حدیث نمبر :135

روایت ہے اسماء بنت ابوبکر سے ۱؎ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وعظ کے لیے کھڑے ہوئے ۲؎ تو آپ نے فتنۂ قبر کا ذکر فرمایاجس میں انسان مبتلا ہوتا ہے۳؎ تو جب یہ ذکر کیا تو مسلمانوں نے چیخ ماری۴؎ بخاری نے اسی طرح روایت کی نسائی نے یہ اور زیادہ کیا کہ ان کے درمیان چیخ حائل ہوگئی کہ میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا کلام سمجھ سکوں جب شوتھما تو میں نے اپنے نزدیکی آدمی سے کہا کہ اﷲ تجھے برکتیں دے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آخر کلام شریف میں کیا فرمایا؟۵؎ وہ بولے کہ حضور نے یہ فرمایا کہ مجھے وحی ہوئی ہے کہ تم اپنی قبروں میں فتنۂ دجال کے قریب فتنہ میں مبتلا کیے جاؤ گے۶؎

شرح

۱؎ آپ کا لقب ذات النطاقین ہے،عائشہ صدیقہ کی بڑی بہن،زبیر ابن عوام کی زوجہ،عبداﷲ ابن زبیر کی والدہ،ابوبکر صدیق کی صاحبزادی ہیں،آپ اٹھارھویں مؤمنہ ہیں،مکہ معظمہ میں ایمان لائیں،عائشہ صدیقہ سے دس سال بڑی تھیں،آپ کے صاحبزادے عبداﷲ ابن زبیرکو حجاج ابن یوسف نے سولی دی تھی۔چوب سے آپ کی لاش اتارنے کے دس روز بعد حضرت اسماء کا انتقال ہوا مکہ معظمہ میں دفن ہوئیں،یہ واقعہ۷۳ ھ؁ میں ہوا۔

۲؎ مسجدنبوی شریف میں جہاں مردوں اورعورتوں کا اجتماع تھا مرد آگے تھے عورتیں پردے کے ساتھ پیچھے جیسا کہ اس زمانہ میں عام مروج تھا بلکہ عورتوں کو حکم تھا کہ وعظ کی مجالس میں شرکت کیا کریں تاکہ انہیں اپنے احکام و مسائل معلوم ہوں۔خیال رہے کہ خطبہ اور وعظ کھڑے ہو کر کہنا سنت ہے۔شامی میں ہے کہ خطبۂ نکاح بھی کھڑے ہوکر پڑھاجائے۔

۳؎ فتنۂ قبر سے مراد وہاں کا امتحان ہے۔اَلْمَرْءُسےمعلوم ہوا کہ حساب قبرصرف انسانوں سے ہے جنات یا جانوروں سے نہیں کیونکہ ان کے لیئے نہ جنت ہے،نہ وہاں کی نعمتیں۔کفار جن کے لیئے صرف جہنم ہے جانوروں کے لیئے دونوں میں کچھ نہیں،بلکہ مظالم کا بدلہ کرا کر انہیں مٹی کردیا جائے گا اس کی تحقیق ہمارے فتویٰ میں دیکھو۔

۴؎ ہیبت سےگھبرا کر رو پڑے اور بے اختیاری چیخ نکل گئی،اس میں ریاء کی گنجائش نہ تھی۔خیال رہے کہ خوفِ الٰہی میں صرف آنسوؤں سے رونا بہت بہترہے،رب تعالٰی فرماتاہے:”تَرٰۤی اَعْیُنَہُمْ تَفِیۡضُ مِنَ الدَّمْعِ “لیکن اگر بے اختیاری میں لوگوں کے سامنے چیخ نکل جائے تو بھی عبادت۔

۵؎ اس سے چند مسئلے معلوم ہوئے:ایک یہ کہ عورت اجنبی مرد سے ضرورتًا پردے میں رہ کر کلام کرسکتی ہے،بشرطیکہ سادی گفتگو کرے آواز میں شیرینی اور لوچ نہ ہو،رب فرماتاہے:”وَ اِذَا سَاَلْتُمُوۡہُنَّ مَتٰعًا فَسْـَٔلُوۡہُنَّ مِنۡ وَّرَآءِ حِجَابٍ”اورفرماتا ہے:”فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ”۔دوسرے یہ کہ دعائیں دےکر کوئی بات پوچھنا بہتر ہے تاکہ مخاطب کو خوشی ہو،مؤمن کو خوش کرنا بھی عبادت ہے۔تیسرے یہ کہ دینی باتوں میں ایک کی خبربھی قبول ہے گواہیوں کی ضرورت نہیں۔

۶؎ یعنی فتنۂ قبرفتنۂ دجال کی طرح بڑا ہی خطرناک ہے جیسے دجال کی شرسے وہی بچے گا جسے اﷲ بچائے،ایسے ہی حساب قبر میں وہی کامیاب ہوگاجسے اﷲ کامیاب کرے،ان دونوں جگہ ثابت قدمی اپنی بہادری سے نہیں،دجال دعوئے خدائی کرے گا اور بہت لوگ اس کا اقرار کرلیں گے،قبر میں شیطان سامنے آجاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تیرا رب ہوں،مجھے رب مان لے کامیاب ہوجائے گا،اس کی ذریت میت کے مرے ہوئے عزیزوں کی شکل میں آکر کہتی ہے کہ بیٹے اسے خدا مان لے،دیکھو اعلٰی حضرت قُدِّسَ سِرُّہ کی کتاب ایذان الاجر اور ہماری کتاب “جاء الحق”اسی لیئے قبر پر اذان کہہ دیتے ہیں تاکہ شیاطین دفع ہوں۔