أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِى الۡمَهۡدِ وَكَهۡلًا وَّمِنَ الصّٰلِحِيۡنَ

ترجمہ:

وہ لوگوں سے گہوارے میں بھی کلام کرے گا اور پختہ عمر میں بھی اور نیکوں میں سے ہوگا

تفسیر:

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا پختہ عمر میں کلام کرنے کا معجزہ ہونا : 

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وہ لوگوں سے پنگوڑے میں اور حالت کہل میں باتیں کریں گے اور نیکوں میں سے ہوں گے۔ (آل عمران : ٤٦)

” کہل “ کا معنی ہے جب شباب پختہ اور تام ہوجائے اور یہ چالیس سے ساٹھ سال کی عمر کا زمانہ ہوتا ہے۔ اس آیت پر یہ سوال ہے کہ پنگوڑے میں باتیں کرنا تو قابل ذکر امر ہے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا معجزہ ہے۔ پختہ عمر میں بات کرنا کون سی خصوصیت ہے جس کا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے لئے ذکر ہے ‘ اس سوال کے متعدد جوابات ہیں : ایک یہ کہ اس آیت سے مقصود نجران کے عیسائی وفد کا رد کرنا ہے جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی الوہیت کے مدعی تھے اللہ تعالیٰ نے فرمایا وہ بچپن سے کہولت تک کا زمانہ گزاریں گے اور اس زمانہ میں ان پر جسمانی تغیرات آتے رہیں گے ‘ اور خدا وہ ہوتا ہے جس پر کوئی تغیر اور تبدل نہ آسکے کیونکہ تغیر حدوث کو مستلزم ہے ‘ دوسرا جواب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو تینتیس سال کی عمر میں آسمانوں پر اٹھالیا گیا ‘ پھر کئی ہزار سال جب وہ آسمان سے اتریں گے تو وہ کہولت اور پختہ عمر کے ہوں گے اور یہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا معجزہ ہے کہ کئی ہزار برس گزرنے کے بعد بھی چالیس سال کے ہوں گے ‘ سو ان کا پنگوڑے میں کرنا بھی معجزہ ہے اور پختہ عمر میں باتیں کرنا بھی معجزہ ہے کیونکہ لیل ونہار کی گردش اور ہزاروں سال کا گذرنا ان کی جسمانی ساخت پر اثر انداز نہیں ہوا اور جس طرح پختہ عمر میں وہ اٹھائے گئے تھے آسمانوں سے اترنے کے بعد بھی وہ اسی پختہ عمر کے ہوں گے۔

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا میلاد :

حافظ ابو القاسم علی بن الحسن ابن عساکر متوفی ٥٧١ ھ لکھتے ہیں :

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور کتاب میں مریم کا ذکر کیجئے یعنی یہود ‘ نصاری اور مشرکین عرب میں حضرت عیسی علیہ السلام کے میلاد کو بیان کیجئے جب مریم بیت المقدس سے نکل کر اس کی مشرقی جانب چلی گئیں ‘ وہ ایسی جگہ چلی گئیں جہاں ان کے اور ان کے قوم کے درمیان ایک پہاڑ تھا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے پھر ہم نے ان کے پاس اپنی روح یعنی حضرت جبرائیل کو بھیجا وہ ان کے سامنے مکمل انسانی صورت میں آئے ان کا رنگ سفید تھا اور بال گھونگھریالے تھے ‘ مریم نے جب ان کو اپنے سامنے دیکھا تو کہا۔ میں تم سے رحمن کی پناہ میں آتی ہوں اگر تم اس سے ڈرنے والے ہو تو ‘ کیونکہ حضرت جبریل کی صورت اس شخص کے مشابہ تھی جس نے ان کے ساتھ ہی بیت المقدس میں پرورش پائی تھی وہ قوم بنی اسرائیل سے تھا اور اس کا نام یوسف تھا اور وہ بھی بیت المقدس کے خدام میں سے تھا ‘ مریم کو خدشہ ہوا کہیں وہ شیطان کے ورغلانے سے تو نہیں آیا جبریل نے کہا میں تو محض تمہارے رب کا (بھیجا ہوا) رسول ہوں تاکہ تم کو ایک پاکیزہ لڑکا عطا کروں۔ مریم نے کہا میرے ہاں لڑکا کیسے پیدا ہوگا مجھے تو کسی خاوند نے نہیں چھوا اور میں کوئی بدکار عورت نہیں ہوں۔ جبریل نے کہا اسی طرح ہوگا آپ کے رب پر یہ آسان ہے یعنی بغیر مرد کے پیدا کرنا کیونکہ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور ہم اس کو لوگوں کے لئے (اپنی قدرت پر) نشانی بنائیں گے اور وہ ہماری طرف سے اس شخص کے لئے رحمت ہوگا جو اس کی تصدیق کرے گا ‘ اور وہ لوگوں کو کتاب کی تعلیم دے گا یعنی اپنے ہاتھ سے کتاب لکھے گا اور حکمت کی یعنی سنت کی تعلیم دے گا ‘ اور تورات اور انجیل کی تعلیم دے گا اور وہ بنواسرائیل کی طرف رسول ہوگا اور میں اس کے ہاتھ اپنی نشانیاں اور عجیب و غریب امور کو ظاہر کروں گا ‘ پھر مریم حضرت عیسیٰ حاملہ ہوگئیں ‘ حضرت ابن عباس (رض) نے کہا جبریل (علیہ السلام) قریب آئے اور انہوں نے حضرت مریم کے گریبان میں پھونک ماری اور وہ پھونک ماری اور وہ پھونک حضرت مریم کے پیٹ میں چلی گئی اور اس سے مریم کو اسی طرح حمل ہوگیا جس طرح عورتوں کو حمل ہوتا ہے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اسی طرح پیدا ہوئے جس طرح عورتوں سے بچے پیدا ہوتے ہیں۔ (آل عمران : ٤٩۔ ٤٨‘ مریم : ٢٢ : ١٧)

حضرت ابی بن کعب بیان کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کی روح ان روحوں میں سے تھی جن سے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کے زمانہ میں میثاق لیا تھا پھر اللہ تعالیٰ نے بشر کی صورت میں حضرت مریم کے پاس جبریل (علیہ السلام) کو بھیجا پھر وہ اس روح سے حاملہ ہوگئیں۔

مجاہد روایت کرتے ہیں کہ حضرت مریم بیان کرتی ہیں کہ جب میں کسی سے بات کرتی تو حضرت عیسیٰ پیٹ میں تسبیح کرتے رہتے تھے اور جب میرے پاس کوئی نہیں ہوتا تھا تو وہ مجھ سے بات کرتے اور میں ان سے بات کرتی۔

حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بچپن میں باربار گویائی عطا فرمائی انہوں نے تین مرتبہ کلام کیا پھر وہ اس طرح بہ تدریج بالغ ہوگئے جس طرح بچے بالغ ہوتے ہیں جب وہ بچپن میں کلام کرتے تھے تو وہ اللہ کی اس طرح حمد کرتے کہ اس سے پہلے کانوں نے اللہ تعالیٰ کی ایسی حمد نہیں سنی تھی۔ وہ کہتے اے اللہ ! تو قریب ہونے کے باوجود بہت بلند ہے تو اپنی مخلوق میں سے ہر چیز سے بلند ہے۔ تو اپنی ساری مخلوق کو دیکھتا ہے اور مخلوق تجھے دیکھنے کے لئے حیران ہے ‘ تو نے ہی اندھیروں کو اپنے نور سے روشن کیا تو نے عرش کے ارکان کو منور کیا ‘ کوئی شخص اپنی صفت سے تیری صفت تک نہیں پہنچ سکتا۔ اے اللہ تو برکت والا ہے تو تمام مخلوق کا خالق ہے اور اپنی حکمت سے ہر چیز کی تقدیر بنانے والا ہے تو مخلوق کو ابتداء میں پیدا کرنے والا ہے پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی گویائی کو روک لیا حتی کہ وہ بالغ ہوگئے۔

حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں نے خواب میں دیکھا کہ میں کعبہ کا طواف کررہا ہوں۔ اس وقت میں نے سیدھے بالوں والے گندمی رنگت کے ایک شخص کو دیکھا جس کے سر سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے ‘ میں نے پوچھا یہ کون ہے ؟ لوگوں نے کہا یہ ابن مریم ہیں۔

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اصحاب سے شب معراج کا واقعہ بیان کیا اور حضرت ابراہیم ‘ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا حضرت ابراہیم سب سے زیادہ تمہارے پیغمبر کے مشابہ ہیں یا فرمایا ان کی اولاد میں سب سے زیادہ میں ان سے مشابہ ہوں ‘ رہے موسیٰ تو وہ گندمی رنگ کے لمبے سیدھے ہیں اور ان کے چہرے پر تل زیادہ ہیں۔

جب ان کی عمر سات سال ہوئی تو ان کی ماں نے ان کو مکتب میں داخل کردیا جب معلم حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو کوئی چیز بتاتا تو آپ اس کے بتانے سے پہلے اس کو جان لیتے تھے۔ (مختصر تاریخ دمشق ج ٢٠ ص ٩٣۔ ٨٥‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ دمشق ‘ ١٤٠٤ ھ)

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اپنے بچپن میں بہت عجیب و غریب امور کا مشاہدہ کرتے تھے اور انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوتا تھا یہ بات یہود تک بھی پہنچ گئی اور بنواسرائیل نے ان کو ضرر پہنچانے کا ارادہ کیا اور انکی والدہ کو ان کے متعلق خوف دامن گیر ہوا تب اللہ نے حضرت مریم کے دل میں یہ بات ڈالی کہ وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو لے کر مصر چلی جائیں ‘ جیسا کہ اس آیت میں ہے :

(آیت) ” واوینھما الی ربوۃ ذات قرار ومعین “۔ (المؤمنون : ٥٠)

ترجمہ : اور ہم نے ان کو ایک اونچی ہموار زمین کی طرف پناہ دی جو بسنے کے لائق تھی اور اس میں چشمے جاری تھے۔

وہب بن منبہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تیرہ سال کے ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو مصر سے ایلیا (بیت المقدس کا شہر) جانے کا حکم دیا۔ ان کے ماموں زاد بھائی ان کو دراز گوش پر سوار کرا کر ایلیاء لائے اور انہوں نے وہیں پر اقامت کی ‘ حتی کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر انجیل نازل کی اور ان کو تورات کا علم سکھایا اور انہیں مردے زندہ کرنے ‘ بیماروں کو تندرست کرنے کے معجزات دیئے ‘ اور لوگ جن چیزوں کو اپنے گھروں میں ذخیرہ کرتے ان کے غیوب کا غلم دیا۔ لوگ ان کے آنے پر چہ میگوئیاں کرنے لگے ‘ اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھوں سے عجیب و غریب کاموں کے صدور کو دیکھ کر خوفزدہ ہوگئے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو اللہ کی دعوت دی اور ان کا پیغام لوگوں میں پھیل گیا۔

حضرت عبادہ بن الصامت (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے یہ شہادت دی کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں وہ واحد ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور لاریب محمد اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور بیشک عیسیٰ ‘ اللہ کے بندے ہیں اور اس کا وہ کلمہ ہیں جس کو اس نے مریم کی طرف القاء کیا اور اس کی طرف سے روح ہیں اور بیشک جنت حق ہے اور نار حق ہے تو وہ شخص خواہ کوئی عمل کرے اللہ اس کو جنت میں داخل کر دے گا۔ (مختصر تاریخ دمشق ج ٢٠ ص ٩٥۔ ٩٤‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ دمشق ‘ ١٤٠٤ ھ)

مائدہ کا نزول اور اس میں شک کرنے والوں پر عذاب آنا :

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے حواریوں سے کہا تم تیس دن کے روزے رکھو پھر تم اللہ سے جو دعا بھی کرو گے اللہ اس کو قبول فرمائے گا ‘ انہوں نے تیس دن کے روزے رکھ لئے تو انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ اللہ سے دعا کیجئے کہ وہ ہمارے لئے آسمان سے دستر خوان نازل فرمائے۔ حضرت سلمان کی روایت میں ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے بہت خشوع اور خضوع سے دعا کی اے اللہ ! ہمارے اوپر آسمان سے دستر خوان نازل فرما جو ہمارے پہلوں اور پچھلوں کے لئے عید ہوجائے اور تیری نشانی ہوجائے اور تو ہمیں رزق عطا فرما تو سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔ (المائدہ : ١١٤) سو دو اوپر تلے بادلوں کے درمیان ایک دسترخوان نازل ہوا لوگ اس کی طرف دیکھ رہے تھے ‘ حضرت ابن عباس (رض) نے کہا فرشتے اس دسترخوان کو اٹھائے ہوئے تھے اس میں سات مچھلیاں اور سات روٹیاں تھیں تمام لوگوں نے اس سے سیر ہو کر کھالیا۔ حضرت سلمان نے کہا اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف وحی کی اے عیسیٰ یہ مائدہ ہے اس کے بعد تم میں سے جس نے کفر کیا تو میں اس کو ایسا عذاب دوں گا کہ تمام جہانوں میں کسی کو ایسا عذاب نہیں دوں گا۔ (المائدہ : ١١٥) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو تبلیغ کردی۔ حواریوں کو یہ خوف ہوا کہ کہیں اس مائدہ کا نزول اللہ کی ناراضگی کی وجہ سے تو نہیں ہے ‘ پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے بھوکوں ‘ لنجوں ‘ اندھوں ‘ کوڑھیوں اور دیوانوں کو بلایا اور فرمایا اپنے رب کے رزق ‘ اپنے نبی کی دعا اور اپنے رب کی نشانی سے کھاؤ اس کی برکت تمہارے لئے ہوگی اور اس کی نحوست دوسروں کے لئے ہوگی ‘ انہوں نے وہ کھانا کھایا اور وہ تیرہ سو مرد اور عورتیں اس کھانے سے سیر ہوگئے ‘ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے دسترخوان کی طرف دیکھا تو وہ پہلے کی طرح بھرا ہوا تھا۔ پھر وہ دسترخوان اوپر اٹھا لیا گیا وہ اس کے سائے کو دیکھتے رہے حتی کہ وہ نظروں سے اوجھل ہوگیا ‘ جس فقیر نے بھی اس دسترخوان سے کھایا وہ تادم حیات کھانے سے مستغنی رہا اور جس بیمار نے بھی اس دسترخوان سے کھایا وہ تادم حیات صحت مند رہا ‘ اس کے بعد حواری اور باقی سب لوگ نادم ہوئے ‘ پھر دوبارہ جب مائدہ نازل ہوا تو امیر اور غریب مرد اور عورت بچے اور بوڑھے بیمار اور تندرست سب لوگ ہر جگہ سے اس مائدہ پر ٹوٹ پڑے حتی کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان کی باریاں مقرر کردیں ‘ پھر ایک دن مائدہ نازل ہوتا اور ایک دن غائب رہتا۔ چالیس روز تک یہی معمول رہا ‘ پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف وحی کی کہ میرا یہ رزق صرف یتیموں ‘ لنجوں اور فقراء کو دینا اور اغنیاء کو نہ دینا۔ اس بات سے اغنیاء ناراض ہوگئے انہوں نے برائیوں کو پھیلایا اور اس میں شک کیا حتی کہ ان میں سے ایک شخص نے کہا اے کلمۃ اللہ وروح اللہ ! کیا واقعی یہ مائدہ ہمارے رب کی طرف سے نازل ہوتا ہے ؟ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا تمہارے لئے تباہی ہو تم ہلاک ہوگئے اور تم پر عذاب نازل ہوگا الا یہ کہ اللہ تمہیں معاف کردے اور تم پر رحم فرمائے۔ پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی :

(آیت) ” ان نعذبھم فانھم عبادک وان تغفرلہم فانک انت العزیز الحکیم “۔ (المائدہ : ١١٨)

ترجمہ : اگر تو ان کو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو ان کو بخش دے تو تو بہت غالب بڑی حکمت والا ہے۔

پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو عذاب نازل ہونے کی خبر دی اور اللہ تعالیٰ نے ان میں سے تینتیس آدمیوں کو مسخ کرکے خنزیر بنادیا اور وہ صبح کو گھاس میں لید اور گندگی تلاش کرکے کھا رہے تھے۔ رات کو وہ اپنے بستروں پر اپنی بیویوں کے ساتھ بےخوفی سے سوئے تھے اور صبح اٹھے تو وہ مسخ ہو کر خنزیر بن چکے تھے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے گھر والے ان کو دیکھ کر روتے تھے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ان کا نام لے لے کر پکارتے تھے اور فرماتے تھے اے فلاں ! کیا میں نے تم کو اللہ کے عذاب سے نہیں ڈرایا تھا ؟ وہ اثبات میں سر ہلاتے تھے۔ (مختصر تاریخ دمشق ج ٢٠ ص ‘ ١١١۔ ١٠٦ مطبوعہ دارالفکر ‘ دمشق ‘ ١٤٠٤ ھ)

اس کی تصدیق ان آیات میں ہے :

(آیت) ” لعن الذین کفروا من بنی اسرآئیل علی لسان داؤد و عیسیٰ ابن مریم ذالک بما عصوا وکانوا یعتدون “۔ (المائدہ : ٧٨)

ترجمہ : بنواسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کیا ان پر داؤد اور عیسیٰ بن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی کیونکہ انہوں نے نافرمانی کی اور وہ حد سے تجاوز کرتے تھے۔

(آیت) ” من لعنہ اللہ وغضب علیہ وجعل منھم القردۃ والخنازیر “۔ (المائدہ : ٦٠)

ترجمہ : جن پر اللہ نے لعنت کی اور غضب فرمایا اور ان میں سے بعض کو بندر اور بعض کو خنزیر بنادیا۔

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی سیرت اور ان کے مواعظ :

جعفر بن برقان بیان کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) یہ دعا کرتے تھے اے اللہ ! میں نے اس حال میں صبح کی ہے کہ میں اپنی ناپسندیدہ چیز کو دور نہیں کرسکتا ‘ اور جس کی مجھے امید ہے اس کے نفع کا مالک نہیں ہوں ‘ صبح کو معاملہ میرے غیر کے ہاتھ میں ہے کوئی فقیر مجھ سے زیادہ محتاج نہیں ہے۔ اے اللہ میرے دشمنوں کو میری وجہ سے خوش نہ کر ‘ اور میرے دوستوں کو میری وجہ سے رنجیدہ نہ کر اور میری مصیبت میری دین میں نہ ڈال اور مجھ پر اور مجھ پر ایسے شخص کو مسلط نہ کر جو مجھ پر رحم نہ کرے۔

یونس بن عبید بیان کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ بن مریم کہتے تھے اس وقت تک کوئی شخص ایمان کی حقیقت کو نہیں پاسکتا جب تک کہ وہ اس سے بےپرواہ نہ ہوجائے کہ کون شخص دنیا کھارہا ہے۔

فضل بیان کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : اے رسولو ! پاکیزہ چیزوں سے کھاؤ (المومنوں : ٥١) یہ عیسیٰ بن مریم ہیں جو اپنی ماں کی سوت کاتنے کی کمائی سے کھاتے تھے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) درختوں کے پتے کھاتے اون کا لباس پہنتے جہاں شام ہوجاتی وہیں رات گزار لیتے ‘ ان کی اولاد تھی جس کے مرنے کا ڈر ہو نہ ان کا گھر تھا جس کے اجڑنے کی فکر ہو صبح کا کھانا رات کے لئے بچاکر نہیں رکھتے تھے اور رات کا کھانا صبح کے لئے نہیں رکھتے تھے۔ وہ فرماتے تھے کہ ہر دن اپنے ساتھ رزق لاتا ہے۔ صبح کا کھانا رات کے لئے بچا کر نہیں رکھتے تھے اور رات کا کھانا صبح کے لئے نہیں رکھتے تھے۔ وہ فرماتے تھے کہ ہر دن اپنے ساتھ رزق لاتا ہے۔

حسن بصری بیان کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پانی پر چلتے تھے۔ ان سے حواریوں نے کہا : اے روح اللہ ! آپ پانی پر چلتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں یہ محض اللہ پر یقین رکھنے کی وجہ سے ہے۔ انہوں نے ہم بھی اللہ پر یقین رکھنے والوں میں سے ہیں۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے پوچھا اگر تم کو راستہ میں موتی اور پتھر دونوں ملیں تو تم کس کو اٹھاؤ گے ؟ انہوں نے کہا موتی کو۔ حضرت عیسیٰ نے فرمایا نہیں خدا کی قسم جب تک تمہاری نظر میں موتی ‘ یاقوت اور پتھر برابر نہ ہوجائیں۔ حسن نے کہا اگر اللہ تعالیٰ ہمیں صرف اس وجہ سے عذاب دے کہ ہم دنیا سے محبت رکھتے ہیں تو اس کا عذاب دنیا برحق ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اس چیز سے محبت رکھتے ہو جس سے میں بغض رکھتا ہوں ‘ اور قرآن مجید میں ہے :

(آیت) ” تریدون عرض الدنیا واللہ یرید الاخرۃ “۔ (الانفال : ٦٧)

ترجمہ تم متاع دنیا کا ارادہ کرتے ہو اور اللہ آخرت کا ارادہ کرتا ہے۔

کعب احبار بیان کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ جو کی روٹی کھاتے تھے اور پیدل چلتے تھے۔ سواروں پر سواری نہیں کرتے تھے ‘ نہ گھروں میں رہتے تھے نہ چراغ روشن کرتے تھے ‘ سوتی کپڑے نہیں پہنتے تھے، نہ عورتوں کو چھوتے تھے ‘ نہ خوشبو لگاتے تھے ‘ کوئی چیز ملائے بغیر پانی پیتے تھے نہ اس کو ٹھنڈا کرتے تھے ‘ انہوں نے کبھی سر میں تیل نہیں لگایا نہ کبھی سر اور داڑھی کو کسی چیز سے دھویا۔ زمین پر کوئی چیز بچھائے بغیر لیٹتے بیٹھتے تھے، وہ صبح اور شام کے کھانے کے لئے کوئی اہتمام نہیں کرتے تھے۔ دنیا کی کسی چیز کی خواہش نہیں کرتے تھے، کمزوروں اپاہجوں اور مسکینوں کے ساتھ بیٹھتے تھے جب ان کے قریب کھانا لایا جاتا تو اس کو زمین پر رکھ دیتے۔ انہوں نے کھانے میں سالن کبھی نہیں کھایا ‘ وہ صرف اتنا کھاتے تھے جس سے رمق حیات برقرار رہے اور فرماتے تھے یہ چیزیں اس کے لئے ہیں جو مرے گا اور اس کو حساب بہت زیادہ دینا ہے۔ حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) سے کہا گیا کہ آپ شادی کرلیں فرمایا شادی سے میں کیا کروں گا ‘ کہا آپ کی اولاد ہوگی ‘ آپ نے فرمایا اگر اولاد زندہ رہی تو وہ آزمائش ہے اور اگر مرگئی تو غم اور اندوہ ہے۔

سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) بن مریم نے کہا اے حواریو ! جس طرح بادشاہوں نے تمہارے لئے حکمت کو چھوڑ دیا ہے تم ان کے لئے دنیا کو چھوڑ دو ۔

مالک بن دینار کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اے حواریو ! اللہ کا ڈر اور جنت کی محبت مشقت پر صبر کو پیدا کرتے ہیں اور دنیا کی رونق سے دور کرتے ہیں۔

حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) نے کہا اے حواریو ! جو کی روٹی کھاؤ اور سادہ پانی پیو اور امن اور عافیت کے ساتھ دنیا سے گزر جاؤ‘ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ دنیا کی مٹھاس آخرت کی تلخی ہے ‘ اور دنیا کی تلخی آخرت کی مٹھاس ہے ‘ اور اللہ کے بندے ناز ونعمت سے نہیں رہتے ‘ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ تم میں بدترین شخص وہ عالم ہے جو اپنی خواہش کو اپنے علم پر ترجیح دیتا ہے۔

عتبہ بن یزید بیان کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) نے کہا اے ابن آدم تو ضعیف ہے ‘ تو جہاں بھی ہو اللہ سے ڈر ‘ اور اپنی حلال کی کمائی سے کا اور مسجد کو گھر بنا ‘ اور دنیا میں مہمان کی طرح رہ ‘ اور اپنے نفس کو رونے کا عادی بنا اور دل کو غور وفکر کا اور جسم کو صبر کا ‘ اور کل کے رزق کی فکر نہ کر کیونکہ یہ تیرا گناہ لکھا جائے گا۔

سفیان ثوری بیان کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اپنے اصحاب سے فرماتے تھے : میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ دنیا کی محبت ہر گناہ کی اصل ہے ‘ اور دیکھنے سے دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے اور مال میں بڑی بیماری ہے ان کے اصحاب نے پوچھا مال میں کیا بیماری ہے۔ فرمایا فخر اور تکبر ‘ انہوں نے کہا اگر وہ تکبر نہ کرے تو فرمایا مال کی اصلاح اسے اللہ کی یاد سے غافل رکھے گی۔

نیز سفیان ثوری بیان کرتے ہیں حضرت عیسیٰ بن مریم نے کہا دنیا کی محبت اور آخرت کی محبت مومن کے قلب میں جمع نہیں ہوسکتیں جیسے پانی اور آگ ایک برتن میں جمع نہیں ہوسکتے۔

ابن شوذب بیان کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ایسے لوگوں کے پاس سے گزرے جو اپنے گناہوں پر رو رہے تھے ‘ آپ نے فرمایا تم گناہوں کو ترک کردو تمہیں بخش دیا جائے گا۔

ابوعبید اللہ صوفی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ بن مریم نے فرمایا دنیا کے طالب کی مثال سمندر کا پانی پینے والے کی طرح ہے جتنا زیادہ پانی پئے گا اتنی زیادہ پیاس بڑھے گی حتی کہ وہ پانی اس کو ہلاک کر دے گا۔

یزید بن میسرہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا میں تم سے سچ کہتا ہوں تم جتنی تواضع کرو گے تم کو اتنا بلند کیا جائے گا اور جتنا تم رحم کرو گے اتنا تم پر رحم کیا جائے گا اور جس قدر تم لوگوں کی ضرورتوں پوری کرو گے اسی قدر اللہ تمہاری ضرورتیں پوری کرے گا۔

ابن شابور بیان کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا : وہ شخص قابل رشک ہے جس نے غائب انعام کی وجہ سے حاضر خواہش کو ترک کردیا۔

سالم بن ابی الجعد بیان کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) نے فرمایا وہ آنکھ قابل رشک ہے جو سو گئی درآں حالیکہ اس کے دل نے گناہ کا منصوبہ نہیں بنایا اور کوئی گناہ کئے بغیر بیدار ہوئی۔

شعبی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) نے فرمایا نیکی یہ نہیں ہے کہ تم اس کے ساتھ نیکی کرو جس نے تمہارے ساتھ نیکی کی ہے یہ تو اس کی نیکی کا بدلہ ہے ‘ نیکی یہ ہے کہ تم اس کے ساتھ نیکی کرو جس نے تمہارے ساتھ برائی کی ہے۔

مالک بن دینار بیان کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ بن مریم اور ان کے حواریوں کا ایک مرے ہوئے کتے کے پاس سے گزر ہوا۔ حواریوں نے کہا اس کی بدبو کتنی سخت ہے۔ حضرت عیسیٰ نے فرمایا اس کے دانت کتنے سفید ہیں وہ ان کو غیبت کرنے سے روکتے تھے۔

عبد العزیز بن حصین بیان کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) نے فرمایا جو شخص بداخلاق ہوتا ہے وہ اپنے نفس کو عذاب دیتا ہے ‘ جو شخص زیادہ جھوٹ بولتا ہے اس کا جمال جاتا رہتا ہے۔ جو شخص لوگوں سے جھگڑا کرتا ہے اس کی عزت جاتی رہتی ہے اور جو شخص بہت فکر کرتا ہے وہ بیمار ہوجاتا ہے۔ فضیل بیان کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) فرماتے تھے جو شخص نماز پڑھتا ہے اور روزے رکھتا ہے اور گناہوں کو ترک نہیں کرتا اس کو ملکوت میں کذاب لکھا جاتا ہے۔ حواریوں نے حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) سے پوچھا خالص عمل کی تعریف کیا ہے ؟ فرمایا لوگوں کے حقوق سے پہلے اللہ کا حق ادا کرو ‘ اور جب تمہارے سامنے دو کام ہوں ایک دنیا کے لئے اور ایک اللہ کے لئے تو جو کام اللہ کے لئے ہو اس کو پہلے کرو ‘ نیز حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اس وقت تک کوئی شخص ایمان کی حقیقت کو نہیں پاسکتا حتی کہ یہ خواہش نہ کرے کہ اللہ کی عبادت پر اس کی تعریف کی جائے۔

ہلال بن یساف بیان کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص (نفلی) روزہ رکھے تو اپنی داڑھی میں تیل لگائے اور ہونٹوں پر ہاتھ پھیرے اور لوگوں کے سامنے اس طرح آئے گویا وہ روزہ سے نہیں ہے اور جب دائیں ہاتھ سے کچھ دے تو بائیں ہاتھ سے مخفی رکھے اور جب تم میں سے کوئی شخص (نفلی) نماز پڑھے تو کمرہ بند کرلے۔

ابن جلس بیان کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) نے کہا جو نیک کام کرے وہ ثواب کی امید رکھے اور جو برے کام کرے وہ سزا کو بعید نہ جانے ‘ اور جو شخص بغیر استحقاق کے عزت حاصل کرے گا ‘ اللہ تعالیٰ اس کو اس عمل کے مطابق ذلت میں مبتلا کر دے گا ‘ اور جو شخص ظلم سے کسی کا مال لے گا اللہ تعالیٰ اس کو بغیر ظلم کے فقر میں مبتلا کر دے گا۔

عمران بن سلیمان بیان کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے اصحاب سے کہا اگر تم میرے بھائی اور اصحاب ہو تو اپنے آپ کو لوگوں کے بغض اور دشمنی کا سامنا کرنے کے لئے تیار رکھو ‘ کیونکہ جب تک تم اپنی خواہشوں کو ترک نہیں کرو گے اپنے مطلوب کو حاصل نہیں کرسکو گے ‘ اور جب تک تم اپنی ناپسندیدہ چیزوں پر صبر نہیں کرو گے اپنے مقصود کو حاصل نہیں کرسکو گے ‘ وہ شخص لائق رشک ہے جس کی آنکھ اس کے دل میں ہے اور اس کا دل اس کی آنکھ میں نہیں ہے۔ مالک بن مغول بیان کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ بن مریم نے کہا : اے حواریو ! اللہ کے نافرمانوں سے بغض رکھ کر اللہ کے محبوب بن جاؤ‘ اور ان سے دور ہو کر اللہ کا قرب حاصل کرو ‘ انہوں نے پوچھا اے روح اللہ ! ہم کس کی مجلس میں بیٹھیں ؟ فرمایا ان لوگوں کی مجلسوں میں بیٹھوں جن کو دیکھ کر تمہیں خدا یاد آئے ‘ اور جس کی باتیں سن کر تم نیک عمل زیادہ کرو اور جس کے کام تمہیں آخرت کی طرف راغب کریں۔

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ بن مریم نے بنو اسرائیل کو وعظ کرتے ہوئے فرمایا اے حواریوں کی جماعت ! تم نااہل لوگوں کے سامنے حکمت کی باتیں نہ بیان کرو تم اس حکمت پر ظلم کرو گے ‘ اور اہل کے سامنے حکمت کو نہ چھپاؤ ورنہ تم ان پر ظلم کرو گے ‘ تین قسم کے امور ہیں ایک وہ جن کا ہدایت ہوتا ظاہر ہے ان عمل کرو دوسرے وہ ہیں جن کا گمراہی ہونا ظاہر ہے ان سے اجتناب کرو تیسرے وہ جو مشتبہ ہیں ان کا علم اللہ کے حوالے کردو۔

عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا خنزیر پر موتی مت پھینکو خنزیر موتیوں سے کچھ نہیں کرے گا اور جو حکمت کا ارادہ نہ کرے اس کو حکمت کی بات نہ سناؤ کیونکہ حکمت موتیوں سے بہتر ہے ‘ اور جو حکمت کا ارادہ نہ کرے وہ خنزیر سے بدتر ہے۔

عمران کوفی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ بن مریم سے پوچھا گیا سب سے بڑا فتنہ کس شخص کا ہے ؟ فرمایا عالم کی لغزش کا کیونکہ جب عالم لغزش کرتا ہے تو اس کی لغزش سے ایک عالم لغزش کرتا ہے۔

سفیان بن عیینہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) نے فرمایا : اے علماء سوء تم پر افسوس ہے ! تم چھلنی کی طرح نہ بنو اس سے صاف آٹاچھن کر نکل جاتا ہے اور بھوسی باقی رہ جاتی ہے اور یہی تمہارا حال ہے تمہارا منہ سے حکمت کی باتیں نکل جاتی ہیں اور تمہارے سینوں میں کھوٹ باقی رہ جاتا ہے ‘ تم پر افسوس ہے جو آدمی دریا میں غوطہ زنی کرتا ہے اس کے کپڑے ضرور بھیگتے ہیں خواہ وہ ان کو بچانے کی کوشش کیوں نہ کرے اسی طرح جو شخص دنیا سے محبت کرتا ہے وہ گناہوں سے نہیں بچتا۔ اے علماء سوء ! (بدعمل علماء) تم نے دنیا اپنے سروں پر رکھی ہے اور آخرت اپنے قدموں کے نیچے۔ اے علماء سوء ! تم جنت کے دروازوں پر بیٹھے ہو تم جنت میں داخل کیوں نہیں ہوتے ؟ اللہ کے نزدیک سب سے برا شخص وہ عالم ہے جو اپنے علم کے بدلے دنیا طلب کرتا ہے۔ تم دنیا کے لئے عمل کرتے ہو اور تمہیں دنیا میں بغیر عمل کے رزق دیا جاتا ہے ‘ اور تم آخرت کے لئے عمل نہیں کرتے اور آخرت میں بغیر عمل کے رزق نہیں ملے گا اے علماء سوء ! تم پر افسوس ہے تم اجر لیتے ہو اور عمل ضائع کرتے ہو ‘ قریب ہے کہ مالک اپنا عمل طلب کرے گا اور عنقریب تم اس بھری دنیا سے قبر کے اندھیروں کی طرف چلے جاؤگے۔ اللہ نے جس طرح تمہیں نماز اور روزے کا حکم دیا ہے اسی طرح گناہوں سے روکا ہے وہ شخص اہل علم میں کس طرح شمار ہوگا جو اپنے رزق سے ناراض ہو اور اپنی منزل کو حقیر جانے ‘ اور وہ شخص کیسے اہل علم سے شمار ہوگا جو اللہ کی تقدیر سے راضی نہ ہو ‘ اور وہ شخص کیسے اہل علم سے شمار ہوگا جو دنیا کو آخرت پر ترجیح دے اور وہ شخص کیسے اہل علم میں شمار ہوگا جو آخرت کی طرف جاتے ہوئے بھی دنیا کی طرف متوجہ ہو اور جس کے نزدیک اس کو ضرر دینے والی چیزیں نفع آور چیزوں سے زیادہ مرغوب ہوں ‘ اور وہ شخص اہل علم میں کیسے شمار ہوگا جس کا کلام آمدنی حاصل کرنے کے لئے ہو نہ کہ عمل کرنے کے لئے۔ (مختصر تاریخ دمشق ج ٢ ص ١٣٢۔ ١١٣ مطبوعہ دارالفکر ‘ دمشق ‘ ١٤٠٤ ھ)

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر انجیل کا نزول : 

امام ابن عساکر لکھتے ہیں :

حضرت یعلی بن شداد (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں کہ چھ رمضان کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات نازل ہوئی ‘ اور بارہ رمضان کو حضرت داؤد (علیہ السلام) پر زبور نازل ہوئی ‘ اور تورات کے نازل ہونے کے چارسو بیاسی سال بعد زبور نازل ہوئی تھی ‘ اور زبور نازل ہونے کے ایک ہزار پچاس سال بعد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر اٹھارہ رمضان کو انجیل نازل ہوئی اور چوبیس رمضان کو ہمارے نبی سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن مجید نازل ہوا۔ (مختصر تاریخ دمشق ج ٢٠ ص ٩٥ مطبوعہ دارالفکر ‘ دمشق ‘ ١٤٠٤ ھ)

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا آسمانوں پر اٹھایا جانا : 

امام ابوالقاسم علی بن الحسن ابن العساکر متوفی ٥٧١ ھ لکھتے ہیں :

گذشتہ انبیاء میں کسی نبی کے زمانہ میں اتنے عجیب و غریب واقعات نہیں ہوئے جتنے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں ہوئے حتی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو آسمانوں پر اٹھا لیا ‘ اور آپ کے آسمان پر اٹھائے جانے کا سبب یہ تھا کہ بنو اسرائیل کا ایک بڑا ظالم بادشاہ تھا اس کا نام داؤد بن بوذا تھا ‘ اس نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کے لئے کسی کو روانہ کیا جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی عمر تیرہ سال تھی اللہ تعالیٰ نے ان پر انجیل نازل کی اور جس وقت ان کو آسمان پر اٹھایا گیا تو ان کی عمر چونتیس سال تھی اور ان کی نبوت کا زمانہ بیس سال تھا ‘ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف یہ وحی کی :

(آیت) ” انی متوفیک ورافعک الی ومطھرک من الذین کفروا (آل عمران : ٥٥)

ترجمہ : بیشک میں آپ کی عمر پوری کرنے والا ہوں اور اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور کافروں (کے بہتان) سے آپ کو پاک کرنے والا ہوں۔

یعنی آپ کو یہود سے نجات دینے والا ہوں وہ آپ کو قتل کرنے کے لئے نہیں پہنچ سکیں گے ‘ حضرت ابن عباس نے اس کی تفسیر میں کہا : میں آپ کو آسمان پر اٹھالوں گا پھر آخر زمانہ میں آپ پر وفات طاری کروں گا۔ rnّ (آیت) ” ظاہر قرآن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پیدا ہوتے ہی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب اور نبوت دے دی گئی تھی)

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب یہود نے حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کو قتل کرنے پر اتفاق کرلیا اللہ تعالیٰ نے حضرت جبریل (علیہ السلام) کی طرف وحی کی کہ میرے بندے تک پہنچو ‘ حضرت جبریل (علیہ السلام) نیچے اترے ان کے پر کے اوپر ایک سطر میں لکھا ہوا تھا ” لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ “ حضرت جبریل نے کہا : اے عیسیٰ (علیہ السلام) آپ دعا کیجئے : اے اللہ میں تیرے اسم واحد احد کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں ‘ اے اللہ ! میں تیرے اسم صمد کے وسیلہ سے دعا کرتا ہوں۔ اے اللہ ! میں تیرے اسم عظیم کے واسطے سے دعا کرتا ہوں کہ میں صبح اور شام جس مصیبت میں گرفتار ہوں تو اس کو مجھ سے دور کردے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے یہ دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت جبریل کی طرف یہ وحی کی کہ میرے بندے کو اوپر اٹھا لو ‘ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا : اے بنو ہاشم ! اے بنو عبدالمطلب ! اے بنو عبد مناف ! ان کلمات سے دعا کرو قسم اس ذات کی جس نے مجھے برحق نبی بنایا ہے جس قوم نے بھی ان کلامت کے ساتھ دعا کی تو عرش ‘ سات آسمان اور سات زمینیں ہلنے لگیں گی۔

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب اللہ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمان پر اٹھانے کا ارادہ کیا تو وہ اپنے اصحاب کے پاس گئے اور وہ ایک گھر میں بارہ آدمی تھے ‘ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا تم میں سے ایک شخص مجھ پر ایمان لانے کے بعد بارہ مرتبہ میرا کفر کرے گا۔ پھر فرمایا تم میں سے کون شخص ہے جس پر میری شبہ ڈال دی جائے اور اس کو میرے بدلہ میں قتل کردیا جائے اور وہ میرے درجہ میں پہنچ جائے۔ ایک سب سے کم عمر کا نوجوان اٹھا اور اس نے کہا میں۔ آپ نے دوبارہ پوچھا اس نے دوبارہ پیش کش کی پھر تیسری بار پوچھا اس نے پھر پیش کش کی تو اس پر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی شبہ ڈال دی گئی اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو روشن دان سے آسمان کی طرف اٹھا لیا گیا۔ یہود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ڈھونڈنے کے لئے تو انہوں نے اس شخص کو پکڑ لیا جس پر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی شبہ ڈال دی گئی تھی اور اس کو قتل کیا اور اس کو سولی دے دی ‘ اور ان میں سے ایک شخص نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے کے بعد بارہ مرتبہ ان کا کفر کیا ‘ پھر ان کے تین فرقے ہوگئے ایک فرقے نے کہا ہم میں اللہ موجود تھا جب تک اس نے چاہا ہم میں رہا پھر وہ آسمان کی طرف چڑھ گیا۔ اس فرقہ کا نام یعقوبیہ ہے۔ دوسرے فرقہ نے کہا ہم میں اللہ کا بیٹا موجود تھا جب تک اس نے چاہا ہم میں رہا پھر وہ آسمانوں کی طرف چڑھ گیا۔ اس فرقہ کا نام نسطوریہ ہے ‘ اور ایک فرقہ نے کہا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے بندے اور اس کے رسول تھے انہوں نے جب تک چاہا ہم میں رہے پھر اللہ نے انہیں اپنی طرف اٹھا لیا یہ لوگ مسلمان ہیں پھر دونوں کافر فرقے مسلمانوں پر غالب آگئے۔ پھر اسلام کا نور مدہم رہا حتی کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث فرمایا۔ پھر بنو اسرائیل کی ایک جماعت ایمان لے آئی اور ایک جماعت بدستور کفر پر برقرار رہی (الصف : ١٤)

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اپنی وصیت سے فارغ ہوئے اور شمعون کو اپنا خلیفہ بنایا اور یہود نے بوذا کو قتل کردیا اور کہا وہ عیسیٰ ہے ‘ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : انہوں نے اس کو نہ قتل کیا نہ سولی دی لیکن انکے لئے (کسی کو عیسیٰ (علیہ السلام) کا) ہم شکل بنادیا گیا اور بیشک جن لوگوں ان کے متعلق اختلاف کیا وہ ان کی طرف سے ضرور شک میں ہیں انہیں یقین بالکل نہیں وہ صرف گمان کی پیروی کرتے ہیں اور انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو یقینا قتل نہیں کیا۔ بلکہ اللہ نے ان کو اپنی طرف (آسمان پر) اٹھا لیا اور اللہ بڑا غالب ‘ بڑی حکمت والا ہے۔۔ (النساء : ١٥٨۔ ١٥٧) رہے یہود اور نصاری تو وہ کہتے تھے کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کردیا ہے اور حواریوں کو یقین تھا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) قتل نہیں کئے گئے اور انہوں نے یہود اور انصاری کے قول کا انکار کیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو نجات دی اور اللہ تعالیٰ نے آسمان سے ایک بادل نازل کیا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اس بادل پر چڑھ کر گئے ان کی ماں ان سے چمٹ گئیں اور رونے لگیں۔ بادل نے کہا اس کو چھوڑ دو اللہ اس کو آسمان کی طرف اٹھائے گا۔ پھر قرب قیامت میں ان کو زمین والوں پر شرف عطا کرے گا اور ان کو زمین پر اتارے گا پھر جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا وہ زمین پر رہیں گے اور ان کی وجہ سے اللہ تعالیٰ زمین کو عدل اور امن سے بھر دے گا ‘ پھر حضرت مریم نے ان کو چھوڑ دیا ان کی طرف دیکھتی رہیں اور انگلی سے ان کی طرف اشارہ کرتی رہیں پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان پر ایک چادر ڈال دی اور کہا آپ کے اور میرے درمیان قیامت کے دن یہ چادر علامت ہوگی۔ (مختصر تاریخ دمشق ج ٢٠ ص ‘ ١٣٩۔ ١٣٦ مطبوعہ دارالفکر ‘ دمشق ‘ ١٤٠٤ ھ)

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا زمین پر نزول اور ان کی تدفین : 

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں ابن مریم نازل ہوں گے حکم ‘ عادل ‘ امام ‘ انصاف کرنے والے ‘ صلیب کو توڑ ڈالیں گے ‘ خنزیر کو قتل کریں گے ‘ جزیہ کو موقوف کردیں گے اور مال کو تقسیم کریں گے حتی کہ اس کو قبول کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سنو ! عیسیٰ بن مریم کے اور میرے درمیان کوئی نبی ہے اور نہ کوئی رسول۔ سنو وہ میرے بعد میری امت میں خلیفہ ہوں گے ‘ سنو وہ دجال کو قتل کریں گے ‘ صلیب کو توڑ ڈالیں گے جزیہ کو موقوف کریں گے اور جنگ ختم ہوجائے گی۔ سنو تم میں سے جو ان کو پالے وہ ان کو میرا سلام کہے۔

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ عزوجل عیسیٰ بن مریم کو ضرور زمین پر اتارے گا وہ فیصلہ کریں گے ‘ عدل کریں گے ‘ امام اور منصف ہوں گے وہ حرمین کے راستہ میں حج اور عمرہ کے لئے سفر کریں گے اور وہ میری قبر پر ضرور کھڑے ہوں گے اور وہ مجھ کو ضرور سلام کریں گے اور میں ان کو ضرور جواب دوں گا اور ایک روایت میں ہے اگر وہ میری قبر پر کھڑے ہو کر کہیں ” یا محمد “ تو میں ان کو ضرور جواب دوں گا۔ قرآن مجید میں ہے ؛

(آیت) ”’ وان من اھل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ “۔ (النساء : ١٥٩)

ترجمہ : اور (نزول مسیح کے وقت) اہل کتاب میں سے ہر شخص عیسیٰ کی موت سے پہلے ان پر ضرور بہ ضرور ایمان لے آئے گا۔

حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا یہ آیت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے خروج کے متعلق ہے مجاہد اور حسن بصری نے کہا اس وقت ہر شخص اپنی موت سے پہلے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئے گا۔

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ امت کیسے ہلاک ہوگی جس کے اول میں میں ہوں۔ اور اس کے آخر میں عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) ہیں اور میرے اہل بیت سے مہدی اس کے وسط میں ہیں۔

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میرا گمان ہے کہ میں آپ کے بعد زندہ رہوں گی کیا آپ مجھے یہ اجازت دیتے ہیں کہ میں آپ کے پہلو میں دفن کردی جاؤں ؟ آپ نے فرمایا تمہارے لئے وہاں کہاں جگہ ہے ؟ اس جگہ صرف میری قبر ہوگی اور ابوبکر اور عمر کی قبر ہوگی اور عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کی قبر ہوگی۔

حضرت عبداللہ بن سلام (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے یہ کتابوں میں پڑھا ہے کہ حضرت عیسیٰ بن مریم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ دفن کئے جائیں گے۔ ابو مودود نے کہا حضرت عائشہ (رض) کے حجرہ میں ایک قبر کی جگہ باقی ہے نیز انہوں نے بیان کیا کہ میں نے تورات میں سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفت میں یہ پڑھا ہے کہ حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) ان کے ساتھ دفن کئے جائیں گے۔ (مختصر تاریخ دمشق ج ٢٠ ص ١٥٤۔ ١٤٤‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ دمشق ‘ ١٤٠٤ ھ)

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور دیگر انبیاء (علیہم السلام) کے درمیان مدت کا شمار : 

شعبی بیان کرتے ہیں کہ مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر حضرت مسیح (علیہ السلام) کی پیدائش تک پانچ ہزار پانچ سو سال کا زمانہ ہے ‘ اور طوفان نوح سے حضرت مسیح (علیہ السلام) کی پیدائش تک تین ہزار دو سو چوالیس سال ہیں ‘ اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ان کی پیدائش تک دو ہزار سات سو تیرہ سال ہیں ‘ اور داؤد (علیہ السلام) سے لے کر ان کی پیدائش تک ایک ہزار نو سو پچاس سال ہیں ‘ اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کے آسمانوں پر اٹھائے جانے سے لے کر سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجرت تک نو سو تینتیس سال ہیں۔ (مختصر تاریخ دمشق ج ٢٠ ص ٨٦)

اور سلمان بیان کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان چھ سو سال کا عرصہ ہے اور یہی صحیح ہے۔ (مختصر تاریخ دمشق ج ٢٠ ص ٨٦)

تفسیر تبیان القرآن – سورۃ 3 – آل عمران – آیت 46