وہ رضا کےنیزےکی مار ہےکہ عدو کےسینےمیں غار ہے ٭

 کسےچارہ جوئی کا وار ہےکہ یہ وار وار سےپار ہے
حسام الحرمین کی حقانیت و صداقت و ثقاہت
الشہاب الثاقب و المہند کی بےبسی و پسپائی اور ناکامی

کلک رضا ہے خنجر خونخو ار برق بار
اعداء سے کہد و خیر منائیں نہ شر کریں

الحمد اللہ ثم الحمد اللہ !
گستاخان رسول ، منکرین ضروریات دین ، باغیان ختم نبوت کےخلاف اکابر و مشاہر علماءو فقہاءعرب وعجم و اعاظم مفتیان حرمین طیبین کےحکم شرعی فتاویٰ حسام الحرمین علیٰ منحر الکفر والمین کو شائع ہوئےایک سو سال ہوگئےاور حسام الحرمین کا پرچم پوری آب و تاب اور جاہ جلال کےساتھ لہرارہا ہےاور خرمن باطل و اہل ارتداد پر برقبار ہے۔
یاد رکھنا چاہئےاور ذہن نشین کر لینا چاہئےکہ سیدنا امام اہلسنت سرکار اعلیٰ حضرت مجدد دین و ملت شیخ الاسلام والمسلمین مولانا الشاہ احمد رضا خاں صاحب فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ نےکسی پر بلا وجہ خواہ مخواہ تکفیر کا حکم جاری نہیں فرمایا جو عناصر تنقیص الوہیت توہین رسالت اور انکار ختم نبوت کےمرتکب اور منکر ضروریات دین ثابت ہوئےانہیں پہلےہر شرعی رعایت دی گئی اُن کو انکےاقوال کفریہ قطعیہ اور گستاخانہ عبارات سےبذریعہ خطوط مطلع اور آگاہ کیا گیا بار بار رجسٹریاں بھیج کر مطلع اور آگاہ کیا گیا گستاخانہ کفریہ عبارات سےتوبہ اور رجوع کی تلقین فرمائی گئی ، آمنےسامنےبیٹھ کر گفتگو کی دعوت دی گئی مگر اہل توہین و تنقیص زمین پکڑ گئےدین کےمسئلہ کو عزت نفس کا مسئلہ بنالیا ، انانیت پر اتر آئےضد و ہٹ دھرمی کو نصب العین بنالیا ناچار مجدداعظم اعلیٰ حضرت امام اہلسنت قدس سرہ نےفرمایا
اف رے منکر یہ بڑھا جوش تعصب آخر
بھیڑ میں ہاتھ سےکمبخت کےایمان گیا
اور تم پر مرےآقا کی عنایت نہ سہی
نجدیو کلمہ پڑھانےکا بھی احسان گیا

امام المحتاطین امام اہلسنت اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ نےاپنی طرف سےکچھ فرمانےاور لکھنےکےبجائےتحذیر الناس ، براہین قاطعہ ، حفظ الایمان ، فتویٰ گنگوہی وغیرہ کی اصل بعینہ عبارات اکابر و اعاظم علماءو فقہاءحرمین طیبین کےسامنےرکھ کر حکم شرعی طلب کیا اور توہین پر تکفیر ہوئی اگر کوئی توہین نہ کرتا تکفیر نہ ہوتی اور اگر اہل توہین و تنقیص توبہ و رجوع کرلیتےتو بھی تکفیر نہ ہوتی مگر آہ افسوس کہ توبہ اور رجوع کرنا ان کےمقدر میں نہ تھا تو اہل توہین کی توہین آمیزگستاخانہ کفریہ عبارات پر تکفیر کا حکم شرعی حسام الحرمین کی صورت میں اکابر علماءحرمین کی طرف سےجاری ہوا

نہ تم توہین یوں کرتےنہ ہم تکفیر یوں کرتے
نہ لگا کفر کا فتویٰ نہ یوں رسوائیاں ہوتیں
نہ توہین کرتے نہ تکفیر ہوتی
رضا کی خطا اس میں اغیار کیا ہی

35 جلیل القدر اکابر و اعاظم علماءو فقہاءحرمین طیبین نےاہل توہین کی اصل کتابیں دیکھ کر مترجمین سےاردو سےعربی میں ترجمہ کرواکر حکم شرعی واضح فرمایا ۔مخالفین کا یہ کہنا ایک حیلہ اور بہانہ بلکہ بد ترین فریب و فراڈ ہےکہ علماءحرمین طیبین ارد و نہیں جانتےتھےدھوکہ دیکر فتویٰ لیا ۔ یہ اہل توہین ہندی و انگریزی مولوی کٹی پٹی عربی جانتےہیں ، تو کیا علماءحرمین ہر سال کثیر تعداد میں ہندوستان سےحج کیلئےجانےوالےعلماءو عوام سےملکر اردو زبان سےواقف نہ ہوں گےاور کیا انہیں تکفیر جیسا نازک و حساس فتویٰ لکھتےوقت مترجم میسرنہ آیا ہوگا اتنےعظیم متبحر و تجربہ کار کہنہ مشق مفتیان کرام اور وہ بھی اہل حرم اکابر کو کوئی دھوکہ و مغالطہ کس طرح دےسکتا ہے۔
:: الشھاب الثاقب و المھند ::

کےمرتبین و مصنفین نےضرور اپنےاکابر کی عبارات میں کتر بیونت و ترمیم و تحریف کی اور مذکورہ بالا کتب میں اپنےاکابر کی عبارات کا حلیہ بگاڑ کر نقل کیں علماءو عوام کو مغالطہ اور صریحاََ دھوکہ دیا جس کا دل چاہےدودھ کا دودھ پانی کا پانی کرکےدیکھ لے، اکابر دیوبند کی گستاخانہ کتب اور توہین آمیز عبارات تحذیرالناس ، براہین قاطعہ ، حفظ الایمان ، فتویٰ گنگوہی وقوع کذب کی پہلےحسام الحرمین سےمطابقت کرلیں اور پھر المہند والشہاب الثاقب سےمطابقت کرلیں صاف طور پر واضح ہو جائےگا کہ المہند و الشہاب الثاقب میں انہوں نےخود اپنےاکابر کی عبارات کفریہ کا حلیہ بگاڑ کر نقل کیں اور خود خیانت و بد دیانتی کی مثال قائم کی ۔
یاد رکھنا چاہئےکہ جب حسام الحرمین پر علماءحرمین طیبین دھوم دھام سےڈنکےکی چوٹ تصدیقات فرمارہےاور تقریظات لکھ رہےتھےتو بےچارہ مصنف المہند مولوی خلیل انبیٹھوی سہانپوری وہیں تھا اور کانگریسی گاندھوی مدنی مولوی حسین احمد اجودھیا باشی ٹانڈوی بھی وہیں حجاز مقدس میں رہتا تھا سیدنا اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مجدد دین و ملت فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ کی جلالت علمی تاب نہ لاسکتےتھےوہیں آمنےسامنےگفتگو کیوں نہ کرلی اسی وقت علماءحرمین کو حسام الحرمین پر تقریظات لکھنےسےمنع کیوں نہ کردیا کہ جناب یہ دھوکہ دیا جارہا ہےمگر وہاں تو یہ لوگ لب باندھےدم سادھےرہےمولوی خلیل انبیٹھوی چھپ چھپاکر چند اشرفیاں بطور رشوت دیکر اپنا الو سیدھا کرنےکےلئےرئیس العلما ءمولانا شیخ صالح کمال کی خدمت میں حاضر ہوا کہ حضور آپ مجھ سےناراض ہیں ، ئیس العلما ءنےفرمایا تیرا نام خلیل انبیٹھوی ہے؟ مولانا صالح کمال نےفرمایا میں تو تجھےزندیق لکھ چکا ہوں انبیٹھوی نےکہا جو باتیں میری طرف نسبت کی گئی ہیں وہ میری کتاب میں نہیں لوگوں نےمجھ پر افترا کیا ۔ مولانا صالح کمال نےفرمایا تمہاری کتاب براہین قاطعہ چھپ کر شائع ہو چکی ہے، مولوی خلیل انبیٹھوی نےمجبوراََ کہا حضرت کیا کفر سےتوبہ قبول نہیں ہوتی ، مولانا نےفرمایا ہوتی ہےمولوی انبیٹھوی اپنی براہین کی کفریہ عبارات سےتوبہ کا وعدہ کرکےجدہ بھاگ گئےاور تین سال بعد جوڑ توڑ اور ہیرا پھیری کرکےاپنےتمام اکابر ہند کےتعاون و تصدیقات سےالمہند نامی بزعم خود حسام الحرمین کےرد میں لکھ مارا جو از اول تا آخر سراپا کذب صریح جھوٹ اور دروغگوئی کا بد ترین نمونہ ہے۔ مولوی خلیل انبیٹھوی نےاپنےخالص وہابیانہ عقائد کو چھپایا اور خلاف واقع اپنےعقائد سنیوں کےسےظاہر کئےوہابیوں اور محمد بن عبد الوہاب نجدی کو سخت برا بھلا گستاخ و مکفر اور علماءاہلسنت کا قاتل قرار دیا ۔میلاد تو میلاد سواری کےگدھےکےپیشاب کا تذکرہ بھی اعلیٰ درجہ کا مستحب قرار دیا۔خود کو سنی ظاہر کرکےوہابیوں پر سخت لعن و طعن کیا ، گویا وہابی ان کےسوا کوئی اور ہے، المہند کےسوال بھی خود گڑھےاور فریب کاریوں کےخول چڑھا کر مغالطہ آمیز جواب بھی خود ہی دیئے، اعلیٰ حضرت قدس سرہ نےحسام الحرمین پر 35 مسلمہ اکابر علماءحرمین کی تصدیقات حاصل کی تھیں ۔ جبکہ خلیل انبیٹھوی صاحب سر دھڑ کی بازی لگاکر بمشکل 6 علماءکی تصدیقات المہند پر حاصل کرسکا ، جن میں 2 حضرات مولانا سید محمد مالکی اور مولانا محمد علی بن حسین نےاپنی تصدیقات واپس لےلیں ان میں ایک مولانا شیخ محمد صدیق افغانی تھےعلماءحرم سےنہ تھے۔ باقی بھرتی ہندی وہابی مولویوں کی تھی اور سب سےبڑی بات یہ کہ المہند میں اپنےاکابر کی اصل کفریہ عبارات بعینہ و بلفظہ نقل نہ کیں ، مقام غور و لمحہ فکریہ ہے۔
محترم حضرات !! المہند کا بغور مطالعہ کریں اور دیکھیں کہ وہابیوں اور محمد بن عبد الوہاب شیخ نجدی کو کتنا برا بھلا کہا گیا ہے، یہ مکاری اور عیاری تھی خلیل انبیٹھوی کی ۔وہابیوں اور شیخ نجدی کےمتعلق اصل حقیقی رائےوہ ہےجو انہوں نےاپنےدو مکتوبات (خطوط ) محررہ 22 ربیع الثانی 1345 ھ اور محررہ ماہ رجب المرجب 1345 ھ کتاب اکابر کےخطوط صفحہ 11, 12 پر مولوی محمد زکریا سابق امیر تبلیغی جماعت کےنواسےمولوی محمد شاہد مظاہری نےشائع کئےاور ماہنامہ النو ر تھانہ بھون ماہ رجب 1345 ھ میں مولوی اشرفعلی تھانوی دیوبندی نےصفحہ 23 پر شائع کئے۔جن میں محمد بن عبد الوہاب شیخ نجدی اور نجدی وہابی سعودی حکومت اور انکےعلماءکی بھر پور قصیدہ خوانی کی گئی ہےاور والہانہ خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے۔دیوبندی ، وہابی مفرور مناظر مولوی منظور سنبھلی نےبھی مولوی انبیٹھوی صاحب کےیہ خط اپنی کتاب شیخ محمد بن عبد الوہاب اور ہندوستان کےعلماءحق کےصفحہ 43 پر نقل کرکےان کےمستند ہونےپر مہر تصدیق ثبت کردی ہے
مولوی انبیٹھوی اور مولوی ٹانڈوی

دونو ں جنہوں نےبزعم خود و بزعم جہالت حسام الحرمین کا نام نہاد برائےنام رد لکھ کر حقیقت و صداقت کا منہ چڑایا مولوی خلیل انبیٹھوی اور مولوی حسین احمد کانگریسی ٹانڈوی اُن دنوں وہیں حرمین شریفین میں موجود تھےدیکو ملفوظات اعلیٰ حضرت پہلا حصہ بلکہ خود شکست خوردہ مفرور مناظر مولوی منظور سنبھلی مدیر الفرقان نےبھی تسلیم کیا ہےکہ مولوی خلیل انبیٹھوی ان دنوں حرم مکہ معظمہ میں تھا اور تسلیم کیا ہےکہ ” حضرت مولانا حسین احمد مدنی جو 1316 ھ سے1333 ھ تک مسلسل 17,18 سال مدینہ منورہ میں مقیم رہےتو ان دونوں حضرات نےوہیں امام اہلسنت اعلیٰ حضرت مجدد و دین و ملت فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ سےآمنےسامنےگفتگو کیوں نہ کرلی ؟ اگر ہمت و جرات اور استعداد و قابلیت تھی اور کفریہ گستاخانہ عبارات کےبارےمیں ان کا موقف مضبوط تھا تو علماءحرمین طیبین کا حسام الحرمین پر تصدیقات کرتےتقریظات لکھنےسےکیوں نہ روک دیا مگر حقیقت یہ ہے
تیرےاعداءمیں رضا کوئی بھی منصور نہیں
بےحیا کرتےہیں کیوں شور بپا تیرےبعد
المہند اور شھاب ثاقب

میں ایک ایک فریب و فراڈ اور جعلسازی کا مجموعہ ہےتو دوسرا گالی نامہ ہےجس میں غلیظ ترین بازاری زبان استعمال کی گئی ہے۔
محترم حضرات !! خود مطابقت کرلیں کہ حسام الحرمین میں جن جن اکابر و مشاہیر علماءمکہ مدینہ کی تصدیقات و تقریظات ہیں مزہ تو جب تھا کہ ان سب علماءسےالمہند و شہاب ثاقب پر تصدیقات حاصل کی جاتیں اور یہ لکھوادیا جاتا کہ ہمیں ( علماءحرمین ) کو دھوکہ و مغالطہ دیکر مولانا احمد رضا خاں صاحب نےنےحسام الحرمین پر غلط تصدیقات کروائیں اور تحذیر الناس ، براہین قاطعہ اور حفظ الایمان کی عبارات حق و عین اسلام ہیں ۔ مگر ایسا نہ کراسکےتو المہند اور شھاب ثاقب کو حسام الحرمین کا رد اور جواب کیسےقرار دیا جاسکتا ہے۔ بفضلہ تعالیٰ حسام الحرمین کل بھی لاجواب تھا اور آج بھی لاجواب ہےاور انشاءاللہ صبح قیامت تک لاجواب رہےگا ۔
پڑگیا ہےپشت پر اعداءکےاب کیا جائےگا
تیرےکوڑوں کا نشاں احمد رضا خاں قادری
چیر کر اعداء کا سینہ دل سےگزری وار پار
تیرےنیزےکی سناں احمد رضا خاں قادری

یاد رہےکہ المہند کا مدلل و محقق ایک جواب صدر الافاضل مولانا نعیم الدین مرادآبادی رحمۃاللہ علیہ نےالتحقیقات لدفع التلبیسات کےنام سےاور ایک قاہر رد بلیغ شیر بیشہ اہلسنت مولانا محمد حشمت علی خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ نےفی الفور اُسی زمانےمیں لکھ کر شائع فرمادیا تھا اور مولوی خلیل احمد صاحب اور مولوی حسین احمد صاحب کو پہنچادیا تھا جس کےجواب الجواب سےمخالفین عاجز و قاصر و بےبس ہیں ۔
::حسام الحرمین والمہند کا معنی و مفہوم ::

حسام الحرمین کا معنی ہے” مکہ مدینہ کی تیز کاٹنےوالی تلوار “ ” مکہ مدینہ کی تیز تلوار “ (حسن اللغات )(المنجد)
المہند کا معنی ہے” ہندوستانی لوہےکی تلوار “ (المنجد)
بھلا ہندوستانی لوہےکی تلوار مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی تیز کاٹنےوالی تلوار کا کیا مقابلہ کرسکتی ہے۔ تلوار اہل ایمان اہل حرمین کا ہتھیا رہےہندی لوگوں کا ہتھیار برچھی بھالا ہے، برچھی بھالا تلوار کا کیا مقابلہ کرسکتی ہیں ۔ صنم کدہ ہند کےہندی لوہےکی کیا عظمت اور کیا قدر و قیمت ہوسکتی ہےمکہ و مدینہ کی تیز کاٹنےوالی تلوار کےمقابلہ میں اس کی کیا حیثیت ؟
شہاب ثاقب کا معنی ہے” آگ کا روشن شعلہ “ آسمان پر ٹوٹنےوالا ستارہ (المنجد، حسن اللغات ، فیروزللغات ، امیر اللغات )وغیرہ
آگ کا شعلہ مکہ مدینہ کی تیز تلوار کا کیا بگاڑ سکےگا ؟ آسمان سےستارےکم و بیش ہر شب ٹوٹتےہیں بتایا جائےان سےکتنی تلواریں کنڈم اور ناکارہ ہوئی ہیں اسی طرح المہند اور الشہاب الثاقب بھی آج تک حسام الحرمین کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔
اگر المہند اور شہاب ثاقب نےحسام الحرمین کا کچھ بگاڑا ہوتا تو جب سےابتک المہند اور شہاب الثاقب کےجتنی بھی ایڈیشن چھپےہیں، مخالفین کو باربار ہر بار ضمنی اور اضافی اوروضاحتی مضامین کا اضافہ کرنا پڑا ہےہمارےپاس مخالفین کی قابل اعتراض گستاخانہ کتابوں کےکئی کئی ایڈیشن ہیں اور المہند اور شھاب ثاقب کےبھی کئی کئی ایڈیشن ہیں جو ایک دوسرےسےمختلف و متضاد ہیں ، اور ان میں الفاظ و عبارات کی کمی و بیشی کی ہےجو احساس کمتری کا نتیجہ ہےیہ لوگ خود بھی اپنےاکابر کی کتابوں کےمندرجات سےمطمئن نہیں ایک مضمون میں اس بات کی تفصیل بیان کرنا ممکن نہیں ، ہاں اتنا ضرور کہونگا ملتان کےمکتبہ صدیقہ سےچھپنےوالا اور کراچی کےمکتبہ تھانوی دفتر الابقا سےچھپنےوالا المہند کے32,32 صفحات ہیں اور عرفی نام عقائد علمائےدیوبند ہےمگر اب کراچی اور کتب خانہ مجید یہ ملتان اور اتحاد ڈپو مدرسہ دیوبند یوپی سےجو المہند چھپا ہےان میں ضمنی مضامین کی بھرمار کرکےاس کےصفحات 188 ہیں اور نام بھی بدل دیا پہلےعقائد علمائےدیوبند عرفی نام تھا اور اب جو تین ایڈیشن نئےشائع ہوئےان کا عرفی نام ” یعنی عقائد علمائےاہلسنت دیوبند “ ہے۔ مقصد یہ کہ کچھ بھی جس طرح بھی بن پڑےعوام کو دھوکہ اور مغالطہ دیکر گمراہ کیا جائے۔ یہ بھی چیلنج ہےہمیں بتایا جائے” المہند “ کا یہ معنی یعنی عقائد علماءدیوبند یا اب عقائد علماءاہلسنت دیوبند کہاں اور کس کتاب میں لکھا ہے؟؟ سیدنا سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ نےٹھیک ہی تو فرمایا تھا
سونا جنگل رات اندھیری چھائی بدلی کالی ہے
سونےوالوجاگتےرہیو چوروں کی رکھوالی ہے
:: یہی حال توہین آمیز گستاخانہ کتابوں کا ہے::
ہمارےپاس تقویۃ الایمان ، تحذیر الناس ، براہین قاطعہ ، حفظ الایمان وغیرہ وغیرہ کےکئی کئی ایڈیشن ہیں جو ایک دوسرےسےمختلف اور متضاد ہیں مفہوم نہیں عبارتیں بدل گئی ہیں ۔ مگر سیدھےطریقےسےسچےدل سےپکی توبہ اور رجوع کرنےکی توفیق نصیب نہ ہوئی ، یہ بھی حسام الحرمین کی حقانیت و صداقت و ثقاہت کی روشن دلیل ہے، اختصار مانع ہےچند حوالہ جات ملاحظہ ہوں ہمارےپاس کتب خانہ رحیمیہ دیوبند ضلع سہارنپور کا شائع کردہ الشہاب الثاقب ہےجس کے111 صفحات ہیں مگر اب جو انجمن ارشاد المسلمین لاہور نےالشہاب الثاقب کا ترمیم و اضافہ اور دلیرانہ تحریف و خیانت کےساتھ جو جدید ایڈیشن شائع کیا ہی،اس کےصفحات 290 ہیں اور عوام کو گمراہ کرنےکےلئےجو پیوند کاریاں کیں ٹاکیاں لگائیں گالی گفتار سمیت 504 صفحات ہیں ۔ تحذیرالناس ایک مختصر رسالہ تھا کتب خانہ امدایہ دیوبند اور انار کلی لاہور کےتین ایڈیشن تین چھاپےعلی الترتیب 62,52,48 صفحات کےہیں لیکن اب مکتبہ حفیظیہ گوجرانوالہ کےشائع کردہ جدید ایڈیشن کے128 صفحات ہیں جسمیں کذاب مصنف خالد محمود مانچسٹروی نےمقدمہ کےعنوان سےاپنی دوکانداری چمکائی ہے، کسی عزیر الرحمان نےطویل ترین حاشیےلکھےہیں اور شکست خوردہ مفرور مناظر کا طویل ترین مقالہ توضیح عبارات کےعنوان سےشامل کیا گیا ہےاور جعل سازی کی قابلیتیں ختم کردیں ۔یہ اعلیٰ حضرت مجدد دین و ملت سیدنا امام احمد رضا خاں رضی اللہ عنہ اور فتاویٰ حسام الحرمین کی عظیم فتح و نصرت اور بےمثال کامیابی و کامرانی ہےکہ اہل توہین کی گستاخانہ کتابیں اصل شکل و صورت میں نہ رہیں اور خود مخالفین کو ان پر ترمیمات و تحریفات کےخول چڑھانےپڑےمگر گستاخانہ عبارات سےتوبہ میسر نہ آئی ۔
::توہین آمیز کتابوں کی عبارتیں بدل دیں ::
یہ مضمون کوئی مستقل کتاب نہیں اس لئےاختصار سےکام لینا پڑرہا ہےاور نور مدینہ ڈاٹ نیٹ پہ آئےہوئےدیوبندی کو ٹھنڈا کرنےکےلئےرقم کیا جارہا ہے۔
محترم حضرات !! اب ایک نظارہ عبارتیں بدلنےکا بھی دیکھ لیں ۔ تقویۃ الایمان کےبیسوں ایڈیشنوں میں لکھا ہے” ف یعنی میں بھی ایک دن مر کر مٹی میں ملنےوالا ہوں “ ( میر محمد کتب خانہ کراچی صفحہ 57 )
لیکن اب جدید اور دیگر مقامات سےچھپنےوالےجدید ایڈیشنوں میں لکھا ہے” یعنی ایک نہ ایک دن میں بھی فوت ہوکر آغوش لحد میں جاسووں گا “ (مطبوعہ جدہ صفحہ 164 )
تحذیر الناس میں اجماع صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور اجماع امت کےخلاف جوجدید معنی و مفہوم خاتم النبیین کےبیان کئےگئےفتاویٰ حسام الحرمین کی اشاعت کےبعد تحذیر الناس کی عبارات میں بھی توبہ کرنےکی بجائےکم و بیش ترمیم و تحریف کی گئی مثلاََ المہند صفحہ 11 پر تحذیر الناس کی عبارات اصل بعینیہ و بلفظہ نقل نہ کیں خلاصہ بیان کیا اور حاشا حاشا وکلا کہہ کہ جھوٹ بولاگیا۔اسی طرح شہاب ثاقب میں مولوی حسین احمد کانگریسی نےصفحہ 72 تا 79 تک تحذیرالناس کی عبارات کی من گھڑت و پرفریب تاویلات کی ہیں ، پیوندکاری کی ہےیہ مطلب ہےوہ مطلب ہےیہ معنی ہےوہ معنی ہےمگر اصل عبارت بلفظہ نقل نہ کیں بھانڈہ پھوٹ جانےپول کھل جانےکا اندیشہ تھا ، اور راشد کمپنی دیوبندی والوں نےتو عبارت میں من مانےالفاظ داخل کردیئےجگہ جگہ نانوتوی صاحب کےصلعم کےبرعکس لکھا اور ” بالفرض بعد زمانہ نبوی صلعم بھی کوئی نبی پیدا ہو“ کےبجائے” فرض کیا جائے“ لکھ دیا (صفحہ 22 )
پھر سب سےبڑی بات تو یہ ہےمولوی قاسم نانوتوی کےسوانح نگار مولوی مناظر احسن گیلانی نےخود تسلیم کرتےہیں ” اسی زمانہ میں تحذیرالنا س نامی رسالہ کےبعض دعاوی پر بعض مولوی کی طرف سےخود سیدنا امام الکبیر (نانوتوی) پر طعن وتشنیع کا سلسلہ جاری تھا “ ( سوانح قاسمی جلد اول صفحہ 370 ) مولوی اشرف تھانوی نےلکھا ہے” جس وقت سےمولانا ( قاسم نانوتوی) نےتحذیرالناس لکھی کسی نےہندوستان بھر میں مولانا (نانوتوی ) کےساتھ موافقت نہیں کی بجز مولانا عبد الحی صاحب کے“ (الاضافات یومیہ جلد 4 صفحہ 580 )
جب مولانا محمد قاسم نانوتوی صاحب نےکتاب تحذیر الناس لکھی تو سب نےمخالفت کی (قصص الاکابر 159 )
خود محدث دیوبند مولوی انور کاشمیری نےفیض الباری جلد 3 صفحہ 334, 333 میں تحذیرالناس پر سخت جرح کی ہے۔
مولوی حسین احمد کانگریسی شہاب ثاقب میں اور مولوی خلیل انبیٹھوی المہند میں کفر یہ عبارات اسلامیہ ثابت کرنےاٹھےتھےمگر انہوں نےبھی براہین قاطعہ کی گستاخانہ عبارات کی نہ تو معقول تاویل کی نہ براہین قاطعہ کی اصل عبارت بعینیہ و بلفظہ نقل کی شہاب ثاقب میں صفحہ 89 تا 92 اور المہند میں صفحہ 13 تا 14 ۔براہین قاطعہ کی گستاخانہ عبارت کی صفائی پیش کی گئی مگر اصل زیر بحث پوری عبارت نقل نہیں کی رہا وقوع کذب کا گنگوہی کا فتویٰ تو اصل فتویٰ وقوع کذب باری تعالیٰ کی فوٹو کاپیاں عام ہیں اور متعدد کتابوں میں چھپ چکی ہیں یاد رہےگنگوہی صاحب کا یہ فتویٰ خود ان کی زندگی میں 1308 ھ سےلےکر ان کےمرنےتک یعنی 1323 ھ تک بار بار مختلف مقامات سےچھپ کر شائع ہوتا رہا مگر گنگوہی صاحب گم سم رہےساکت و جامد ہوگئےنہ فتویٰ سےانکار کرسکےنہ تاویل و تردید کرسکےآج ان کےکم سن وکیل شیر خوار مناظرین و مصنفین ناحق جھک مار رہےہیں ۔
باقی رہی حفظ الایمان کی گستاخانہ عبارت تو جناب دیوبندی مصنفین و مناظرین نےنوع بنوع اور مختلف النوع تاویلیں کرکےخود تھانوی صاحب کو کفر کی دلدل میں دھکیل دیا ۔
دیکھئےابتداءحفظ الایمان 9,10 صفحہ کا مختصر سا پمفلٹ تھا جس میں ان کی وہ گستاخانہ عبارت تھی جس پر حسام الحرمین میں تکفیر کا حکم شرعی بیان ہوا ، چونکہ دیوبندی وہابی اکابرین احساس کمتری میں مبتلا تھےرنگ برنگی عقل شکن تاویلیں کرنےلگےتھےتھانوی صاحب میں مناظرہ کا دم خم نہ تھا ۔مولوی مرتضی حسن در بھنگی چاند پوری ، مولوی منظور حسن سنبھلی ، مولوی عبد الشکور کاکوروی ،مولوی ابو الوفا شاہ جہانپوری نےمناظر بن کر بحث و مباحثہ کا پیشہ اور ذریعہ معاش اختیار کرکےاپنی دوکانداری چمکائی ، مولوی منظور سنبھلی نےمناظرہ بریلی ، مولوی مرتضی حسن دربھنگی نےتوضیح البیان ، خلیل انبیٹھوی نےالمہند ، مولوی عبد لشکور کاکوروی نےاپنی کتابوں میں جو مختلف النوع متضاد تاویلات کی ہیں ایک کی تاویل سےدوسرےپر اور دوسرےکی تاویل سےتیسرےپر چوتھےاور چوتھےکی تاویل سےان سب پر تکفیر کا حکم شرعی لگتا ہےاور ان سب کی تاویلات سےجناب تھانوی صاحب پر تکفیر کی شرعی ڈگری ہوجاتی ہے۔اور حسام الحرمین کا پھریرہ آب و تاب و جاہ و جلال سےلہراتا ہوا نظر آتا ہےبالآ خر کفریہ گستاخانہ عبارتوں کےوکیلوں نےمیدان مناظرہ میں شکستیں کھاکھاکر جناب تھانوی صاحب کو ترمیم و تحریف کی راہ پر ڈال دیا اور ترمیموں و ضمیموں والی حفظ الایمان چھپنےلگی۔صفحات 9,10 کی حفظ الایمان جو اب انجمن ارشاد المسلمین لاہور نےشائع کی ہےاس کےصفحات اب 119 ہیں ۔ ع
مرض بڑھتا گیا جوںجوں دوا کی
تھانوی صاحب کےوکیل میدان مناظرہ میں فیل تھےلہذا تھانوی صاحب کو حفظ الایمان کی وضاحت اور تاویل میں بسط البنان لکھنی پڑی ۔ اور پھر بسط البنان اور حفظ الایمان کی وضاحت میں عبارت بدل کر تغیر العنوان لکھنی پڑی اور عبارت حفظ الایمان کو مجبوراََ یوں کردیا ۔اور تھانوی صاحب نےحکم دیا کہ اب حفظ الایمان کی عبارت کو یوں پڑھا جاوےاگر بعض علوم غیبیہ مراد ہیں تو اس میں حضور علیہ السلام کی کیا تخصیص ہےمطلق بعض علوم غیبیہ تو غیر انبیاےعلیہم السلام کو بھی حاصل ہیں الخ
اب لاہور اور دیوبند سےجو جدید حفظ الایمان چھپی ہےانجمن ارشاد المسلمین لاہور اور مکتبہ نعمانیہ دیوبند والوں نےبھی یہ بدلی ہوئی ترمیم و تحریف شدہ حفظ الایمان شائع کی ہے۔افسوس کہ تھانوی صاحب کو ترمیم کرنےالفاظ وعبارت بدلنےکی سوجھی توبہ اور رجوع کی توفیق نہ ہوئی ۔بہرحال ان الفاظ بدلنےسےیہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ حسام الحرمین کا حکم شرعی حق اور مبنی بر حقیقت تھا اور المہند و شہاب ثاقب حسام الحرمین کےدلائل قاہرہ کو توڑ نہ سکے۔اور ناکام و نامراد رہے۔اور کیوں نہ ہوجب کہ امام اہلسنت سیدنا سرکار اعلیٰ حضرت مجدد دین و ملت فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ کی ذات والا صفات وہ ہیں جس کےلئےکہا گیا ہے
یہ وہ دربار سلطان قلم ہی
جہاں پر سرکشوںکا سر قلم ہے
تو جناب والا اصل مسئلہ اور تنازعہ توہین و تکفیر کا ہےہمارا مدمقابل حریف طائفہ تکفیر کو بہت برا سمجھتا ہےکبیدہ خاطر ہوتا ہےبلاوجہ تکفیر کردی ناحق تکفیر کردی بریلی میں کفر کےفتوئوں کی مشین لگی ہےمگر یہ نہیں دیکھتےتکفیر کیوں کی گئی وجہ تکفیر کیا ہے؟ تو جناب کتابیں چھپی ہوئی ہیں موجود ہیں ، تحذیر النا س ، براہین قاطعہ ، حفظ الایمان کی گستاخانہ کفریہ عبارات اپنی آنکھوں سےدیکھ سکتےہیں ۔ امام اہلسنت سیدنا اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ از خود اپنی طرف سےتکفیر کا شرعی حکم جاری نہیں فرمایا ۔حسام الحرمین میں 35 اکابر و اعاظم علماءو فقہاءحرمین کےمبارک مدلل فتاویٰ اور تقاریظ ہیں ۔الصوارم
الہندیہ پر اب تک 300 سےزائد اکابر علماءتصدیقات فرماچکےہیں تصدیقات لکھ چکےہیں ۔اکابر دیوبند کی گستاخانہ کتابوں کےہر نئےآنےوالےجدید ایڈیشن میں یہ لوگ خود ہی کاٹ چھانٹ ترمیم و تحریف کررہےہیں ۔ نت نئی عبارتیں بدل رہےہیں جس کا واضح مطلب یہ ہےکہ گستاخانہ عبارات خود ان کےنزدیک بھی کفریہ اور توہین آمیز ہیں ناقابل تاویل ہیں ۔جبھی تو عبارات بدل رہےہیں اگر المہنداور الشہاب الثاقب سچےتھےتو انہی 35 اکابر علماءحرمین کےسامنے تحذیر النا س ، براہین قاطعہ ، حفظ الایمان ، فتویٰ گنگوہی کی اصل عبارت رکھ کر تصدیقات حاصل کی جاتیں اور یہ لکھوایا جاتا کہ ہم نےحسام الحرمین پر جو تصدیقات کیں تقریظات لکھیں وہ واپس لیتےہیں فلاں فلاں عبارت کفریہ اور گستاخانہ نہیں مگر افسوس کہ المہند اور الشہاب الثاقب گونگا بہری ہےوہ حسام الحرمین کا جواب نہیں ۔
ع :: دل کو بہلانےکو غالب یہ خیال اچھا ہے
ویسےبھی المہند اور الشہاب الثاقب جیسی جھوٹی کتابوں کےجوابات شیر بیشہ اہلسنت مولانا حشمت علی خان صاحب اور فاضل اجل مولانا شاہ محمد اجمل سنبھلی قدس سرہ نےراد المہند اور رد شہاب ثاقب اور صدر الافاضل مولانا نعیم الدین مرادآبادی نےالتحقیقات کےنام سےشائع فرمادیئےتھی۔
افادہ: نبیرہ اعلیٰ حضرت علامہ الحاج سبحان رضا خاں سبحانی میاں صاحب قبلہ دامتہم برکاتہم عالیہ
سجادہ نشین خانقاہ عالیہ رضویہ
والسلام