مضمون: آئیے! وصیت اعلٰیحضرت پر عمل کریں
از: انصار احمد جامی نوری
انتخاب: آقا کا گدا

آئیے! وصیت اعلٰیحضرت پر عمل کریں
مصطفٰی جان رحمت، غمخوار امت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی یادگارئ امت پہ قربان کہ پیدا ہوتے ہی اپنے رب کی وحدانیت، اپنی رسالت کی شہادت ادا فرما کر سب میں پہلی جو یاد آئی وہ ہماری ہی یاد تھی۔
دیکھو وہ اللہ کا نور، حضرت آمنہ کا لال شکم پاک مادر سے جدا ہوتے ہی سجدے میں ہے۔ اور نرم و نازک آواز سے کہہ رہا ہے رب ھب لی امتی رب ھب لی امتی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم،،
عمر بھر تو یاد رکھا، وقت پر کیا بھولنا ہو
وقت پیدائش نہ بھولے کیف ینسٰی کیوں قضا ہو

زندگی پاک میں بھی یاد فرماتے رہے اور اس قدر یاد فرمایا کہ پائے مبارک پر ورم آگیا۔ زار زار رو رہے ہیں روتے روتے صبح کر دی اور یہی عرض کرتے رہے رب امتی رب امتی،،
اشک شب بھر انتظار عفو امت میں بہیں
میں فدا چاند اور یوں اختر شماری واہ واہ

جب قبر انور میں تشریف لے گئے ویاں بھی آہستہ آہستہ یہی عرض کرتے رہے۔ رب امتی امتی اے میرے رب میری امت میری امت (صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم)
ہماری لاکھوں، کروڑوں نافرمانیوں کے بعد بھی ہمیں فراموش نہیں کیا بلکہ زبان رحمت سے یہی فرمایا ارے میری طرف آؤ ارے میری طرف آؤ ارے میری طرف آؤ مجھے چھوڑ کر کہاں جاتے ہو۔ یہی فرماتے رہے۔ تم پروانوں کی طرح آگ پر گرے پڑتے ہو اور میں تمہارا بند کمر پکڑے روک رہا ہوں۔ جب غلاموں نے اس شفقت و مہربانی اور رحمت و کرم فرمائی کو دیکھا تو وہ بھی سو جان سے اپنے پیارے آقا پر قربان ہونے کو تیار ہو گئے اور ان کے عشق ہی کو اپنا سب کچھ سمجھا کہ اسی میں رضائے محبوب تھی۔ اور محبوب کے رب کی رضا بھی اسی میں تھی۔ اور ظاہر ہے کہ عاشق یاد محبوب کی آتش سے جب اپنے سینے کو گرماتا ہے تو وصال محبوب کی مسرت میں دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ اور اس کے لبوں پر بے ساختہ یہ شعر جاری ہو جاتا ہے کہ،،
جان و دل ہوش و خرد سب تو مدینے ہہنچے
تم نہیں چلتے رضا سارا تو سامان گیا

اور جب عشق کی آگ مذید بھڑکتی ہو تو عقیدت کا اظہار یوں ہوتا ہے،،
الروح فداک فزد حرقا یک شعلہ دگر برزن عشقا
مورا تن من دھن سب پھونک دیا یہ جان بھی پیارے جلا جانا

کبھی آتش فراق کو ہوا دے کر عشق کی یوں حرارت بڑھائی جاتی ہے،،
اے عشق ترے صدقے جلنے سے چھٹے سستے
جو آگ بجھا دے گی وہ آگ لگائی ہے

حرارت عشق سے قلب کو کباب کر دینے والے پروانوں غم ہجراں میں خون کے آنسو بہانے والے عاشقوں میں ایک ہستی امام احمد رضا کی بھی ہے۔ آسمان ولایت کے در خشندہ ستاروں میں ایک نجم الہدٰی امام احمد رضا بھی ہے۔ یہ وہ نجم ہدایت اور پروانہ شمع عشق رسالت ہیں کہ جب اس عرب کے چاند اور عجم کے سورج پر وہابیہ دیوبندیہ توہین و تنقیص کی گرد اڑانے لگے اور گنبد خضرٰی کی طرف گستاخیوں کے تیر برسانے لگے تو امام احمد رضا حضرت حسان کے ایک شعر کی عملی تفسیر بن کر سینہ سپر ہو گئے۔ کہ
اے بدزبانو ! میں اس لئے تمہارے مقابل کھڑا ہوا ہوں کہ تم مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی بدگوئی سے غافل ہو کر مجھے اور میرے باپ دادا کو گالیاں دینے میں مشغول ہو جاؤ میری اور میرے باپ دادا کی آبرو محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی عزت کی سپر ہو جائے۔ اور احمد رضا اللہ سبوح قدوس کی عظمت اور اس کے حبیب کریم علیہ الصلٰو ۃ و التسلیم کی عزت کی حمایت کرکے گالیاں کھائے۔ اور آقا و مولٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی سرکار میں پہرہ دینے والے کتوں میں اس کا چہرہ لکھا جائے۔ واللہ العظیم احمد رضا بخوشی راضی ہے۔ اگر یہ دشنامی حضرات بھی اس بدلے پر راضی ہوں کہ وہ اللہ رسول جل جلالہ و صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی جناب میں گستاخی سے باز آئیں اور یہ شرط لگائیں کہ روزانہ اس بندہء خدا کو پچاس ہزار مغلظہ گالیاں سنائیں اور لکھ لکھ کر شائع کرائیں۔
جس امت کے لئے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم گریہ و زاری فرماتے رہے رب امتی امتی فرماتے رہے اس امت کی خدمت کے لئے امام احمد رضا نے اپنی پوری زندگی وقف فرمادی۔ زندگی بھر وعظ و نصیحت فرماتے رہے اور وصال سے قبل ایک ایمان افروز وصیت فرمادی کہ تم مصطفٰٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی بھولی بھیڑیں ہو بھیڑیئے تمھارے چاروں طرف ہیں یہ چاہتے ہیں کہ تمھیں بہکا دیں تمھیں فتنے میں ڈال دیں تمہیں اپنے ساتھ جہنم میں لے جائیں ان سے بچو اور دور بھاگو۔ دیوبندی ہو یا رافضی، نیچری ہو یا قادیانی، چکڑالوی ہو غرض کتنے ہی فرقے ہوں یہ سب بھیڑیئے تمہارے ایمان کی تاک میں ہیں۔ حضور سے صحابہ روشن ہوئے ان سے تابعین روشن ہوئے اور ان سے ائمہ مجتہدین روشن ہوئے ان سے ہم روشن ہوئے۔ اب ہم تم سے کہتے ہیں یہ نور ہم سے لو ہمیں اس کی ضرورت ہے کہ تم ہم سے روشن ہو وہ نور یہ ہے کہ اللہ و رسول کی سچی محبت اور ان کی تعظیم اور ان کے دوستوں کی خدمت اور ان کی تکریم۔ اور ان کے دوشمنوں سے سچی عداوت جس سے اللہ و رسول کی شان میں ادنیٰ توہین پاؤ پھر وہ تمہارا کیسا ہی پیارا کیوں نہ ہو فوراً اس سے جدا ہو جاؤ جس کو بارگاہ رسالت میں ذرا بھی گستاخ دیکھو پھر وہ تمہارا کیسا ہی بزرگ معظم کیوں نہ ہو اپنے اندر سے اسے دودھ سے مکھی کی طرح نکال کر پھینک دو۔ میں پونے چودہ برس کی عمر سے یہی بتا رہا ہوں اور اس وقت پھر یہی عرض کرتا ہوں اب میں قبر سے اٹھ کر تمہارے پاس بتانے نہ آؤں گا۔ جس نے اسے سنا اور مانا قیامت کے دن اس کے لئے نور و نجات ہے اور جس نے نہ مانا اس کے لئے ظلمت و ہلاکت۔
_________________
آقا کا گدا ہوں اے جہنم تو بھی سن لے
وہ کیسے جلے جو غلام مدنی ہو۔ ۔ ۔!
سنی دعوت اسلامی ڈاٹ نیٹ