آزمائش قرب کا ذریعہ ہے!
sulemansubhani نے Thursday، 6 December 2018 کو شائع کیا.
آزمائش قرب کا ذریعہ ہے!
اشتیاق احمد سعیدی
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ والثَّمَراتِ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ (البقرۃ: ۱۵۵)
اور ہم تمھیں ضرور ضرورآزمائیں گے تھوڑے سے ڈر، بھوک، مال، جان اور پھلوں کی کمی سے اور صبر کرنے والوں کو خوش خبری سنادیجیے۔
اس آیتِ کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مخلوق پر ابتلا وآزمائش کا واقع ہونا فیصلۂ الٰہی ہے تاکہ وہ اپنے بندوں کو پرکھے اور ان کو گناہوں کی آلودگی سے دور کرے۔ نزولِ بلا تین اشخاص پر ہوتا ہے:
پہلا وہ شخص جو خیر سے محروم ہوتا ہے۔ یہ ابتلا کا مقابلہ ناراضگی، اللہ تعالیٰ اور قضا وقدر کے ساتھ سوئے ظن سے کرتا ہے۔
دوسرا وہ بامراد شخص ہے جو آزمائش کا مقابلہ صبر اور اللہ کے ساتھ حسنِ ظن رکھ کر کرتا ہے۔
تیسرا وہ شخص جو صبر کی منزل طے کرکے رضا کے منصب پر فائز ہوتا ہے، وہ ابتلا کا مقابلہ رضا وشکر سے کرتا ہے۔
رسولِ پاک ﷺ نے فرمایا: مومنین کے معاملے میں تعجب ہے کہ ان کا ہر معاملہ اچھا ہوتا ہے اور یہ خاصیت مومنین کے علاوہ کسی کوحاصل نہیں ہے؛ کیوں کہ اگر انھیں خوشی حاصل ہوتی ہے تو شکر ادا کرتے ہے اور یہ ان کے لیے بھلائی ہے اور اگر مصیبت وسختی پہنچتی ہے تو صبر کرتے ہیں اور یہ بھی ان کے لیے بھلائی ہے۔ (مسلم)
لوگوں میں کامل ایمان والا وہی ہے جو سخت آزمائش سے گزرا ہو۔ رسولِ پاک ﷺنے فرمایا: لوگوں میں سب سے زیادہ آزمائش انبیا کی ہوتی ہے، پھر صالحین کی۔ پھر ہر بندے کی آزمائش اس کے دین کے مطابق ہوتی ہے۔ یعنی کوئی بندہ اگر اپنے دین میں پختہ ہے تو اس کی آزمائش اتنی ہی سخت ہوتی ہے اور جو بندہ ضعیف الایمان ہوتا ہے اس کی آزمائش اسی قدر ہوتی ہے۔ (مسند امام احمد)
اللہ رب العزت کی جانب سے بندوں کو آزمائے جانے میں بندوں کےکئی فائدے ہیں؛ کیوں کہ جب اللہ تبارک وتعالیٰ بندوں کو آزما تا ہے تو ان کے گناہوں پر پردہ ڈال دیتا ہے اوران کی برائیوں کو مٹاکر آخرت میں ان کے درجات بلند فرمادیتا ہے۔نیز اس آزمائش سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی اطاعت میں غفلت برتنے کا احساس ہوتا ہے ، نفس کو جھنجھوڑ نے اور ملامت کرنے کا جذبہ بیدار ہوتا ہے، اللہ کے سامنے تواضع وانکساری اور توبہ کا باب کھل جاتا ہے، اللہ سے بندے کا رشتہ استوار ہوتا ہے اور قضا وقدر پر ایمان وایقان مضبوط ہوجاتا ہے، دنیا کی حقیت کھل کرسامنے آجاتی ہے کہ دنیا ایک کرایے کا مکان ہے اور اس میں کرایہ داروں کی طرح ہی زندگی گزارنی چاہیے، ہمارا اصل مکان جنت ہے،اس لیے اس کے لیے خوب تیاری کرنی چاہیے۔
جب بندے پر آزمائش کا وقت آئے تو اسے چند باتیں یاد رکھنی چاہئیں:
(۱) ہمیشہ یقین رکھے کہ یہ آزمائش اللہ کی جانب سےہے۔
(۲) اللہ کے احکام کی خلاف ورزی نہ کرے۔
(۳) جو گناہ ہوئے ہیں سچے دل سے اللہ کی بارگاہ میں ان سے توبہ واستغفار کرتا رہے؛ کیوں کہ سرورِ کائنات ﷺنے یہ بتاکر ہماری تکلیفوں کو کتنا سہل فرمادیا ہے کہ ہماری تکلیفیں گناہوں کی بخشش اور مراتب کی بلندی کا ذریعہ ہیں۔
شب و روز کی پریشانیاں اور مصائب جنھوں نے ہمیں بدحال کر رکھا ہے، جن کا شکوہ بیٹھتے اٹھتے ہروقت زبان پر جاری رہتا ہے،یہ سب اللہ عز وجل اور رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ارشادات سے ناواقفیت یا لاپرواہی برتنے کی بنا پر ہے۔ اگر ہم اپنی خامیاں دور کرلیں اور اپنے مسائل کا علاج قرآن وحدیث میں تلاش کرنے کی صلاحیت پیدا کرلیں یا کم از کم علماے دین سے رہبری اور رہنمائی حاصل کرنے کے عادی ہوجائیں تو ہماری پریشانیاں اور تکالیف آسانی کے ساتھ ختم ہوجائیں، لیکن کم نصیبی یہ ہے کہ ہم نہ تو علمِ دین حاصل کرتے ہیں اور نہ ہی علما وصلحا کی صحبت کو ضروری سمجھتے ہیں، جب کہ سکون واطمینان انھیں کے ذریعے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ جب کوئی شخص ایمان لاتا ہے تو اسی وقت یہ خیال کربیٹھتا ہے کہ اب میں دنیا وآخرت میں اللہ کی رحمتوں کا مستحق ہوگیا۔ یہ خیال کبھی اس کے دل میں نہیں آتا کہ جب میں نے اللہ کا بننے کا دعویٰ کیا ہے تو اب اللہ مجھے آزماکر دیکھے گا کہ میں کس حد تک اپنے دعوے میں پختہ اور سچا ہوں۔
ایمان لانے کے بعد بندےکی آزمائش صرف مصائب وآلام ہی کے ذریعے نہیں بلکہ ہر طرح سے ہوتی ہے، یہاں تک کہ دنیوی نعمت، جاہ وحشم، مال وزر سب آزمائش کا ذریعہ ہیں کہ بندہ ان کے حصول کے بعد بھی اپنے رب کی اطاعت وفرماں برداری میں لگا رہتا ہے، اس کی دی ہوئی نعمتیں اس کی راہ میں خرچ کرتا ہے یا پھر اپنےہی آپ کو مالکِ حقیقی سمجھ کرروگردانی کرتا ہے؛ اس لیے یہ بات ہمیشہ دل ودماغ میں راسخ رہے کہ مصائب وآلام، راحت وآرام تمام چیزیں ہماری آزمائش ہیں۔ صرف اپنے علم وفن، فکرو تدبر، محنت ومشقت کو حصولِ نعمت کا ذریعہ سمجھناراہِ حق سے دوری ہے۔ اگر کسی دولت مند سے کسی مذہبی یا دینی کام کے لیے کچھ مانگا جائے تو یا تو کچھ دیتا ہی نہیں اور اگر دیتا بھی ہے تو سخت ناگواری کے ساتھ؛ کیوں کہ وہ اپنی اس دولت کو اللہ کا فضل نہیں بلکہ اپنی محنت کا نتیجہ سمجھتا ہے، یہی اس کی آزمائش ہے۔ لیکن جو بندہ اللہ کی آزمائش میں کامیاب وکامران ہوجائے اسے وہ عظیم نعمتوں سے نواز تا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
ایمان لانے کے بعد بندےکی آزمائش صرف مصائب وآلام ہی کے ذریعے نہیں بلکہ ہر طرح سے ہوتی ہے، یہاں تک کہ دنیوی نعمت، جاہ وحشم، مال وزر سب آزمائش کا ذریعہ ہیں کہ بندہ ان کے حصول کے بعد بھی اپنے رب کی اطاعت وفرماں برداری میں لگا رہتا ہے، اس کی دی ہوئی نعمتیں اس کی راہ میں خرچ کرتا ہے یا پھر اپنےہی آپ کو مالکِ حقیقی سمجھ کرروگردانی کرتا ہے؛ اس لیے یہ بات ہمیشہ دل ودماغ میں راسخ رہے کہ مصائب وآلام، راحت وآرام تمام چیزیں ہماری آزمائش ہیں۔ صرف اپنے علم وفن، فکرو تدبر، محنت ومشقت کو حصولِ نعمت کا ذریعہ سمجھناراہِ حق سے دوری ہے۔ اگر کسی دولت مند سے کسی مذہبی یا دینی کام کے لیے کچھ مانگا جائے تو یا تو کچھ دیتا ہی نہیں اور اگر دیتا بھی ہے تو سخت ناگواری کے ساتھ؛ کیوں کہ وہ اپنی اس دولت کو اللہ کا فضل نہیں بلکہ اپنی محنت کا نتیجہ سمجھتا ہے، یہی اس کی آزمائش ہے۔ لیکن جو بندہ اللہ کی آزمائش میں کامیاب وکامران ہوجائے اسے وہ عظیم نعمتوں سے نواز تا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَاِذَا ابْتَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّھُنَّ۔ قَالَ اِنِّی جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا۔ (البقرۃ:۱۲۴)
(جب حضرت ابراہیم کو ان کے رب نے کئی باتوں سے آزمایا تو انھوں نے وہ سب پوری کردیں۔ اللہ نے فرمایا: بے شک میں تم کو لوگوں کا امام بنانے والا ہوں۔)
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ابتلا اورآزمائش انسانوں کو فرعون بنادیتی ہے اور کافر بھی۔ کامیاب وہی شخص ہے جس نے اس کو پہچان لیا اور نعمتوں کی حالت میں اللہ کا شکر ادا کیا اور مصیبتوں میں صبر کیا؛ کیوں کہ صابرین شاکرین پر ہی اللہ کی رحمت برستی ہے۔
ٹیگز:-
انبیاء , بھوک , صبر , قرب , مسند احمد , اشتیاق احمد سعیدی , صحیح مسلم , ڈر , البقرة , رسولِ پاک ﷺ , جان , مخلوق , اللہ تعالیٰ , مال , آزمائش , حضرت ابراہیم , پھلوں