بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَالَّذِيۡنَ يُتَوَفَّوۡنَ مِنۡكُمۡ وَيَذَرُوۡنَ اَزۡوَاجًا يَّتَرَبَّصۡنَ بِاَنۡفُسِهِنَّ اَرۡبَعَةَ اَشۡهُرٍ وَّعَشۡرًا ‌‌ۚ فَاِذَا بَلَغۡنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡكُمۡ فِيۡمَا فَعَلۡنَ فِىۡٓ اَنۡفُسِهِنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِؕ وَاللّٰهُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِيۡرٌ

اور تم میں سے جو لوگ وفات پاجائیں اور اپنی بیویاں چھوڑ جائیں ‘ تو وہ (عورتیں) اپنے آپ کو (عقد ثانی سے) چار ماہ دس دن روکے رکھیں ‘ اور جب وہ اپنی عدت پوری کرلیں ‘ تو وہ دستور کے موافق جو کام اپنے لیے کریں اس میں تم پر کوئی حرج نہیں ہے اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس کی خوب خبر رکھنے والا ہے

عدت وفات کا بیان اور عدت کی تعریف :

اس سے پہلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے مطلقہ عورت کی عدت کا ذکر فرمایا تھا اور اب بیوہ کی عدت کا ذکر فرمارہا ہے۔

وہ مدت جس میں عورت شوہر کی گھر میں بغیر نکاح کے ٹھہری رہے اور بغیر عذر شرعی کے گھر سے باہر نہ نکلے تاکہ اس کے رحم کا استبراء ہوجائے یا شوہر کی موت پر سوگ ہو ‘ مطلقہ کے لیے یہ مدت تین حیض ہے اور بیوہ کے لیے یہ عدت چار ماہ دس دن ہے اور جو عورت حاملہ ہو اس کی عدت وضع حمل ہے خواہ شوہر کی موت کے ایک ساعت بعد واضع حمل ہوجائے ‘ عدت وفات میں مدخول بہا اور غیر مدخول بہا کا کوئی فرق نہیں ہے۔ چار ماہ دس دن تک سوگ کرنا صرف شوہر کی موت کے ساتھ خاص ہے اور کسی عزیز یا رشتہ دار کی موت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنا جائز نہیں ہے۔

امام بخاری روایت کرتے ہیں :

زینب بنت ابی سلمہ بیان کرتی ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجہ حضرت ام حبیبہ (رض) کے پاس گئی انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو عورت اللہ پر اور یوم آخرت پر یقین رکھتی ہو اس کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کسی کی مرگ پر دین دن سے زیادہ سوگ کرے ‘ سوائے شوہر کے اس پر چار ماہ دس دن سوگ کرے۔ پھر جب حضرت زینب بنت جحش کے بھائی فوت ہوگئے تھے تو میں ان کے پاس گئی انہوں نے خوشبو منگا کر اپنے جسم پر لگائی اور کہا : مجھے خوشبو لگانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ‘ البتہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سنا ہے کہ جو عورت اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان لائی ہو اس کے لیے کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنا جائز نہیں ہے ‘ البتہ خاوند (کی موت) پر چار ماہ دس دن تک سوگ کرے گی۔ (صحیح بخاری ج ١ ص ١٧١‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ)

عدت کے مسائل اور شرعی احکام :

علامہ علاء الدین حصکفی حنفی لکھتے ہیں :

مسلمان منکوحہ بالغہ عورت جب طلاق ثلاثہ مغلظہ کی عدت گزارے یا عدت وفات گزارے تو انقطاع نکاح پر افسوس کے اظہار کے لیے زینت کو ترک کر دے ‘ زیورات اور ریشمی کپڑے نہ پہنے باریک داندانوں کی کنگھی سے بال نہ سنوارے ‘ خوشبو اور تیل نہ لگائے ‘ سرمہ اور مہندی نہ لگائے ‘ زعفران اور سرخ یا زرد رنگ میں رنگے کپڑے نہ پہنے ‘ ہاں عذر کی وجہ سے ان میں سے کسی ایک چیز کو بھی اختیار کرسکتی ہے ‘ کالے اور نیلے رنگ کے کپڑے پہن سکتی ہے ‘ کافرہ ‘ صغیرہ ‘ مجنونہ ‘ نکاح فاسد ‘ وطی بالشبہ اور طلاق رجعی کی معتدہ پر سوگ نہیں ہے۔ دیگر رشتہ داروں کی موت پر صرف تین دن تک سوگ کرنا مباح ہے ‘ خاوند کے لیے جائز ہے کہ عورت کو تین دن سے زیادہ سوگ کرنے پر منع کرے کیونکہ عورت کا مزین ہونا اس کا حق ہے ‘ ہاں اگر خاوند کو اعتراض نہ ہو یا عورت شادی شدہ نہ ہو تو پھر تین دن سے زیادہ بھی سوگ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ (علامہ شامی نے کہا ہے کہ علامہ حصکفی کا تین دن سے زیادہ سوگ کی اجازت دینا صحیح نہیں ہے اور یہ حدیث کے خلاف ہے جیسا کہ ابھی ” صحیح بخاری “ کے حوالے سے گزرا ہے۔ سعیدی غفرلہ) ہر قسم کی عدت گزارنے والی کو نکاح کا پیغام دینا حرام ہے ‘ البتہ اشارہ کنایہ سے اپنا مدعا ظاہر کرنا جائز ہے مثلا کہے : مجھے امید ہے کہ ہم اکٹھے رہیں گے ‘ یا آپ بہت خوبصورت ہیں یا نیک ہیں ‘ بہ شرطی کہ وہ عورت عدت وفات گزار رہی ہو اور عدت طلاق میں ایسا کہنا مطلقا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ اس سے اس کے شوہر کے ساتھ عداوت پیدا ہوگی۔ جو عورت عدت گزار رہی ہو خواہ وہ طلاق رجعی کی عدت ہو یا طلاق بائن کی وہ گھر سے بالکل نہ نکلے ‘ نہ رات کو نہ دن کو ‘ اور اگر حویلی میں دوسرے لوگوں کے گھر ہوں تو اس کے صحن میں بھی نہ جائے خواہ شوہر کی اجازت ہو ‘ کیونکہ یہ اللہ کا حق ہے ‘ اور جو عورت عدت وفات گزار رہی ہو وہ دن اور رات میں گھر سے باہر جاسکتی ہے لیکن رات کا اکثر حصہ اپنے گھر میں گزارے۔ وجہ فرق یہ ہے کہ مطلقہ کے خرچ کا کفیل اس کا خاوند ہے اس لیے اس کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہے اور جو عدت وفات گزار رہی ہے ‘ اس کے خرچ کا کوئی کفیل نہیں ہے اس لیے اس کو طلب معاش کے لیے دن اور رات کے وقت میں نکلنا ہوگا ‘ ہاں اگر اس کے خرچ کی کفالت کا انتظام ہو تو پھر اس کو بھی مطلقہ کی طرح گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہے اور وہاں عدت گزارے خواہ عدت طلاق ہو یا عدت وفات ‘ اور اس گھر سے نہ نکلے ‘ ماسوا اس صورت کے کہ اس کو اس گھر سے نکال دیا جائے ‘ یا وہ گھر منہدم ہوجائے یا اس گھر کے انہدام کا خدشہ ہو یا وہاں اس کے مال کے تلف ہونے کا خطرہ ہو ‘ اس کے پاس اس گھر کا کرایہ نہ ہو اس قسم کی اگر کوئی ناگزیر صورت ہو مثلا وہ اس گھر میں تنہا ہو اور اس کی جان کو خطرہ ہو ایسی صورت میں وہ اس گھر کے قریب کسی گھر میں منتقل ہوسکتی ہے اور عدت طلاق میں جہاں اس کا شوہر چاہے وہاں منتقل ہوجائے ‘ جب عورت عدت طلاق گزار رہی ہو تو اس کے اور شوہر کے درمیان ایک پردہ ضروری ہے اور اگر گھر تنگ ہو یا شوہر فاسق ہو تو پھر اس کا اس گھر سے نکل جانا بہتر ہے۔ (درمختار علی ھامش الرد ص ٦٢١۔ ٦١٦‘ ملخصا مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی ‘ بیروت ١٤٠٧ ھ)

عدت کے دوارن عورتوں کو جن کاموں سے منع کیا ہے مثلا بغیر عذر شرعی کے گھر سے باہر نکلنا یا بناؤ سنگھار کرنا ‘ یا کسی سے عقد ثانی کا عہدو پیمان کرنا ‘ اگر عورتیں عدت کے دوران ان میں سے کوئی کام کریں تو اس عورت کے وارثوں اور سرپرستوں پر لازم ہے کہ عورت کو اس سے منع کریں اور اگر وہ منع نہیں کریں گے تو گنہگار ہوں گے اور اگر اس عورت کے اولیاء نہ ہوں تو پھر یہ حکام اور عام مسلمانوں کا فریضہ ہے ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : اور جب وہ اپنی عدت پوری کرلیں تو وہ دستور کے موافق جو کام اپنے لیے کریں اس میں تم پر کوئی حرج (یا گناہ) نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر انہوں نے عدت سے پہلے یہ کام کیے اور تم نے ان کو نہ روکا تو تمہیں گناہ ہوگا۔

اس آیت میں عدت وفات چار ماہ دس دن بیان کی گئی ہے لیکن یہ عدت وفات غیر حاملہ کے ساتھ مخصوص ہے جو عورت حاملہ ہو اس کی عدت وضع حمل ہے خواہ شوہر کی وفات کے ایک منٹ بعد وضع حمل ہوجائے ‘ قرآن مجید میں ہے :

(آیت) ” واولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن “۔ (الطلاق : ٤)

ترجمہ : اور حاملہ عورتوں کی عدت یہ ہے کہ ان کا وضع حمل ہوجائے۔

اس سے پہلے عدت وفات ایک سال تھی جیسا کہ اس آیت سے ظاہر ہے :

(آیت) ” والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجا، وصیۃ لازواجھم متاعا الی الحول غیر اخراج “۔ (البقرہ : ١٤٠)

ترجمہ : اور تم میں سے جو لوگ مرجائیں اور اپنی بیویاں چھوڑ جائیں وہ (مرنے سے پہلے) اپنی بیویوں کے لیے یہ وصیت کر جائیں کہ ان کا گھر سے نکالے بغیر ان کو ایک سال کا خرچ دیا جائے۔

سورة بقرہ کی زیر بحث آیت سے یہ آیت منسوخ ہوگئی اور اب ایک سال کے بجائے چارہ ماہ دس دن عدت وفات ہے۔ اس آیت کی تفسیر انشاء اللہ عنقریب بیان کی جائے گی۔

تفسیر تبیان القرآن – سورۃ 2 – البقرة – آیت 234