تاجدارِ حرم عاطف اسلم اور کوک اسٹوڈیو کی ٹیم
sulemansubhani نے Tuesday، 18 December 2018 کو شائع کیا.
*’تاجدارِ حرم’* ایک انتہائی مشہور و معروف قوالی ہے اور اس میں اردو، برج بھاشا، فارسی اور عربی کے اشعار ہیں۔
*عاطف اسلم اور کوک اسٹوڈیو کی ٹیم نے اس میں ایسی فحش غلطیاں کی ہیں جس پر انہیں توبہ اور تجدیدِ ایمان کرنا لازم ہے۔*
*افسوس* کے یہ کئی سالوں سے نشر بھی ہو رہی ہے اور علم سے نابلد عوام بے دیہانی میں بڑے زوق وشوق سے سن بھی رہے ہیں۔
*علماء دین* چونکہ ان چیزوں پر خود توجہ نہیں فرماتے کیونکہ ظاہر ہے وہ ان غیر شرعی انداز میں پڑھے گئے کلاموں کو سننے سے اپنے کانوں کو محفوظ رکھتے ہیں۔ لیکن افسوس کے عاقل لوگ جو اسے قوالی جان کر سنتے رہے وہ بھی ان فحش غلطیوں کو نہ پکڑ سکے۔
ڈان نیوز پر 16-12-2018 کو شائع شدہ ایک تحریر میں اس جانب جو نشاندہی کی گئی وہ آپ حضرات کی خدمت میں حاضر ہے۔
*نمبر ایک:*
گویے عاطف اسلم نے نبی کریم ﷺ کو ‘عرب کے کنور‘ (یعنی ‘حجاز کے شہزادے’) کے بجائے ‘رب کے کنور‘ (یعنی ‘خدا کے شہزادے’) پڑھ دیا۔ (جو کہ کفریہ الفاظ ہیں)
*نمبر دو:*
حضور علیہ السلام سے دُور ہونے (‘در فرقتِ تو اے اُمّی لقب’) کو ‘دارِ فرقت تو اے اُمّی لقب’ (یعنی ‘دوری کا گھر تم اے اُمّی لقب‘) پڑھ دیا ہے
(جو ظاہر ہے گستاخی و بے ادبی کی انتہا ہے)
*نمبر تین:*
‘گاہے بفِگن دزدیدہ نظر’ (یعنی ‘کبھی آہستہ سے نظر ڈالو’) کو کم علمی کی وجہ سے ‘گاہے بگہا دزدیدہ نظر’ پڑھ دیا ہے جس کا کوئی مطلب نکلتا ہی نہیں ہے۔ ( ڈان نیوز کی تحریر میں درزیدہ کا ترجمہ چوری چوری لکھا گیا ہے)
*نمبر چار:*
‘اے مشک بید عَنبر فِشاں’ (یعنی ‘اے خوشبو پھیلانے والے درخت’) کو ‘اے مجتبِ زُمبر فِشاں’ پڑھ دیا ہے جس کے سرے سے کوئی معنی ہی نہیں ہیں۔
*نمبر پانچ:*
‘اے قاصدِ فرخندہ په’ (یعنی ‘اے مبارک قدم پیغمبر’) ‘اے قاصدِ پُرخندہ پہ’ پڑھ دیا۔ ‘پر خندہ’ کے معنی ‘ہنسی سے بھرے ہوئے’ کے ہیں۔
(اور یہ بھی توہین و گستاخی ہے)
*(بے دیہانی میں اس کو سننے اور پڑھنے والے پر توبہ لازم ہے)*
*کوک اسٹوڈیو کی ٹیم اور گویے عاطف اسلم پر مزید کیا حکم ہو گا اس پر علماء دین ضرور رہنمائی فرمائیں)*
اللہ تعالیٰ تمام سنیوں کے ایمان کی حفاظت فرمائے۔ آمین
عبد المصطفیٰ محمد نسیم القادری۔
ٹیگز:-
میں کافی عرصے سے درست لیرکس کی تلاش میں تھا، اتنی تفصیل کے ساتھ شیئر کرنے کے لیے شکریہ۔
ایک اور خطا، ”ان نّلتِ یا ریح الصبا“ کو ”ان نّلتَ ۔۔۔“ یعنی زبر کے ساتھ پڑھنا ہے۔ عربی میں ریح یعنی ہوا مونث سمجھی جاتی ہے، اور اس کے ساتھ مذکر صیغہ لگانا، عربی ذوق رکھنے والوںکا مزا اسی طرح کرکرا کر دیتا ہے، جیسے کسی اردو دان کی سماعت پر ”بارش ہوتا ہے تو پانی آتا ہے“ ہے گراں گذرتا ہے۔
لیکن، صاحب تحریر کے فتاوی: ”توبہ اور تجدیدِ ایمان، فحش غلطیوں، گستاخی، بےادبی، کفریہ الفاظ، توہین، توبہ لازم“ وغیرہم سے بیزاری کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ یہ نشاندہی کرنا چاہتا ہوں کہ یہ الفاظ سمجھنے کے لیے میری گوگل سرچ مجموعی طور پر کوئی بارہ گھنٹے ہو گی، جو مجھے اس تحریر تک لے آئی، لیکن نہ تو صاحب تحریر کوئی عام اردو دان معلوم ہوتے ہیں، نہ مجھ ایسے متلاشی کچھ زیادہ عام ہوں گے۔ ہمارے علاوہ دنیا میں ”نارمل انسان“ بھی بستے ہیں، ان کا عشق مصطفی کسی سرٹیفیکیٹ پر منحصر نہیں ہونا چاہیے۔
برسبیل تذکرہ کہتے چلیں، کہ ”فاش غلطی“ کو ”فحش غلطی“ لکھنا بھی ایک لغزش ہے۔ لیکن اللہ سے آپ کے علم و عمل میں مزید اضافے کی دعا ہے۔