حق، باطل کے ساتھ کسی مرحلے اور کسی سطح پر بھی سمجھوتے کا روادار نہیں۔ اگر مسلمان اپنے عظیم مشن کو پس پشت ڈال کر باطل کے عقائد ونظریات کے ساتھ سمجھوتہ کرلیتے اور ظالم استحصالی طاقتوں کے عقائد باطلہ کے لئے اپنے دل میں نرم گوشہ بیدار کرکے عافیت کی درمیانی راہ اختیار کرلیتے اور اپنے عقائد ونظریات سے اپنی فکری اور روحانی وابستگی کو کمزور کرلیتے تو معرکہ بدر کبھی برپا نہ ہوتا۔ مشرکین مکہ کی تلواریں کبھی بے نیام نہ ہوتیں، کفر اپنے پورے مادی وسائل کے ساتھ جذبہ شہادت سے سرشارمسلمانوں کے جذبہ ایمانی کو للکارنے اور ان کے خلاف صف آراء ہونے کی ضروت ہی محسوس نہ کرتا۔ لیکن ہادی برحق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بطال کے ساتھ کسی سمجھوتے کے امکانات کو رد کرتے ہوئے بے سروسامانی کے عالم میں کفر کے ساتھ ٹکر لینے کا عزم کرلیا۔ یہ نبوت کا پندرھواں سال تھا، تاریخ اسلام کا فیصلہ کن مرحلہ، حق اور باطل کی کھلی جنگ، جنگوں کے ایک طویل سلسلے کی تمہید، اسلامی تشخص کی پہلی عسکری توجیہہ، اپنے نصب العین کی سچائی پر غیر متزلزل یقین کی علامت اور اپنے وسیع تر تناظر میں دو قومی نظریہ کی حقانیت نہ صرف آزمائش کی کسوٹی پر پورااترتی ہے بلکہ فکری اور نظریاتی حوالے سے فرد کی عملی تربیت کا احساس بھی عمل کی بھٹی سے گذار کر کندن بنا اور پھر یہ کندن فرد کے کردار میں ڈھل کر معاشرے میں خیر کی قوتوں اور نیکی کے رویوں کے فروغ کا ضامن قرار پایا۔ غزوہ بدر کو دیگر غزوات پر کئی اعتبار سے فوقیت حاصل ہے۔ اسے کفر و اسلام کا پہلا معرکہ ہونے شرف حاصل ہے۔ خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوہ بدر کو ایک فیصلہ کن معرکہ قرار دیا اور قرآن مجید نے اسے یوم الفرقان سے تعبیر کرکے اس کی اہمیت پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ فرمایا ’’جو ہم نے اپنے( برگزیدہ) بندے پر ( حق وباطل کے درمیان) فیصلے کے دن نازل فرمائی وہ دن (جب بدر میں مومنوں اور کافروں کے) دونوں لشکر باہم متصادم ہوئے تھے،، (الانفال8:41) بلاشبہ یوم بدر احقاق حق اور ابطال باطل کا دن تھا، جس دن حق کو واضح اور دوٹوک فتح حاصل ہوئی اور کفرکے مقدر میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ذلت آمیز شکست لکھ دی گئی۔ مشرکین کا تکبر وغرور خاک میں مل گیا، کبرونخوت کی دستار پاؤں تلے کچلی گئی۔ جھوٹے تعصبات کی دھجیاں فضائے بسیط میں بکھر گئیں۔ حق کی راہ میں مزاحم ہونے والی دیوار اپنے ہی قدموں پر بوس ہوگئی۔ حق کا پرچم بلند ہوا اور بلند ہی ہوتا چلا گیا۔ جھوٹی انا کا سر جھکا اور جھکتا ہی چلا گیا روشنی کی تلاش کا سفر اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا تھا۔ عقیدہ توحید، انسان کی کتاب روز وشب کے ہر باب کا عنوان بن رہا تھا اور مطلع انسانیت پر ایک نئی صبح طلوع ہو رہی تھی۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ ’’اور اللہ چاہتا تھا کہ اپنے کام سے حق کو حق ثابت فرما دے اور (دشمنوں کے بڑے مسلح لشکر پر مسلمانوں کو فتح یابی کی صورت میں) کافروں کی (قوت وشان وشوکت) کی جڑ کاٹ دے،، (الانفعال8:7) یاسیت کی چادر تار تار ہوئی۔ افق دیدہ ودل پر رجائیت کا سورج اپنی رعنائیاں اور توانائیاں بکھیرنے لگا حق کا شفاف اور بے داغ چہرہ مزید نکھر کر آنے والے روشن دنوں کے اجلے پن میں اضافہ کرنے لگا۔

اسباب جنگ:

 

ہر عمل (Action) کا ایک رد عمل (Reaction) ہوتا ہے۔ عمل جتنا شدید ہوگا ردعمل بھی اتنا ہی شدید ہوگا۔ جتنا کسی چیز کو دبایا جاتا ہے قانون فطرت ہے کہ وہ چیز اتنا ہی ابھر کرسامنے آتی ہے اور پھر ہر عمل کے چند ایک محرکات ہوتے ہیں۔ کچھ محرکات اور اسباب ظاہری ہوتے ہیں اور کچھ خفیہ۔ جنگ ہی کو لے لیجئے اس کے کچھ اسباب فوری نوعیت کے ہوں گے کچھ کا دورانیہ ایک طویل عرصے پر محیط ہوگا۔ اصل وجوہ کچھ اور ہوتی ہیں۔ ایک عرصہ سے پس پردہ بہت سے عوامل کار فرما ہوتے ہیں فوری وجہ تو ایک بہانہ بنتی ہے۔ غزوہ بدر بھی کسی فوری اور اضطراری سوچ کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ حق وباطل کے اس معرکہ کی وجوہات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعلان نبوت سے ہجرت مدینہ تک ان گنت واقعات کے دامن میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اگرچہ چند واقعات کو اس معرکہ کی فوری وجوہات میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ تصادم اسی روز ناگزیر ہو گیا تھا جس دن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کفر وشرک کی آگ میں جلتے ہوئے سماج میں اعلائے کلمۃ الحق کا پرچم بلند کیا تھا۔ جس روز حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پتھر کے بتوں کی پرستش کو ترک کرکے خدائے وحدہ لاشریک کی بارگاہ میں سربسجود ہونے کی دعوت دی تھی۔ فاران کی چوٹیوں پر آفتاب ہدایت کے طلوع ہونے کے ساتھ ہی اندھیروں نے اپنی بقا کی جنگ کے لئے صف بندی کا آغاز کر دیا تھا۔ اسلام اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف سازشوں اور شرانگیزیوں کا سلسلہ آسل میں غزوہ بدر کا دیباچہ تھا۔ ہجرت مدینہ کے بعد جب مسلمان منظم ہونے لگے اور کفار کا یہ خدشہ کہ مسلمان ایک قوت بن کر ابھرے تو ان کا اقتدار ہی نہیں پورا نظام خطرے میں پڑ جائے گا۔ حقیقت میں تبدیل ہونے لگا تو مشرکین مکہ کے لئے مسلمانان مدینہ کے ساتھ مسلح تصاد کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا۔ تاریخ شاہد عادل ہے کہ اعلان نبوت کے ساتھ ہی اسلام کے خلاف اعلان جنگ ہوگیا تھا۔ گو اس تصاد م کا موقع پندرہ سال بعد آیا لیکن ایک عرصے سے کفار ومشرکین نفرت کا لاوا اپنے سینوں میں وحشت وبربریت کی تصویر بنے ہوئے تھے۔ اس وحشت وبربریت کا مظاہرہ کیاجاتا، کبھی مسلمانوں کو انگاروں پر لٹا کر ہوتا اور کبھی انہیں تپتی ریت پر گھسیٹنے کے غیر انسانی فعل کی صورت اسکا اظہار ہوتا۔ کبھی سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قتل کی سازش کرکے قریش اپنے خبیث باطن کا مظاہر ہ کرتے اور کبھی گھاٹی شعب ابی طالب میں خاندان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معاشرتی بائیکاٹ کرکے انتقام کی آگ کو سرد کرتے۔ لیکن یہ آگ سرد ہونے کی بجائے بھڑکتی رہی سینوں میں نفرت کا لاوا کھولتا رہا۔ ہم غزوہ بدر کے تمام ممکنہ اسباب کا جائزہ لیں گے۔ غزوہ بدر کے پس منظر میں جن اسباب کا ذکر کیا جائے گا ان کا بھی ایک پس منظر (Background) ہے، ہم پس منظر اور پیش منظر دونوں کا جائزہ لے کر اس فیصلہ کن معرکے کی حیققی وجوہات تلاش کرنے کی سعی کریں گے۔
کفار کی اسلام دشمنی

 

جس دن اعلان نبوت کے ساتھ داعی حق نے کفار ومشرکین کو دعوت حق دی تھی اسلام دشمنی کاآغاز بھی اسی روز ہوگیا تھا۔ آواز حق پر کفارکان دھرنے کے لئے تیار نہ تھے۔ نئے اجالوں کو کتاب زندگی کا عنوان بنانے کی ہمت ان میں نہ تھی۔ وہ جہالت کی ردائے تار تار سے چمٹے ہوئے تھے۔ مشرکین نظام باطل کے حصار سے نکلنے پر قطعاً رضامند نہ تھے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے عقائد باطلہ کو بے نقاب کرکے توحید کا نعرہ بلند کیا اور بت پرستی کے خلاف دعوتی جدوجہد کا آغاز کیا تو کفار مکہ کے ساتھ روایات کہنہ کا علم اٹھائے پورا عالم عرب اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا۔ مکروہ سازشوں کا ایک ایسا جال بنایا گیا جس سے نکلنے کا تصور وہی عظیم لوگ کرسکتے ہیں جنہیں اپنے نصب العین کی سچائی پر غیر متزلزل یقین ہو اور ابتلا وآزمائش کے کسی مرحلے پر بھی ان کی جبین شکن آلود نہ ہو۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعت ہر آزمائش پر پورا اترنے والی انہی نفوس قدسیہ پر مشتمل تھی۔ جنہوں نے قد م قدم پر ایثار وقربانی کی لازوال مثالیں قائم کرکے قیامت تک راہ حق کے سفر پر نکلنے والے مسافروں کو اپنے نقوش پاک کی روشنی عطا کی۔ وہ کون سا حربہ تھا جو مسلمانوں کے خلاف نہ آزمایا گیا۔ فتنہ وفساد کی آگ بھڑکا کر مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا۔ اسلام کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے اہل باطل اپنی عسکری طاقت مجتمع کرنے میں مصروف ہوگئے۔ تیرہ سالہ مکی دور اس امر پر گواہ ہے کہ کفار اسلام دشمنی میں اندھے ہو چکے تھے۔ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قتل کے منصوبے بننے لگے، شب ہجرت بھی مفسدین اس نیت سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مکان کا محاصرہ کئے ہوئے تھے وہ کسی صورت میں بھی یہ برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں تھے کہ اسلامی تحریک اپنے قدم جما سکے۔ اس لئے انہوں نے حبشہ کی جانب ہجرت کرنے والے صحابہ رضی اللہ عنہم کا پیچھا کیا اور نجاشی سے ان کی واپسی کا مطالبہ کیا کہ یہ مہاجرین ہمارے مجرم ہیں انہیں ہمارے حوالے کر دیجئے۔ وہ کب برداشت کرسکتے تھے کہ مسلمان حبشہ میں جا کر سکھ کا سانس لیں یا مدینہ منورہ میں امن وسکون کے ساتھ اپنے مشن کی تکمیل کے لئے اپنی دعوتی مہم کا آغاز کریں۔
تجارتی قافلے اور جنگی بجٹ میں اضافہ

 

اہل مکہ کا سب سے بڑا ذریعہ معاش تجارت تھا۔ بڑے بڑے تجارتی قافلے گرد وپیش کی منڈیوں میں رواں دواں رہتے۔ مدینہ مین مسلمانوں کو مرکزی حیثیت ہو جانے کا انہیں بڑا قلق تھا چنانچہ مشرکین مکہ کے سردار عوام الناس کو خصوصاً نوجوانوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکاتے رہتے تھے۔ اسلام، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے پیروکاروں کے خلاف یہ نفرت جنون اور دیوانگی کی حد تک پہنچ چکی تھی۔ کفار مکہ اسلام دشمنی میں بوکھلائے ہوتے تھے۔ کفار نے تجارت کے نفع میں سے ایک مخصوص حصہ لازمی طور پر جنگی تیاریوں کے لئے مختص کرنا شروع کر دیا۔ دشمن کے تجارتی قافلوں کی ناکہ بندی پر معترض ہونے والے کیوں نہیں سوچتے کہ اس تجارت سے ہونے والی آمدنی کا ایک حصہ مسلمانوں کے خلاف جنگ کے لئے ہتھیاروں کی فراہمی پر خرچ ہو رہا تھا۔ دشمن کی عسکری قوت پر کاری ضرب لگانے کے لئے دشمن کی اقتصادی ناکہ بندی کے حق سے آخر مسلمان ہی کیوں دستبردار رہتے۔ کیا انہیں اپنے دفاع میں کوئی قدم اٹھانے کا کوئی حق حاصل نہ تھا۔ مستشرقین اور معترضین یہ بھی کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہجرت مدینہ سے قبل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شہید کرنے کی سازش کی گئی اور شب ہجرت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کاشانہ مبارک کو برہنہ تلواروں نے اپنے گھیرے میں لے رکھا تھا۔ کیا یہ محاصرہ مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ نہ تھا۔؟ مسلمان اس وقت دفاعی پوزیشن میں تھے۔ مشرقین کی علمی خیانت کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوسکتی ہے کہ وہ جارحیت پسندوں کی سازشوں کی مذمت کرنے کی بجائے ان مظلومین پر طعن وتشنیع کے تیر برسانے شروع کر دیتے ہیں۔
گشتی دستوں کی نقل وحرکت

 

کفار کی جنگی تیاریوں کے پیش نظر مسلمانان مدینہ بھی چوکنے تھے اور مدینہ منورہ پر کفار کے متوقع حملہ کا جواب دینے کے لئے دفاعی تیاریوں میں مصروف تھے۔ اپنے دفاع سے غفلت بہت ہی ناخوشگوار صورتحال پیدا کرسکتی تھی۔ سپہ سالار مدینہ حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو دفاعی حکمت عملی اپنائی ماہرین جنگ اس پر انگشت بدنداں ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روایتی انداز اپنانے کی بجائے نئے زاویہ نگاہ سے دفاع مدینہ کے جملہ پہلوؤں کا جائزہ لیا اور نگران گشتی دستوں کی تشکیل کرکے دشمن کی نقل و وحرکت خصوصاً اس کی اقتصادی ناکہ بندی پر اپنی توجہ مرکوز کی اور بہت جلد اس کے حوصلہ نتائج بھی حاصل ہونا شروع ہوگئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ کے داخلی استحکام اور کسی بیرونی حملہ کے امکانات کے پیش نظر مسلمانوں، یثرب کے عیسائیوں اور یہودیوں کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جسے میثاق مدینہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ غزوہ بدر سے قبل نگران گشتی دستوں کی تواتر سے روانگی کا پتہ چلتا ہے ان میں سے صرف ایک مہم میں کفار سے مڈ بھیڑ ہوئی جس کے سربراہ حضرت عبداللہ بن حجش رضی اللہ عنہ تھے۔ (سیرۃ ابن ہشام، 1 : 601)
ایک مشرک کا قتل

 

رجب 2ھ میں حضرت عبداللہ بن حجش رضی اللہ عنہ کو آٹھ آدمیوں کے ہمران دشمن کی نقل وحرکت معلوم کرنے کی غرض سے مکہ اور طائف کے درمیان گھات لگا کر بیٹھنے کے لئے روانہ کیا گیا۔ مقام نخلہ پر مشرکین کے ایک قافلے کے ساتھ تصادم کے نتیجے میں ایک مشرک عمرو بن حضرمی مارا گیا۔ دو آدمی قیدی بنالئے گئے اور قافلے کے سامان پر قبضہ کر لیاگیا جب اس واقعہ کی اطلاع ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سخت ناراض ہوئے کیونکہ اس دستے کو لڑائی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا چنانچہ اس گشتی دستے کے اراکین سخت تشویش میں مبتلا رہے کہ معلوم نہیں ان کے خلا ف کیا کارروائی کی جاتی ہے۔
مشرکین کا معاندانہ پروپیگنڈہ

 

مشرکین مکہ خصوصا! ایک عرصہ سے مسلمانوں کے خلاف سرد جنگ شروع کئے ہوئے تھے ان کی پروپیگنڈہ مشنری ہمیشہ سرگرم عمل رہتی، کردار کشی کا ہر حربہ آزمایاگیا۔ دروغ گوئی کی انتہا کر دی گئی۔ کفار کی اشتعال انگیز کارروائیوں سے ایک جنگی جنون سا پیدا ہو چکا تھا۔ ابن حضرمی کا قتل حرمت والے مہینے میں ہوا تھا اس لئے مشرکین نے اس واقعہ کو مسلمانوں کے خلاف خوب اچھالا کہ مسلمانوں نے حرمت والے مہینوں کو بھی حلال کر لیا ہے۔ عرب قبائل کے لئے حرمت والے مہینوں کا احترام ایک جذباتی مسئلہ تھا۔ ان کے مخالفانہ پروپیگنڈے کا مقصد یہ تھا کہ رائے عامہ کو مسلمانوں کے خلاف اس قدر بھڑکا دیا جائے کہ جب وہ حملہ آور ہوں تو مدینہ شہر کے اندر سے بھی لوگ ان کے ساتھ آملیں نیز مدینہ پر حملہ کرنے کے فعل کو کوئی قابل مذمت قرار دینے والا بھی نہ ہو۔ (سیرت ابن ہشام، 1:204)
اللہ کا فیصلہ

 

مجاہدین اسلام سے حرمت والے مہینے میں کاروائی محض غلط فہمی کی بنا پر ہوئی۔ کیونکہ وہ درست اندازہ نہ لگا سکے کہ آیا حرمت والے مہینے کا آغاز ہو چکا ہے یا نہیں۔ بہرحال دشمنان اسلام نے اس واقعہ کو خوب خوب اچھالا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس پروپیگنڈے کا جواب ان الفاظ میں دیا۔ ’’لوگ آپ سے حرمت والے مہینے میں جنگ کا حکم دریافت کرتے ہیں، فرما دیں اس میں جنگ بڑا گناہ ہے اور اللہ کی راہ سے روکنا اور اس سے کفرکرنا اور مسجد حرام (خانہ کعبہ) سے روکنا اور وہاں کے رہنے والوں کو وہاں سے نکالنا اللہ کے نزدیک (اس سے بھی) بڑا گناہ ہے اور یہ فتنہ انگیزی قتل وخون سے بھی بڑھ کر ہے،، (البقرہ، 2 : 217) اس آیت کریمہ کے نزول سے گشتی پارٹی کے اراکین کا ذہنی بوجھ کم ہوا۔ عالم کفراسلام پر وار کرنے کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتا اور سلام کی تصویر مسخ کرکے دنیا کو گمراہ کرنے کا آرزو مند ہے۔
سرد جنگ میں سرگرمی

 

مشرکین مکہ سرد جنگ میں سرگرمی سے مصروف عمل تھے۔ پروپیگنڈے کے محاذ پر جھوٹ کے پلندے اور بہتان تراشیوں کے انبار تخلیق ہو رہے تھے، سرد جنگ ہمیشہ گرم جنگ کا پیش خیمہ ہوتی ہے، آثار وقرائن بتا رہے تھے کہ کفار مکہ کا جنگی جنون گل کھلا کر رہے گا۔ حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ میں اپنی آمد کے فوراً بعد داخلی امن اور سیاسی استحکام کی طرف متوجہ ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابھی مشرکین مکہ سے الجھنا نہیں چاہتے تھے لیکن مذکورہ آیت کے نازل ہونے کے بعد مسلمانوں کو ایک نیا اعتماد ملا۔ باطل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے للکارنے کا شعور عطا ہوا اور ان کے حوصلوں، ولولوں اور امنگوں کو نیا بانکپن ودیعت ہوا۔ اس پس منظر میں مکہ اور مدینہ کے درمیان جاری سرد جنگ میں گرما گرمی کے آثار پیدا ہونے لگے خصوصاً نوجوانوں کا جوش وخروش دیدنی تھا۔ جذبہ شہادت سینوں میں مچلنے لگا، سر اٹھا کر چلنے کی روایت دلنواز کو مفاہیم کے نئے پیراہن پہنائے گئے اگرچہ مشرکین مکہ کو یہ احساس ہو چلا تھا کہ اب مسلمان ہمیں للکارنے اور ہمارے مد مقابل صف آراء ہونے کی پوزیشن میں ہیں لیکن وہ انتقام کی جس آگ میں جل رہے تھے اس نے ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو مفلوج کر رکھا تھا۔
دشمن کی اقتصادی ناکہ بندی

 

عربوں کی معیشت کا زیادہ تردارومدار شام کے ساتھ تجارت پر تھا اس لئے مکہ ایک تجارتی مرکز کے طورپر مشہور تھا۔ یہ تجارت عربوں کی اقتصادیات میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی تھی۔ یہاںاس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ ہجرت مدینہ نہ محض ایک اتفاقی حادثہ تھا اور نہ مکہ سے فرار کی ہی کوئی کوشش تھی بلکہ یہ طویل المیعاد منصوبہ بندی کا ایک حصہ تھا، مکہ اور شام کے درمیان تجارتی شاہراہ پر مسلمانوں کے قبضہ کے بعد دشمن کی اقتصادی ناکہ بندی کرنا نسبتاً آسان ہوگیا تھا۔ حالات پر ریاست مدینہ کی گرفت مضبوط سے مضبوط ترہونے لگی۔ قریش کے قافلوں سے تعرض کے ایک نئے سلسلے کا آغاز ہوا جس کے مثبت نتائج بھی برآمد ہونے گے۔
اہل مدینہ کو مسلمانوں سے الگ تھلگ کرنے کی کوشش

 

ادھر میثاق مدینہ کے ذریعہ جن میں مسلمانوں کے علاوہ یہود ونصاریٰ بھی شامل تھے کا تعاون داخلی استحکام کے لئے بہت ضروری تھا تاکہ مدینہ منورہ کے دفاع کو نہ صرف مضبوط بنایا جائے بلکہ اپنی عسکری قوت کو منظم کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر مخالف عناصر کو دشمن کا ساتھ دینے سے باز رکھا جا سکے۔ یہ حکمت وفراست مثبت نتائج بھی پیدا کر رہی تھی اور ریاست مدینہ کی حالات پر گرفت بھی بتدریج مضبوط ہو رہی تھی اور ساتھ ساتھ مدینہ کی سماجی اور اقتصادی زندگی میں بھی انہیں پذیرائی نصیب ہو رہی تھی، کفار مکہ کو یہی بات کھٹکتی تھی چنانچہ انہوں نے مدینہ منورہ کے مشرکوں، منافقوں اور یہودیوں وغیرہ کو دھمکی آمیز خط لکھنا اور انہیں مسلمانوں کے خلاف بھڑکانا شروع کر دیا۔ ان اشتعال انگیز کارروائیوں کے پس منظر میں مسلمان کمال حکمت سے آہستہ آہستہ تمام معاملات کواپنے ہاتھ میں لے رہے تھے کفار مکہ کی دھمکیوں کا سلسلہ جاری رہا اور وہ مسلمانوں کے خلاف جنگی جنون کو ہوا دے رہے تھے۔
کرز بن جابر کی چور ی اور سینہ زوری

 

دشمن اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آیا تھا۔ مکہ کی ایک اور اہم شخصیت کرز بن جابر نے مدینہ کی چراگاہ پر حملہ کر دیا اور مویشیوں کو اپنے ساتھ بھگا لے گیا۔ اس اشتعال انگیز کارروائی کا ایک مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو ڈرایا دھمکایا جائے کہ ہم تمہارے گھر میں آکر بھی کاروائی کرنے کی پوزیشن میں ہیں اور کسی وقت بھی مدینہ پر حملہ آور ہو کر مسلمانوں کوتباہ وبرباد کرسکتے ہیں۔
قافلہ ابوسفیان کا تعاقب

 

جیسا کہ پہلے ذکر کیا کہ اہل مکہ تجارت پیشہ لوگ تھے اور شام کے ساتھ ان کے تجارتی مراسم مدتوں سے قائم تھے۔ تجارتی قافلے مکہ اور شام کے درمیان رواں دواں رہتے، عموماً ان تجارتی قافلوں کی حفاظت کا بھی انتظام کیا جاتا۔، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اطلاع موصول ہوئی کہ ابو سفیان بن حرب ایک بہت بڑا قافلہ لے کر ملک شام کی طرف جا رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو سو مجاہدین لے کر دشمن کی اقتصادی ناکہ بندی کیلئے نکلے لیکن قافلہ جا چکا تھا۔ حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ اور حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کو شمال کی جانب روانہ کیا گیا تاکہ وہ قافلے کی واپسی پر نظر رکھیں۔ یہ اصحاب رسول مقام ’’الحورا،، میں ٹھہر گئے جب ابو سفیان ایک ہزار اونٹوں کے قافلے کے ساتھ واپس آیا تو اس کی نگرانی پر مامور صحابہ رضی اللہ عنہ نے اس کی اطلاع فوراً مدینہ منورہ میں دی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 313 صحابہ کو لے کر 12 رمضان المبارک 2ھ کو دشمن کی رسد کاٹنے کی غرض سے مدینہ منورہ سے نکلے۔
ابوسفیان کا واویلا

 

ابوسفیان کے جاسوسوں نے اسے اطلاع دی کہ مسلمان قافلہ پر حملہ آور ہونے والے ہیں اس نے فوراً مکہ میں سرداران قریش کو اس امر کی اطلاع دی اور فوری مدد چاہی۔ راویات میں ہے کہ ابوسفیان کے ایلچی ضمضم بن عمرو غفاری نے اپنی قمیض اور بعض روایات کے مطابق اپنی چادر پھاڑ دی۔ اونٹ کاکجاوہ الٹ دیا اور قریش کو پکارا کہ ابوسفیان محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کے نرغے میں ہے۔ تمہارا سامان تجارت بھی ان کے ہاتھ میں جانے والا ہے اے اہل قریش ابوسفیان کی مدد کے لئے پہنچو۔ کفار مکہ جو پہلے ہی مسلمانوں پر ادھار کھائے بیٹھے تھے مشتعل ہوگئے۔ انہوں نے ہنگامی بنیادوں پر لشکر ترتیب دیا جس میں تمام قبائل کے جنگجو افراد کو شامل کیاگیا اور اموال حاصل کئے گئے تاکہ جنگی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔ مسلمانوں کے خلاف منظم ہونے والے اس لشکر میں ابولہب کے سوا تمام سردار شریک ہوئے۔ ان جنگی تیاریوں کے ساتھ ساتھ زعمائے قریش نے یہ بھی محسوس کیا کہ کہیں لشکر کی روانگی کے بعد مکہ کے دفاع کو کمزور جان کر بنوبکر مکہ پر حملہ نہ کر دیں۔ لیکن عین اس موقع پر سراقہ بن مالک ادھر آنکلا، اسلام دشمنی نے دونوں فریقوں کو متحد کر دیا اور وہ آپس کی دشمنی بھول گئے۔ سراقہ بن مالک نے قریش کو یقین دلایا کہ ہم اس موقع پر کوئی شرارت نہیں کریں گے۔ آپ اطمینان سے مسلمانوں کے ساتھ دودوہاتھ کریں۔ یہ یقین دہانی حاصل کرنے کے بعد قریش کی جنگی تیاریوں کو آخری شکل دی جانے لگی اور ان کا جوش وخروش جنون کی آخری حدوں کو چھونے لگا۔ حسن، رقابت اور انتقام کی آگ چاروں طرف روشن تھی۔ باطل مادی وسائل کی کثرت پر اتر رہا تھا۔ مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا زور و شور سے جاری تھا۔ یہ واویلا اس لئے مچایا جا رہا تھا کہ قافلہ تجارت کے ساتھ جس جس کے مالی مفادات وابستہ تھے یا جو قبائل مسلمانوں سے نفرت کرتے تھے ان قبائل اور خاندانوں کا کوئی فرد اس لشکر میں شامل ہونے سے نہ رہ جائے اور سب مل کر اسلام کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے قدم سے قدم ملا کر ایک ساتھ بڑھیں۔ (البدایہ والنہایہ، 3 : 257)
چند ایمان افروز واقعات

 

انسانی تاریخ گوا ہ ہے کہ روزمرہ زندگی میں ایسے محیرالعقول واقعات بھی رونما ہوئے ہیں عقل جن کی توجیہ کرنے سے قاصر رہتی ہے، سوچ جن کے بارے میں سوچ سوچ کر ماؤف ہو جاتی ہے اور سائنس انہیں اتفاقات کا نام دیکر اپنا دامن چھڑا لیتی ہے لیکن روحانی دنیا میں یہ بظاہر خلاف عقل واقعات کسی استعجاب اور حیرت کا باعث نہیں بنتے کیونکہ اللہ کی ربوبیت اور الوہیت کو اپنے ایمان وایقان کی بنیاد بنانے والے اپنی ہرسوچ کو مشیت ایزدی کے تابع کر دیتے ہیں وہ اس کائنات رنگ و بوکے اس خالق کی پرستش کرتے ہیں جس کے اذن سے ہوائیں سفر کرتی ہیں اور جس کے حکم سے بنجر زمینوں کو شاداب ساعتوں کا لمس عطا ہوتا ہے جو ہر ذی روح کی ایک ایک سانس کا مالک ہے جو حیی بھی ہے اور قیوم بھی، جو علیم بھی ہے اور خبیر بھی، جو جبار بھی ہے اور قہار بھی اور جو رحیم بھی ہے اور کریم بھی۔ یہی احساس انہیں ایمان کی دولت سے نوازتا ہے اور وہ ان محیرالعقول واقعات کو کرشمہ خداوندی سمجھ کر من وعن قبول کر لیتے ہیں اور یہی ایمان کی معراج ہے۔ غزوہ بدرمیں اللہ کی مدد اور نصرت کو آسمانوں سے اترے ہوئے اہل ایمان نے ہی نہیں دیکھا بلکہ مشرکین مکہ اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن بھی اس تائیدغیبی کے عینی شاہد ہیں۔
پرسکون نیند

 

انسان کا ذہن اگر منتشرہو یا اس پر حالات کا دباؤ ہو تو وہ ڈپریشن کا شکار ہو جاتا ہے اور اس کی نیند ختم ہو جاتی ہے، میدان جنگ میں جہاں جان کے لالے پڑے ہوں، موتر سامنے رقص کر رہی ہو تو خوف کی لہر خون میں سرایت کر جاتی ہے اور بہادر سے بہادر انسان کا پتہ بھی پانی ہونے لگتا ہے اور اس کی راتوں کی نیند حرام ہو جاتی ہے لیکن چشم فلک نے دیکھا کہ میدان بدر میں اسلامی لشکر کے سپہ سالار اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جاگ رہے ہیں اور اپنے مالک کے حضور گڑگڑا کر التجائیں کر رہے ہیں، فتح وکامرانی کی دعائیں مانگ رہے ہیں لیکن وہ اسلامی لشکر جس نے صبح باطل کے ایوانوں میں زلزلہ بپا کرنا ہے جس نے مشرکین مکہ کے گھمنڈ کو خاک میں ملانا ہے اور جس نے باب حریت کا نیا عنوان رقم کرنا ہے نیند کے گہرے سمندر میں ڈوبا ہوا ہے، یہ نہیں کہ انہیں حالات کی نزاکت کا اندازہ نہیں وہ تو مدینے کے دفاع میں پوری پوری رات پہرہ دیتے رہے ہیں، یہ بھی نہیں کہ وہ خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہیں یہ بھی نہیں کہ ان کے پاس اتنی افرادی قوت ہے یا وسائل جنگ کی اتنی فراوانی ہے کہ وہ دشمن کو خاطر میں ہی نہیں لاتے، البتہ اتنا ضرور ہے کہ انہیں ایمان کی دولت نصیب ہے، تائید خداوندی پر مکمل بھروسہ ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے اور جسے چاہتا ہے زندگی عطا کرتا ہے، عزت، ذلت سب اسی کے ہاتھ میں ہے، یہ طمانیت، یہ وقار اور یہ سکون ایمان کی عطا ہے، یہ میٹھی نیند عطیہ خداوندی ہے، اللہ نے اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم ساتھیوں پر پُرسکون نیند اتار دی ہے، جاگنے کی کوشش کے باوجود لشکریوں کی آنکھیں بند ہونے لگتی ہیں لیکن دوسری طرف دشمن اضطراب وبے چینی کی کیفیت سے دوچار ہے، جب حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت عمار بن یاسر دشمن کی نقل وحرکت کی خبریں لے کر واپس آتے ہیں تو بیان کرتے ہیں کہ کفار تو ڈرکے مارے کسی گھوڑے کو بھی ہنہنانے نہیں دیتے، حضرت زبیر فرماتے ہیں کہ کفار میری نیند کا یہ حال تھا کہ اٹھنے کی کوشش کرتا لیکن نیند کے باعث پھر سو جاتا، حضرت سعد بن ابی وقاص کا کہنا ہے کہ وہ بھی نیند میں بے ہوش تھے اٹھنے کے لئے کروٹ بدلتے تو دوسری طرف گر جاتے، اس کیفیت کو قرآن مجید نے یوں بیان کیا ہے۔ ’’جب اس نے اپنی طرف سے (تمہیں) راحت وسکون (فراہم کرنے) کے لئے تم پر غنودگی طاری فرما دی اور تم پر آسمان سے پانی اتارا تاکہ اس کے ذریعے تمہیں (ظاہری وباطنی) طہارت عطا فرما دے اور تم سے شیطان (کے باطل وسوسوں ) کی نجاست کو دور کر دے اور تمہارے دلوں کو (قوت قین ) سے مضبوط کر دے اور اس سے تمہارے قدم (خوب) جما دے۔ (الانفال،8 : 11)نتیجہ اس خدائی مدد کا یہ نکلا کہ مسان جب صبح نماز کے لئے اٹھے تو تازہ دم تھے چاک وچوبند اور پوری طرح بیدار، لیکن ساری رات سونے جاگنے کی کیفیت میں رہنے والا لشکر کفار صبح ہوئی تو شام کی طرح شاخ وقت پر مرجھایا ہوا تھا۔
شیطانی وساوس کا علاج:

 

میدان بدر میں شیطان لشکر کفار کا نمائندہ بن کر پوری طرح متحرک تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ تاریخ کے اس فیصلہ کن موڑ پر اگر مشرکین مکہ شکست کھا گئے تو پھر اسلام کی آفاقی تعلیمات کے فروغ کو دنیا کی کوئی طاقت نہ روک سکے گی اور پوری ندیا پر توحید کا پرچم لہرانے لگا اس لئے وہ مجاہدین کے دلوں میں وسوسے ڈالنے لگا اور انہیں ورغلانے کے لئے طرح طرح کی ترغیبیں دینے لگا اور شکوک وشبہات پیدا کر کے ان کے ایمان کو متزلزل کرنے لگا کیونکہ کفار نے پہلے پہنچ کر پانیوں پر قبضہ کر لیا تھا اور مسلمانوں کو ہر مرحلے پر دقتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا شیطان نے موقع غنیمت جانا اور بعض مسلمانوں کے دلوں میں وسوسہ پیدا کر دیا کہ ساری سہولتیں اور مراعات دشمنان دین کو حاصل ہے اور ہم مسلمان پانی کو بھی ترس رہے ہیں، اللہ تعالی نے بغیر ظاہری آثار کے بارش کر دی جس کے نتیجے میں پانی کی قلت دور ہو گئی اور جنگی نقطہ نظر سے خاصا فائدہ ہوا کہ کفار کی طرف والی زمین دلدل میں تبدیل ہو گئی لہذا ان کے لئے جم کر لڑنا مشکل ہو گیا، مسلمان اور نچائی پر تھے اس طرف کی ریت جم گئی اور اونٹوں کے پاؤں جو پہلے ریت میں دھنس جاتے تھے اب زمین پر اچھی طرح جمنے لگے، قدرت خداوندی کہ ابلیس کی ہر چال ناکام ہو گئی اور مسلمان ایمان کی دولت سے مالامال دشمن پر تابڑ توڑ حملے کرنے لگے۔
عاتکہ کا خواب:

 

کفر اور استحصال پر مبنی نظام کی حفاظت کرنے والے جابر اور قہار ٹولے کو اطمینان قلب کی دولت کبھی نصیب نہیں ہوتی، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو امین اور صادق کہہ کر پکارنے والے اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان کے دشمن بن گئے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس فرسودہ اور بیہودہ نظام حیات کو للکارا تھا جس کی زنجیروں میں عالم عرب ہی نہیں کم وبیش دنیا کا ہر خطہ جکڑا ہوا تھا۔ ضمیر کی خلش اس نظام خبیثہ کے علمبرداروں کو ہمیشہ بے چین ومضطرب رکھتی ہے یہ حق کو حق اور روشنی کو روشنی جان کر بھی اپنی آنکھیں بند کر لیتے ہیں، مصلحتوں کی زنجیروں میں بندھے ہوئے مفادات کے یہ قیدی خود فریبی کے حصار سے باہر آنے کی جرات ہی نہیں کر سکتے، جزیر ۃ العرب کے کفار ومشرکین حتی کہ اہل کتاب بھی اپنے گرد کھچے ہوئے تحفظات کے ان گنت دائروں کو عبور کرنے کی ہمت نہ کر سکے، البتہ ضمیر کی یہ خلش، ان کے ذہنی کرب میں مختلف انداز میں ظہور پذیر ہوتی رہی، کبھی خوابوں کی صورت میں اور کبھی انجانے خوف کی شکل میں، دشمنان اسلام پر نفسیاتی دباؤ بڑھ رہا تھا، غزوہ بدر سے پہلے ابوسفیان کے تجارتی قافلہ کو لاحق ہونے والے خطرات کے حوالے سے خوب افواہیں پھیلائی گئیں اور اہل مکہ کو خصوصاً نوجوانوں کے جذبات مشتعل کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ رکھا گیا لیکن یہ خبر مکہ پہنچنے سے تین دن قبل عاتکہ نے حضرت عباس بن عبدالمطلب کو بلا کر رازداری سے اپنا خواب بتایا اور کہا کہ قوم قریش پر آفت آنے کا خوف محسوس کر رہی ہوں۔ اس نے اپنے بھائی کو بتایا کہ میں نے خواب میں ایک شتر سوار کو دیکھا کہ وہ وادی بطحا میں آ کر پکارتا ہے۔ ’’اے دھوکے بازو! تین دن کے اندر اپنی قلت گاہوں کی طرف دوڑ کر آؤ،، (البدایہ والنہایہ، 3 : 256۔ 257) عاتکہ نے اپنا بیان جاری کرتے ہوئے کہا بھائی! میں نے اس اونٹ کو کعبے کی چھت پر دیکھا۔ اس نے یہی نعرہ لگایا، میں نے اسے جبل ابی قبیس پر دیکھا۔ وہاں بھی شتر سوار نے یہ الفاظ دہرائے اور ایک چٹان نیچے لڑھکا دی، جو نیچے آ کر پھٹی تو اس کے ٹکڑے ہر گھر تک پہنچے، حضرت عباس بن عبدالمطلب نے کہا کہ بہن واقعی یہ ایک عجیب وغریب خواب ہے ہمیں کسی سے بھی اس کا ذکر نہیں کرنا چاہئے، لیکن عباس بن عبدالمطلب کو راستے میں ان کا ایک دوست ولید مل گیا انہوں نے اس سے عاتکہ کے خواب کا ذکر کیا، ولید نے اپنے باپ کو خواب کی تفصیلات سے آگاہ کیا اور ہوتے ہوتے یہ تفصیلات عمائدین مکہ کے کانوں تک بھی پہنچ گئیں شام کو ابوجہل نے حضرت عباس کو مخاطب کر کے طنزاً کہا۔ ’’اے عبدالمطلب کی اولاد ! تم اس پر مطمئن نہیں ہوئے کہ تمہارے اندر ایک نبی پیدا ہو اور اب تمہاری عورتوں نے بھی نبوت کا دعوی کرنا شروع کر دیا ہے۔،، ابوجہل مردود نے دھمکی دی کہ ہم تین دن تک انتظار کریں گے اگر اس خواب کی سچائی ظاہر نہ ہوئی تو ہم ہر جگہ منادی کر دیں گے کہ تمہارا گھرانہ سب سے جھوٹا گھرانہ ہے۔ جب حضرت عباس رضی اللہ عنہ گھر لوٹے تو گھر کی خواتین نے ابوجہل کی ہرزہ سرائی کے حوالے سے انہیں آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ ’’اس سے قبل جب ابوجہل مردوں پر الزام لگاتا رہا اور تم لوگ برداشت کرتے رہے اب اس کا رخ تمہاری عورتوں کی طرف ہو گیا ہے تم میں ذرا بھی غیرت وحمیت کا مادہ نہیں رہا کہ اس لعین کی بہتان تراشیوں کا منہ توڑ جواب دے سکو،، حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ یہ گفتگو سن کر میں نے اگلے دن ابوجہل سے بدلہ لینے کا فیصلہ کر لیا۔ میں مسجد حرام میں داخل ہوا تو ابوجہل باہر کی طرف بھاگا جا رہا تھا۔ ادھر ضمضم اہل مکہ کو پکارا رہا تھا کہ مسلمان تمہارے تجارتی قافلے پر حملہ کرنے والے ہیں، ابوسفیان کے ایلچی کی پکار پر اہل مکہ کا جنگی جنون اپنی انتہا کو پہنچ گیا اور ابوجہل مشتعل ہو کر مسلمانوں پر کاری ضرب لگانے کے لئے مختلف قبائل کی قوت منظم کر رہا تھا اسے اب وہ آخری شکل دینے کے لئے کمربستہ ہو گیا حضرت عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس کے بعد اس موضوع پر مزید گفتگو نہ ہو سکی البتہ لوگ عاتکہ کے خواب سے اچھے خاصے پریشان دکھائی دیتے تھے۔
غزوہ بدر میں ابلیس کی سرگرمیاں

 

ابلیسی قوتیں سفرانقلاب کے سپاہیوں کی راہ میں ہمیشہ رکاوٹیں کھڑا کرتی رہی ہیں باطل کی پشت پناہی پر ہمیشہ شیطانی سوچ کار فرما ہوتی ہے، غزوہ بدر میں بھی ابلیس لعین ہاتھ پر ہاتھ دہرے بیٹھا نہیں رہا، ایک طرف تو یہ کفارومشرکین کو مشتعل کر کے آمادہ جنگ کرتا رہا تو دوسری طرف مجاہدین اسلام کے دلوں میں بھی وسوسے ڈال کر قصر ایمان ویقین کی بنیادوں کو متزلزل کرنے کی سعی رائیگاں میں مصروف رہا، جب قریش بے سروسامانی کے عالم میں نکلے ہوئے مسلمانوں کی جائے پناہ ثابت ہونے والی سرزمین پر شب خون مارنے کی تیاریاں کر رہے تھے تو اس وقت قریش کے رؤسا نے سوچا کہ بنی کنانہ سے ان کی دشمنی چل رہی ہے لیکن ہماری عدم موجودگی میں وہ مکہ پر حملہ نہ کر دیں لیکن ابلیس، جو ہر قیمت پر چاہتا تھا کہ کفار مدینہ منورہ پر حملہ آور ہوں اور مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا ابلیسی کا رنامہ سرانجام دیں سراقہ بن مالک کی شکل میں نمودار ہوا اور اس نے اکابرین قریش کو پوری تسلی دی کہ میں ضامن ہوں آپ کی عدم موجودگی میں بنو کنانہ مکہ پر حملہ نہیں کریں گے بلکہ وہ تو تمہاری مدد کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں اس طرح بنوکنانہ کی طرف سے یہ اطمینان ہو جانے کے بعد کہ وہ ہمارے بعد کوئی شرارت نہیں کریں گے قریش کی جنگی تیاریوں میں مزید تیزی آ گئی۔ میدان کارزار میں اللہ تعالی نے فرشتوں کے ذریعے اپنی مدد ونصرت اتار دی اور اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا ہوا وعدہ پورا کیا اور یوم بدر کو یوم الفرقان کے نام سے تعبیر کیا، ابلیس لعین مشرکین مکہ کی مدد میں مشغول تھا جب فرشتوں کو قطار اندر قطار اترتے دیکھا تو اس نے ایک زور دار چیخ ماری اور بھاگ کھڑا ہوا۔ جب حارث بن ہشام نے اسے بھاگتے ہوئے دیکھا تو پکڑ کر کہا کہ اے سراقہ! ہمیں جنگ میں اکیلا چھوڑ کر اب کہاں بھاگ رہے ہو، حارث نے اسے اصلی سراقہ سمجھا تھا حالانکہ یہ سراقہ کے روپ میں ابلیس لعین تھا، ابلیس نے حارث کو ایک زور دار مُکہ رسید کیا اور سر پر پاؤں رکھ کر بھاگ نکلا، بھاگتے ہوئے وہ مردود کہہ رہا تھا جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا۔ ’’بیشک میں تم سے بیزار ہوں یقیناً میں وہ (کچھ) دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھتے بے شک میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔،،(الانفال، 8 : 48)
غزوہ بدر کے اثرات ونتائج

 

غزوہ بدر کی جغرافیائی، سیاسی، معاشی، تہذیبی، ثقافتی اور تمدنی زندگی ہی میں انقلاب آفریں تبدیلیوں کا باعث نہیں بنا بلکہ اس نے تاریخ انسانی کے سفر ارتقاء کو مختلف حوالوں اور مختلف جہتوں سے نہ صرف یکسر بدل کے رکھ دیا بلکہ تعلیمات اسلامی نے علمی، فکری اور اعتقادی دنیا کو ابہام وتشکیک کی گرد سے پاک کرکے عدل وانصاف کی حکمرانی کے شعور کو پختہ کیا اگر خدانخواستہ اس جنگ میں فرزندان توحید کو شکست ہو جاتی اور باطل حق پر غالب آ جاتا تو میدان بدر میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی دعاؤں میں جس خدشے کی طرف اشارہ فرمایا تھا کہ پھر روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ ہوگا اور یہ کہ تیرا دین قائم نہ ہوسکے گا۔ وہ ظاہر ہو جاتا تو آج کرہ ارض پر نہ انسانی حقوق کا نام لینے والاکوئی ہوتا اور نہ جمہوری معاشروں کی تشکیل کا تصور ہی ذہنوں میں جنم لیتا نہ امن عالم کے خواب کی تعبیر ملتی اور نہ انسان کے پاؤں میں خود ساختہ خداؤں کی غلامی کی صدیوں سے پڑی زنجیریں ہی کٹ سکتیں۔
اہل مکہ پر مسلمانوں کی فتح کے اثرات

 

غزوہ بدر میں مسلمانوں کی شاندار اور باوقار فتح کے اثرات فوری طور پر اہل مکہ پر مرتب ہوئے اور قدرتی طور پر ایسا ہونا بھی چاہیے تھا اس عبرتناک شکست نے مشرکین مکہ کے غرور کو خاک میں ملا دیا، ان کا پندارِ آرزو ٹوٹا تو یہ اپنی ہی نظروں میں ذلیل و رسوا ہوگئے۔ اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف جنگی جنون کو انتہا تک لے جانے والے کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔ قریش کی عسکری اور سیاسی شہرت کا خاتمہ ہوگیا۔ مکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شہید کرنے کی سازش کرنے والے چودہ میں سے گیارہ سردار مارے گئے۔ باقی تین سرداروں نے اسلام قبول کرلیا۔ اس شرمناک شکست سے دوچار ہونے کے باوجود انہوں نے کوئی سبق حاصل نہ کیا۔ ان کی آتش انتقام ٹھنڈی نہ ہوسکی۔ کچھ عرصہ تو قریش جنگ میں کام آنے والوں کے فراق میں غم سے نڈھال رہے اور ماتم کی ممانعت کے باوجود صف ماتم بچھی رہی۔ ذرا سنبھلے تواس شکست کا بدلہ لینے کے لئے پرپرزے نکالنے لگے اور اپنی بکھری ہوئی قوت کو جمع کرنے لگے۔ احساس شکست سے ان کے جنگی جنون میں اضافہ ہوگیا۔ یہ اپنے زخم چاٹتے اور اسلام کے خلاف ازسرنو صف بندی کرنے لگے۔ قریش کے روسا کے مختلف اجلاس ہوئے جن میں فیصلہ کیاگیا کہ شکست کا داغ دھونے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر بھرپور تیاری کی جائے تاکہ اسلام پر فیصلہ کن ضرب لگائی جا سکے۔ شکست خودرہ قریش نے اپنا غصہ مکہ میں مقیم مسلمانوں پر نکالنا شروع کر دیا اور ان کا سانس لینا تک دو بھر کر دیا۔ اسلام کے دامن رحمت میں آنے والے نئے مسلمان اپنے ایمان کو خفیہ رکھنے پر مجبور تھے کہ کسی وقت بھی قریش کا غیظ وغضب بن کر ٹوٹ سکتا ہے۔ غزوہ بدر میں شکست سے قریش کی تجارتی سرگرمیاں بھی خاصی متاثر ہوئیں لیکن وہ بدستور بغض وعناد کی آگ میں جلتے رہے، امن وآشتی اور صلح کے الفاظ ان کی لغت میں تھے ہی نہیں۔
اہل مدینہ کے لئے مژدہ جانفزا

 

غزوہ بدر میں مسلمانوں کی کامیابی وکامرانی کا مژدہ جانفزا شہر خنک کے باسیوں کے لئے خوشگوار موسموں اور شاداب ساعتوں کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ ریاست مدینہ کو داخلی طور پر ہی نہیں خارجی طور پر بھی استحکام ملا۔ بے سروسامانی کے عالم میں ابلیسی طاقتوں سے ٹکرا جانے والے اہل ایمان کو ایک نئے حوصلے اور ایک نئے ولولے سے نوازا گیا۔ اعتماد کی روشنی ان کے چہروں پر نئے دنوں کا منظر نامہ تحریر کرنے لگی۔ غزوہ بدر حق وباطل کی معرکہ آرائی میں ایک فیصلہ کن موڑ تھا مسلمانوں کو کفار پر نفسیاتی برتری بھی حاصل ہوئی اور انہیں اپنی ثقافتی اکائی کے تحفظ کے لئے نئے اقدامات کے بار ے میں عزم وعمل کے نئے دروازوں پر دستک دینے کا ہنر بھی عطا ہوا۔ مدینہ منورہ کے آسمان سے خوف وہراس کے بادل چھٹ گئے۔ مدینہ منورہ کی غیرمسلم قوتیں اب کھلم کھلا اسلام دشمنی کا مظاہرہ نہیں کرسکتی تھیں۔ منافقین مکہ کی امیدوں پر اوس پڑ گئی۔ عبداللہ بن ابی کی سرکردگی میں بظاہر جو چند ایک لوگوں نے اسلام قبول کرلینے ہی میں اپنی عافیت سمجھی۔ درپردہ سازشوں میں مصروف ہوگئے۔ مسلمانوں کی جاسوسی کرکے اسلام دشمن قوتوں سے رابطے استوار کرنے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شہید کرکے منصوبے بنانے لگے۔ غزوہ بدر میں فتح کے بعد مسلمانوں کو معاشی، عسکری اور سیاسی حوالے سے بے پناہ فوائد حاصل ہوئے اور وہ تمکنت اور وقار کے ساتھ نئے مسلم معاشرے کی تعمیر میں مصروف ہوگئے۔
دنیائے یہود میں رد عمل

 

مدینہ اور مدینہ کے مضافات میں آباد یہود قبائل نے غزوہ بدر میں مسلمانوں کی عظیم فتح کی خبر پر حیرت، خوف اور نفرت کے ملے جلے جذبات کا اظہار کیا۔ وہ کیسے گوارا کر سکتے تھے کہ مدینہ کی نوزائیدہ مملکت کو سیاسی، معاشی اور عسکری حوالے سے استحکام نصیب ہو۔ انہوں نے قدرتی طور پر غزوہ بدر کے انجام پر منفی ردعمل ظاہر کیا۔ تاہم جن کے دلوں میں حرف حق کی تلاش کی ذرا سی بھی جستجو تھی اور اپنی کتب میں نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظہور کے بارات میں درج تمام نشانیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے انہوں نے بخوشی اسلام قبول کر لیا تاہم اس حوالے سے کسی نے بھی ان کے ساتھ کو ئی تعرض نہ رکھا کیونکہ مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق دین میں کوئی جبر نہیں۔ چنانچہ یہود پر بھی کسی قسم کا دباؤ نہیں ڈالاگیا یہی وجہ تھی کہ یہودیوں کی بڑی تعداد اپنے سابقہ دین پر قائم رہی۔ اسلام قبول کرنے والے یہودیوں میں کچھ نے تو دل کی گہرائیوں سے اسلام کو اپنی روح کا حصہ بنایا اور چند ایک ایک نے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلام کی جڑیں کاٹنے کا گھناؤنا کاروبار شروع کر دیا۔ میثاق مدینہ کے مطابق یہود اس بات کے پابند تھے کہ وہ مدینہ منورہ پر حملہ کی صورت میں مسلمانوں کے ساتھ مل کر شہر رسول کا دفاع کریں گے۔ لیکن یہودیوں نے اس معاہدے کی خلاف ورزی شروع کر دی۔ کعب بن اشرف تو کھلی دشمنی پر اتر آیا۔ کفار کی شکست پر افسوس کا اظہار کیا۔ یہودی درپردہ ہی نہیں اعلانیہ طور پر مشرکین مکہ کو امداد کی پیش کش کرنے لگے کہ وہ آئیں اور اپنی شکست کا بدلہ لیں۔ ہم ہر طرح سے معاونت کریں گے۔ روز بروز ان کی سرکشی میں اضافہ ہونے لگا۔ ان کا یہ باغیانہ رویہ مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ کے مترادف تھا۔
مسلمانوں کی فتح کا دیگر قبائل پر اثر

 

عرب کے دیگر قبائل نے بھی مسلمانوں کی فتح کی خبرکو خوش دلی سے قبول نہیں کیا وہ بھی ان گنت تحفظات کا شکار ہوگئے۔ بعض قبائل کی گذر اوقات ہی لوٹ مار پر ہوتی تھی۔ تجارتی قافلے بھی ان کی دستبرد سے محفوظ نہ تھے انہیں یہ خدشہ لاحق تھا کہ اگر مسلمانوں کی حکومت کو استحکام ملا اور یہ مضبوط بنیادوں پر قائم ہوگئی تو یہ سب سے پہلے اللہ کی حاکمیت اور اس کے قانون کی بالادستی کے لئے اقدامات کرے گی۔ انہیں یہ بھی ڈر تھا کہ اسلامی حکومت ترجیحی بنیادوں پر امن وامان قائم کرکے لاقانونیت اور دہشت گردی کا خاتمہ کرے گی اس طرح ان کی لوٹ مار کی راہیں مسدود ہوجائیں گی۔ مذہبی ہی نہیں سیاسی اور معاشی لحاظ سے بھی جزیرہ نمائے عرب میں فوقیت حاصل تھی یہ لوگ بنیادی طور پر تاجر پیشہ تھے دیگر قبائل کے مفادات ان سے وابستہ تھے اس لئے قریش کی عسکری، سیاسی اور نفسیاتی شکست ان کے لئے بھی سوہان روح بن گئی۔ غزوہ بدر میں ذلت آمیز شکست سے قریش کی سیاسی، مذہبی اور معاشی قیادت کے بت پر کاری ضرب پڑی اور معاشرے پر قریش کی گرفت اتنی مضبوط نہ رہی جتنی پہلے تھی۔ ان کی مذہبی حیثیت بھی متاثر ہوئی لیکن قبائل مذہبی حیثیت کو اتنی اہمیت نہیں دیتے تھے ان کا سارا زور مالی مفادات پر تھا۔ اس لئے ان کی وفاداریاں بھی اپنے مفادات کے مطابق تبدیل ہوتی رہتی تھیں۔