صاحبزادہ سید وجاہت رسول قادری کے قلم سے

 

 

 

قارئین کرام!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ماہِ جولائی میں لال مسجد کا سانحہ پاکستان کی تاریخ کی ایک ایسی ٹریجڈی ہے جس کے دُور رس اثرات بے حد و بے حساب ہیں۔ مسلمانانِ پاکستان ہی نہیں بلکہ عالمِ اسلام کے مسلمانوں کے لیے بھی یہ بات نہایت ہی قابلِ افسوس اور سخت صدمے کا باعث ہے کہ ایک عبادت گاہ (مسجد) کو گولہ بارود کے ذخیرہ خانہ یا جنگی قلعے میں تبدیل کیا گیا، لال مسجد اور ملحقہ مدرسہ حفصہ سے جدید اسلحہ کی نہ صرف نمائش کی گئی بلکہ معصوم طالب عالم بچوں، بچیوں، مرد اور عورتوں کو یرغمال بناکر اپنے مقاصد کے حصول کے لیے دہشت گردی کا بدترین مظاہرہ کیا گیا۔ مملکت کے اندر ایک مملکت بنائی گئی، حکومتِ وقت کی رٹ کو چیلنج کیا گیا۔ اپنی من پسند کی شریعت نافذ کرنے کے لیے خواتین اور مرد طلباء کی ڈنڈا بردار اور پستول بردار ”پولیس” ٹولیاں بنائی گئیں، جو لال مسجد کے اردگرد کے علاقوں اور بازاروں میں گشت کرتی تھیں، ملکی اور غیر ملکی خواتین، مردوں اور پولیس کو بازاروں، شاہراہوں، دکانوں اور حتیٰ کہ گھروں کے اندر گھس گھس کر اغوا کیا گیا اور انہیں لال مسجد میں حبسِ بے جا میں رکھا گیا۔ لال مسجد میں قائم عدالت سے سزائیں سنائی گئیں، سیکیورٹی فورسز پر فائرنگ کی گئی، پبلک عمارات کو آگ لگائی گئی، جس پر مجبوراً سیکیورٹی فورسز نے گھیراؤ کرکے ایک ہفتہ تک انہیں وارننگ دی۔ پھر مذاکرات کی ناکامی پر وہ کچھ ہوا جو پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا تھا جس کی تمام تر ذمہ داری لال مسجد کی انتظامیہ اور وفاق المدارس کے کرتا دھرتا اور پسِ پردہ حکومتی اداروں میں ان کے ہمدردوں پر عائد ہوتی ہے۔ نتیجتاً سیکڑوں بے گناہ معصوم جانوں کو آگ اور خون کے دریا کی بھینٹ چڑھا دیا گیا اور لطف کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ اسلام کے مقدس نام پر کیا گیا۔ نام نہاد ”جہاد” میں فتح سے قبل ہی دہشت پسندوں کے دونوں سرداروں عبد العزیز اور عبد الرشید نے ”غازی” کے لفظ کا لاحقہ اپنے نام کے آگے لگالیا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ:
دونوں ہی ننگِ ملت، دونوں وطن کے باغی
عبد العزیز ”برقع”، عبد الرشید ”غازی”
پھر دنیا نے براہِ راست ٹیلی ویژن (Live Media) اسکرین پر دیکھا کہ لال مسجد کے ”مجاہدین” کا کمانڈر انچیف، ”خیالی اسلامی حکومت” کا ”امیر المؤمنین”، ”خود ساختہ اسلامی عدالت” کا ”قاضی القضات” جس نے ”شہادت” کا جامِ شیریں پینے اور جنت کی حوروں کے استقبال کے تین سو سے زیادہ مبشرات بیان کئے تھے، جامعہ حفصہ سے نکلنے والی نوجوان طالبات کے جھرمٹ میں بزدلوں کی طرح برقع پہن کر فرار ہوتے ہوئے پکڑا گیا۔ بھلا گستاخانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی مبشرات ہوسکتے ہیں؟ ہاں شیطانی الہامات ہوں تو تعجب نہیں!
جب ہی اللہ تعالیٰ نے خود اس کو اپنے مبشرات کے جھوٹے ہونے کی دلیل بنادیا اور اس نے خود بھی پوری دنیا کے لیے میڈیا اسکرین پر ”نقابِ رُخ” الٹ کر قرآن مجید فرقان حمید کی آیاتِ کریمہ:
وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ عَلَیْہَا غَبَرَۃٌ O تَرْھَقُہَا قَتَرَۃٌ O
(ترجمہ: اور کتنے مونہوں پر اس دن گرد پڑی ہوگی، ان پر سیاہی چڑھ رہی ہے۔ [عبس: ٨٠/ ٤٠،٤١]) کی عملی تفسیر اپنا اصل چہرہ دکھا کر پیش کی، وہ چہرہ جس کی تصویر آج سے قبل دنیا کی کسی بھی الیکٹرونک میڈیا کا کیمرہ نہ اتار سکا، آج اس نے خود اپنے اترے ہوئے چہرے کی اصل تصویر دکھا کر ملت اسلامیہ کو افسردہ و شرمندہ اور ملت کفر کو فرخندہ ”بآں میوہ رسیدہ” بنادیا۔ پھر کیا تھا، ملتِ کفر نے جسے عصرِ حاضر کی زبان میں ”صیہونی لابی” کہتے ہیں، اپنے ہر چینل پر اس ننگِ دین، ننگِ وطن، ننگِ ملت کے چہرہئ غَبَرَۃ قَتَرَۃ کی ہر ہر زاویئے سے خوب خوب تصویر کشی کی اور ہر تجزیہ نگار حافظ علیہ الرحمۃ کے اس شعر کے بموجب:
بس شُکر باز گویم در بندگیِ خواجہ
گر اوفتد بدستم آں میوہ رسیدہ
اس ”میوہ رسیدہ” کے حصول پر خوب خوب بغلیں بجاتا اور منحوس چہرہ کو ملتِ اسلامیہ اور علماءِ ملت اسلامیہ کا اصلی چہرہ قرار دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتا اور اسلام کو دہشت گرد مذہب قرار دینے کے لیے دور دور کی کوڑی لاتا اور ان تبصروں کو بار بار نشر کرکے مسلمانوں کا خون کھولاتا۔ لال مسجد اور اس کے ملحقہ مدرسہ حفصہ سے گولہ بارود کا جو ذخیرہ نکلا، کلاشنکوف، مشین گن، ہینڈ گرینیڈ، راکٹ اور راکٹ لانچر پیڈ، مائینز، دیسی بم بنانے کے سامان، مدرسہ حفصہ کی وسیع و عریض عظیم چھ منزلہ عمارت میں تہہ خانہ در تہہ خانہ، اس کی قلعہ نما دیواریں کہ ڈائنامائٹ لگانے سے بھی نہ گرپائیں، ان سب نے دنیا پر ثابت کردیا کہ لال مسجد اور غصب شدہ زمین پر اس کی اسلحہ کے زور پر توسیع اور مدرسہ حفصہ کی سی۔ڈی۔اے سے بلااجازت منظوری تعمیر، ایک سوچے سمجھے طویل المدت منصوبہ کا حصہ تھی جس کا مقصد کسی بھی سازگار وقت میں اسلام آباد پر قبضہ کرکے ”امیر المؤمنین عبد العزیز برقع” کی امارت اور ایک دیوبندی وہابی اسٹیٹ کے قیام کا اعلان تھا۔ لال مسجد کے سانحہ اور اس کے بعد کے حالات و واقعات سے اب یہ بات اظہر من الشمس ہوگئی اور ملکی غیرملکی پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا میں بار بار دہرائی گئی اور اب بھی کہی جارہی ہے کہ نہ صرف لال مسجد اور مدرسہ حفصہ کی انتظامیہ اور اس میں تَعَیُّنَات مسلح دہشت گرد طالبان کا تعلق پاکستان میں نجدی عقائد کے ناشر فرقہ دیوبندیہ سے ہے کیونکہ لال مسجد، مدرسہ حفصہ، مدرسہ فریدیہ اور لال مسجد کی انتظامیہ سے ملحقہ دیگر ٢٨مدارس جن کے متعلق حکومت جمہوریہ اسلامیہ پاکستان کی سیکرٹ ایجنسیوں کی خفیہ رپورٹ اخبارات میں شائع ہوچکی ہے، ان سب کا الحاق دیوبندی مدارس کی تنظیم وفاق المدارس سے ہے۔ خود وفاق المدارس کی مجلس عاملہ نے نہ صرف اسے تسلیم کیا بلکہ لال مسجد پر سیکیورٹی فورسز کے پولیس ایکشن سے قبل اور بعد انہوں نے لال مسجد انتظامیہ کی حمایت میں زور دار بیانات جاری کئے اور ”برقع برادران” اور دیگر دہشت گردوں کو ”محفوظ راستہ” فراہم کرنے کے لیے وزیرِ اعظم، صدرِ مملکت اور حکومتی نمائندوں پر اثر انداز ہونے کی بھرپور کوشش بھی کرتے رہے۔ یہ بات اخبارات کی فائلوں اور الیکٹرونک میڈیا کی سی۔ڈی میں ریکارڈ ہے۔ اس سے وہی انکار کرسکتا ہے جو دن کو نصف النہار کے وقت آسمان پر سورج کے چمکنے کا انکار کرے۔ لہٰذا جتنے بھی کلاشنکوف بردار طالبان نظر آتے ہیں ان سب کا تعلق دیوبندی فرقہ سے ہے اور وہ انہی کہ مدرسہ سے پڑھے ہوئے ہیں، وہیں کے پروردہ ہیں یا اب بھی وہاں بطور طالبعلم پرورش و تربیت پا رہے ہیں جبکہ الحمدللہ اہلِ سنت و جماعت کی تنظیم، تنظیم المدارس سے ملحقہ کسی بھی دارالعلوم کا کوئی طالبعلم چھری بردار بھی نظر نہیں آئے گا۔
یہاں ہم یہ بھی وضاحت کردیں کہ ”ہم سخن فہم ہیں، غالب کے طرفدار نہیں”۔ ہم نہ حکومت وقت کے حریف ہیں نہ حلیف اور نہ ہمارے کوئی اور سیاسی عزائم ہیں۔ ہم دین حقہ کے خدمت گذار ہیں۔ ہم نے ہر غلط کام پر حکومت کی تنقید کی ہے۔ خواہ وہ کشمیر کی آزادی کا معاملہ ہو، آزادئ خواتین بِل کا یا ملک میں نفاذِ شریعت کا یا نام نہاد ”روشن خیالی” کے فروغ کا یا پاکستان کے استحکام کا، معارفِ رضا کے اداریئے اور مضامین اس پر شاہدِ عدل ہیں۔ ہمارے بزرگوں نے ١٨٥٧ء کی جنگ آزادی میں بھرپور حصہ لیا اور بے مثال قربانیاں دیں جو تاریخ میں مرقوم ہے۔ آل انڈیا سنی کانفرنس کے پلیٹ فارم سے آزاد مسلم مملکت کی تحریک شروع کی گئی تو پاکستان کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرتے وقت اس کا ہراول دستہ ہم ہی تھے۔ اس لیے جس تحریک یا اقدام سے استحکامِ پاکستان کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو یا مملکتِ خداداد کے حصول کے مقاصد میں رخنہ آئے، یا قرآن و سنّہ کے خلاف آئین سازی کی کوشش کی جائے، ہم اس کی مخالفت کریں گے۔ لہٰذا لال مسجد کے واقعات کے پسِ پردہ جو عوامل سامنے آئے ہیں ہم اس پر بھی اسی نکتہ نظر سے روشنی ڈالیں گے تاکہ قارئین کرام اس کے پسِ منظر اور پیشِ منظر کے مختلف پہلوؤں سے واقف ہوسکیں اور انہیں اپنی رائے قائم کرنے میں آسانی ہوجائے۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ حادثہ لال مسجد (Lal Masjid Episode) کے ذمہ دار کون لوگ ہیں؟

 

جب ہم تاریخ کے تناظر میں وہابیہ نجدیہ کا تحقیقی اور معروضی جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ اس کی بنیاد ہی شدت پسندی، فتنہ و فساد، دہشت گردی اور قتل و غارت گری پر رکھی گئی ہے۔ چنانچہ برصغیر پاک و ہند کی ایک نہایت معتبر و مستند اور غیر جانبدار شخصیت جن کا سُنّی، دیوبندی، وہابی سب ہی احترام کرتے ہیں، یعنی حضرت علامہ مولانا شاہ زید ابو الحسن فاروقی مجددی نقشبندی علیہ الرحمۃ (پ١٣٢٤ھ/١٩٠٦ء) تحریر فرماتے ہیں کہ شیخ محمد بن عبد الوہاب نجدی (پ١١١١ھ/ ١٦٩٩ء یا ١١١٥ھ/ ١٧٠٣ء۔ ١٢٠٦ھ/ ١٧٩٢ء) جو وہابیہ فرقہ کے بانی ہیں، پر سب سے زیادہ نکیر (مخالفت) دو باتوں کی وجہ سے کی گئی ہے:
ایک: صرف تَلفیقاتِ بلا دلیل کے (جھوٹی باتوں کو بناکر بیان کرکے) اہلِ جہاں کو کافر قرار دینا اور اس سلسلے میں علامہ سید داؤد بن سلیمان نے انصاف کے ساتھ ان کا رد لکھا ہے۔
دوم: بغیر کسی حجت اور دلیل کے معصوم خون کا بہانہ اور اس کام میں ان کا تَوَغُّل۔ [١]
حضرت زید فاروقی رحمۃ اللہ علیہ مزید لکھتے ہیں کہ شیخ محمد بن عبد الوہاب کے مذہب کی تحقیق اس وقت کے دو اماموں علامہ بدر الملۃ سید محمد بن اسماعیل الامیر الصنعانی اور شیخ مربد التمیمی نے کی۔ ان کا بیان ہے کہ ”ہمارے پاس محمد عبد الوہاب کے بعض رسالے بھی پہنچے ان رسالوں میں اہلِ ایمان کو کافر قرار دینے اور ان کو قتل کرنے اور ان کے مال لوٹنے کا بیان ہے۔ محمد بن عبد الوہاب کے رسالوں کو پڑھ کر اور ان کے احوال سن کر ہم کو یقین ہوگیا اس شخص کو شریعت کے صرف ایک حصہ کا علم ہے اور وہ بھی (اس نے) دقیق نظر سے نہیں دیکھا ہے اور نہ کسی باکمال سے پڑھا ہے کہ وہ اس کو صحیح راستہ پر لگاتا اور مفید علوم سے آگاہ کرتا اور تفقہ اور دقیق سنجی کی راہ پر لگاتا۔” [٢]
اور سید محمد امین بن عمر معروف بہ ابنِ عابدین نے ”در مختار” کی شرح ”رد المحتار” مطبوعہ ١٢٤٩ھ کی تیسری جلد ”باب البغات” ص٣٩ میں لکھا ہے:
”جیسا کہ ہمارے زمانہ میں پیش آیا ہے کہ نجد سے عبد الوہاب کے پیروان نکلے اور انہوں نے حرمین پر قبضہ کیا۔ وہ اپنے کو اگرچہ حنبلی کہتے ہیں لیکن ان کا عقیدہ یہ ہے کہ مسلمان صرف وہی ہیں، جو بھی ان کے عقائد کے خلاف ہو وہ مشرک ہے بنا بریں انہوں نے اہلِ سنت اور ان کے علماء کو قتل کرنا مباح قرار دیا ہے۔ تا آں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی شوکت اور طاقت توڑی، ١٢٣٣ھ میں مسلمان افواج کو ان پر فتح دی اور ان کا وطن برباد کیا۔” [٣]
امام عبد اللہ بن عیسیٰ بن محمد صنعانی نے ١٢١٨ھ میں کتاب ”السیف الہندی فی أبانۃ طریقۃ الشیخ النجدی” لکھی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ محمد بن عبد الوہاب، عبد العزیز نجدی کے محلہ میں فروکش ہوئے، عبدالعزیز نے بیعت کی اور وہاں کے لوگ ان کے مددگار ہوئے۔ ان لوگوں نے درعیہ کے قرب و جوار کے بستیوں میں اپنا مسلک پھیلایا۔ جب محمد بن عبد الوہاب کے ساتھ ایک قوی جماعت ہوگئی: قَرَّرَ لَھُمْ أَنَّ مَنْ دَعَا غَیْرَ اللّٰہِ أَوْ تَوَسِّلَ بِنَبِیٍّ أَؤْ مَلَکٍ أَوْ عَالِمٍ فَإِنَّہ، مُشْرِکٌ شَاءَ أَوْ أَبٰی یہ قانون نافذ کردیا کہ جو شخص غیر اللہ کو آواز دے یا کسی نبی، یا فرشتے یا عالم کا وسیلہ لے، وہ مشرک ہے، اس کا ارادہ شرک کا ہو یا نہ ہو۔
محمد بن عبد الوہاب کے اس قول کی وجہ سے عام مسلمانوں کی تکفیر لازم آتی ہے اور اسی پر وہ مسلمانوں سے لڑے ہیں۔” [٤]
نواب صدیق حسن خاں نے ”ابجد العلوم” میں کچھ تفصیل سے محمد بن عبد الوہاب نجدی کا حال لکھا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے:
”ولادت عینیہ میں ہوئی، قرآن مجید پڑھا اور حدیث کی سماع کی اور اپنے والد سے جو کہ حنبلی فقیہ گھرانے میں سے تھے، پڑھا، پھر حج کیا اور مدینہ منورہ گئے۔ وہاں شیخ عبد اللہ بن ابراہیم نجدی تلمیذ ابو المواہب بعلی دمشقی سے پڑھا، پھر اپنے والد کے ساتھ نجد آئے اور جریمل میں قیام کیا، والد کی وفات کے بعد عینیہ آگئے۔ وہاں اپنی دعوت پھیلائی، پھر کسی وجہ سے درعیہ آگئے۔ وہاں امیر محمد بن سعود آل مقرن از اولاد بنی حنیفہ (ازربیعہ) نے ان کی اطاعت کی۔ یہ واقعہ تقریباً ١١٥٩ھ کا ہے،اس کے بعد محمد بن عبد الوہاب کی دعوت نجد میں اور جزیرہ عرب کے مشرقی حصوں میں عمان تک پھیلی۔” [٥]
مذکورہ بالا حوالہ جات سے ثابت ہوا کہ محمد ابن عبد الوہاب نے اپنے مذہب کی بنیاد جمہور ائمہ اربعہ کے مذہب کے خلاف پر رکھی اور اول روز سے جبر، ظلم اور دہشت گردی کا سہارا لے کر عامۃ المسلمین کو بالجبر اپنا ہمنوا بنانے اور اربعہ امام کے مذہب کو ترک کرکے نجدی عقیدہ اختیار کرنے پر مجبور کیا کیونکہ جو ان کا عقیدہ و مذہب اختیار نہیں کرتا تھا، وہ اسے کافر و مشرک قرار دے کر قتل کردیتے تھے اور دنیا کی سب سے بڑی مسلم سنی اسٹیٹ سلطنتِ ترکیہ کو جو اس زمانے میں دنیا کی سپرپاور تھی، انگریزوں کی ملی بھگت سے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی کوشش کی اور آخرکار تقریباً سو سال کے بعد ١٩٢٤ء میں حکومت برطانیہ کی مدد سے وہ اس عظیم الشان مسلم قوت کا شیرازہ بکھیرنے میں کامیاب ہوگئے تو عبد العزیز آل سعود نے ١٩٢٤ء میں انگریزوں کی فوجی اور سیاسی مدد و حمایت سے مکۃ المکرمہ اور مدینۃ المنورہ کو تاراج کیا، مثلاً اسلامی آثار، مسجدوں، مدرسوں، صحابہ کرام اور اہلِ بیت کے مزارات اور ان سے منسوب مکانات اور مساجد اور دیگر تبرکات کی بے حرمتی کی گئی، ان کو ڈھاکر ان پر گدھوں کے ہل چلائے گئے۔ طائف، مکۃ المکرمہ اور پھر مدینۃ المنورہ میں سیکڑوں کی تعداد میں علمائے کرام اور ہزاروں کی تعداد میں اہلِ سنت کو تہہ تیغ کیا گیا۔ حضرت علامہ مفتی عبد القیوم ہزاروی علیہ الرحمۃ کی تصنیف تاریخِ نجد و حجاز میں اس کی تفصیل دیکھی جاسکتی ہے۔ برطانیہ اور یورپ کی دیگر عیسائی حکومتوں کی سلطنتِ ترکیہ اور مسلمانوں کے خلاف اقدامات اور خفیہ سازشوں کی مزید تفصیل اس دور کے ایک برطانوی جاسوس ”ہمفرے کے انکشافات” نامی کتاب میں دیکھی جاسکتی ہے جو اول جرمنی کے جریدے ”سی گل” میں شائع ہوئی۔ پھر عربی میں ترجمہ ہوکر بیروت سے شائع ہوئی۔ پاکستان میں اس کا اردو ترجمہ ہوا۔
پہلی بار ١٢٢٠ھ میں نجدیوں نے ترکی صوبہ حجاز کے شہر طائف پر اچانک حملہ کیا، خلقِ خدا کو قتل کیا، حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی مسجد گرائی اور پھر وہاں سے محمد بن عبد الوہاب نجدی کا ایک مختصر رسالہ ”ردّ الاشراک” مکۃ المکرمہ ارسال کیا گیا کہ اہلِ مکہ اربعہ امام کا مذہب (جو بقول ان کے معاذ اللہ) مشرکوں کا مذہب ہے، چھوڑ کر نجدیوں کا مذہب اختیار کرلیں ورنہ جنگ کے لیے تیار ہوجائیں۔ اسی دوران (١٢٢١ھ میں) یہ مختصر رسالہ ”ردّ الاشراک” تمام ممالکِ اسلامیہ میں پہنچایا گیا، چنانچہ یہ ہندوستان بھی پہنچا اور حضرت شاہ عبد العزیز علیہ الرحمۃ کی حیات میں دہلی پہنچا اور مولوی اسماعیل نے جزوی ردّ و بدل کے ساتھ ”تقویت الایمان” کے نام سے شائع کیا۔ [٦]
یہ عجب اتفاق ہے کہ جس طرح نجدی کے رسالہ ”ردّ الاشراک” کا سب سے پہلا ردّ ان کے بھائی علامہ شیخ سلیمان بن عبد الوہاب نجدی نے ”الصوائق الالہیۃ فی ردّ علی الوہابیہ” علمی انداز میں لکھ کر کیا بالکل اسی طرح اسماعیل دہلوی کے چچا زاد بھائی حضرت مولانا مخصوص اللہ دہلوی اور حضرت مولانا شاہ محمد موسیٰ دہلوی نے ”معید الایمان” اور ”حجۃ العمل” کے نام سے تقویت الایمان کا ردّ لکھ کر کیااور وہ تقویت الایمان کو ”تفویت الایمان” یعنی ایمان کو فوت کرنے والی کتاب کہتے تھے۔ [٧]
حضرت علامہ مولانا فضل رسول بدایونی علیہ الرحمۃ کے استفسار پر مولانا مخصوص اللہ ابن مولانا شاہ رفیع الدین دہلوی علیہما الرحمۃ نے ”تحقیق الحقیقہ” کے نام سے ایک رسالہ تحریر فرمایا تھا جس کے مندرجات سے تقویت الایمان اور خود اس کے مصنف آنجہانی اسمٰعیل دہلوی کی حیثیت متعین ہوتی ہے۔ اس میں انہوں نے ایک سوال کے جواب میں لکھا ہے: ”میرے نزدیک اس کا رسالہ عمل نامہ برائی اور بگاڑ کا ہے اور بنانے والا فتنہ گر اور مفسد اور غاوی اور مغوی ہے۔” [٨] غالباً تقویت الاسلام کی اسی فتنہ انگیزی کی وجہ سے انگریزوں نے اس کی اشاعت اور مفت تقسیم میں حصہ لیا۔ (ملاحظہ ہو، مقالہ ڈاکٹریٹ عربی، ”العلامۃ فضل حق خیر آبادی، تحریر: ڈاکٹر قمر النساء، ناشر: عثمانیہ یونیورسٹی، حیدر آباد، دکن، ص: ٥٢) یہی نہیں بلکہ انگریزوں نے مسلمانانِ ہند کے دلوں سے محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے چراغ کو گل کردینے اور سوادِ اعظم کے پختہ دینی عقائد کو متزلزل اور اسلامی افکار کو تبدیل کرنے کے لیے ایک اسلام دشمن اسکیم کے تحت اسمٰعیل دہلوی کی جماعت سے بعض کرائے کے مولویوں کو ١٨٤٨ء میں پچاس پچاس روپے یا اس سے بھی زائد رقم دے کر اس کام پر مامور کیا کہ وہ مسلمانوں کے سوادِ اعظم میں انگریزی مشنری کی طرف سے تیار کردہ ایک ”اسلامی نصاب” کے مطابق قرآنی آیتوں اور احادیثِ مبارکہ کی من مانی تفسیر و تشریح سنا سناکر سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ اربعہ خصوصاً امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی محبت اور ان کی سچی پیروی کا جذبہ مسلمانوں کے دل سے محو کروائیں۔ انگریزوں کی اس نہایت سنگین اور خطرناک سازش کا انکشاف اس دور کے (١٨٤٨ء) کے ایک سنّی عالم مولانا سید اشرف علی، گلشن آبادی (ناسک، مہاراشٹر، انڈیا) نے اپنی ایک کتاب ”تحفہ محمدیہ”، مطبوعہ لیتھو برقی پریس، نئی سڑک، کانپور، ص:٣٢، ٣١ پر کیا ہے۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ کریں: محمد نجم مصطفائی، منزل کی تلاش، ناشر: ادارہ تحقیقاتِ اسلامیہ حنفیہ، فیصل آباد، پنجاب، ای۔میل: najamustafai@yahoo.com ، ص: ١٨ تا ٢٠)۔ انگریز اپنے اس مقصد میں کامیاب ہوگئے۔ انگریزوں کے تنخواہ دار مولویوں اور سید احمد بریلوی اور اسمٰعیل دہلوی جیسے جعلی پیروں کے ماننے والے جھوٹے پیرؤوں کی تبلیغ سے بے شمار مسلمانوں کے صحیح عقائد خراب ہوئے، پھر نئے اور پرانے عقائد والوں میں آپس میں جھگڑا فساد شروع ہوگئے۔ مسلمان مختلف گروہوں میں بٹ کر تتر بتر ہوگئے اور آج آپس کے ان جھگڑوں نے اس قدر شدت اختیار کرلی کہ کھلے عام ایک دوسرے کو قتل کرنے لگے، دلائل کی جگہ پستول اور بندوق نے لے لی۔ انگریز اور صیہونی طاقتیں جو چاہتی تھیں، وہ ہی ہوا۔ مسلمانوں کی اجتماعی قوت ختم ہوکر رہ گئی۔ یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ ہندوستان میں انگریزوں کو سب سے زیادہ خطرہ مسلمانوں سے ہی تھا۔ انہوں نے ان کے اندر اپنے ایجنٹوں سے خلفشار پیدا کرکے اس سے پورا فائدہ اٹھایا۔ مسلمان ١٨٥٧ء میں انگریزوں کے خلاف اپنوں کی غداری کے سبب ناکام رہے اور بعد میں حکومتِ برطانیہ کے خلاف جہاد کی جرأت نہ کرسکے۔
حضرت علامہ مفتی سید شاہ حسین گردیزی صاحب، اسماعیل دہلوی کی شخصیت کا ایک تجزیاتی اور نفسیاتی پسِ منظر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مسلمانانِ ہند میں انتشار و افتراق، فتنہ پردازی، ضرب و فساد اور گردن کشی (دہشت گردی) کی روایت دلی کے لال قلعہ کے اردگرد جامعہ مسجد دہلی سے شروع ہوتی ہے۔
”حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے یتیم پوتے شاہ اسمٰعیل دہلوی اس کام کے لیے استعمال ہوئے جو اپنے اعمام (چچا حضرات، مثلاً حضرت شاہ عبد العزیز محدثِ دہلوی، حضرت شاہ عبد القادر اور حضرت شاہ رفیع الدین رحمہم اللہ) سے کبیدہ خاطر تھے۔ بعض خانگی اور شخصی معاملات پر ناراضگی کو دیرپا بنانے کے لیے محمد بن عبد الوہاب نجدی کی متابعت میں ”تقویۃ الایمان” کے نام سے ایک اختلافی رسالہ لکھ کر میدان میں لے آئے جس میں انہوں نے بعض معمولی ”افکار و افعال” کو شرک اور حرام قرار دیا۔۔۔”
”اس طرح شاہ اسماعیل دہلوی نے اپنے علمی و دینی خاندان سے شخصی اختلاف کا بدلہ لے کر مسلمانوں کو سو سالہ غلامی کے اندھیرے میں دھکیل دیا گویا شاہ اسماعیل دہلوی نے مسلمانوں میں مذہبی منافرت پیدا کی جس سے مسلمان حکومت کمزور ہوئی اور ایک مقامی طاقت اور حکومتِ پنجاب کو کمزور کرکے انگریز کی گود میں ڈال دیا۔ بس ان کے دو ہی کارنامے ہیں۔” [٩]
مولوی اسمٰعیل دہلوی اور سید احمد بریلوی کی تحریک وہابیت کے تاریخی پسِ منظر اور برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے عقائد ان کی یکجہتی اور اتحاد و اتفاق پر اس کے مضمرات کے حوالے سے علامہ حضرت زید ابو الحسن فاروقی علیہ الرحمۃ کی مذکورہ معرکۃ الآراء تصنیف ”مولوی اسماعیل دہلوی اور تقویت الایمان” پر ماہر رضویات حضرت پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد نقشبندی صاحب نے ایک بھرپور مقدمہ تحریر کیا ہے اور برصغیر پاک و ہند میں اس تحریک کے اصل چہرہ اور ان کے کریہہ مقاصد پر بھرپور انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ اس کے مطالعہ سے اس بات کا احساس اجاگر ہوتا ہے کہ آج مسلمانانِ عالم کی زبوں حالی اور کسمپرسی کے اصل ذمہ دار کون لوگ ہیں۔
غرض کہ تاریخی تواتر اور شواہد سے یہ بات ثابت ہے کہ مولوی اسمٰعیل دہلوی اور ان کے جاہل پیر سید احمد بریلوی انگریزوں کے وفادار تھے۔ بقول سرسید احمد خاں علیگڑھی، ”سید احمد بریلوی اور شاہ صاحب (اسماعیل دہلوی) کی عملی زندگی سب پر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ لہٰذا ان حضرات کے انگریزوں سے جیسے اچھے تعلقات تھے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔” (ملاحظہ کیجئے: مقالاتِ سرسید، ص:٣١٩، حصہ شانزدھم، اس موضوع پر مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، منزل کی تلاش، مصنفہ: محمد نجم مصطفائی، مکتبہ تحقیقاتِ اسلامیہ حنفیہ، فیصل آباد، پاکستان، ص: ٦٥)
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ یہ وہ دور ہے جب مغلیہ حکومت کا چراغ ٹمٹمارہا ہے، عملاً انگریز پورے ہندوستان پر مسلط ہے، مگر پنجاب اور صوبہ سرحد پورے طور پر اس کے قابو میں نہیں ہے۔ پنجاب میں سکھ ایک طاقتور قوم اور انگریزی اقتدار کے حریف کے طور پر ابھر رہی ہے، اُدھر سرحد کے علاقہ میں غیور مسلمان پٹھان قبائل متحد ہوکر انگریزی اقتدارِ اعلیٰ کے لیے چیلنج بن رہے ہیں۔ فرنگی پریشان ہے کہ ان دونوں سے کیسے نمٹا جائے۔ اِدھر دہلی میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا خانوادہ ایک ایسا علمی خانوادہ ہے جس کا اثر و رسوخ عوام، علماء اور لال قلعے کے اندر مغل بادشاہ اور اس کے درباریوں پر بھی ہے لہٰذا انہوں نے اسی خانوادہ کے ایک فرد اسمٰعیل دہلوی کو مسلمانوں پر اثر و رسوخ ڈالنے کے لیے استعمال کیا کہ لوگ (مسلمان) ان کی بات سنیں گے اور اسے وہابیت کی تبلیغ کے لیے نہ صرف کھلی چھوٹ دی بلکہ وسائل بھی مہیا کیے۔ یہاں تک کہ ان کی کتاب ”تقویت الایمان” فورٹ ولیم کالج پریس، کلکتہ سے شائع کرکے مفت پورے ہند میں تقسیم کی گئی [١٠] اور پھر موصوف کو مسلمانانِ سرحد اور سکھوں کی قوت کو توڑنے اور منتشر کرنے کے لیے خوب اچھی طرح استعمال کیا۔ اگر اسمٰعیل دہلوی واقعی سکھوں سے جنگ کرنا چاہتے تو امرتسر کی طرف سے حملہ آور ہوتے نہ کہ سندھ اور بلوچستان سے گذر کر ہزاروں میل کا سفر طے کرکے سب سے پہلی جنگ یاغستان کے امیر یار محمد خان سے کرتے۔ (ملاحظہ ہو، تذکرۃ الرشید، ج:٢، ص:٣٧٠)
انگریزوں نے اس مہم میں اپنی عیارانہ سیاست سے تین مقاصد حاصل کیے:

 

واضح ہو کہ انگریز اپنی اس حکمت عملی (اسٹرٹیجی) میں بہت حد تک کامیاب رہا۔ چنانچہ ١٨٥٧ء کی جنگِ آزادی میں اسمٰعیل دہلوی کے پیروکار، جنہیں عرف عام میں وہابی اور انگریزوں کے بنائے ہوئے قانون کی اصطلاح میں ”محمدی” کہا جاتا ہے، انگریزوں کے حلیف اور مجاہدینِ جنگ آزادی کے حریف بنے، کچھ جو خاموش رہے، انہوں نے انگریزوں کی خفیہ سی۔آئی۔ڈی کی خدمات انجام دیں۔ جنگِ آزادی میں ناکامی کی جہاں اور وجوہ تھیں، ان میں ایک اہم وجہ اپنوں کی غداری بھی تھی۔ اس غداری کے عوض انگریزوں نے انہیں سیاسی، مالی اور قانونی تحفظ فراہم کیا جس کے مثال ایسے وقت میں جبکہ ایک طرف انگریز ہزاروں علماء حق کا قتلِ عام کررہا ہو اور سینکڑوں کی تعداد میں دینی مدارس کو بلڈوز کیا جارہا ہو، دیوبند میں (مقلد) وہابیوں کے لیے ایک مدرسہ کا قیام اور اس کی سالانہ مالی گرانٹ [١١] اور غیر مقلد وہابیوں کو ”وہابی” کہنے پر انگریزوں کی طرف سے قانونی پابندی اور ملک و بیرونِ ملک کے تبلیغی اسفار کے لیے ہر طرح کی سہولیات کی فراہمی ہے۔ [١٢] آگے چل کر ان ہی دیوبندی (مقلد) وہابی علماء کے فتاویٰ کی بنیاد پر فتنہئ انکارِ ختمِ نبوت نے سر اٹھایا اور اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قادیان (مشرقی پنجاب، انڈیا) سے انگریزوں کے ایک زرخرید غلام نے جھوٹی نبوت کا اعلان کرکے مسلمانانِ ہند کی جمعیت کو مزید کمزور کرنے کی کوشش کی۔ عجب اتفاق ہے کہ بساطِ تاریخ کے اسی منظر نامہ پر ٹھیک اسی عہد میں انگریزوں اور نجدیوں کی آپس کی ملی بھگت سے جبکہ سلطنتِ ترکیہ مغرب میں زوال پذیر ہورہی تھی، فلسطین کی مقدس سرزمین پر ایک یہودی اسٹیٹ کے قیام کا خفیہ منصوبہ رو بہ عمل آیا۔ انگریزوں نے غدار مسلمانوں کے تعاون سے مسلمانوں کے جسد میں دو اطراف سے ”قادیانیت” اور ”یہودیت” کے ایسے ناسور بنادیے ہیں جن کا اندمال بظاہر قیامت تک نظر نہیں آتا لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ وہ اہلِ اسلام کے لیے کوئی راہ پیدا فرمادے۔
ذرا محمد بن عبد الوہاب نجدی کے پیروکاروں اور ہندوستان میں نجدی تحریک کے بانی اسمٰعیل دہلوی کے پیروکاروں میں انگریزوں اور اسلام دشمن قوتوں کے ساتھ اشتراک عمل ملاحظہ!
کسے کہ لا الہ را در گرہ بست
زبندِ مکتب و ملّا بروں جست
بآں دین و بآں دانش مپرداز
کہ از مامی برد چشم و دلِ دوست
(اقبال)
ناقابلِ تردید تاریخی دستاویزات سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ انگریزوں نے اپنے غاصبانہ قبضہ کو قائم رکھنے اور جہاد کو روکنے کے لیے ایسے زرخرید مولوی تیار کئے جنہوں نے ہندوستان پر ان کے ناجائز تسلط کو مستحکم اور مضبوط کیا۔ یہ عمل جاہل پیر سید احمد بریلوی اور اس کے مرید جانی اور عظیم علمی و روحانی خانوادہئ دہلی، ولی اللّٰہی کی ناخلف و باغی اولاد شاہ اسمٰعیل دہلوی سے شروع ہوا اور مختلف مراحل سے گزرتا ہوا قیامِ پاکستان تک اور پھر اس کے بعد تیسرے مرحلے میں بھیس بدل کر لال مسجد کے واقعہ تک جاری رہا اور اب کہیں دہشت گردی اور کہیں پِٹرول و ڈالر (نجدی ایڈ) کی مدد سے دینی مدارس، غصب شدہ زمینوں پر سرعتِ رفتار سے تعمیر مسجد پروگرام تبلیغی اسفار اور چلوں کی صورت میں اور کہیں مزاراتِ اولیاء کے توڑ پھوڑ کے لبادے میں جاری ہے۔ ١٨٢٦ء سے لے کر آج تک برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش کے کروڑوں مسلمان ان نام نہاد وہابی مولویوں اور ان کی تبلیغی جماعت کے دامِ فریب میں مبتلا ہوکر گروہ در گروہ بٹ گئے۔ اس طرح ان دو ضمیر فروش نام نہاد مولویوں سید احمد بریلوی اور اسمٰعیل دہلوی کی تعلیم و تربیت اور تقریر و تحریر سے برصغیر میں فرقہ واریت کا آغاز ہوا۔ عالم ماکان و ما یکون مخبر صادق سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کے عین مطابق سرزمینِ نجد سے قرن الشیطان برآمد ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی نحوست نے مشرق و مغرب کے امن پسند علاقوں کو فتنہ و فساد اور قتل و غارتگری کی آماجگاہ بنادیا۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ تحریکِ پاکستان میں دیوبندی وہابیوں نے من حیث القوم (باستثناء چند) گاندھی اور کانگریس کی حمایت اور بابائے قوم جناب محمد علی جناب اور مسلم لیگ کی کھل کر مخالفت کی لیکن حیرت و استعجاب اس بات پر ہے کہ آج ان کے اخلاف یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ پاکستان کی تحریک کا ہراول دستہ علماء دیوبند تھے اور پاکستان کا قیام دیوبندی حضرات کی حمایت سے ہی رو بہ عمل ہوسکا اور بہت سے ایسے بھی کانگریسی اور احراری علماء پاکستان ہجرت کرکے آگئے جن کا تقسیمِ ہند سے قبل دعویٰ تھا کہ پاکستان پلیدستان ہے اور وہ اس کی ”پ” بھی نہیں بننے دیں گے۔ [١٣] ان علماء نے قیامِ پاکستان کے بعد اپنے گماشتوں کے ذریعہ حکومت کے مختلف محکموں میں رسوخ حاصل کیا اور ایوانِ حکومت تک رسائی حاصل کرکے مراعات وصول کیں۔ اپنے مدارس کے لیے مفت زمینیں حاصل کیں، غصب شدہ زمین پر مساجد تعمیر کیں اور اہلِ سنت کے مساجد پر ڈنڈوں اور بندوق کے زور پر فتنہ و فساد مچاکر قبضہ کیا گیا۔ اس سلسلے میں جماعتِ اسلامی بھی جو خود مسلکاً وہابی ہیں، دیوبندیوں سے پیچھے نہ رہی۔ ١٩٨٨ء میں ہمارے ادارہ کے فائنانس سیکریٹری جناب منظور حسین جیلانی صاحب نے کراچی شہر کے پارکوں میں غصب شدہ زمین پر تعمیر شدہ سو (١٠٠) مساجد کا ایک جائزہ مرتب کیا تھا۔ اس وقت کراچی شہر کی میونسپلٹی کے سربراہ جماعت اسلامی کے آنجہانی لیڈر عبدالستار افغانی صاحب تھے۔ تقریباً اَسّی فیصد مساجد کا تعلق دیوبندی مسلک، پندرہ فیصد کا جماعتِ اسلامی اور پانچ فیصد کا اہلِ حدیث مسلک سے تھا۔ ان مساجد میں اہلِ سنت کی ایک مسجد بھی نہیں تھی۔ بعض علاقوں میں اہلِ سنت و جماعت کی چند مساجد (تین یا چار) پارک سے ملحقہ زمین پر بنی ہوئی تھیں۔ وہاں کی انتظامیہ نے کراچی کے میئر آنجہانی عبد الستار افغانی کو تحریری درخواست دی تھی کہ ان کی مساجد بہت چھوٹی ہیں، نمازیوں کو تکلیف ہوتی ہے۔ اگر پارک کا کچھ حصہ (تقریباً ١٠٠/ ٢٠٠مربع گز) الاٹ کردیا جائے تو نمازیوں کو سہولت ہوجائے گی۔ تو ان کو جواب دیا گیا کہ پارک کی جگہ مسجد تعمیر نہیں ہوسکتی۔ اس سے اہلِ سنت کے خلاف بغض و عناد کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ لہٰذا ملک میں مذہبی و مسلکی معاملات میں جبر اور شدت پسندی کو فروغ ملنے لگا۔ اِدھر یونیورسٹیوں اور کالجوں میں جماعتِ اسلامی کی طلبہ تنظیم نے ”تھنڈر اسکواڈ” کے نام سے دہشت گردی کو پہلی بار متعارف کرایا۔ پھر الیاسی تبلیغی جماعت کا طریقہئ ارشاد والدعوۃ، دیوبندی وہابیوں کی اس شدت پسندی میں مزید اضافے کا سبب بنی۔ اخباری خبروں کے مطابق تبلیغی جماعت کے اجتماع میں متعدد بار ایسے واقعات ہوئے کہ بھولے بھالے سنّی پہلی بار ان کے دامِ تذویر میں پھنس کر رائے ونڈ کے اجتماع میں گئے۔ حسبِ عادت جوش میں آکر انہوں نے ”یارسول اللہ”(صلی اللہ علیہ وسلم) کا نعرہ لگایا تو نہ صرف ان کو روکا گیا بلکہ اس ”شرک” کے بدلے میں انہیں الٹا لٹکا کر مارا پیٹا گیا۔
سید احمد بریلوی اور اسمٰعیل دہلوی نے وہابیت کے جو زہریلے جراثیم اپنے دور میں صوبہئ سرحد اور اردگرد کے دوسرے علاقوں میں چھوڑے تھے، قیامِ پاکستان کے بعد دیوبندی علماء اور ان کی تبلیغی جماعت نے ان سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے پورے ملک پاکستان بالخصوص صوبہ سرحد اور بلوچستان کی فضاؤں کو پوری طرح مسموم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس سلسلہ میں سب سے زیادہ پذیرائی انہیں صوبہئ سرحد میں ملی۔ وہیں سے عسکریت پسندی، تشدد اور دہشت گردی کا مزاج وہابی مدارس اور تبلیغی جماعتوں کی تعلیم و تربیت سے عام اور سادہ مسلمانوں میں در آیا۔ اہلسنّت کی مساجد و مدارس پر جبر و تشدد کے ذریعہ قبضہ ہونے لگا۔ بے شمار اولیاء کرام کے مزارات کو زمین بوس کیا گیا۔ بہت سوں کا نام و نشان بھی مٹادیا گیا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں افغانستان میں روس کے خلاف جہاد شروع ہوا۔ بے شمار خاندان ہجرت کرکے پاکستان، صوبہ سرحد اور صوبہئ بلوچستان کے علاقہ میں آگئے۔ دیوبندی اور تبلیغی علماء صدر ضیاء الحق کے بہت قریب تھے۔ انہوں نے صدر کی تائید سے اپنے مدارس کے دروازے افغانی طلباء پر کھول دیے۔ یہ مدارس میں تعلیم حاصل کرتے، پھر علاقہئ غیر میں عسکری تربیت حاصل کرتے اور بعدہ، افغانستان جاکر جہاد میں شریک ہوجاتے۔ ان علماء دیوبند میں لال مسجد اسلام آباد کے مولوی عبد اللہ، ضیاء الحق کے بہت قریب تھے۔ انہوں نے اس جنگ میں ضیاء الحق صاحب کے ساتھ بھرپور تعاون کیا۔ انہوں نے خود بھی عسکری تربیت حاصل کی اور اپنے صاحبزادگان عبد الرشید اور عبد العزیز کو بھی عسکری تربیت دلوائی مجاہدینِ افغانستان اور حکومت پاکستان کے درمیان ایک طرح کے رابطہ (Liasoning) کی خدمات بھی انجام دیں۔ جب ضیاء الحق کے بعد افغانستان میں طالبان کا دور آیا تو یہ ان کے ساتھ ہوگئے۔ ملٹری انٹیلی جنس دیگر حکومتی خفیہ ایجنسیز سے ان کے ٹھیک ٹھاک تعلقات استوار ہوئے۔ یہیں سے ان کی زندگی میں نیا موڑ آیا۔ آنجہانی مولوی عبد اللہ کے حکومتی حلقوں اور حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (ق) دونوں میں ہمدرد اور دوست بھی پیدا ہوگئے۔ مولوی عبد اللہ نہایت متعصب، متشدد اور غالی قسم کے وہابی تھے، اہلِ سنت کے خلاف بالعموم اور شیعوں کے خلاف بالخصوص جارحانہ تقاریر کرتے تھے اور غالباً اسی پاداش میں اپنے ”لال قلعے” یعنی لال مسجد کے صدر دروازے کے سامنے گولی کا نشانہ بن کر ہلاک ہوئے۔
ان کی ہلاکت کے بعد ان کے بڑے صاحبزادے مولوی عبد العزیز نے ان کی جگہ لے لی اور اپنے چھوٹے بھائی عبد الرشید کو جنہیں مولوی عبد اللہ نے اپنی زندگی میں ان کی ناشائستہ اور غیر اسلامی حرکتوں کی بناء پر عاق کررکھا تھا، اپنا دستِ راست بنایا۔ دونوں بھائیوں نے اپنے والد کے قتل کا بدلہ لینے کی قسم کھائی اور اپنے نام کے آگے لفظ ”غازی” کا اضافہ کیا۔
اسی دوران جنرل پرویز مشرف کی حکومت آگئی اور پھر ٩/١١ کے واقعہ کے بعد حکومتِ پاکستان نے افغانستان کی طالبان حکومت کی حمایت سے دستبرداری کا اعلان کرتے ہوئے اپنی خارجہ پالیسی کو یوٹرن دیا اور دہشت گردی کے خلاف امریکہ اور یورپین برادری کی مکمل حمایت کا یقین دلایا۔ اس پسِ منظر میں ملٹری انٹیلی جنس اور دیگر حکومتی خفیہ ایجنسیوں کے سربراہان بھی تبدیل کیے گئے جس سے ”غازی” برادران کے لیے مشکلات کا آغاز ہوا۔ مولوی عبد العزیز پر اسلحہ کی اسمگلنگ کے سلسلے میں متعدد مقامات قائم ہوئے، اس سلسلے میں رنگے ہاتھوں پکڑے بھی گئے۔ لیکن چونکہ حکومتی حلقوں اور خفیہ اداروں کی نچلی سطح پر ان کے ہم درد موجود تھے، اس لیے یہ گرفتاری سے گریز کرتے ہوئے لال مسجد میں قلعہ بند ہوگئے اور پھر باہر نہیں آئے تاآنکہ لال مسجد پر پولیس ایکشن کے وقت برقعہ پہن کر فرار ہوتے ہوئے گرفتار ہوئے۔
مولوی عبد العزیز حکومتِ وقت کی دہشت گردوں اور مقامی اور بیرونی طالبان کے خلاف فوجی مہم اور اپنے اوپر دہشت گردی و ناجائز اسلحہ کی اسمگلنگ کے سلسلہ میں قائم شدہ متعدد مقدمات سے سخت نالاں اور برہم تھے لہٰذا انہوں نے حکومتِ وقت بالخصوص جنرل پرویز مشرف پر دباؤ ڈالنے کے لیے اسلامی شریعت کے نفاذ کا مطالبہ شروع کردیا تاکہ عوام الناس کو یہ باور کرایا جاسکے کہ ان پر جو دہشت گردی اسلحہ کی ذخیرہ اندوزی اور اس کی بیرونِ ملک سے اسمگلنگ کے جو الزامات حکومت کی طرف لگائے گئے ہیں، وہ ان کی شریعتِ اسلامی کے نفاذ کے لیے جدوجہد اور مطالبہ کی بنیاد کی پاداش میں لگائے گئے ہیں۔ ”غازی برادران” نے ایک نہایت منظم اور منضبط طریقہ پر حکومت وقت کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز کیا اور مسجد اور اس سے ملحقہ مدرسہ حفصہ کے تقدس کی آڑ میں اسلحہ کی ذخیرہ اندوزی اور طلباء اور نمازیوں کے بھیس میں مسلح دہشت گردوں کی آمد و رفت کا سلسلہ تیز سے تیز تر کیا۔ لال مسجد کو لال قلعہ میں تبدیل کردیا گیا۔ افسوسناک اور باعثِ شرم امر یہ ہے کہ اپنے ذاتی مفاد میں معصوم طلباء و طالبات کو استعمال کیا گیا، غصب شدہ زمینوں پر اسلحہ کے زور پر دن دھاڑے قبضہ کرکے مساجد و مدرسہ قائم کئے گئے۔ طالبات کی ایک ڈنڈا بردار فوج بنائی گئی جس نے غازی برادران کے نفاذِ اسلام اور غصب شدہ زمینوں پر مساجد بنوانے کا مطالبہ منوانے کے لیے مدرسہ حفصہ سے ملحقہ حکومت کی قائم کردہ چلڈرن لائبریری پر راتوں رات قبضہ کرلیا۔ لال مسجد کی حفاظت کے نام پر اس کے اطراف میں طلباء کے بھیس میں کلاشنکوف بردار دہشت گردوں کا پہرہ مقرر کیا گیا۔ رفتہ رفتہ یہ حال ہوگیا کہ لال مسجد اور مدرسہ حفصہ کے اطراف کی سڑکوں سے کوئی فرد پا پیادہ یا کار/ اسکوٹر سوار بغیر تلاشی دیئے گذر نہیں سکتا تھا۔ حتیٰ کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افراد کو بھی گذرنے نہیں دیا جاتا تھا۔ رفتہ رفتہ مولوی عبد العزیز کی ہمتیں بڑھیں، پولیس اور رینجرز کے افراد کو اپنے فرائض کی ادائیگی کے سلسلہ میں اس علاقہ میں راہ چلتے ڈنڈوں اور کلاشنکوف کی بٹوں سے زد و کوب کرکے اغوا کیا جانے لگا۔ حکومتی جماعت میں ان کے ہم مسلک اور ہمدرد افراد جو وفاق المدارس (دیوبندی مدارس کے الحاق کا وفاق) کے علماء اور تبلیغی جماعت کے زیرِ اثر ہیں، ہمیشہ آڑے آتے رہے اور غازی برادران کے خلاف کسی قسم کے قانونی اقدام سے گریز کیا جاتا رہا۔ غازی برادران حکومتی حلقوں اور خفیہ ایجنسیوں میں اپنے ہمدردوں کی پسِ پردہ حمایت پر اس قدر پُر اعتماد تھے کہ وہ سمجھتے تھے کہ ان کے خلاف کوئی پولیس ایکشن نہیں کیا جاسکے گا اور وہ حکومت پر دباؤ کے ان ہتھکنڈوں سے نہ صرف اپنے اوپر قائم مقدمات سے خلاصی حاصل کرلیں گے بلکہ غصب شدہ زمین پر مساجد اور مدرسوں کی صورت میں انہوں نے جو اپنی ذاتی جائیدادیں بنائی تھیں وہ بھی مفت میں ان کے حوالے کردی جائیں گی نیز یہ کہ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ جو بھی اسلام آباد میں آئندہ حکومت آئے گی وہ مساجد، مدارس کی تعمیر و توسیع، اسلامی شریعت کے نفاذ کے لیے شرعی نکات کی تشریح و توضیح اور دارالحکومت اسلام آباد میں امن و امان کے سلسلہ میں ”غازی برادران” اور ان کی ”ملیشیا” سے مصالحت کی محتاج رہے گی۔ ”لال مسجد” پر ١٠/جولائی ٢٠٠٧ء کے پولیس ایکشن سے قبل پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں جو حالات تھے وہ آج سے تقریباً پونے دو سو سال قبل (١٨٢٥ء) کے مغل سلطنت کے دارالحکومت دلّی سے ملتے جلتے تھے۔ بادشاہِ وقت کی حکومت کی عملداری لال قلعہ کے اطراف تک محدود ہوچکی تھی۔ انگریز پورے ہندوستان پر عملی تسلط حاصل کرچکا تھا۔ دلّی کے اردگرد جاٹ اور مرہٹہ اور سکھوں کے دہشت گرد دندناتے پھرتے تھے۔ رات کو شب خون مارتے، دن دہاڑے جس کو چاہے لوٹ لیتے، جسے چاہے اغوا کرلیتے اور بادشاہِ وقت کے عمال سے تاوان الگ وصول کرتے رہتے تھے۔ دلّی کے لال قلعہ کے اردگرد یہی حالات اور ماحول تھے جس سے انگریزوں کی ایما پر مولوی اسمٰعیل دہلوی نے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ اگر وہ دلّی میں بیٹھ کر اپنی تبلیغی کوششوں میں کامیاب ہوجاتے اور مرتدین اہلِ سنت (وہابیوں) کی ایک جماعت ان کے ساتھ ہوجاتی اور بادشاہِ وقت ان کا مسلک اختیار کرلیتا تو ان کا سلوک اور اگلا قدم اسی جہاد کا ہوتا جو محمد بن عبد الوہاب نجدی نے عامۃ المسلمین کے ساتھ کیا۔ یعنی ان کے عقیدہ و مسلک سے اختلاف رکھنے والوں کا قتلِ عام اور ان کی عزت و آبرو اور مال و متاع کی بربادی۔ لیکن چونکہ اس وقت دلّی میں جیّد علمائے وقت بشمول ”شہید لیلٰیِ نجد” اسمٰعیل دہلوی کے محترم چچا حضرت شاہ عبد العزیز محدث بریلوی علیہم الرحمۃ موجود تھے اور عامۃ المسلمین کی غالب اکثریت متصلب قسم کی سنی المذہب تھی نیز بادشاہِ وقت خود متصلب قسم کا سنّی تھا لہٰذا بادشاہی مسجد میں خانوادہئ ولی اللّٰہی اور دلّی کے دیگر جیّد علماءِ اہلِ سنت کے ساتھ مناظرہ میں شکست کے بعد اسمٰعیل دہلوی نے انگریزوں کے مشورے پر بہار، بنگال اور کرناٹک کا رخ کیا جہاں انہوں نے اپنے عقیدے کی تبلیغ اور سکھوں سے جہاد کے لیے عامۃ المسلمین کو تشویق و ترغیب دینے کے ساتھ ساتھ انگریزوں سے وفادار رہنے اور ان کے خلاف جہاد نہ کرنے بلکہ ان کی طرف سے ان کی حمایت میں جہاد کرنے کے بھی فتوے دیئے۔[١٤]
غرض کہ عبد العزیز غازی اس دور میں اسلام آباد میں اسی اسمٰعیلی نجدی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے سرگرم تھے۔ وہ دارالحکومت اسلام آباد کو آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے زمانے کا دلّی بنانا چاہتے تھے جہاں چاروں طرف انارکی پھیلی ہوئی تھی اور حکومت کی رٹ ختم ہوچکی تھی۔ اس سے فائدہ اٹھاکر وہ سید احمد بریلوی کی طرح ایک وہابی اسٹیٹ کا ”امیر المومنین” بننے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کا حشر ١٨٣٢ء میں بالاکوٹ میں ہونے والے واقعہ سے زیادہ عبرتناک بنادیا۔ سید احمد بریلوی اور اسمٰعیل دہلوی کی تو انگریزوں نے حمایت کی اور مالی و فوجی تعاون کیا۔ [١٥] لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ”برقع برادران” اور لال مسجد کے دہشت گردوں کی پشت پناہ کون سی طاقت تھی یا اب بھی ہے؟ یہی بات سمجھنے اور سمجھانے کی ہے! یہ جدید اسلحہ جات (Sophisticated Weapons) پاکستان میں نہیں بنتے۔ روس، امریکہ اور یورپ میں بنتے ہیں، وہیں سے خریدے جارہے ہیں اور یہ نہایت مہنگے داموں پر ملتے ہیں۔ چونکہ یہی اسلحے پاکستان کی افواج کے پاس بھی ہیں تو ہمیں معلوم ہے کہ یہ کس قدر مہنگے ہیں۔ ان اسلحہ جات کی خریداری کے لیے ایک طاقتور فائنانسر کی بھی ضرورت ہے۔ آخر بلین ڈالر کہاں سے آرہے ہیں؟ سوال ٹیڑھا ہے لیکن جواب بالکل آسان اور سیدھا سادھا۔ محمد بن عبد الوہاب نجدی اور اسمٰعیل دہلوی کے وقت میں فرنگی (برطانیہ) سپرپاور تھا۔ وہی ان کے لائحہ عمل کا منصوبہ بندی کرنے والا اور وہی ان کا فائنانسر بھی تھا۔ برطانوی جاسوس ”ہمفرے کے انکشافات” نامی کتاب میں اس کی ساری تفصیل دیکھی جاسکتی ہے۔ آج کے دور میں سپرپاور امریکہ ہے جس کا دوسرا نام ”صیہونی لابی” ہے۔ آج یہی صیہونی لابی مسلمان ملکوں بشمول پاکستان میں ہمارے اندر کے منافقین کے ذریعہ دہشت گردی، فرقہ واریت اور تشدد پسندی کو فروغ و ترغیب دینے کی کوشش کررہی ہے اور اپنے مقاصد کے حصول کی تکمیل کے لیے اسلحہ اور فنڈ بھی مہیا کررہی ہے۔ یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے!
اُس وقت سلطنتِ ترکیہ مسلمانوں کی عظیم اور طاقتور سلطنت تھی۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ وہ ایک سنّی اسٹیٹ تھی۔ اس کے جتنے سربراہ (خلیفہ) گذرے ہیں، وہ سب آقا و مولیٰ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی نعل پاک اپنے سروں پر لے کر چلنے والے تھے۔
دشمنانِ اسلام بالخصوص صیہونی فکر والوں کو سب سے زیادہ بغض اور نفرت ان مسلمانوں سے ہے جو نبی کریم سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدسہ سے وارفتگانہ لگاؤ اور آپ کی محبت میں فدا کارانہ جذبہ رکھتے ہیں۔ ایسے افراد پر مشتمل قوم بزورِ شمشیر بھی زیر نہیں کی جاسکتی۔ لہٰذا اس کا توڑ انہوں نے ابلیسی نظریہ سے سیکھا کہ ان کے دلوں سے حُبِّ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو نکالدو پھر ان سے جو چاہو کروالو، جو چاہو لکھوالو۔ لیکن ایسی تعلیم اور ایسے نظریات کو عام کون کرے گا؟ ایک منافق ہی ایسی جسارت کرسکتا ہے۔ سلطنت ترکیہ کے زوال کے لیے فرنگیوں نے محمد بن عبد الوہاب نجدی اور اس کے پیروکاروں کو منتخب کرکے استعمال کیا اور ہندوستان میں مسلمانوں میں انتشار و افتراق کے لیے انہوں نے رائے بریلی کے ایک قزاق ١٦؎ اور جعلی و جاہل پیر سید احمد بریلوی اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمۃ کی ناخلف اولاد مولوی اسمٰعیل دہلوی کو استعمال کیا اور اپنے ”حسنِ انتخاب” پر دشمنانِ اسلام سے داد لی۔
دورِ حاضر میں مسلم ممالک میں پاکستان واحد ملک ہے جو اسلام کے نام پر قائم ہوا اور آج فوجی بالخصوص جوہری توانائی کے اعتبار سے تمام مسلم ممالک میں سب سے زیادہ طاقتور تسلیم کیا جاتا ہے۔ پھر اس ملک کی اکثریت اپنے نبی و آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ محبت رکھتی ہے۔ اس لیے دشمنانِ اسلام کی نظر میں یہ کھٹک رہا ہے۔ اگرچہ اس کا ایک بازو ١٩٧١ء میں ”صیہونی لابی” کی سازشوں کی بدولت ہم سے الگ کردیا گیا لیکن بحمداللہ! آج بھی پاکستان اپنے خطہ کا مضبوط ترین ملک ہے۔ صیہونی لابی اب عراق اور افغانستان کے بعد (معاذ اللہ) ہمارے پیارے ملک کے اندر خلفشار پیدا کرنے اور اسے دولخت کرنے کی منصوبہ بندی کرتی نظر آرہی ہے۔ لال مسجد کا واقعہ اسی سازش کی ایک کڑی ہے۔ اس کے لیے آج پھر اسمٰعیل دہلوی تحریک کے کارکنان اسے مل گئے ہیں۔ لال مسجد ایپی سوڈ (Episode) سو فیصد اسمٰعیل دہلوی کے نظریات کو مسلط کرنے کی ایک تحریک تھی جو اب صوبہئ سرحد کے دور دراز علاقہئ غیر تک پھیل چکی ہے جس کا مقصد اسلام آباد سمیت پورے صوبہئ سرحد میں ایک وہابی اسٹیٹ کا قیام ہے۔ اس صوبہ میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت کے قیام کا امریکہ کی طرف سے خیر مقدم بھی اسی مہم کا ایک حصہ ہے۔ گویا پاکستان کے اندر ایک وہابی اسٹیٹ کے قیام کی ریہرسل ہورہی ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح عراق میں صیہونی لابی نے بظاہر اس ملک کو تقسیم نہ کرنے کے اعلان کے باوجود شمالی عراق میں ایک سوشلسٹ کرد اسٹیٹ قائم کردی ہے اور بقیہ ملک کو سنّی اور شیعہ حصوں میں تقسیم کردیا ہے۔ حالانکہ کُرد خود بھی مذہباً سنّی ہیں۔
”لال مسجد” کا سانحہ ہمارے لیے ایک وارننگ ہے۔ پاکستان کی بقا اور مسلم ممالک کے اتحاد و اتفاق کے لیے ایک ہی راستہ ہے اور وہ اپنے نبی پاک آقا و مولیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی نسبتوں کی استواری اور ان کی سچی اطاعت و پیروی اور ان تمام باطل عقائد و نظریات کے ترک کا جو عقیدہئ توحید کی تعلیم کی آڑ میں ہمیں سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی تمام نسبتیں منقطع کرنے کی ترغیب دیتے ہیں اور سرکارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا گستاخ اور نافرمان بناکر ہماری دنیا و آخرت برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
اس دنیائے فانی میں آنے کے مقاصد کی تکمیل اور یہاں سے کامیابی و کامرانی سے کوچ کرنے کا ایک یہی راستہ ہے جس کی نشاندہی عصرِ حاضر میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدثِ بریلوی علیہ الرحمۃ نے یوں فرمائی ہے ؎
انہیں جانا، انہیں مانا، نہ رکھا غیر سے کام
للہ الحمد میں دنیا سے مسلمان گیا
یا بقولے علامہ اقبال:
بمصطفیٰ برساں خویش را کردیں ہمہ اوست
اگر باو نہ رسیدی تمام بولہبی است
سیاسی و فوجی مقاصد:
لال مسجد سانحہ سے قبل گذشتہ ٦ماہ کے دوران لال مسجد کی انتظامیہ کی طرف سے میڈیا انٹرویو اور اخباری بیانات کے ذریعہ بار بار یہ بات کہی گئی کہ ان کے کوئی سیاسی و فوجی مقاصد نہیں ہیں، وہ صرف حکومت کی غلط پالیسیوں کی اصلاح، معاشرے کا سدھار چاہتے ہیں۔ چونکہ گذشتہ کئی برسوں سے حکومت نے ان کی بات نہیں سنی اور شریعت کا مکمل نفاذ نہ کرکے آئینِ پاکستان کی خلاف ورزی کی ہے، معاشرے کے بگڑے ہوئے افراد نے ان کے طلباء و طالبات کے بار بار کے انتباہ کے باوجود انہوں نے فحاشی و بے حیائی کے خلاف اپنا رویہ نہیں بدلا اس لیے ارشادِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں بزورِ طاقت شریعت کا نافذ کرنا اور معاشرے سے برائیوں کو ختم کرنا ان پر فرض ہوگیا ہے اور وہ یہ کام کر گذریں گے۔ ظاہر ہے کہ لال مسجد کی برقع پوش انتظامیہ کے اس بیان سے اور وفاق المدارس سے وابستہ علماء و اساتذہ کی طرف سے ان کے مطالبے کی مکمل تائید سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ ان حضرات کے سیاسی اور فوجی دونوں عزائم تھے (اور اب بھی ہیں) اور وہ ملک خصوصاً دارالحکومت اسلام آباد کی مرکزی جگہ پر قبضہ جماکر، معاشرے میں انتشار پھیلاکر اور لوگوں کو اغواء کے واقعات اور اسلحہ کی نمائش سے خوف زدہ و دہشت زدہ کرکے اپنے ان عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتے تھے۔
اس کی تائید اور دستاویزی شہادت ان دو کتابچوں سے بھی ہوتی ہے جو لال مسجد انتظامیہ نے اپریل ٢٠٠٧ء میں شائع کیے تھے جس کا انکشاف معروف صحافی اور اخبار ”جنگ” کے کالم نگار جناب حامد میر نے مذکورہ اخبار کی ٢/اگست کی اشاعت میں ”قول و فعل کا تضاد” کے عنوان کے تحت کیا ہے۔ اس کالم میں موصوف نے ملک کے جید دیوبندی علماء اور ان کے ہم مسلک فرقہ ”جماعتِ اسلامی” کے امیرترین ”امیر” جناب قاضی حسین احمد صاحب کے لال مسجد میں محصور دہشت گردوں اور ان کے سردار ”برقع برادران” کے ساتھ منافقانہ رویہ کا ذکر کیا ہے۔ حامد میر صاحب کو یہ کتابچے لال مسجد کے نائب خطیب نے اس وقت دیئے تھے جب اپریل ٢٠٠٧ء میں ان کا انٹرویو لینے وہاں گئے تھے۔ ان میں ایک کتابچہ پاکستان میں اسلامی نظام کے عملی نفاذ سے متعلق ”تحریک طلباء و طالبات” کے عنوان سے تھا اور دوسرا کتابچہ ”تحریک طلباء طالبات کے مقاصد” کے بارے میں تھا۔ اس کتابچے میں ملک بھر کے معروف ٨٨دیوبندی علماء کے ناموں کی ایک فہرست شائع ہوئی جنہوں نے ”برقع” برادران اور لال مسجد کے طلباء و طالبات کے مطالبات اور لائحہ عمل کی مکمل حمایت کا اعلان کیا تھا۔ لیکن جناب حامد میر صاحب نے غالباً بعض مصلحتوں کی وجہ سے یا شاید اخبار جنگ نے اپنی پالیسی کے تحت صرف ١٨علماء کے نام کالم میں درج کیے ہیں، ٧٠ناموں کو حذف کردیا گیا ہے۔ اس کتابچے میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ ١٥/فروری ٢٠٠٧ء کو قاضی حسین احمد صاحب لال مسجد آئے اور انہوں نے مسجد میں موجود طلباء کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے نفلی اعتکاف کیا اور طلباء کو اپنی حمایت کا یقین دلایا۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ جو حضرات بڑی راتوں مثلاً لیلۃ القدر، لیلۃ الاسریٰ وغیرہ میں مسجدوں میں نفلی اعتکاف اور شب بیداری کو بدعت سیّہ قرار دیتے نہیں تھکتے، وہ لال مسجد میں نفلی اعتکاف کے ثواب کا زبردستی مزہ لوٹنے جارہے ہیں۔ پھر ”الاعمال بالنّیات” کے تحت اگر واقعی قاضی صاحب اعتکاف کی ہی نیت سے گئے تھے تو صرف اعتکاف کرکے واپس آجاتے اور سیاسی مذاکرات نہ کرتے۔ جب دُنیوی سیاسی مقصد کی تکمیل کی خاطر ”برقع” برادران سے محوِ گفتگو ہوگئے تو اب اعتکاف کیسا اور اس کا ثواب کیسا؟ کاش کہ قاضی صاحب نے مجددِ عصر حضور مفتئ اعظم مصطفی رضا خاں نوری قدس سرہ، جیسے بزرگوں کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا ہوتا تو انہیں آدابِ بندگی سے آگاہی ہوتی۔ ایک طرف آپ نے کائنات کے سردار اور ہمارے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو معاذ اللہ ”عرب کے ایک چرواہے” کا لقب دینے والے پیروکار کا عمل ملاحظہ کیا۔ اب دوسری طرف ایک رہبرِ شریعت و طریقت، مجدد وقت، مفتی اعظم محمد مصطفی رضا خاں قادری برکاتی نوری علیہ الرحمۃ والرضوان کی اپنے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ مبارکہ کی پیروی کا حال سنیں، اپنے ایمان کو جِلا بخشیں اور شریعت کا مسئلہ بھی سمجھ لیں۔ ایک مرتبہ آپ حرم شریف میں بعد طواف بیٹھے ذکر اذکار فرمارہے تھے کہ ایک صاحب نے انہیں زمزم شریف نوش کرنے کے لیے پیش کیا۔ آپ نے جزاک اللہ فرمایا اور فوراً گلاس لے کر مسجدِ حرام کے دروازے کے باہر تشریف لے گئے، زمزم شریف پیا، پھر واپس تشریف لاکر اپنی نشست پر تشریف فرما ہوگئے۔ زمزم لانے والے صاحب نے دریافت کیا حضرت آپ نے اتنی زحمت کیوں فرمائی، یہیں زمزم شریف پی لیتے۔ آپ نے فرمایا، بات یہ تھی کہ میں نے مسجد شریف میں داخل ہوتے وقت سنّتِ اعتکاف کی نیت نہ کی تھی، اس لیے باہر جاکر زمزم شریف پیا اور اب اعتکاف کی نیت کرکے آیا۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بات نہیں، آپ اعتکاف کی نیت فرمالیتے، پھر یہیں زمزم شریف پی لیتے۔ آپ نے فرمایا کہ آپ نے جس وقت زمزم شریف پیش کیا مجھے سخت پیاس لگی تھی اگر اب میں اعتکاف کی نیت کرتا تو اصل نیت تو پیاس بجھانے کی ہوتی، اعتکاف کا اجر نہ ملتا چونکہ پیاس بجھانے کی خاطر ایسا کرتا جبکہ اعتکاف خالصاً لوجہ اللہ ہوتا ہے۔
قاضی صاحب! یہ آدابِ بندگی و زندگی وہی حضراتِ قدس سکھاسکتے ہیں جو اہل اللہ ہیں، جو شریعت و طریقت دونوں کے مجمع البحرین ہوتے ہیں، جو لوگ اپنے ذاتی اور سیاسی مقاصد کی تکمیل اور جان و مال کی حفاظت کی خاطر ہمہ وقت مسلح دستوں اور ڈنڈا بردار پولیس کے حلقوں میں گھرے ہوتے ہیں، وہ خود اپنے عمل سے اپنے مجرم ہونے اور اللہ مالک و مولیٰ کی ذات پر ایمان کامل نہ ہونے کے مُقِر ہوتے ہیں، وہ انسانیت دشمن ہیں۔ وہ خود کو اور اپنے پیروکاروں کو ہلاکت میں ڈالنے والے ہوتے ہیں، یہ بھٹکے ہوئے کسی کی کیا رہبری و رہنمائی کرسکیں گے؟ ؎
ادھر آ ہر قدم پر حسنِ منزل تجھ کو دکھلادوں
فلک کو یاس سے منزل بہ منزل دیکھنے والے
تعجب ہے کہ جناب قاضی صاحب برس ہا برس حضرت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی صاحب کی صحبت میں رہے اور انہیں ببانگِ دہل اپنا امام اور پیر و رہنما کہتے رہے لیکن نہ آدابِ فرزندی سیکھے نہ بندگی کا سلیقہ۔ شاید وہاں بھی اپنے گروہ کی روایتی پالیسی مداہنت و منافقت کا شکار رہے۔
غصب شدہ زمین پر تعمیر مدرسہ و مسجد:
لال مسجد کرائسس کے دوران ”برقع برادران” اور ان کے حمایتی دیوبندی فرقہ کے علماء کی طرف سے دیگر مطالبات کے علاوہ جو اہم مطالبہ سامنے آیا اور جو اس کرائسس کے سنگین تر ہونے کا فوری سبب بھی بنا، وہ ان آٹھ مساجد کی تعمیر نو اور ان کا لال مسجد کی انتظامیہ کے حوالے کرنا تھا جو سی۔ڈی۔اے (Capital Development Authority) نے اس بنا پر گرادی تھیں کہ وہ غصب شدہ زمین پر ناجائز طریقہ پر بنائی گئی تھیں۔
لال مسجد وہ مسجد ہے جو اسلام آباد میں غالباً ١٩٦٠ء/ ١٩٦١ء میں صدر ایوب خاں کے دور میں سرکاری طور پر بنائی گئی تھی جب شروع شروع دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوا تھا۔ یہ مسجد محکمہ اوقاف کی تحویل میں تھی، امام و خطیب کی وہاں ضرورت تھی۔ اس زمانے میں پیر دیول شریف مرحوم کو صدر ایوب خاں کا بڑا قرب حاصل تھا۔ مشہور یہی ہے کہ وہ صدر ایوب کے پیر تھے۔ ”برقع برادران” کے ابا جان عبد اللہ ایک عام سے غیر معروف دیوبندی مولوی تھے، بے روزگار بھی تھے۔ لال مسجد اسلام آباد کی مرکزی جامع مسجد تھی لہٰذا ایک پلاننگ کے تحت ان کو پیر دیول شریف مرحوم سے مرید کرایا گیا۔ موصوف ان کے آگے پیچھے خادم کی طرح رہنے لگے۔ مداہنت اور منافقت کا لبادہ اوڑھ کر خود کو سنّی ظاہر کرتے تھے۔ پیر صاحب کی ذکر و فکر اور میلاد شریف کی محفل میں شریک ہوکر تمام معمولات ادا کرتے تھے۔ عبد اللہ صاحب نے پیر صاحب سے سفارش کی حضرت میں بیروزگار ہوں، آپ صدر ایوب سے کہہ کر لال مسجد کی امامت و خطابت دلوادیں۔ پیر دیول شریف مرحوم سیدھے سادے انسان تھے وہ انہیں پہچانے نہیں، ان کی سفارش کردی اور یہ لال مسجد کی مسندِ امامت و خطابت پر مامور ہوگئے۔ پھر انہوں نے صدر مملکت کے حضور رسوخ حاصل کرلیا، محکمہ اوقاف میں بھی دخیل ہوگئے۔ گریڈ پر گریڈ بڑھواتے رہے۔ صدر ایوب کی برطرفی کے بعد بلّی تھیلے سے باہر آگئی۔ اب کھل کر اپنے عقیدہئ مسلک کی تبلیغ کرنے لگے۔ صدر ضیاء الحق کے زمانے میں ان کے بھاگ کھل گئے۔ افغانستان پر روسی حملہ کے بعد صدر ضیاء الحق نے امریکہ کی شہ پر وہاں کے مجاہدین کے حمایت میں پاکستانی فوج بھیجنے کے بجائے یہاں سے مجاہدین بھیجنے کا فیصلہ کیا تو مولوی عبد اللہ صاحب صدر ضیاء الحق کے ہر طرح سے کام آئے۔ پہلے علماء سے جہاد کے حق میں فتویٰ لیا، افغان مہاجرین کے طلباء (طالبان) کا پاکستان کے تمام بڑے دیوبندی مدارس میں داخلہ کا بندوبست کیا، ان کی تعلیم و تربیت کے علاوہ ان کی ”جہادی” تربیت کی ذمہ داری بھی نبھائی، اسلحہ کی کھیپ کی کھیپ ان کے پاس آنے جانے لگی۔ ضیاء الحق صاحب ان سے بہت خوش ہوگئے اور انہیں ان ”خدماتِ جلیلہ” کے صلہ میں خوب خوب نوازا۔ پھر صدر ضیاء الحق کے بعد جتنی بھی حکومتیں اور صدور آئے، ان کو اپنی افغان پالیسی کی حمایت کے لیے عبد اللہ صاحب کی ضرورت رہی۔
اس دوران چونکہ ان کے عسکری اور خفیہ ایجنسیوں کی اعلیٰ شخصیات سے روابط مضبوط ہوگئے، انہوں نے لال مسجد کی حدود کو ملحقہ غصب شدہ زمین پر وسیع سے وسیع تر کرکے اپنی جائیداد بنانا شروع کردی۔ مدرسہ حفصہ محکمہئ تعلیم کو الاٹ شدہ وسیع و عریض رقبہ کی غصب شدہ زمین پر قائم کیا گیا اور اس کی چھ منزلہ عمارت قلعہ کی طرز پر بنائی گئی۔ اس طور پر موجودہ حکومت کی خفیہ رپورٹ کے مطابق اسلام آباد اور اس کے اطراف میں ان کے ٢٨مدارس اور لال مسجد کے علاوہ آٹھ دیگر مساجد ان کے قبضہئ اثر میں آگئی تھیں۔ کشمیر میں وہابی جہادی تنظیموں، لشکرِ طیبہ، حرکۃ المجاہدین، حرکۃ الانصار، جیش محمدی وغیرہم کی طرف سے نام نہاد جہادِ کشمیر میں حصہ لینے اور افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد ان کے رابطے مذکورہ وہابی جہادی تنظیموں اور طالبان افغانی حکومت سے مزید مضبوط ہوگئے۔اب طالبان مجاہدین کی کھلے بندوں ان کے پاس آمد و رفت شروع ہوگئی۔ کشمیر میں جہاد کرنے والی کالعدم وہابی تنظیمیں اپنے مجاہدین کو فوجی تربیت کے لیے افغانستان بھیجنے لگیں۔ آنجہانی مولوی عبد اللہ اور ان کے ساتھیوں کو ایک طرف ان وہابی جہادی تنظیموں کی حمایت حاصل ہوگئی تو دوسری طرف ان تنظیموں کو پاکستان کے دارالحکومت کے عین قلب میں لال مسجد کی صورت میں ایک پناہ گاہ میسر آگئی۔ ان جہادی تنظیموں کا پاکستان کو تباہ و برباد کرنے کا کیا منشور تھا، اس کے لیے ملاحظہ ہو، روزنامہ ”پاکستان”، لاہور، مورخہ ٩/نومبر ١٩٩٦ء، اور ماہنامہ ”اہلِ سنت” گجرات، ماہِ دسمبر ١٩٩٨ئ۔ مثال کے لیے صرف ایک کالعدم جہادی تنظیم ”لشکرِ طیبہ” کے مقاصد کی، جس کا فوجی ہیڈ کوارٹر مریدکے میں ہوا کرتا تھا، ایک رپورٹ ملاحظہ ہو:
”آج پاکستان بھر میں سنی مسلمانوں کو کشمیر کے جہاد کے بہانے لشکرِ طیبہ، حرکۃ المجاہدین، حرکۃ الانصار، حزب المجاہدین، تحریک المجاہدین، البدر، جیش محمد اور دیگر وہابی تنظیموں میں شامل کیا جارہا ہے۔ حالانکہ یہ وہ تنظیمیں ہیں جن کے بڑوں نے انگریزوں کے خلاف جہاد سے منع کیا اور ہندوؤں کا بھرپور ساتھ دیا۔ آج وہابی دیوبندی تنظیمیں جہاد کے نام پر ہندوستان کو اپنا دشمن ظاہر کررہی ہیں۔ ذرا سوچئے اگر یہ واقعی دشمن ہیں تو پھر بھارتی حکومت اپنے دشمنوں کے عالمی مرکز مدرسہ دیوبند کا محاصرہ کیوں نہیں کرتی؟ دہلی کی جامع مسجد کے دیوبندی امام بخاری کو گرفتار کیوں نہیں کرتی؟ دہلی میں تبلیغی جماعت کے عالمی مرکز کو مسمار کیوں نہیں کرتی؟ کیا یہ ساری حقیقتیں انڈین حکومت کے علم میں نہیں ہیں؟ یقینا ہیں مگر ایسا سب کچھ مسلمانوں کو دھوکہ دینے اور ہندو اور یہودکے پاؤں مضبوط کرنے کے لیے کیا جارہا ہے۔ اب یہ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ ان حقائق کو جاننے کے بعد ان کے بناوٹی جہاد سے دور رہیں۔۔۔۔”
”ملک کو مکمل تہس نہس کرنے اور یہاں نیا دین، نئی شریعت اور نیا کلچر رائج کرنے کے لیے مذہب کے نام پر ایک دہشت گرد عسکری تنظیم خفیہ طور پر مکمل تیاری میں مصروف ہے جو منافقت اور دھوکہ فریب کے پردوں اور جعلی جہادِ کشمیر کے لبادوں میں لپٹی اپنی تیاری مکمل کررہی ہے۔ اس دہشت گرد تنظیم کا نام لشکرِ طیبہ ہے اور ”مرید کے” میں اس کا ہیڈ کوارٹر ہے جس کی سرپرستی بعض بیرونِ ملک کی ایجنسیاں کررہی ہیں۔ اس تنظیم کے مقاصد کا خلاصہ حسبِ ذیل ہے:

 

[خصوصی نوٹ: اس کی زندہ مثال تبلیغی جماعت کے اجتماع میں شرکت کے لیے افواجِ پاکستان کے تینوں شعبے، آرمی، ائیرفورس اور نیوی کے جوانوں اور افسروں کو نہ صرف فری ہینڈ دینا بلکہ ان کو اجتماع میں شرکت کے لیے تبلیغی وہابی افسروں کی طرف سے باقاعدہ تشویق و ترغیب دینا اور ٹرانسپورٹ مہیا کرنا ہے۔ لیکن کوئی جوان سنّی تبلیغی جماعت ”دعوتِ اسلامی” کے اجتماع میں اگر چھٹی لے کر بھی جانا چاہے تو اس کے خلاف فوجی تنظیمی قوائد کی خلاف ورزی کی شق لگاکر تادیبی کاروائی کی دھمکی دینا، اسی طرح کراچی کی ایک ائیربیس (Air Base) میں ایک سینئر آفیسر کے لیے اپنا ہیڈکوارٹر چھوڑ کر نہ جانے کی پابندی ان کے ایک تبلیغی کمانڈنگ آفیسر نے اس لیے لگادی تھی کہ وہ ایک اعلیٰ پایہ کے سنّی عالمِ دین اور مفتی تھے اور میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلسوں میں فی سبیل اللہ خطاب فرماتے تھے۔ فوج میں فرقہ پرستی اور تعصب کی ایک اور مثال کارساز پر بخاری شاہ صاحب علیہ الرحمۃ کے مزار سے متصل مسجد اور مدرسہ پر، جو گذشتہ ٢٥سال سے قائم تھا، راتوں رات قبضہ اور پھر مدرسہ کو نیوی کی تحویل میں دینے کے بجائے شہر کی ایک متعصب وہابی تنظیم ”عالمگیر ویلفیئر ٹرسٹ” کی انتظامیہ کے حوالہ کرنا ہے۔ اسی طرح ملیر کینٹ بازار میں اہلِ سنت کی ایک نیک فیاض خاتون کی اپنے پیسوں سے تعمیر شدہ مسجد پر دیوبندی کمانڈنگ آفیسر کی طرف سے جبراً قبضہ کرکے آرمی انتظامیہ کے حوالے کرنا اور پھر وہاں دیوبندی مسلک کے خطیب و امام کی تقرری ہے۔ یہ صرف چند مثالیں ہیں، ایسی سیکڑوں مثالیں دی جاسکتی ہیں۔]

 

(ملاحظہ کیجئے، ماہنامہ ”اہلِ سنت” گجرات، ص: ٥،٦،٧، ماہِ دسمبر ١٩٩٨ء)
اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے محترم محمد نجم مصطفائی تحریر کرتے ہیں:
”مسلمانو! مذکورہ رپورٹ کو جان لینے کے بعد یہ حقیقت کھل کر واضح ہوجاتی ہے کہ وہابیوں کے نام نہاد جہادی اور عسکری تنظیم لشکرِ طیبہ (اور دیگر تنظیمیں بھی) جب اپنے مقاصد کو حاصل کرلے گی (کرلیں گی) تو اس پاک سرزمین پر کیسی اندھیری رات ہوگی کہ جس کے منحوس سائے ہر سمت پھیل چکے ہوں گے۔ ذرا اس دن کو تصور میں لایئے خدانخواستہ اس دھرتی پر سنی اور وہابی بنیادوں پر جنگ چھڑ گئی تو کون سا گھر اور کون سا قومی ادارہ ہے جو اس خون ریز تصادم سے محفوظ رہے گا۔ حکومتِ وقت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس خطرناک ناسور پر قابو پائے۔ اگر خدانخواستہ یہ خوفناک معاملہ ہاتھوں سے نکل گیا تو پھر اس ملک کی آنے والی نسلیں روزِ محشر تک حکومتِ وقت کی لاپرواہی اور چشم پوشی کا ماتم کرتی رہیں گی اور اس کا تمام تر وبال بروزِ محشر حکومت کی گردن پر آسکتا ہے۔ [١٧] (اس سلسلہ میں آج جو صوبہ سرحد کے علاقہ پارا چنار میں باقاعدہ مسلح دیوبندی اور شیعہ تصادم ہورہا ہے اور جس میں ایک سو سے زیادہ جانیں اب تک ضائع ہوچکی اور املاک کا نقصان الگ حتیٰ کہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز سے بھی مسلح طرفین کو قابو میں کرنا مشکل ہورہا ہے، ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے)۔
لال مسجد کے مولوی عبد اللہ اور ان کے بیٹے (برقعہ برادران) انہی تنظیموں کے آلہئ کار تھے۔ لال مسجد کالعدم دہشت گرد تنظیموں کے جہادیوں کا مرکز بن گئی تھی۔ دوسرے الفاظ میں گویا لال مسجد اب لال قلعے میں تبدیل ہوگئی تھی۔ ساتھ ہی ساتھ مولوی عبد اللہ کی زبان و بیان میں شدت آگئی۔ ان کی ہر تقریر اور جمعہ کا ہر خطاب فرقہ وارانہ رنگ کا ہوتا، اہلِ سنت و جماعت کے عقائد و نظریات پر حملہ کرتے کرتے، انہوں نے اپنا رخ اہل التشیع کی طرف موڑ دیا۔ حکمراں طبقہ، عسکری اور خفیہ ایجنسیوں کی اعلیٰ شخصیات سے رابطوں نے ان کو متکبر بھی بنادیا تھا۔ خود اپنے فرقہ کے معتدل مزاج لوگوں کا مشورہ بھی رد کردیتے تھے۔ چنانچہ فرقہ واریت کی جو آگ انہوں نے لگائی تھی، ایک دن خود اسی میں جل کر بھسم ہوگئے۔ کلاشنکوف بردار پہریداروں کے جھرمٹ میں رہتے ہوئے بھی قتل کردیئے گئے۔ شاید ان کی فتنہ پروری کی وجہ سے حکومتِ وقت نے بھی ان کے قتل کا زیادہ نوٹس نہیں لیا۔
مولوی عبد اللہ کے قتل کے بعد ان کے بڑے بیٹے مولوی عبد العزیز صاحب (شاگردِ رشید و مرید خاص جناب مفتی رفیع عثمانی صاحب) جانشین بنے۔ انہوں نے اپنے بھائی عبد الرشید کو جن کو ان کے ابا جان نے ان کی غیر شرعی حرکتوں کی وجہ سے گھر سے نکال دیا تھا اور عاق کررکھا تھا، معافی تلافی کرکے اپنے پاس بلالیا۔ اب دونوں برادران نے اپنے ابّا کے نام کے آگے ”شہید” اور خود اپنے نام کے آگے ”غازی” کا لاحقہ لگالیا اور ان کی چھوڑی ہوئی کروڑوں کی جائیداد کے مالک بن بیٹھے، حالآنکہ یہ ان کے گھر، دفتر، مساجد، مدرسے، یہ سب کے سب غصب شدہ زمین پر تعمیرہ شدہ ہیں اور ان کی تعمیر پر ان کے ”اباجان” کی جیب سے ایک پیسہ بھی خرچ نہیں ہوا بلکہ یہ سب پبلک کا پیسہ ہے جو زکوٰۃ، خیرات اور عطیات کے بطور وصول کیا گیا تھا۔ ان کو اپنے ”پیارے ابا جان” کے ناگہانی قتل پر آنجہانی ہونے کا بڑا صدمہ اور ان کے قاتلوں کی عدم گرفتاری پر شدید غصہ تو تھا ہی، اس لیے انہوں نے اپنے بزرگوں کے مشورہ سے نفاذِ شریعہ کی آڑ میں ایک ایسی اسٹریٹجی اپنائی جس سے پہلے تو دارالحکومت کے نظم و ضبط کو مفلوج کرکے اس پر قبضہ کرنے کی کوشش کی جاتی، پھر سارے ملک کی دوسرے مسالک کی مساجد، مدارس، خانقاہوں اور مزارات پر قبضہ کرکے ملک میں فرقہ وارانہ فساد اور سول وار کی کیفیت پیدا کی جاتی اور جب ملک میں انارکی پیدا ہونے کی صورت میں حکومت کی رٹ کمزور ہوجاتی تو اسلام آباد سے لے کر علاقہئ غیر تک کے علاقوں کو اپنے عسکری تربیت یافتہ دہشت گرد جتھوں کی مدد سے قبضہ کرکے سعودی طرز پر ایک ”خالص اسلامی” حکومت کے قیام کا اعلان کیا جاتا جس کے ”امیر” اور ”نائب امیر” بلکہ ”آمر” اور ”نائب آمر” یہ دونوں ”غازی امرائ” ہوتے۔ لیکن چونکہ یہ دونوں ”برقع برادران” اپنے ”پیارے ابا جان” کے ناگہانی آنجہانی ہونے پر شدید غم و غصہ کی بناء پر سائیکی (نفسیاتی مریض) ہوگئے اور جلد بازی میں وہ کربیٹھے جو انہیں نہیں کرنا چاہئے تھا یعنی پوری عسکری تیاری کے بغیر اپنے اسلحوں کی برسر عام نمائش اور پھر پاکستان کی طاقتور سکیورٹی فورسز سے دو دو ہاتھ کر بیٹھے، نتیجتاً وہ تو اپنی جان سے گئے لیکن اپنے پیچھے اپنی دس سالہ منصوبہ بندی کے شریک بزرگوں، بالخصوص وفاق المدارس کے رہنماؤں اور بالعموم اپنی پوری قوم کو ہکّا بکّا اور رنجیدہ کرگئے۔ (نوٹ:یہ نہیں پتا چل سکا کہ یہ بزرگ اپنے اخلاف کی اس حرکت پر شرمندہ بھی ہوئے کہ نہیں)۔
ابھی جب کہ لال مسجد کا گھیراؤ چل رہا تھا اور پھر اس پر سے دہشت گردوں کے خاتمہ کے بعد بھی دو سوالات علماء سے بار بار دریافت کیے گئے، الیکٹرونک میڈیا پر بھی اور پرنٹ میڈیا میں بھی۔

 

پہلے سوال کا جواب اہلِ سنت کے علماء نے یہ دیا کہ شرعاً ایسا کرنا ناجائز ہے۔ ایسا کرنے والا نہ صرف گنہگار ہوگا بلکہ ایسی مسجد میں جو لوگ نماز پڑھیں یا پڑھائیں گے، ان کی نمازیں باطل ہوں گی اور جو پڑھے یا پڑھائے اس پر نماز کا اعادہ اور توبہ واجب۔ اس پر انہوں نے کتب فقہ سے دلائل دیئے اور صدر اول سے مثالیں دیں۔
لیکن جن علمائے دیوبند سے یہ سوال کیا گیا، الا ماشاء اللہ تقریباً سب نے اس کے اصل جواب سے گریز کرتے ہوئے آئیں بائیں شائیں کرکے یہ ثابت کیا کہ ”مسجد و مدرسہ کے سلسلہ میں ایسا کرنا ناجائز نہیں ہے۔ ہاں البتہ کوئی اپنی ذاتی ملکیت بنانے کے لیے اسے استعمال نہیں کرسکتا۔ ”برقع برادران” اور ان کے ”پیارے آنجہانی ابا جان” نے جن قطعات پر مساجد و مدارس بنائے وہ تو ویرانہ اور بیکار زمینیں (Barren Lands) تھیں۔ اس کا انہوں نے صحیح استعمال کیا۔ دیکھئے جی اللہ تبارک و تعالیٰ نے تو تمام کرہ ارض کو مسلمانوں کے لیے مسجد قرار دیدیا ہے۔ بالفرض وہ زمین حکومت کی بھی ملکیت ہے تو زیادہ سے زیادہ اس سے عوامی ملکیت ثابت ہوتی ہے، ایسی زمینیں حکومت عوام کی فلاح کے لیے استعمال کرتی ہے۔ مسجد و مدرسہ سے بڑھ کر عوام کی فلاح کا کیا کام ہوسکتا ہے؟ ہاں زمین اگر کسی کی ذاتی ملکیت ہو تو اس پر زبردستی قبضہ کرکے مسجد کی تعمیر بیشک ناجائز ہوگی۔ لیکن کوئی یہ ثابت نہیں کرسکتا کہ ہمارے ان تینوں ”مجاہدینِ اسلام” (یعنی برقع برادران اور ان کے پیارے ابا جان) نے کسی شخص کی ذاتی ملکیت کو زبردستی قبضہ کرکے مسجد یا مدرسہ بنایا ہو۔ گورنمنٹ نے مدرسہ حفصہ کو قبضہ کرنے کے بعد اس لیے ڈھادیا کہ یہ محکمہ تعلیم کی زمین تھی تو ان ”مجاہدین” نے بھی تعلیم گاہ بنائی تھی جہاں بچوں اور بچیوں کو مفت تعلیم دی جارہی تھی، کوئی فائیو اسٹار ہوٹل تو نہیں بنایا تھا جہاں عیش و عشرت کے حرام مواقع مہیا کرکے لوگوں سے کمایا جارہا ہو۔” ایک مولوی صاحب نے ایک ٹی وی پروگرام میں زچ ہوکر کہا کہ کیا ہوا اگر ان تینوں ”محترم دین کے علمبرداروں” نے نادانی سے سی۔ڈی۔اے کی زمین پر مسجدیں اور مدرسے بنا بھی لیے تھے تو سی۔ڈی۔اے کی انتظامیہ تو اندھی نہ تھی، کیا وہ نہیں دیکھ رہی تھی ایک نیک اور فلاحی کام ہورہا ہے، اس کو مفت میں الاٹ کرکے ریگولرائز کردیتی۔ آخر یہ اختیار تو ان کو حاصل تھا اور ہے۔ اگر کسی صاحب کے فتوے کے مطابق ان مسجدوں میں نمازیں باطل تھیں تو اب صحیح ہوجائیں گی اور جو لوگ پڑھ چکے ہیں ان کو دہرانے کی ضرورت نہیں پڑے گی، اس کا الاٹمنٹ یا ریگولرائیزیشن سجدہئ سہو کی مانند ہے۔”
قارئین کرام! ملاحظہ فرمائیں کہ سوال کیا ہے اور یہ مفتیانِ دیوبند جواب کیا عطا فرمارہے ہیں! اس کو کہتے ہیں ”مارو گھٹنا، پھوٹے آنکھ”۔ لیکن لوگ اب اتنے بے وقوف نہیں کہ سچ اور جھوٹ میں تمیز نہ کرسکیں۔ انہوں نے بلکہ دنیا کے لاکھوں کروڑوں لوگوں نے جن میں مسلمان، ہندو، سکھ، عیسائی، یہودی، پارسی سبھی شامل ہیں، اپنی آنکھوں سے ٹیلیویژن اسکرین پر دیکھا ہے کہ دارالعلوم دیوبند کے دو بڑے مفتیوں نے اپنا سابقہ فتویٰ رشوت لے کر بدل دیا اور نیا لکھ کر دیدیا۔ گویا زبانِ حال سے کہہ رہے ہوں کہ ”حضرت مستفتی صاحب ہم دیوبند والے اصل نسل، جدّی پشتی مفتی ہیں، مفتے نہیں ہیں کہ آپ کو مفت میں فتویٰ دیدیں، پیسے لاؤ جونسا چاہو فتویٰ لے لو جس قدر زیادہ گڑ ڈالوگے اتنا زیادہ میٹھا ہوگا اور خبردار کسی سے شکایت نہ کرنا۔ ہم دارالعلوم دیوبند کے مفتی ہیں، دنیا میں ہماری دھاک ہے، تمہاری کوئی نہ سنے گا، ذلیل ہوگے۔”
دوسرے سوال کے جواب میں علماءِ اہلسنّت کا جواب بالکل صاف اور واضح تھا کہ اسلامی حکومت کے فرائض میں ہے کہ سرحدوں پر اگر بیرونی دشمن حملہ کرے تو اس کے خلاف جنگ کرے۔ اس دوران جو بھی فوجی مارا جائے گا، وہ شہید ہوگا اور دشمن حرام موت مرے گا۔ اسی طرح اگر مملکت کے اندرونی دشمن ملک کے اندر بغاوت کریں یا فتنہ و فساد پیدا کریں اور اگر ان کو روکا اور سمجھایا جائے تو اسلامی فوج پر حملہ آور ہوں تو فوج پر لازم ہے کہ ان کی بیخ کنی کرے اور امن و امان قائم کرے۔ اس فرض کی ادائیگی میں جو فوجی جاں بحق ہوگا، وہ شہید ہے اور جو باغی مارا جائے گا وہ حرام موت مرے گا۔ لال مسجد کے جو دہشت گرد ہلاک ہوئے، حرام موت مرے اور افواجِ پاکستان اور سیکیورٹی فورسز کے جو جوان اس ایکشن میں جاں بحق ہوئے، وہ بلاشبہ شہید ہیں۔ البتہ اس لڑائی میں دو طرفہ گولیوں کی زد میں جو معصوم طالب علم اور طالبات جنہیں دہشت گردوں نے یرغمال بنایا ہوا تھا، وہ بے گناہ مارے گئے، وہ بھی شہید کہلائیں گے۔ علمائے دیوبند میں سے اس سوال کے دو جواب آئے۔ بعض نے لال مسجد کے دہشت گردوں کو ”مجاہد” قرار دے کر کہ اسلامی نظام کے نفاذ اور مسجد کے دفاع کی خاطر ”جہاد” کررہے تھے، شہید قرار دیا اور افواجِ پاکستان اور سیکورٹی فورسز کے جاں بحق ہونے والے نوجوانوں کو حرام موت کا مرتکب قرار دیا۔ دوسرے لوگوں نے جس میں مفتی رفیع عثمانی صاحب بھی شامل ہیں، نہایت گول مول جواب دیا۔ مفتی رفیع عثمانی کا جواب جو روزنامہ جنگ، ١١/جولائی ٢٠٠٧ء، ص:١٧ پر شائع ہوا، وہ ملاحظہ ہو:
”لال مسجد آپریشن میں فریقین کی طرف سے جاں بحق ہونے والے افراد کو شہید قرار دیا جاسکتا ہے، اس کا انحصار ان کی نیت پر ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ لال مسجد کے اندر جاں بحق ہونے والوں کی نیت کیا ہے، اگر وہ اس نیت کے ساتھ لڑرہے تھے کہ اللہ تعالیٰ اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو بچایا جائے، غیر اسلامی اقدام کو روکا جائے تو اس حوالے سے رائے کا مختلف ہونا معنی نہیں رکھتا ہے، وہ شخص شہید ہے اسی طرح سے سیکیورٹی فورسز میں شامل اہل کاروں کی نیت کو دیکھنا ہوگا۔ اگر وہ اس نیت کے ساتھ آپریشن میں شریک تھے کہ مسجد اور مدرسے میں موجود لوگ ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہیں جو شرعاً صحیح نہیں تو وہ شہید قرار پائیں گے لیکن اگر وہ ملازم کے طور تنخواہ کے عوض کاروائی میں شریک تھے تو شہید نہیں ہوں گے، جہنمی ہوں گے۔”

 

اس تجزیہ کا مدعا یہ بتانا مقصود ہے کہ یہ کسی ایک مسجد یا مدرسہ کا معاملہ نہیں اور نہ کوئی جزوقتی حادثہ ہے بلکہ یہ ایک طویل المدت سوچے سمجھنے منصوبہ کی بات ہے جس کا مقصد پاکستان کے اندر ایک نجدی حکومت کا قیام ہے اور پاکستان کی حساس فوجی تنصیبات بالخصوص جوہری تنصیبات پر قبضہ ہے اور ظاہر ہے اس کے پسِ پردہ ہنود اور صیہونی لابی ہے۔ خواہ اس کے لیے پاکستان کو توڑنا ہی کیوں نہ پڑے۔ اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ جب حکومتِ پاکستان کے وزیر مذہبی امور جناب اعجاز الحق نے حرم کعبہ شریف کے امام صاحب جناب علامہ الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمن السدیس بن عبد العزیز کو پاکستان آنے کی دعوت دی کہ وہ یہاں آکر اپنے ہم مسلک شدت پسند لال مسجد کے خطیب و امام ”عبد العزیز برقع” کو سمجھائیں اور اسے دہشت گردی اور عسکریت پسندی سے روکیں۔ تو ان کی پاکستان آمد پر ”برقع برادران” کی طرف سے ایک بیان تمام اخبارات میں آیا تھا کہ ”اگر صدر پرویز مشرف سعودی مہمان مکرم شیخ حرم کو پاکستان کا صدر بنادیں تو ہم اپنے مطالبات اور رویوں سے دستبردار ہوجائیں گے۔” حالانکہ کسی غیر ملکی کو اپنے ملک کے صدر بننے کی دعوت دینا کس قدر ملک دشمنی اور غداری کی بات ہے۔ سوال یہ ہے کہ ”برقع برادران” نے نجدی حکومت کے ایک مجبور و محصور ملازم کو صدر بنانے کی بات کیوں کی؟ ملائشیا کے مہاتیر محمد صاحب جو کہ ملائشیا کے قابل ترین حکمران رہے ہیں، ان کا نام کیوں نہیں لیا؟ وہ اپنے ملک کے قابل ترین حکمران گذرے ہیں، آدابِ حکمرانی و جہاں بانی سے اچھی طرح واقف ہیں، جنوبی مشرقی ایشیا میں ملائشیا کو فوجی اور معاشی اعتبار سے طاقتور ملک بنانے میں ان کا بہت بڑا حصہ ہے۔ مزید یہ کہ وہ امریکہ، یورپین ممالک کی استعماری طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گفتگو کرنے کے عادی ہیں اور عالمی پیمانے پر مسلم ممالک کے فوجی اور اقتصادی اتحاد کے داعی ہیں، ان کے مقابلہ پر نجدی حکومت کے مذکورہ مجبورِ محض ملازم امام کی کیا حیثیت ہے جو بے چارہ اپنی مرضی سے اپنے الفاظ میں جمعہ و عیدین کا خطبہ بھی دینے کا مجاز نہ ہو؟ لیکن محترم مہاتیر محمد صاحب اس لیے پسند نہیں آئیں گے کہ وہ سنّی ہیں، عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم دھوم دھام سے سے مناتے ہیں اور ملائشیا میں یوں بھی سرکاری طور پر یومِ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم جشن کے طور پر منایا جاتا ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر ”صالح نیت” کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر پاکستان کے بیس ہزار سے زیادہ دینی مدارس اور لاکھوں مساجد میں اسلحوں کا ڈھیر لگ جائے اور ان میں تعلیم حاصل کرنے والے تقریباً بیس لاکھ طلباء ہاتھوں میں کلاشنکوف اور مشین گنیں لے کر اپنے مطالبات منوانے کے لیے سڑکوں پر آجائیں تو ملک میں لوٹ مار، فتنہ و فساد، خون خرابے کو کون روک سکے گا اور ملک کی سا لمیت کیسے باقی رہ سکے گی؟
بریں عقل و دانش بباید گریخت
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں۔ سچ کہا، علامہ اقبال نے ایسے ہی لوگوں کے لیے ؎
نماند آں تاب و تب در خونِ نابش
نروید لالہ از کِشتِ خرابش
نیامِ او تہی چوں کیسہ او
بطاقِ خانہ ویراں کتابش
ہم دنیائے اسلام کے حکمرانوں بالخصوص پاکستان کے اربابِ حل و عقد سے بھی یہ مؤدبانہ گذارش کرتے ہیں کہ وہ ان تمام حقائق کا بغور اور بحیثیت آقا و مولیٰ سید عالم نورِ مجسم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک وفادار امّتی کے، مشاہدہ کریں اور مسلکی و مذہبی تعصب یا فرقہ وارانہ تنگ نظری سے بلند ہوکر سوچیں کہ وہ دانستہ یا غیر دانستہ طور پر کس کے آلہ کار بن رہے ہیں۔ نام نہاد ”روشن خیالی” کے بجائے احکامِ الٰہی اور سنتِ مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رہبر و رہنما بنائیں، اپنا دین و ایمان بچائیں اور مملکتِ خداداد پاکستان کے کروڑوں مسلمانوں کے دین و ایمان اور عقیدہ صالحہ و صحیحہ کی حفاظت کا فریضہ انجام دیں۔ یہ ان کی انفرادی، ملی اور منصبی ذمہ داری بھی ہے، ورنہ دنیا و آخرت دونوں میں اللہ کی گرفت سے نہ بچ سکیں گے۔ اگر ان حکمرانوں نے آج اپنی ایمانی اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ناقابلِ تسخیر قوت سے کام لے کر اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اٹھنے والے فتنوں کا پامردی سے مقابلہ نہ کیا تو کل تاریخ سے ان کا نام و نشان بھی مٹ جائے گا اور اپنی قبر کی اندھیری کوٹھریوں میں اپنے کئے کی عبرتناک سزا بھگت رہے ہوں گے۔ ان کی قبروں کے نشان بھی مٹ جائیں گے۔ انہیں یاد ہونا چاہئے کہ آج بھی ہمارے وہ صالح حکمراں جنہوں نے دشمنانِ اسلام کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے چراغ مسلمانوں کے دلوں سے بجھنے اور شعائرِ اسلام کو مٹنے سے بچایا۔ مثلاً صلاح الدین ایوبی، نور الدین زنگی، محمد بن قاسم، شہاب الدین غوری، اوررنگ زیب عالمگیر علیہم الرحمۃ وغیرہم اپنے عظیم کارناموں کی وجہ سے زندہ ہیں۔ صبحِ قیامت تک ان کا نام عقیدت و محبت سے لیا جاتا رہے گا۔ اب بھی موقعہ ہے کہ ہمارے حکمران ہوش کے ناخن لیں اور توبہ کرکے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے وفادار غلام بن کر حق و انصاف اور عدل واحسان سے کام لیں۔ ملک میں نظامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نافذ کرکے اپنی منصبی اور ایمانی ذمّہ داری نبھائیں۔
آج لے ان کی پناہ، آج مدد مانگ ان سے
پھر نہ مانیں گے قیامت میں اگر مان گیا
اس موقع پر ہم دیوبندی، اہلحدیث اور جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے سنجیدہ، غیر جانبدار، حق پسند، حق گو اور امتِ مسلمہ کا درد رکھنے والے اصحاب فکر ونظر اور اربابان علم وتحقیق سے بھی گزارش کرتے ہیں کہ آپ ان تمام بیان کردہ حقائق کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لیں۔ برطانوی جاسوس ہمفرے کے انکشافات کی روشنی میں مسلم سپر پاور سلطنت ترکیہ کے زوال کے اسباب واثرات اور عرب دنیا کو یہود و نصاریٰ کی سازشوں کے تحت چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کرنے کے منصوبے پر عملدر آمد کے بعد عربوں کو سیاست اور ان کے معاشی وسائل کے استعمال پر لندن اور نیویارک سے ڈکٹیشن، پھر اسی تسلسل میں افغانستان، عراق و فلسطین اور کشمیر پر غاصبانہ قبضہ اور آخر میں آج پاکستان کے اندر موجودہ دہشت گردی کی فضاء پیدا کرنے والے عناصر کے کردار، معاملات اور ان کے مفادات کا نہایت غور و فکر سے مطالعہ کریں اور ٹھنڈے دل سے انکا جائزہ لیں پھر سوچیں کہ کیا اس قدر نقصانات اٹھانے کے بعد بھی ہم من حیثیت مسلم امّہ حضور اکرم سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت اور ان کی سنت اور عزت و عظمت کو معیار بناکر آپس میں متحد و متفق نہیں ہوسکتے؟ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا یہی پیغام تھا اور بعد میں آنے والے اہل ایمان، تابعین، تبع تابعین، اولیاء کرام، ائمہ کرمانِ امت علیہم الرحمۃ والرضوان کا یہی پیغام رہا ہے۔ محقق علی الاطلاق مجدد وقت شیخ عبد الحق محدث دہلوی اور حضرت شیخ سرہندی مجدد الف ثانی علیہما الرحمہ نے بھی ان ہی نظریات کا ابلاغ کیا ہے اور آج اعلیٰ حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خاں محمدی، حنفی، قادری برکاتی قدس سرہ، کا بھی یہی پیغام ہے جو ان کی تصانیف کے ایک ایک حرف سے ثابت ہے۔ تعصب کی عینک اتار کر، غیر جانبدار ہوکر ان کا پیغام ان کی اپنی تصانیف کی روشنی میں پڑھیں۔ ان شاء اللہ تعالیٰ انشراحِ قلب ہوگا اور حق واضح ہوجائے گا۔ ہمیں یقین ہے کہ جن کے قلوب میں خشیت الٰہی کا جذبہ اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی چنگاری ہے وہ یقینا ہماری گزارشات پر سنجیدگی سے کان دھریں گے اور حق پرستی کی راہ اپنا کر اتحاد ویکجہتی اور اسلامی جذبوں کو فروغ دینے میں ایک دوسرے کے دست وبازو بن کر ہنود و یہود اور نصاریٰ کی سازشوں کو ناکام بنائیں گے اور وحدتِ امّتِ مسلمہ کو تقویت اور قوت بخشنے کا سبب بنیں گے ؎
اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی
ہم نے دیا جلاکر سرعام رکھ دیا
اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ جلیلہ سے ہر کلمہ گو کو راہِ صواب اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور مسلمانوں کو نشاۃِ ثانیہ عطا فرماکر اہل اسلام کو باطل قوتوں پر غلبہ بخشے۔ آمین بجاہ سید المرسلین۔
چہ گویم زاں فقیرے درد مندے
مسلمانے بہ گوہر ارجمندے
خدا ایں سخت جاں رایاربادا
کہ افتاد است ازبامِ بلندے
حوالہ جات

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭٭٭ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ١۔ زعمائے فرقہ وہابیہ نجدیہ ٢۔ حکمران ٣۔ حکومتی ایجنسیاں ٤۔ بیرونی حکومتیں اور ایجنسیاں ١۔ سکھوں اور انگریزی عملداری سے آزاد خود مختار صوبہ سرحد کی قبائلی مسلم ریاستوں کی فوجی قوت کو آپس میں دست و گریباں کرکے کمزور کرنا۔ ٢۔ مغلیہ سلطنت کے حدود پر انگریزوں کی روز افزوں کسی نہ کسی بہانے یلغار کے خلاف ہندوستانیوں بالخصوص مسلمانوں کی بے چینی اور اندر ہی اندر ان کی چیرہ دستیوں کے خلاف جہاد کی جو تحریک جنم لے رہی تھی، اس کا رخ سکھوں کی طرف موڑ کر ان کے اس جذبہ کو سرد کرکے رفتہ رفتہ ختم کرنا۔ ٣۔ مسلمانانِ ہند، جن کی اس وقت تک نوے فیصد آبادی اہلسنّت و جماعت پر مشتمل تھی، ان میں فرقہ پرستی کا بیج بوکر داخلی طور پر ان میں انتشار، افتراق اور شکست و ریخت پیدا کرکے آپس میں دست و گریباں کرنا تاکہ وہ اجتماعی طور پر متحد ہوکر انگریزوں سے لڑنے کے قابل نہ رہ جائیں۔ ١۔ مضبوط ترین عسکری قوت بننا جو وقت آنے پر افواجِ پاکستان سے نبرد آزما ہوسکے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے جہادِ کشمیر کو حیلہ بنانا اور عوام کو جہاد کا چکمہ دے کر اپنے تربیتی اداروں اور کیمپوں میں لے جاکر انہیں جبراً وہابی اہلِ حدیث بنانا، جو نہ مانے اس کو قتل کرکے بڑے خاص انداز سے یہ مشہور کرنا کہ یہ ہمارا مجاہد ہے جو جہاد میں شہید ہوگیا ہے۔ پھر اس کے بارے میں اخبارات میں جھوٹی خبریں چھپوانا اور غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھنا۔ ٢۔ افواجِ پاکستان میں دھڑے بندی، مذہبی منافرت اور مذہبی گروہ بندی بنانا تاکہ فوج انتشار کا شکار ہوکر کمزور ہوجائے اور وقت آنے پر فوج کے اندر ان کی تیار لابی ان کا ساتھ دے اور فوج کے جو گروہ ان کے مخالف نظریات رکھتے ہوں، ان کو مار بھگایا جاسکے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے فوجی اداروں میں اپنے مکتبہئ فکر کے آفیسر اور خطیب مقرر کرانا اور انہیں اپنے نظریات کے پرچار کے لیے فوج میں فری ہینڈ دلوانا۔ ٣۔ پاکستان کو نجدی اسٹیٹ بنانا جس کو عرب ممالک کی طرح انگریز مغربی ممالک کی سرپرستی حاصل ہو۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ملک میں سرِ عام نجدیت کا پرچار کرنا اور مختلف حیلوں سے لوگوں کے ایمان خراب اور عقیدہ تباہ کرنا تاکہ وقت آنے پر عربوں کی طرح ان کی غیرتِ ملی اور حمیتِ دینی مردہ ہوچکی ہو اور وہ چپ چاپ سب کچھ برداشت کرجائیں۔ ٤۔ مسلمانوں کے دلوں سے انبیاء عظام علیہم الصلوٰۃ والسلام اور اولیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کی محبت اور عقیدت مختلف طریقہ ہائے واردات سے ناپید کرنا تاکہ وہ دین کی برکات سے محروم ہوکر بے دست و پا ہوکر رہ جائیں اور ان کو بھیڑ بکریوں کی طرح اپنی مرضی سے ہانکا جاسکے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انبیاء عظام علیہم الصلوٰۃ والسلام، صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور اولیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کی محبت اور عقیدت کو کفر اور شرک قرار دینا اور ان پاک ہستیوں کے خلاف تقاریر اور لٹریچر کے ذریعے منافرت پھیلانا تاکہ وقت آنے پر ان ہستیوں کے مزارات و آثار کو نیست و نابود کیا جاسکے (جو اسلامی قوت کا سرچشمہ و مرکز شمار ہوتے ہیں)۔ ٥۔ سرکاری اور نجی اداروں میں اپنا اثر و رسوخ پیدا کرنا تاکہ ہر سطح پر حصولِ مقاصد میں آسانی پیدا ہو۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ہر ادارے میں اپنے ایجنٹ ایڈجسٹ کرانا۔ ٦۔ اہلِ سنت و جماعت کے خلاف مختلف پروپیگنڈے کرکے اس کو ختم کرنا اور یہاں انگریزوں کی خود ساختہ نجدی شریعت نافذ کرنا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اپنے ہم نظریہ مولویوں کی مکمل سرپرستی کرنا اور جو علماءِ اہلِ سنت ان کے خلاف لوگوں کو آگاہ کریں، ان کو قتل کرادینا۔ صوبہ سرحد کے سابق صوبائی اسمبلی نے نفاذِ شریعت کے لیے جو حسبہ بل پاس کیا تھا، اس میں بھی شریعت کی اپنی من مانی تعریف کی گئی تھی اور مجلسِ عمل کی شریک کار جماعت جمعیت علماءِ پاکستان کے اعتراض کے باوجود بل کی اس مخصوص شق پر جمعیت کا اعتراض نظر انداز کرکے منظور کیا گیا۔ اس سلسلے میں اس وقت کے جمعیت کے نائب سینئر صدر صاحبزادہ ابو الخیر نقشبندی صاحب نے تمام سُنّی علمائ، اسکالر اور دانشوروں کو ایک گشتی مراسلہ تحریر کیا تھا جس میں بل کے نفاذ کے خلاف احتجاج کے لیے کہا گیا تھا۔ (ملاحظہ ہو، معارفِ رضا ستمبر ٢٠٠٥ء کا اداریہ ”ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا”)۔ ٧۔ مذکورہ مقاصد کے حصول میں جب ہر سطح پر نمایاں کامیابی کے آثار نظر آنے لگیں تو یک دم ہلہ بول دینا اور اپنے سرپرست ممالک کی افواج کو بلواکر اس ملک پر قبضہ کرلینا اور یہاں وہی تاریخ تازہ کردینا جو عرب ممالک میں ترکوں کی (سُنّی) اسلامی حکومت اور ان ممالک کے سنی مسلمانوں کو ان نجدیوں کے ہاتھوں پیش آئی تھی۔” ١۔ کیا غصب شدہ زمین پر مسجد یا مدرسہ بنانا شرعاً جائز ہے؟ ٢۔ لال مسجد پر پولیس ایکشن کے دوران کون مارا جانے والا شخص شرع کی رو سے شہید اور کونسا حرام موت مرے گا؟ لال مسجد سے پاکستانی سیکورٹی فورسز اور فوج پر گولی چلانے والا ”لال مسجدی مجاہد جوان” یا اسلامی جمہوریہ پاکستان کی افواج اور اس کی سیکورٹی فورسز کا سرفروش سپاہی؟ ١۔ بادی النظر میں ایسا لگتا ہے کہ مفتی صاحب یہ گول مول فتویٰ دے کر لال مسجد کے دہشت گردوں کو بھی خوش رکھنا چاہتے ہیں اور حکومتِ وقت کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہتے۔ لیکن بغور دیکھا جائے تو مفتی صاحب نے اپنے سیاسی عقیدہ کا کھل کر اظہار کردیا ہے۔ اس اعتبار سے یہ ایک سیاسی بیان ضرور ہے، فتویٰ کسی طور پر نہیں کیوں کہ شریعت کا حکم ظاہر پر ہے نہ کہ نیتوں پر۔ نیتوں کا حکم تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے یا پھر اس کے بتائے سے اس کے نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم جانتے ہیں۔ ایک شخص نے اگر کسی نماز کے وقت پر طہارت کے ساتھ قیام و رکوع و سجود وغیرہ میں اختتامِ نماز تک اراکین، فرائض، واجبات، سنن وغیرہ ادا کیے تو فتویٰ یہی ہے کہ نماز ادا ہوگئی، اس سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ تُو مسجد میں کس نیت سے آیا تھا۔ ٢۔ یہ بیان سیاسی اس لیے ہے کہ مفتی صاحب نے اپنے شاگرد اور ہم مسلک دہشت گرد ”برقع برادران” اور ان کے ساتھی جو افواجِ پاکستان کے خلاف مورچہ بند ہوکر لال مسجد کے اندر سے لڑرہے تھے، کی ہمنوائی اور ہمت افزائی کی ہے۔ ”لال مسجد” کے ہلاک شدگان کے لیے صرف ایک شرط بیان کی ہے ”اللہ تعالیٰ اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو بچایا جائے”، اس نیت سے لڑنے پر وہ شہید ہیں۔ یہ فتویٰ نہیں دیا کہ کس صورت میں وہ حرام موت مریں گے اور جہنمی ہوں گے۔ جبکہ افواجِ پاکستان کے لیے دو شرائط بیان کی، پہلی صورت میں وہ شہید قرار پاتے ہیں، دوسری صورت میں جہنمی۔ ٣۔ اس بیان سے مملکتِ خداداد پاکستان اور اس کی افواج سے ان کی دلی کدورت کا بھی پتہ چلتا ہے۔ یادش بخیر جب لال مسجد کا تنازعہ چل رہا تھا اور ابھی پولیس ایکشن نہیں ہوا تھا، اس دوران ایک چینل پر اکھوڑہ خٹک، سرحد کے ایک مولوی صاحب کا بالمباشرہ اور علامہ احترام الحق تھانوی صاحب کا بذریعہ فون انٹرویو نشر ہورہا تھا۔ جب علامہ احترام الحق صاحب سے کمپیئر نے دریافت کیا کہ لال مسجد کی انتظامیہ کی دہشت گرد سرگرمیوں کے متعلق کیا خیال ہے تو انہوں نے نہایت صاف گوئی سے کام لے کر دو ٹوک الفاظ میں یہ بات کہی کہ بدقسمتی سے آج وفاق المدارس اور اس سے متعلقہ مدارس پر قابض اکثریت ان لوگوں کی ہے جن کے آباء و اجداد نے غیر منقسم ہند میں پاکستان کے حصول کی شدت سے مخالفت کی تھی لہٰذا یہ لوگ آج بھی پاکستان کے مخالف ہیں اور انہی کے مدارس آج دہشت گردی کی تربیت کا مرکز ہیں۔ ان لوگوں نے دین اسلام، مسلمان، علماء، دینی مدارس اور ملک پاکستان کو تمام عالم میں بدنام کردیا ہے۔ ٤۔ اب مذکور مفتی صاحب استاذ عبد العزیز برقع سے فتویٰ پوچھا جائے کہ ١٩٤٨ء میں کشمیر میں اور ١٩٦٥ء و ١٩٧١ء میں ہندوستان کی افواج کے ساتھ جنگ میں افواجِ پاکستان کے جن بہادر فوجیوں نے جانوں کا نذرانہ پیش کیا، ان کے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں۔ کیا ملک کے یہ بہادر سپوت آپ کے خیال شریف میں سرحدوں پر اپنی تنخواہ اور الاؤنس لینے کی لالچ میں گئے تھے اور وہاں ہندوستانی فوج کی بمباری یا گولیوں سے ہلاک ہوگئے اور معاذ اللہ آپ کے بقول حرام موت مرگئے؟ یا آپ ان کی قبروں میں جاکر ان کی نیت معلوم کرکے پھر فتویٰ دیں گے؟ ٥۔ مفتی صاحب کے اپنے اس فتویٰ سے یہ بھی عندیہ ملتا ہے کہ وہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کی انتظامیہ کے اس رویہ کے حامی تھے کہ یہاں عسکریت پسندوں کو تربیت دی جائے، اسلحہ کا ذخیرہ کیا جائے، دفاعی مورچہ بنائے جائیں اور اسلحہ کی نہ صرف نمائش کی جائے بلکہ افواجِ پاکستان کے جوانوں کے ساتھ کفار کا سا سلوک کیا جائے اور انہیں مار مار کر جہنم رسید کیا جائے۔ کیوں کہ ہر دہشت گرد یا خود کش بمبار یہی دعویٰ رکھتا ہے بلکہ عقیدہ کا اظہار کرتا ہے کہ ہم اسلامی نظامِ مصطفی کے لیے لوگوں کی جانیں لے رہے ہیں۔ (معاذ اللہ) ٦۔ اگر شیعہ حضرات بھی یہی حرکت کریں جو دیوبندی فرقہ والوں نے لال مسجد میں کی اور مطالبہ کریں کہ فقہ جعفریہ کی شریعت نافذ کی جائے ورنہ بندوق کے زور پر نافذ کریں گے تو اس وقت مفتی صاحب کا فتویٰ کیا ہوگا؟ ٢] ایضاً، ص: ٤٦ ٣] ایضاً ٤] ایضاً، ص: ٣٣ ٥] ایضاً، ص: ٤٢ ٦] ایضاً، ص: ٤٩ ٧] ایضاً، ص: ٤٢، ٨٢، ١٣٩ ٨] ایضاً، ص: ١٤٠ ٩] ایضاً، ص: ٠، ١١ ١٠] (ڈاکٹریٹ مقالہ) قمر النساء، ڈاکٹر، العلامۃ فضلُ حقٍّ الخیر آبادی، مخطوطہ، ص:١٥٢، بحوالہ مولوی اسمٰعیل دہلوی اور تقویت الایمان، ص: ٨٢ ١١] (الف) تاریخِ عجیبیہ، ص: ٨٦، (ب) سیرتِ ثنائی، ص: ٣٧٢ ١٢] (الف) ہفت روزہ المشیر، مراد آباد، ٨/مارچ ١٩٢٥ء، ص:٢، ٧، ٩، کالم (ب) ”مولانا احسن ناناتوی”، ص:٢١٧، (ج) روئداد مدرسہ دیوبند ١٣٣٢ھ، ص:٧، بحوالہ ماہنامہ فیض الاسلام، راولپنڈی، ستمبر ١٩٦٠ء، (د) ماہنامہ ”الولی”، حیدر آباد، سندھ، نومبر، دسمبر ١٩٩١ اور جنوری، فروری ١٩٩٢ء، بحوالہ ”منزل کی تلاش” مصنفہ محمد نجم مصطفائی، ص: ١٠٠ تا ١٠٨ ١٣] منزل کی تلاش، ص: ١٢٦ تا ١٢٩ ١٤] ایضاً، ص:ـ ٥١، ٥٢، ٥٣ ١٥] ایضاً، ص: ٦٢ تا ٦٥ ١٦] ملاحظہ ہو: حیاتِ طیبہ، مصنفہ جعفر تھانیسری، ص: ٣٠٧، بحوالہ ”منزل کی تلاش”، ص: ٤٦، ٥٣ ١٧] منزل کی تلاش، ص: ٢٢٥۔ ٢٢٨ ١] زید ابو الحسن فاروقی مجددی الازہری، مولانا، مولوی اسمٰعیل دہلوی اور تقویت الایمان، ناشر: ضیاء اکیڈمی، کراچی، جنوری ٢٠٠٤ء، ص: ٤٣