بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اعۡبُدُوۡا رَبَّكُمُ الَّذِىۡ خَلَقَكُمۡ وَالَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَتَّقُوۡنَ ۙ ‏
اے لوگو ! اپنے رب کی عبادت کرو ‘ جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا ‘ اس امید پر کہ تم متقی (پرہیزگار) بن جاؤ
ربط آیات اور التفات کے فوائد :
اللہ تعالیٰ نے سورة بقرہ : کے شروع سے یہاں تک مومنین ‘ کفار اور منافقین کا ذکر فرمایا اور ان میں سے ہر ایک کے خواص کا ذکر فرمایا کہ مومنین نے قرآن مجید کی ہدایت سے نفع اٹھایا ‘ غیب پر ایمان لائے ‘ نماز پڑھی اور خدا کی راہ میں مال خرچ کیا ‘ اور دنیا اور آخرت میں فلاح پائی ‘ کفار نے کفر پر اصرار کیا ‘ اور اس کی ضد اور عناد کی وجہ سے ان کے دلوں میں مہر لگادی گئی اور ان کے لیے آخرت میں درد ناک عذاب ہے ‘ اور منافقین نے اپنے کفر کو مخفی رکھا اور اپنے زعم میں خدا ‘ رسول اور مومنوں کو دھوکادیا ‘ پھر بھی ان کی خصوصیات کے متعلق دو بلیغ مثالیں بیان فرمائیں ‘ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان تمام گروہوں کو اے لوگو ! فرما کر خطاب فرمایا تاکہ سننے والوں کا ذہن بیدار اور متوجہ رہے اور ان کی رغبت اور شوق میں اضافہ و اور اس پر تنبیہہ ہو کر عبادت ایک مہتم بالشان فعل ہے ‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے تمام لوگوں سے مخاطب ہو کر ان کو عبادت کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ خطاب کی لذت سے عبادت کی مشقت اور کلفت جاتی رہے۔ ہم اس سے پہلے سورة فاتحہ کی تفسیر میں عبادت کا معنی بیان کرچکے ہیں ‘ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اعتقاد الوھیت کے ساتھ کسی کی تعظیم اور اطاعت کرنا ‘ یا نفس کی خواہش کے خلاف اپنے رب کی تعظیم کے لیے مکلف کا کوئی کام کرنا عبادت ہے۔
باوجود اللہ تعالیٰ کے قرب کے ” یایھا الناس “ سے ندا کرنے کی توجیہ :
عربی زبان میں بعید شخص اور دور والے کو ندا کرنے کے لیے ” یا “ کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور قریب والے اور نزدیک شخص کو ندا کرنے کے لیے ” ای “ کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور بعض اوقات قریب شخص کو بعید کے قائم مقام کرکے اس کو بھی ” یا “ کے ساتھ ندا کی جاتی ہے ‘ کبھی کسی کی عظمت کی وجہ سے اس کو بعید قرار دیتے ہیں جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : (آیت) ” یایھا الناس “ اور کبھی اس اعتبار سے کہ واجب اور قدیم کے مقابلہ میں ممکنات اپنے حدوث اور امکان کی وجہ سے انتہائی پستی اور بعد میں ہیں جیسے قرآن مجید میں ” یا سماء ‘ یا ارض ‘ یا جبال ‘ یا نار “ وغیرہ کی ندا ہے، اللہ تعالیٰ تمام لوگوں سے ان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے (آیت) ” یایھا الناس “ فرمایا اس لیے کہ تمام لوگ اپنی غفلت یا اپنے امکان اور حدوث کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سے بعید ہیں۔
(آیت) ” یایھا الناس “ سے سورة بقرہ کے مدنی ہونے پر اعتراض کا جواب :
علامہ خفاجی لکھتے ہیں :
امام بزاز نے اپنی ” مسند “ میں امام حاکم نے ” مستدرک “ میں اور امام بیہقی (رح) نے ” دلائل لانبوۃ “ میں اپنی اپنی سندوں سے روایت کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا : جس سورت میں (آیت) ” یایھا الناس “ ہو وہ مکی ہے اور جس سورت میں (آیت) ” یایھا الذین امنوا “ ہو وہ مدنی ہے ‘ اس لحاظ سے یہاں یہ اشکال ہے کہ یہ سورت مدنی ہے اور اس میں (آیت) ” یایھا الناس “ سے خطاب ہے ‘ اس کا جواب یہ ہے کہ ان کی مراد یہ ہے کہ جس سورت میں فقط (آیت) ” یایھا الناس “ ہو وہ مکی ہوتی ہے اور اس سورت میں (آیت) ” یایھا الناس “ کے علاوہ (آیت) ” یایھا الذین امنوا “ سے بھی متعدد جگہ خطاب ہے ‘ نیز ایک اور قاعدہ یہ ہے کہ جس سورت میں منافقین کا ذکر ہو ‘ وہ سورت مدنی ہوتی ہے، لہذا روایت اور درایت کے لحاظ سے اس سورت کا مدنی ہونا متعین ہے اور علامہ بیضاوی وغیرہ کا اس قاعدہ کا اس قاعدہ پر اعتراض کرنا عدم تدبر پر مبنی ہے۔ (عنایۃ القاضی ج ٢ ص ٦ ملخصا ‘ مطبوعہ دار صادر ‘ بیروت ‘ ١٢٨٣ ھ)
مومنین ‘ کفار اور منافقین کے لیے عبادت کے حکم کا الگ الگ معنی :
اس آیت میں مومنین ‘ کفار اور منافقین کو عبادت کرنے کا حکم دیا ہے ‘ مومنین کو عبادت کے حکم کا یہ معنی ہے کہ وہ زیادہ عبادت کریں یا دائما عبادت کریں ‘ اور عبادت پر ثابت قدم رہیں ‘ اور منافقین کو عبادت کے حکم کا معنی یہ ہے کہ وہ نفاق کو ترک کرکے اخلاص سے عبادت کریں اور کفار کو عبادت کے حکم کا معنی یہ ہے کہ وہ ایمان لانے بعد عبادت کو شروع کریں ‘ کیونکہ جو کام کسی چیز پر موقوف ہو تو اس کام کا حکم دینا اس کو مستلزم ہے کہ پہلے اس چیز کو حاصل کرو پھر اس کام کو کرو ‘ جس طرح کسی شخص کو نماز کا حکم دینا اس کو مستلزم ہے کہ وہ پہلے وضو کرے اور پھر نماز پڑھے ‘ اسی طرح کفار کو عبادت کا حکم دینا اس کو مستلزم ہے کہ وہ پہلے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لائیں اور پھر اس کی عبادت کریں۔
کفار کے فروع کے مکلف ہونے میں علماء بخارا اور علماء شافعیہ کا اختلاف اور صحیح موقف کا بیان :
اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ کفار فروع (مثلا نماز ‘ زکوۃ ‘ روزہ وغیرہ) کے مکلف فقط اعتقاد میں ہیں یا اداء اور اعتقاد دونوں کے مکلف ہیں ‘ بخارا کے علماء احناف کا مسلک یہ ہے کہ وہ صرف حق اعتقاد میں مکلف ہیں یعنی کفار پر یہ ضروری ہے کہ وہ نماز ‘ روزہ وغیرہ کی فرضیت کا اعتقاد رکھیں اور جب تک وہ ایمان نہ لائیں ان پر ان عبادات کا ادا کرنا فرض نہیں ہے ‘ اور عراق کے علماء احناف اور علماء شافعیہ کا یہ مسلک ہے کہ کفار نماز ‘ روزہ وغیرہ کی فرضیت پر ایمان لانے اور ان کو ادا کرنے دونوں کے مکلف ہیں اور ان کا ادا نہ کرنے کی وجہ سے ان کو عذاب ہوگا ‘ امام ابوحنفیہ (رح) اور ان کے اصحاب نے ان میں سے کسی جانب تصریح نہیں کی ‘ البتہ امام محمد (رح) کی بعض عبارات سے عراقی علماء کے نظریہ کی تائید ہوتی ہے اور قرآن مجید کی ان آیات کا بھی بہ ظاہر یہی تقاضا ہے :
(آیت) ” وویل للمشرکین الذین لایؤتون الزکوۃ وھم بالاخرۃ ھم کفرون (حم السجدہ : ٦)
ترجمہ : اور عذاب ہے مشرکوں کے لیے جو زکوۃ ادا نہیں کرتے اور وہی آخرت کے منکر ہیں
علماء بخارا اس آیت کی یہ توجیہ کرتے ہیں کہ مشرکین کو زکوۃ کی فرضیت کا اعتقاد نہ رکھنے کی وجہ سے عذاب ہوگا ‘ فریقین کے اس اختلاف کا بہ غور مطالعہ کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ علما بخارا کا نظریہ صحیح ہے ‘ کیونکہ اگر کفار اپنے کفر کے زمانہ میں نماز اور روزہ وغیرہ کے ادا کرنے کے مکلف ہوں تو اسلام قبول کرنے کے بعد ان پر نمازوں اور روزوں کی قضاء لازم ہونی چاہیے ‘ حالانکہ عہد رسالت میں اس کی کوئی نظیر نہیں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی شخص کو اسلام قبول کرنے کے بعد زمانہ کفر میں چھوڑی ہوئی نمازوں اور روزوں کا مکلف کیا ہو۔
علامہ شامی (رح) نے لکھا ہے کہ عراقیوں کا قول ہی معتمد ہے جو کہتے ہیں کہ کفار اعتقاد اور اداء دونوں کے مخاطب ہیں۔ (رد المختار ج ٣ ص ‘ ٢٢٣‘ مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی ‘ بیروت ١٤٠٧ ھ)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اے لوگو ! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا۔ (البقرہ : ٢١)
اللہ تعالیٰ کے خالق ہونے کا اعتراف :
اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ تمام انسانوں کو یہ تسلیم ہے کہ ان کو اور ان سے پہلے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے ‘ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ کفار نے بھی اس کا اعتراف کرلیا تھا کہ ان کا پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے ‘ قرآن مجید میں ہے :
(آیت) ” ولئن سالتہم من خلقہم لیقولن اللہ فانی یؤفکون “۔ (الزخرف : ٨٧)
ترجمہ : اور اگر آپ ان سے یہ سوال کریں کہ ان کو کس نے پیدا کیا ہے تو یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے ‘ سو یہ کہاں بھٹک رہے ہیں ‘
(آیت) ” ولئن سالتہم من خلق السموت والارض وسخر الشمس والقمر لیقولن اللہ ‘ فانی یؤفکون “۔ (العنکبوت : ٦١)
اور اگر آپ ان سے سوال کریں کہ آسمانوں اور زمینوں کو کس نے پیدا کیا اور سورج اور چاند کو کس نے مسخر کیا تو یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے ‘ سو یہ کہاں بھٹک رہے ہیں
اور اگر کوئی کافر اور مشرک اس کا اعتراف نہ کرے کہ ان کا اور ان سے پہلے لوگوں کا بلکہ کائنات کا پیدا کرنے والا اللہ ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں بیشمار ایسے دلائل رکھے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے خالق اور اس کے رب ہونے پر دلالت کرتے ہیں ‘ جو شخص ذرا سا بھی غور و فکر کرے گا ‘ اس کو اللہ تعالیٰ کے خالق اور رب ہونے میں کوئی شک نہیں رہے گا ‘ ہم ان میں سے کچھ دلائل کا ذکر کررہے ہیں :
اللہ تعالیٰ کے خالق اور لاشریک ہونے پر دلائل :
اس کائنات کا خالق انسان نہیں ہوسکتا کیونکہ انسان کا پیدا ہونا اور مرنا ہمارے سامنے ہے ‘ جمادات ‘ نباتات ‘ حیوانات ‘ دریا اور سمندر وغیرہ خالق نہیں ہوسکتے ‘ کیونکہ ان کا بھی پیدا ہونا ‘ فنا ہونا اور ایک حال سے دوسرے حال کی طرف متغیرہونا ہماری نظر میں ہے ‘ سورج ‘ چاند اور ستارے وغیرہ خالق نہیں ہوسکتے کیونکہ ان کا ایک مقررہ نظام کے تحت گردش کرنا ہمارے مشاہدہ میں ہے اور ان کا ایک مقررہ نظام کے تابع ہونا اس پر دلالت کرتا ہے وہ کسی زبردست اور قاہر نظام کے تحت گردش کرنا ہمارے مشاہدہ میں ہے اور ان کا ایک مقررہ نظام کے تابع ہونا اس پر دلالت کرتا ہے کہ وہ کسی زبردست اور قاہر نظام کے بنائے ہوئے نظام کے پابند ہیں اور جب اس سلسلہ کائنات میں سے کوئی چیز بھی اس کائنات کی خالق اور رب نہیں ہے تو ضرور اس کائنات کے علاوہ کوئی قادر وقیوم ہستی ہے ‘ جو اس سلسلہ ممکنات اور حوادث کی غیر ہے جو واجب اور قدیم ہے ‘ جس نے اس کائنات کو بنایا ہے اور وہ اللہ ہی ہے کیونکہ اسی نے یہ دعوی کیا ہے کہ وہ اس پوری کائنات کو بنانے والا اور عدم سے وجود میں لانے والا ہے ‘ اسی نے دنیا والوں کے پاس انبیاء اور رسل بھیجے اور کتابیں نازل کیں اور نبیوں اور کتابوں کے واسطے سے اپنی ذات کا عرفان کرایا ‘ اور یہ پیغام بھیجا کہ سب انسان اس کی مخلوق ہیں اور سب پر اس کی عبادت لازم ہے ‘ اللہ کے سوا اور کوئی ایسی ہستی نہیں ہے جو اس کائنات سے الگ اور مغائر ہو اور اس نے اس کائنات کو بنانے اور اپنے رب ہونے کا دعوی کیا ہو یا کسی نبی اور رسول کو بھیجا ہو یا اپنی حجت قائم کرنے کے لیے کتاب نازل کی ہو اور جب اس کائنات کے اندر کوئی چیز بھی اس کائنات کی خالق نہیں ہے اور اس کائنات سے باہر اللہ کے سوا اور کوئی اس کائنات کی تخلیق کا دعوی دار نہیں ہے اور بغیر کسی کے بناء ئے یہ کائنات بن نہیں سکتی تو پھر اللہ کا یہ دعوی کیوں نہ مانا جائے کہ وہی اس کائنات کا خالق اور رب ہے اور وہی عبادت کا مستحق ہے ‘ واحد لاشریک ہے۔
علاوہ ازیں اس کائنات کے اندر بھی کسی جن انسان۔ ١ (فرعون وغیرہ نے اپنی ربوبیت یعنی لوگوں کے پالنے کا دعوی کیا ‘ پوری کائنات کے بنانے کا دعوی نہیں کیا ‘ وہ اپنی پرستش کرانے اور مستحق عبادت ہونے کے خواہاں اور مدعی تھے اور ان کے مرنے کے بعد ان کے دعوی کا جھوتا ہونا ظاہر ہوگیا) فرشتے ‘ پتھر کے تراشے ہوئے بت یا کسی درخت یا ستارے نے کبھی از خود یہ دعوی نہیں کیا کہ وہ اس کائنات کا بنانے والا ہے ‘ سورج کے سامنے زمین کی گردش سے لیل ونہار اسی کے حکم سے بنتے ہیں ‘ اسی کے حکم سے بارش نازل ہوتی ہے ‘ کسی چیز نے آج تک از خود اس پوری کائنات کے خالق ہونے کا دعوی نہیں کیا ‘ اور ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ اس سلسلہ میں ممکنات اور حوادث میں سے کوئی چیز بھی اس کائنات کی خالق نہیں ہوسکتی اور نہ ہی کوئی چیز اس کی تخلیق کی مدعی ہے تو پھر اس کائنات کا خالق ضرور اس کائنات کا غیر اور اس سے الگ کوئی ہستی ہے جو اس کائنات کی طرح حادث اور ممکن نہیں ‘ قدیم اور واجب ہے ‘ اور جب اس کائنات کے اندر اور باہر اللہ کے سوا اور کوئی اس کی تخلیق کا دعوی دار نہیں ہے تو پھر اللہ کو اس کائنات کا خالق اور رب کیوں نہ مانا جائے اور اس کو واحد اور لاشریک کیوں نہ تسلیم کیا جائے۔
اگر کوئی شخص یہ کہے کہ یہ ساری کائنات بغیر کسی بنانے والے کے اگر کوئی شخص یہ کہے کہ یہ ساری کائنات بغیر کسی بنانے والے کے از بن گئی ہے تو یہ بات بالکل بداہت کے خلاف ہے، مٹی کے تیل کا ایک چراغ بھی از خود نہیں جلتا تو آسمانوں پر یہ اربوں ستارے خود بہ خود کیسے روشن ہوگئے ؟ ایک گلاس پانی بھی خود بہ خود مہیا نہیں ہوتا تو زمین کے نیچے چشمے خود بہ خود کیسے رواں ہوگئے اور اتنا بڑا سمندر کیسے وجود میں آگیا اور یہ زمین و آسمان کیسے خود بہ خود بن گئے ‘ پھولوں میں رنگ اور خوشبو ‘ پھلوں میں ذائقہ اور ایک مربوط اور مقرر نظام کے تحت اس کائنات کا چلنا کیسے خود بہ خود ہوگیا !
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
ام خلقوامن غیر شیء ام ھم الخلقون ام خلقوا السموت والارض، بل لا یوقنون (الطور : ٣٦۔ ٣٥)
ترجمہ : کیا وہ کسی شے کے بغیر پیدا کیے گئے ہیں یا وہ (خود) خالق ہیں ؟ کیا انہوں نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا ہے ؟ بلکہ وہ یقین نہیں رکھتے
نیز اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
(آیت) ” امن خلق السموت والارض وانزل لکم من السمآء مآء فانبتنا بہ حدآئق ذات بھجۃ ماکان لکم ان تنبتوا شجرھا، ء الہ مع اللہ بل ھم قوم یعدلون امن جعل الارض قراراوجعل خللھا انھراوجعل لھا رواسی وجعل بین البحرین حاجزاء الہ مع اللہ بل اکثرھم لایعلمون امن یجب المضطر اذا دعاہ و یکشف السوء ویجعلکم خلفآء الارضء الہ مع اللہ قلیلا ما تذکرون امن یھدیکم فی ظلمت البر والبحر ومن یرسل الریح بشرا بین یدی رحمتہء الہ مع اللہ تعلی اللہ عما یشرکون امن یبدؤا الخلق ثم یعیدہ ومن یرزقکم من السمآء والارضء الہ مع اللہ قل ھاتوا برھانکم ان کنتم صدقین (النمل : ٦٤۔ ٦٠ )
ترجمہ : (بھلابتاؤ تو سہی ! ) آسمانوں اور زمینوں کو کس نے پیدا کیا ہے ؟ اور تمہارے لیے آسمان سے پانی کس نے نازل کیا ہے ؟ ہم نے ہی اس پاٍنی سے خوشنما باغ اگائے تمہارے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ تم ان (باغوں) کے درخت اگاتے ‘ کیا (اس تخلیق میں) اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے ؟ بلکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو راہ راست سے انحراف کر رہے ہیں (بھلا بتاؤ تو سہی) زمین کو ٹھہرنے اور قرار کی جگہ کس نے بنایا ؟ اور زمین کے درمیان دریا کس نے پیدا کیے ؟ اور زمین (کے قرار) کے لیے مضبوط پہاڑ کس نے پیدا کیے ؟ اور دو سمندروں کے درمیان آڑ کس نے پیدا کی ؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے ؟ (نہیں) بلکہ اکثر لوگ علم نہیں رکھتے (بتاؤ) جب بےقرار شخص اس کو پکارتا ہے تو اس کی پکار کا کون جواب دیتا ہے ؟ اور اس سے تکلیف کو کون دور کرتا ہے ؟ اور تمہیں زمین پر (پہلے لوگوں کا) نائب کون بناتا ہے ؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے ؟ تم بہت کم نصیحت قبول کرتے ہو (بتاؤ) تمہیں خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں کون راہ دکھاتا ہے ؟ اور اس کی رحمت کی خوشخبری دینے والی ہواؤں کو کون بھیجتا ہے ؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی معبود ہے ؟ آپ کہیے : اگر تم سچے ہو تو اپنی دلیل لے آؤ
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اے لوگو ! تم اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تم کو اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا ہے اس امید پر کہ تم متقی بن جاؤ۔ (البقرہ : ٢١)
(آیت) ” لعلکم تتقون “ میں امید کی نسبت بندوں کی طرف ہے :
عربی میں ” لعل “ کا لفظ امید کے لیے آتا ہے ‘ اردو میں اس کا معنی ” شاید “ کیا جاتا ہے اور یہ اس شخص کے کلام میں متصور ہے جس کو مستقبل کا علم نہ ہو اور اللہ تعالیٰ تو علام الغیوب ہے ‘ اس لیے یہاں اس لفظ کا معنی یہ نہیں ہے کہ اللہ کو امید ہے، بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ تم یہ امید رکھو کہ عبادت کرنے سے تم متقی بن جاؤ گے ‘ دوسرا جواب یہ یہاں ” لعل “ بہ معنی ” کی “ ہے ‘ یعنی تمہیں عبادت کرنے کا حکم دینے کی حکمت یہ ہے کہ تم متقی بن جاؤ اور فوز و فلاح دارین حاصل کرلو۔
انسان عبادت پر غرور کرنے نہ عبادت کی وجہ سے خود کو اجر کا مستحق سمجھے :
تقوی کا اعلی مرتبہ یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز سے بری ہوجائے ‘ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان اپنے فرائض اور ذامہ داریوں کو چھوڑ کر غاروں میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرئے ‘ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ تمام فرائض ‘ حقوق اور ذمہ داریوں کو اللہ کی وجہ سے پورا کرے ‘ اور ہر کام میں اس کی نیت اللہ کی اطاعت اور اس کی خوشنودی رہے اور یہ تقوی ہی سالکین کے درجہ کی انتہاء ہے ‘ اسی کو فنا فی اللہ کا مرتبہ کہتے ہیں۔ اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ عبادت سے اصل مقصود تقوی کا حصول ہے ‘ اور یہ کہ انسان کو اپنی عبادت سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے بلکہ مکمل عبادت کرنے کے بعد بھی یہ یقین نہ کرے کہ وہ متقی ہوگیا ہے ‘ بلکہ یہ امید رکھے کہ شاید متقی ہوگیا ہو ‘ اور اپنے آپ کو خوف اور رجا کے درمیان رکھے ‘ اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اس کی گرفت سے ڈرتا رہے اور اس کی رحمت سے مایوس نہ ہو اور اپنی بخشش اور مغفرت کی امید رکھے جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
(آیت) ” تتجافی جنوبہم عن المضاجع یدعون ربھم خوفاوطمعا “ (السجدہ : ١٦)
ترجمہ : ان کے پہلو خواب گاہوں سے دور رہتے ہیں ‘ وہ خوف اور امید سے اپنے رب کو پکارتے ہیں۔
(آیت) ” اولئک الذین یدعون یبتغون الی ربہم الوسیلۃ ایہم اقرب ویرجون رحمۃ ویخافون عذابہ “ (بنواسرائیل ‘ ٥٧ )
ترجمہ : جن نیک بندوں کی (یہ کافر) پرستش کرتے ہیں ‘ وہ خود اپنے رب کی طرف وسیلہ تلاش کرتے ہیں کہ ان میں کون زیادہ مقرب ہے (کہ اس کی دعا سے خدا کا قرب حاصل ہو) وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔
ان آیات سے معلوم ہوا کہ شب بیدار ‘ تہجد گزار اور اللہ کے مقرب بندوں کا بھی یہ حال ہے کہ وہ خوف اور طمع کے درمیان ہیں ‘ اپنی عبادت پر بھروسہ یا گھمنڈ نہیں کرتے بلکہ اس کی رحمت اور فضل کے امیدوار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے رہتے ہیں ‘ جب اس کے شب بیدار اور مقرب بندوں کا یہ حال ہے تو عام فرائض اور نوافل ادا کرنے والوں کا کیا حال ہونا چاہیے !
امام مسلم (رح) روایت کرتے ہیں :
عن ابی ہریرہ عن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہ قال لن ینجی احدا منکم عملہ قال رجل ولا ایاک یا رسول اللہ قال ولا ایای الا ان یتغمدنی اللہ منہ برحمۃ ولکن سدودا ،
(امام مسلم بن حجاج قشیری متوفی ٢٦١ ھ ‘ صحیح مسلم ج ٢ ص ‘ ٣٧٦ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٧٥ ھ)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم میں سے کسی شخص کو اس کا عمل ہرگز نجات نہیں دے گا ‘ ایک شخص نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ کو بھی نہیں ! آپ نے فرمایا : مجھ کو بھی نہیں ‘ البتہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنی رحمت سے ڈھانپ لے گا ‘ لیکن تم نیک اعمال کی کوشش جاری رکھو۔
اہل سنت کا مذہب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پر کوئی چیز واجب نہیں ہے ‘ بلکہ یہ تمام جہان اس کی ملک ہے اور دنیا اور آخرت اس کی سلطنت ہے اور وہ اپنی سلطنت میں جو چاہے کرے۔ اگر وہ تمام نیکوکاروں اور صالحین کو عذاب دے اور جہنم میں داخل کردے تو یہ اس کا عین عدل ہوگا ‘ اور اگر وہ ان پر کرم فرمائے ‘ ان کو نعمتوں سے نوازے اور جنت میں داخل کردے تو یہ اس کا فضل ہے ‘ اور اگر وہ کافروں کو بھی جنت میں داخل کردیتا تو وہ اس کا مالک تھا ‘ لیکن اس نے خبر دی ہے کہ وہ ایسا نہیں کرے گا بلکہ مومنین کو بخش دے گا اور ان کو جنت میں داخل کرے گا اور یہ اس کا فضل ہے ‘ اور کافروں کو عذاب دے گا اور ان کو ہمیشہ جہنم میں رکھے گا اور یہ اس کا عدل ہے اور اللہ تعالیٰ کی خبر کا جھوٹا ہونا محال ہے۔ اس خیال میں نہیں رہنا چاہیے کہ جب اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے جنت کا وعدہ کرلیا ہے تو وہ بہرحال جنتی ہیں ‘ اور اس وجہ سے عذاب سے بےخوف نہیں ہونا چاہیے ‘ کیا پتا خاتمہ ایمان پر ہو یا نہ ہو ‘ اور اگر خاتمہ ایمان پر ہو بھی تو کیا پتا کہ ابتدائی مرحلہ میں نجات ہوجائے گی یا تقصیرات پر گرفت اور عذاب کے بعد نجات ہوگی ‘ اس لیے ہرحال میں اللہ سے ڈرتے رہنا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : جس نے تمہارے نفع حاصل کرنے کے لیے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت بنایا۔ (البقرہ : ٢٢)
زمین کا گول ہونا اور اس کا گردش کرنا ‘ اس کے فرش ہونے کے منافی نہیں ہے :
پانی کی طبیعت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ مٹی کے اوپر ہو لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے زمین کے بعض حصوں کو پانی سے الگ کردیا ‘ اور زمین کو سختی اور نرمی کے درمیان متوسط رکھا تاکہ وہ فرش کی طرح ہوجائے اور لوگوں کا اس پر بیٹھنا اور لیٹنا ممکن ہو ‘ اور زمین کا فرش ہونا اس کے گول ہونے کے منافی نہیں ہے کیونکہ جو بہت عظیم اور جسیم کرہ ہو وہ بہ ظاہر ایک مسطح جسم معلوم ہوتا ہے ‘ اسی طرح زمین کا گردش کرنا بھی اس کے فرش ہونے کے خلاف نہیں ہے ‘ جیسے لوگ بحری جہاز میں سفر کرتے ہیں جہاز حرکت کر رہا ہوتا ہے اور وہ اس پر بستر بچھا کر سوجاتے ہیں ‘ قرآن مجید میں ہے :
(آیت) ” ان اللہ یمسک السموت والارض ان تزولا “۔ (الفاطر : ٤١) بیشک اللہ آسمانوں اور زمین کو اپنی جگہ (محور) سے ہٹنے سے روکتا ہے۔
بعض لوگوں نے اس آیت سے یہ مطلب نکالا ہے کہ زمین ساکن ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کو روکا ہوا ہے ‘ اس آیت کا یہ مطلب نہیں ہے ‘ بلکہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ زمین اور آسمان اپنے محور پر گردش کررہے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کو اپنے محور سے ہٹنے نہیں دیتا۔ اب جبکہ سائنٹفک طریقہ سے زمین کی گردش ثابت ہوچکی ہے تو علم اور سائنس کے خلاف قرآن مجید کی تفسیر کرنے سے خدشہ ہے کہ سائنس کے طلباء اور ماہرین قرآن مجید کا انکار کردیں اور اس ترقی یافتہ دور میں پرانی لکیروں کو پیٹتے رہنے میں دین کی کوئی خدمت نہیں ہے۔
آسمان کیا ہے ؟ اس کی حقیقت ہمیں معلوم ‘ سانئس دان ابھی چاند تک ہی پہنچ پائے ہیں ‘ چاند زمین سے پونے دو لاکھ میل کی مسافت پر ہے ‘ آسمان تو چاند ‘ سورج اور سیاروں سے بہت دور ہے ‘ قدیم یونانی فلسفیوں کا خیال تھا کہ چاند پہلے آسمان میں مرکوز ہے ‘ لیکن تحقیق اور مشاہدہ سے یہ بات غلط ثابت ہوگئی ہے قرآن مجید نے آسمان کی حقیقت اور ماہیت کے متعلق کوئی چیز انہیں بتائی اور نہی یہ قرآن کا موضوع ہے، قرآن مجید عقائد اور اعمال کی اصلاح کے لیے رشد و ہدایت کی کتاب ہے ‘ اشیاء کی حقیقت اور ماہیت اور اس کے طبعی خواص بیان کرنا قرآن مجید کا موضوع نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور آسمان سے پانی نازل کیا اور پانی سے تمہارے رزق کے لیے کچھ پھل پیدا کئے۔ (البقرہ : ٢٢)
پھلوں کو بتدریج پیدا کرنے کی حکمت :
پھل اور زمین سے پیدا ہونے والی تمام غذائی اجناس صرف اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی مشیت سے پیدا ہوتی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کا ظاہری سبب مٹی میں آلودہ پانی کو بنایا ہے جس طرح نطفہ کو جاندار کی پیدائش کا مادہ بنایا ہے ‘ اللہ تعالیٰ نے زمین میں قوت قابلہ رکھی ہے اور پانی میں قوت فاعلہ رکھی ہے اور ان دونوں قوتوں کے اجتماع سے زرعی اجناس پیدا ہوتی ہیں اللہ تعالیٰ اس پر بھی قادر تھا کہ مٹی اور پانی کے بغیر پھلوں کو پیدا کردیتا جس طرح خود مٹی اور پانی کو کسی سبب کے بغیر پیدا کیا ہے لیکن ان کو بتدریج پیدا کرنے میں نظر غائر سے دیکھنے والوں کے لیے ایسی حکمتیں ہیں جو ان کو دفعۃ پیدا کرنے میں نہیں ہیں ‘ جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کے لیے یہ سبب بنایا ہے کہ مرد عورت کے رحم میں تخم ریزی کرنے اور نو ماہ کی طویل مدت کے بعد ایک بچہ کی شکل میں انسان کی پیدائش عمل میں آئے تاکہ بہ ظاہر انسان کی سعی اور جدوجہد بھی اس پیدائش کے حصول میں شامل ہو اور اسی وجہ سے انسان اپنے بچہ سے محبت کرتا ہے اور اس کی پرورش کرتا ہے ‘ اسی طرح ہل چلا کر زمین کو قابل کاشت بنانے اور اس میں پانی پہنچانے سے زرعی پیداوار میں انسان کی سعی اور عمل کا نتیجہ ظاہر ہوتا ہے اور اس سعی اور عمل پر بیشمار ثمرات مرتب ہوتے ہیں۔
علامہ بیضاوی (رح) نے لکھا ہے کہ اس آیت کا باطنی معنی یہ ہے کہ اس آیت میں انسان کے بدن کو زمین سے تشبیہہ دی ہے اور روح کو آسمان سے تشبیہہ دی ہے اور انسان کو عقل اور حواس کے استعمال کرنے اور قوت بدنیہ اور روحانیہ کے امتزاج کے واسطے سے جو علمی اور علمی کمالات عطا کئے ہیں ان کو ان پھلوں کے ساتھ تشبیہہ دی ہے کیونکہ ہر آیت کا ایک ظاہری معنی ہے اور ایک باطنی معنی ہے اور ہر حد کے لیے ایک مطلع ہے :
اللہ تعالیٰ کے لاشریک ہونے کا بیان :
اس آیت کا معنی یہ ہے کہ جب تمہارے اللہ تعالیٰ کی یہ بڑی بڑی نعمتیں متحقق ہوچکی ہیں اور تمہارے علم میں اللہ تعالیٰ کی توحید کے دلائل آچکے ہیں تو پھر علم کے باوجود اللہ تعالیٰ کا شریک نہ بناؤ ‘ کیونکہ تم غور وفکر کی اہلیت رکھتے ہو اور تم ادنی تامل سے یہ جان سکتے ہو کہ انسانوں کو اور زمین و آسمان کو پیدا کرنا اور زرعی اجناس کو اگانا یہ ایسا کام ہے جس کو اس کائنات میں سے کوئی بھی نہیں کرسکتا اور ممکنات میں سے کسی ممکن کی قدرت میں ان کو پیدا کرنا نہیں ہے تو ضرور ان کا پیدا کرنے والا اس کائنات اور ممکنات کا غیر ہے جو واجب اور قدیم ہے اور وہ اللہ ہی ہے ‘ اور یہ بالکل ظاہر ہے کہ جن کا شرکاء کی تم پرستش کرتے ہو وہ انسانوں ‘ آسمانوں اور زمین اور زرعی اجناس کے اگانے پر قدرت نہیں رکھتے ‘ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
(آیت) ” اللہ الذی خلقکم ثم رزقکم ثم یمیتکم ثم یحییکم ھل من شرکآء کم من یفعل من ذلکم من شیء “۔ (الروم : ٤٠)
ترجمہ : اللہ ہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا ‘ پھر تم کو رزق دیا ‘ پھر تم پر موت طاری کرے گا ‘ پھر تم کو (دوبارہ) زندہ کرے گا ‘ کیا تمہارے شریکوں میں سے کوئی (شریک) ایسا ہے جو ان کاموں میں سے کوئی کام کرسکے ؟
اور جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی نے اس کائنات کی تخلیق کا دعوی نہیں کیا تو معلوم ہوگیا کہ اس کائنات کی تخلیق میں اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں ہے ‘ وہ تنہا خالق ہے ‘ واجب اور قدیم ہے اور قادر مختار ہے اور صرف وہی عبادت کا مستحق ہے۔ اس آیت میں ” انداد “ کی نفی کی ہے ‘” انداد “ ” ند “ کی جمع ہے ”” ند “ اس مخالف کو کہتے ہیں جو جو ہر ذات میں کسی شخص کے مساوی ہو ‘ اور ایک جنس کے تحت جو دو ایسے افراد ہوں جو آپس میں مخالف ہوں اور جمع نہ ہو سکیں ان کو ضد کہتے ہیں ‘ اللہ تعالیٰ کا کوئی ” ند “ نہیں ہے کیونکہ کوئی اس کی ذات کے مساوی نہیں ہے اور نہ اس کی کوئی ضد ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے اوپر کوئی جنس نہیں ہے۔
متکلمین نے اللہ تعالیٰ کے شریک نہ ہونے پر برھان تمانع سے استدلال کیا ہے ‘ اس کی تقریر یہ ہے کہ اگر دو خدا فرض کئے جائیں اور ان میں سے ایک زید کے متحرک ہونے کا ارادہ کرے اور دوسرا اسی وقت اس کے ساکن ہونے ارادہ کرے تو یہ یک وقت زید متحرک ہو اور ساکن بھی یہ اجتماع ضدین ہونے کی وجہ سے محال ہے تو ان دونوں میں سے کسی ایک کا ارادہ پورا ہوگا اور جس کا ارادہ پورا ہوگا وہی خدا ہے ‘ اور جس کا ارادہ پورا نہ ہو سکے گا وہ عاجز ہوگا ‘ اور عاجز خدا نہیں ہوسکتا ‘ لہذا فرض کیا تھا خدا دو ہیں ‘ لازم آیا کہ ایک خدا ہے ‘ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ وہ دونوں اتفاق کرلیتے ہیں اور ایک دوسرے کے ارادہ کی مخالفت نہیں کرتے تو ہم کہیں گے کہ ان میں اختلاف کرنا ممکن تو ہے اور اس امکان کی تقدیر پر جس کا ارادہ پورا ہوگا وہی خدا ہوگا ‘ نیز جب وہ اتفاق کریں گے تو ایک دوسرے کی موافقت کرے گا اور موافقت کرنے والا تابع اور دوسرا متبوع ہوگا اور تابع خدا نہیں ہوتا ‘ غرضیکہ جب بھی دو خدا فرض کریں گے لازم آئے گا کہ دو خدا نہیں ہیں ‘ ان میں سے ایک خدا ہے۔
منطقیوں نے اس طرح دلیل دی ہے کہ اگر دو خدا فرض کریں تو وہ دونوں واجب ہوں گے اور وجوب ان میں مابہ الاشتراک ہوگا اور وہ دونوں ایک دوسرے سے ممتاز ہوں گے کیونکہ اثنینیت بلا امتیاز باطل ہے تو ان میں ایک مابہ الامتیاز بھی ہوگا ‘ لہذا ہر ایک خدا دو چیزوں سے مرکب ہوگا مابہ الاشتراک اور مابہ الا امتیاز سے ‘ اور جو مرکب ہو وہ اپنے اجزاء کی طرف محتاج اور حادث ہوتا ہے ‘ اور محتاج اور حادث خدا نہیں ہوتا۔
ایک اور دلیل یہ ہے کہ ہر کثرت وحدت کی تابع ہوتی ہے ‘ مثلا کئی وزیر ہوں تو ان پر ایک وزیر اعلی ہوتا ہے ‘ کئی وزیر اعلیٰ ہوں تو ان پر ایک وزیر اعظم ہوتا ہے ‘ کئی کا نسٹیبل ہوں تو ان پر ایک ہیڈ کا نسٹیبل ہوتا ہے ‘ کئی ڈائریکٹر ہوں تو ان کا ایک چیرمین ہوتا ہے۔ اگر سب وزیر ہوں اور ان کے اوپر کوئی وزیر اعلی نہ ہو تو وزارت کا نظام فاسد ہوجائے گا ‘ اگر کئی ماسٹر ہوں اور ان کے اوپر کوئی ہیڈ ماسٹر نہ ہو تو اسکول کا نظام فاسد ہوجائے گا ‘ لہذا جب تک کثرت کے اوپر کوئی وحدت نہ ہو اس کثرت کا نظام فاسد ہوجاتا ہے، تو اس کائنات کی کثرت کے اوپر اگر اللہ کی وحدت نہ ہوتی تو اس کا نظام فاسد ہوجاتا اور اس نظام کا قائم رہنا اس کی دلیل ہے کہ یہ کسی وحدت کے تابع ہے۔
اسی کے قریب یہ دلیل ہے کہ کسی ملک میں مساوی طاقت اور اختیار کے دو حکمران نہیں ہوتے۔ جہاں پارلیمانی نظام ہے وہاں صرف ایک بااختیار وزیراعظم ہوتا ہے اور جہاں صدارتی نظام ہے وہاں صرف ایک باختیار صدر ہوتا ہے۔ اگر کسی ملک میں دو مساوی اختیار کے حکمران ہوں تو وہاں کا نظام چل نہیں سکتا ‘ ان میں اختلاف اور ٹکراؤ ہوگا ‘ اور ان میں سے کسی کی بھی حکومت قائم نہ رہ سکے گی تو جب ایک ملک کے دو صدر یا دو وزیر اعظیم نہیں ہوسکتے تو اس کائنات کے دو خدا کیسے ہوسکتے ہیں !
شرک کی تعریف :
علامہ تفتازانی لکھتے ہیں :
الاشراک ھو اثبات الشریک فی الالوھیۃ بمعنی وجوب الوجود کما للمجوس اوبمعنی استحقاق العبادۃ کمالعبدہ الاصنام “۔ (شرح العقائد ص ٥٦‘ مطبوعہ محمد سعید اینڈ سنز ‘ کراچی)
شرک یہ ہے کہ کسی کو الوہیت میں شریک مانا جائے خواہ کسی کو اللہ کے سوا واجب الوجود مانا جائے جیسا کہ مجوس مانتے ہیں یا کسی کو عبادت کا مستحق مانا جائے جیسا کہ بت پرست مانتے ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ شرک کا مدار صرف دو چیزوں پر ہے ‘ وجوب وجود اور استحقاق عبادت ‘ اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو واجب الوجود یا مستحق عبادت مانے تو یہ شرک ہے ورنہ نہیں۔
علامہ زبیدی (رح) لکھتے ہیں :
(آیت) ” والذین ھم بہ مشرکون “ (النحل : ١٠٠) کی تفسیر میں ابو العباسرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور اس کے ساتھ شیطان کی عبادت بھی کرتے ہیں اسی وجہ سے یہ مشرک ہوگئے۔ (تاج العروس ج ٧ ص ١٤٨‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی ‘ بیروت)
کیا چیز شرک ہے اور کیا چیز شرک نہیں ہے :
اگر کوئی شخص کسی کی کوئی صفت مستقل بالذات مانے تو یہ بھی اس کو واجب الوجود ماننا ہے لہذا جو شخص کسی نبی (علیہ السلام) یا کسی ولی کے متعلق یہ عقیدہ رکھے کہ ان کے سننے یا دیکھنے کی صفت مستقل ہے یعنی وہ اپنی ذاتی طاقت سے سنتے یا دیکھتے ہیں یا ان کا علم ذاتی ہے تو یہ شرک ہے اور اگر یہ عقیدہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی طاقت سے وہ سنتے ہیں اور دیکھتے ہیں اور ان کا علم اور قدرت اللہ کی عطا سے ہے تو یہ شرک نہیں ہے۔
” یا شیخ عبدالقادر جیلانی شیئ اللہ “ پڑھنے کے متعلق شیخ رشید احمد گنگوہی لکھتے ہیں ؛
اور جو شیخ قدس سرہ کو متصرف بالذات اور عالم غیب بالذات خود جان کر پڑھے گا وہ مشرک ہے اور اس عقیدہ سے پڑھنا کہ شیخ کو حق تعالیٰ اطلاع کردیتا ہے اور باذنہ تعالیٰ شیخ حاجت براری کردیتے ہیں تو یہ شرک نہ ہوگا۔ (فتاوی رشیدیہ کامل ص ٢٨‘ مطبوعہ محمد سعید اینڈ سنز ‘ کراچی)
” یا رسول اللہ انظر حالنا “ کہنے کے متعلق شیخ رشید احمد گنگوہی لکھتے ہیں :
یہ خود آپ کو معلوم ہے کہ نداء غیر اللہ تعالیٰ کو کرنا دور سے شرک حقیقی جب ہوتا ہے کہ ان کو عالم سامع مستقل اعتقاد کرے ورنہ شرک نہیں ‘ مثلا یہ جانے کے حق تعالیٰ ان کو مطلع فرمادیوے گا ‘ یا باذنہ تعالیٰ انکشاف ان کو ہوجاوے گا یا باذنہ تعالیٰ ملائکہ پہنچا دیویں گے جیسا درود کی نسبت وارد ہے یا محض شوقیہ کہتا ہو محبت میں یا عرض حال محل تحسر و حرمان میں کہ ایسے مواقع میں اگرچہ کلمات خطاب بولتے ہیں لیکن ہرگز نہ مقصود اسماع ہوتا ہے نہ عقیدہ ‘ پس انہی اقسام سے کلمات مناجات واشعار بزرگان کے ہوتے ہیں کہ فی حد ذاتہ نہ شرک نہ معصیت۔ (فتاوی رشیدیہ کامل مبوب ص ٦٨‘ مطبوعہ محمد سعید اینڈ سنز ‘ کراچی)
اہل قبور سے استعانت کے متعلق شیخ گنگوی لکھتے ہیں :
استعانت کے تین معنی ہیں : ایک یہ کہ حق تعالیٰ سے دعا کرے، کہ بحرمت فلان میرا کام کر دے یہ باتفاق جائز ہے ‘ خواہ عندالقبر ہو خواہ دوسری جگہ اس میں کسی کو کلام نہیں ‘ دوسرے یہ کہ صاحب قبر سے کہے کہ تم میرا کام کردو یہ شرک ہے خواہ قبر کے پاس کہے خواہ قبر سے دور کہے۔ ١ (شیخ گنگوہی اس سے پہلے لکھ چکے ہیں کہ جو شخص کو متصرف بالذات اور عالم الغیب کے عقیدہ کے ساتھ ” یا شیخ عبدالقادر جیلانی شیئ اللہ “ کہے تو شرک ہے یہی قید یہاں بھی ملحوظ ہونی چاہیے کہ جو شخص صاحب قبر کو متصرف بالذات سمجھ کر یہ کہے ” تم میرا کام کردو “ تو یہ شرک ہے۔ منہ) اور بعض روایات میں جو آیا ہے ” اعینونی عباد اللہ “ تو وہ فی الواقع کسی میت سے استعانت نہیں بلکہ عباد اللہ جو صحرا میں موجود ہوتے ہیں ان سے طلب اعانت ہے کہ حق تعالیٰ نے ان کو اسی کام کے واسطے وہاں مقرر کیا ہے تو وہ اس باب سے نہیں ہے ‘ اس سے حجت جواز پر لانا جہل ہے معنی حدیث سے ‘ تیسرے یہ کہ قبر کے پاس جا کر کہے اے فلاں ! تم میرے واسطے دعا کرو کہ حق تعالیٰ میرا کام کر دیوے ‘ اس میں اختلاف علماء کا ہے ‘ مجوزسماع موتی اس کے جواز کے مقر ہیں اور مانعین سماع منع کرتے ہیں ‘ سو اس کا فیصلہ اب کرنا محال ہے مگر انبیاء (علیہم السلام) کے سماع میں کسی کو خلاف نہیں ‘ اسی وجہ سے ان کو مستثنی کیا ہے اور دلیل جواز یہ ہے کہ فقہاء نے بعد سلام کے وقت زیارت قبر مبارک شفاعت مغفرت کا عرض کرنا لکھا ہے ‘ پس یہ جواز کے واسطے کافی ہے۔ (فتاوی رشیدیہ کامل مبوب ص ١١٢‘ مطبوعہ محمد سعید اینڈ سنز ‘ کراچی)
یہاں تک ہم نے یہ بیان کیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو واجب الوجود مانا جائے یا کسی غیر اللہ کی کوئی صفت مستقل بالذات مانی جائے تو یہ شرک ہے ورنہ شرک نہیں ہے ‘ لہذا عطائی علم ‘ عطائی قدرت اور عطائی اختیارات ماننا شرک نہیں ہے اور اس عقیدہ سے یا رسول اللہ کہنا جائز ہے جیسا کہ علماء دیوبند کے سب سے بڑے عالم شیخ رشید احمد گنگوہی کے حوالوں سے گزرچکا ہے۔ اب ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اگر غیر اللہ کی تعظیم بہ طور عبادت کی جائے تو یہ شرک ہے اور اگر بہ طور عبادت تعظیم نہ کی جائے تو یہ شرک نہیں ہے۔
علامہ محمد حصکفی لکھتے ہیں :
بعض لوگ علماء اور مشائخ کے سامنے زمین کو بوسہ دیتے ہیں ‘ یہ فعل حرام ہے ‘ اس فعل کا کرنے والا اور اس پر راضی ہونے والا دونوں گہنگار ہیں کیونکہ یہ بت پرستوں کی عبادت کے مشابہ ہے اور آیا اس پر تکفیر کی جائے گی ؟ اگر یہ فعل بہ طور عبادت اور تعظیم ہو تو یہ کفر ہے اور اگر یہ فعل صرف بہ طور تعظیم ہو تو پھر یہ کفر نہیں ہے ‘ لیکن گناہ کبیرہ ہے۔ (در المختار ج ٥ ص ٢٤٦‘ مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی ‘ بیروت ١٤١٧ ھ)
خلاصہ یہ ہے کہ کسی شخص کی کسی صفت کو مستقل بالذات سمجھنا شرک ہے اور کسی شخص کی تعظیم بہ طور عبادت کرنا شرک ہے ‘ اس لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تعظیما قیام کرنا اور یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہنا شرک نہیں ہے اور اسی نوع کے دوسرے افعال جو آپ کی تعظیم اور محبت کی جہت کیے جاتے ہیں شرک نہیں ہیں۔
[Tibyan-ul-Quran 2:21]