*”سستی” ہمارا دشمن*

غیر ضروری معاملات کے مقابلے میں ضروری معاملات کو مؤخر کرنے کا نام تساہل ،سستی یا ٹال مٹول ہے ۔

ہم بعض اہم کاموں کو اس لئے چھوڑ دیتے ہیں کہ انہیں کرنے کا موڈ نہیں ہوتا بعض اوقات اس لئے چھوڑ دیتے ہیں کہ انہیں کرنے کے لئے خوامخواہ کے مناسب وقت اور سکون کی تلاش میں ہوتے ہیں اور بعض اوقات اس لئے چھوڑ دیتے ہیں کہ کرنے کے لئے ابھی کافی عمر باقی ہے اور یوں ہم اللہ کی نعمت ’’وقت‘‘ کو رائیگاں کرتے رہتے ہیں ۔

یہ تساہل ،سست روی ، ٹال مٹول ، تاخیراور “پھر کبھی” جیسے الفاظ ہمارے دراصل دشمن ہیں ۔ یہ نشہ آور چیزوں سے زیادہ نقصان دہ ہیں ۔ جو شخص نشہ کرتا ہے وہ نقصان دہ ہے مگر اپنی ذات تک، کیونکہ وہ معاشرے سے کافی حد تک کٹ جاتا ہے مگر تساہل اور سست روی کا شکار فرد معاشرے میں شامل رہ کراسے نقصان پہنچاتا ہے ۔ دفاتر ہوں یا کاروبار یا پھرگھر، ہر جگہ اس تساہل پسندی نے مسائل پیدا کئے ہوئے ہیں ۔

آئندہ پر ٹالنے والے کی مثال اس آدمی کی سی ہے جسے ایک درخت اکھاڑنا ہو ، وہ دیکھے کہ درخت مضبوط ہے ، مشقت سے اکھڑے گا تو کہے کہ اسے کچھ عرصے بعد اکھاڑ دوں گا ، حالانکہ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ درخت جتنی مدت باقی رہے گا،مزید مضبوط ہوتا جائے گا اوروہ خودعمر گزرنے کے ساتھ ساتھ کمزور ترہوتا جائے گا ۔جب وہ طاقتور ہونے کے باوجود درخت کو کمزوری کی حالت میں نہیں اکھاڑ سکا تو جب وہ کمزور ہو جائے گا اور درخت زیادہ طاقتور تو پھر اسے کیسے اکھاڑے گا۔

ایک مرتبہ کسی نے سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی بارگاہ میں عرض کی: یا امیرَ المومنین ”یہ کام آپ کل پر مُؤَخَّر(مُ۔اَخ۔خَر) کردیجئے ارشاد فرمایا: ” میں روزانہ کا کام ایک دن میں بمشکل مکمل کرپاتا ہوں اگرآج کا کام بھی کل پرچھوڑدوں گا تو پھر دو دن کا کام ایک دن میں کیونکر کر سکوں گا؟”

آج کا کام کل پر مت ڈالو کل دوسرا کام ہوگا

ہماری زندگی میں ’’ کل ‘‘ کا تصور بھی دراصل ایک دھوکا ہے جو ہمیں وقت ضائع کرنے کی شرم اور افسوس سے بچاتا رہتا ہے ۔ انسان کی زبان میں کوئی لفظ ایسا نہیں ہے جو ’’ کل‘‘ کے لفظ کی طرح اتنی حماقتوں ، و عدہ خلافیوں ، بے جا امیدوں ، غفلتوں ، بے پروائیوں اور اتنی برباد ہونے والی زندگیوں کے لئے جوابدہ ہو ، کیوں کہ یہ آنے والی ’’کل‘‘کبھی نہیں آتی۔

نامور اور بڑے کام کرنے والے لوگوں کے رجسٹر میں ’’ کل ‘‘ کا لفظ کہیں نہیں ملتا ، البتہ کم ہمت کمتر لوگوں کے ہاں یہ بکثرت مل سکتا ہے ۔ کل کا لفظ تو ایسے لوگوں کے لئے ہے جو صبح سے شام تک خیالی پلاؤ پکاتے رہتے ہیں اور شام سے صبح تک خواب دیکھتے رہتے ہیں ۔

ایسے لوگ شاید اس دھوکے میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں کہ آنے والا ’’ کل ‘‘ خود کام کے لئے ساز گار حالات پیدا کرے گا ۔ یہ رویہ یقینا ہم لوگوں کے لئے بحیثیت فرد ، بحیثیت قوم اور بحیثیت امت نقصان دہ ہے ۔ لہذا ہمیں ہر کام اس کے وقت پر کرنے کی عادت اپنانا ہوگی ۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں سستی اور کاہلی سے ہر دم بچائے رکھے ۔۔۔ آمین

*(منجانب : سوشل میڈیا ، دعوت ِ اسلامی)*