زادتھم ایمانا وعلی ربھم یتوکلون “۔ (الانفال : ٢)

ترجمہ : ایمان والے تو وہی ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل خوف زدہ ہوجائیں اور جب ان پر اس کی آیتیں پڑھی جائیں تو وہ ان کے ایمان کو اور زیادہ کردیں ‘ اور وہ صرف اپنے رب پر بھروسہ کریں۔

اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا تب صحیح ہوگا جب ہر اس چیز پر ایمان لایا جائے جس پر ایمان لانا ضروری ہے۔ مثلا آسمانی کتابوں پر ‘ فرشتوں پر ‘ تمام نبیوں پر ‘ تقدیر پر ‘ مرنے کے بعد اٹھنے پر ‘ حساب و کتاب پر اور جزاء اور سزا پر ‘ اور جو شخص ان میں سے بعض پر ایمان لایا اور بعض پر ایمان نہیں لایا تو اس کا ایمان صحیح نہیں ہے ‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

(آیت) ” ان الذین یکفرون باللہ و رسلہ ویریدون ان یفرقوا بین اللہ ورسلہ ویقولون نؤمن ببعض ونکفر ببعض ویریدون ان یتخذوا بین ذالک سبیلا۔ اولئک ھم الکافرون حقا “۔ (النساء : ١٥١۔ ١٥٠)

ترجمہ : بیشک جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان جدائی کا ارادہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بعض پر ایمان لاتے ہیں اور بعض پر ایمان نہیں لاتے اور وہ کفر اور ایمان کا درمیانی راستہ بنانے کا ارادہ کرتے ہیں ‘ درحقیقت وہی لوگ کافر ہیں۔

نیز اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے آخر میں فرمایا اگر اہل کتاب ایمان لے آتے تو ان کے حق میں بہتر تھا ‘ ان میں سے بعض مومن ہیں اور اکثر کافر ہیں۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ یہ اللہ کی تمام کتابوں اور تمام رسولوں پر ایمان نہیں لائے تھے اور قرآن مجید کے کتاب اللہ ہونے اور سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رسول ہونے کا انکار کرتے تھے۔ کیونکہ ان کو یہ خوف تھا کہ اگر انہوں نے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کو مان لیا تو ان کی ریاست جاتی رہے گی ‘ اور یہودی عوام جو ان کی اتباع کرتے ہیں وہ ان کے ہاتھ سے نکل جائیں گے اور دنیاوی مال اور نذرانے ملنے بند ہوجائیں گے حالانکہ اگر وہ اسلام قبول کرلیتے تو دنیا میں بھی ان کی عزت و کرامت زیادہ ہوتی اور وہ آخرت میں بھی اجر عظیم کے مستحق ہوتے۔

یہ ایمان صحیح کا معیار ہے اور ایمان صادق کا معیار یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں اپنے مال اور جان کو بےدریغ خرچ کریں ‘ تاکہ ان کا دعوی ایمان صادق ہو ‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

(آیت) ” احسب الناس ان یترکوا ان یقولوا امنا وھم لا یفتنون “۔ (العنکبوت : ٢)

ترجمہ : کیا لوگوں کا یہ گمان ہے کہ وہ اس کہنے پر چھوڑ دیئے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور ان کی آزمائش نہیں کی جائے گی !

اور ایمان کامل کا یہ معیار ہے کہ تمام فرائض اور واجبات کو دوام اور التزام کے ساتھ ادا کیا جائے اور کسی فرض اور واجب کو ترک نہ کیا جائے اور حتی الامکان تمام سنن اور مستحبات کو ادا کیا جائے ‘ اور کسی حرام اور مکروہ تحریمی کا کبھی بھی ارتکاب نہ کیا جائے اور ہر قسم کے مکروہ تنزیہی اور خلاف اولی کاموں سے حتی الامکان اجتناب کیا جائے ‘ اور اگر تقاضائے بشریت سے کبھی کوئی فرض یاواجب رہ جائے تو فورا اس کی قضا کرلی جائے اور اگر غلبہ نفسانیت سے کبھی کسی حرام یا مکروہ تحریمی کا ارتکاب ہوجائے تو اس پر فورا توبہ کرلی جائے۔

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں :

عمربن عبد العزیز نے عدی بن عدی کی طرف لکھا کہ ایمان کے فرائض اور شرائع ہیں اور حدود اور سنن ہیں جس نے ان کو مکمل کرلیا اس کا ایمان کامل ہوگیا اور جس نے ان کو مکمل نہیں کیا اس کا ایمان کامل نہیں ہوا۔

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (کامل) مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور (کامل) مہاجر وہ ہے جو اللہ کی منع کی ہوئی چیزوں کو ترک کر دے۔

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص وقت تک (کامل) مومن نہیں ہوگا جب تک کہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی چیز پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ (صحیح بخاری ج ١ ص ‘ ٦ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ)

امام مسلم بن حجاج قشیری ٢٦١ ھ روایت کرتے ہیں :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کوئی زانی زنا کرتے وقت (کامل) مومن نہیں ہوتا ‘ اور کوئی چور چوری کرتے وقت (کامل) مومن نہیں ہوتا ‘ اور کوئی شرابی شراب پیتے وقت (کامل) مومن نہیں ہوتا اور کوئی لٹیرا لوٹ مار کرتے وقت (کامل) مومن نہیں ہوتا۔

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مسلمان کو گالی دنیا فسق ہے اور اس سے قتال کرنا کفر ہے۔

حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انسان اور اس کے کفر اور شرک کے درمیان نماز کو ترک کرنا ہے۔ (صحیح مسلم ج ١ ص ٦١۔ ٥٥‘ ملتقطا مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٧٥ ھ)

حافظ نور الدین علی بن ابی بکر الہیثمی متوفی ٨٠٧ ھ بیان کرتے ہیں :

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر خطبہ میں یہ فرماتے تھے جو شخص امانت دار نہ ہو وہ (کامل) مومن نہیں اور جو شخص عہد پورا نہ کرے اس کا دین (کامل) نہیں۔ اس حدیث کو امام احمد ‘ امام ابو یعلی ‘ امام بزار اور امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص بہت طعنے دیتا ہو بہت لعنت کرتا ہو ‘ بد زبانی اور بےحیائی کی باتیں کرتا ہو وہ (کامل) مومن نہیں۔ اس حدیث کو امام بزار نے روایت کیا ہے۔ (مجمع الزوائد ج ١ ص ‘ ٩٧۔ ٩٦ مطبوعہ دارالکتاب العربی ‘ بیروت ‘ ١٤٠٢ ھ)

امام ابوجعفر محمد بن محمد طحاوی متوفی ٣٢١ روایت کرتے ہیں :

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ شخص (کامل) مومن نہیں ہے جو رات کو پیٹ بھر کر کھانا کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا ہو۔ (شرح الآثار ج ١ ص ١٦‘ مطبوعہ مجتبائی پاکستان لاہور ‘ ١٤٠٤ ھ)

خلاصہ یہ ہے کہ اللہ پر صحیح ایمان یہ ہے ان تمام امور پر ایمان لائے جن پر ایمان لانا ضروری ہے ‘ اور صادق ایمان یہ ہے کہ اس کے دل میں اس کے خلاف شک نہ آئے ‘ وہ اللہ سے ڈرتا رہے اور اللہ کی راہ میں جان اور مال کو بےدریغ خرچ کرے۔ اور کامل ایمان یہ ہے کہ تمام فرائض اور واجبات پر دائما عمل کرے اور سنن اور مستحبات پر بھی عامل ہو اور ہر حرام اور مکروہ تحریمی ہے دائما مجتنب ہو اور مکروہ تنزیہی اور خلاف اولی سے بچتا رہے ‘ اور اس درجہ کے ساتھ جو مسلمان بھی نیکی کا حکم دیتے رہیں گے اور برائی سے روکتے رہیں گے وہ تمام امتوں میں بہترین امت ہونے کے مصداق ہیں۔

اس آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ان میں سے بعض مومن ہیں اور اکثر فاسق ہیں ‘ مومنوں سے حضرت عبداللہ بن سلام (رض) ایسے لوگ مراد ہیں جو پہلے یہودی تھے اور بعد میں انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔ فاسق کا معنی ہم پہلے بیان کرچکے ہیں اس سے مراد مرتکب کبیرہ ہیں ‘ اور اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ یہود میں ایسے لوگ تھے جو کافر ہونے کے علاوہ دینی اور دنیاوی معاملات میں بدعمل اور بداخلاق بھی تھے۔

تفسیر تبیان القرآن – سورۃ 3 – آل عمران – آیت 110