*درس 027: (كِتَابُ الطَّهَارَةِ) (فَصْلٌ سُنَنُ الْوُضُوءِ)*

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

إلَّا أَنَّهُ إذَا تَرَكَ الِاسْتِنْجَاءَ أَصْلًا، وَصَلَّى يُكْرَهُ؛ لِأَنَّ قَلِيلَ النَّجَاسَةِ جُعِلَ عَفْوًا فِي حَقِّ جَوَازِ الصَّلَاةِ دُونَ الْكَرَاهَة وَإِذَا اسْتَنْجَى زَالَتْ الْكَرَاهَةُ

ہاں اگر کوئی شخص استنجاء بالکل نہ کرے اور یونہی نماز پڑھے تو مکروہ ہوگی۔ اسلئے کہ تھوڑی نجاست نماز جائز ہونے کے معاملے میں معاف رکھی گئی ہے نہ کہ بلا کراہت جائز ہونے کے معاملے میں اور اگر استنجاء کرلیا تو کراہت زائل ہوجائے گی۔

لِأَنَّ الِاسْتِنْجَاءَ بِالْأَحْجَارِ أُقِيمَ مَقَامَ الْغَسْلِ بِالْمَاءِ شَرْعًا لِلضَّرُورَةِ إذْ الْإِنْسَانُ قَدْ لَا يَجِدُ سُتْرَةً، أَوْ مَكَانًا خَالِيًا لِلْغَسْلِ، وَكَشْفُ الْعَوْرَةِ حَرَامٌ فَأُقِيمَ الِاسْتِنْجَاءُ مَقَامَ الْغَسْلِ فَتَزُولُ بِهِ الْكَرَاهَةُ كَمَا تَزُولُ بِالْغَسْلِ

اسلئے کہ ڈھیلوں سے استنجاء شرعی طور پر پانی سے دھونے کے قائم مقام ہے ضرورت کی وجہ سے، اسلئے کہ انسان کو کبھی چھپنے کے لئے آڑ یا خالی جگہ نہیں مل پاتی جہاں وہ پانی سے استنجاء کی جگہ دھو سکے، اور شرمگاہ کو ظاہر کرنا حرام ہے لہذا ڈھیلوں سے استنجاء کو پانی سے دھونے کے قائم مقام قرار دیا گیا ہے۔۔۔ تو جس طرح پانی سے دھونے سے کراہت دور ہوجاتی ہے اسی طرح ڈھیلوں سے استنجاء کرنے سے بھی کراہت دور ہوجائے گی۔

وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَسْتَنْجِي بِالْأَحْجَارِ، وَلَا يُظَنُّ بِهِ أَدَاءُ الصَّلَاةِ مَعَ الْكَرَاهَة

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ ڈھیلوں سے استنجاء فرمایا کرتے تھے۔۔ اور حضور ﷺ سے یہ گمان نہیں کیا جاسکتا ہے کہ آپ کراہت کے ساتھ نماز ادا فرماتے ہوں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

*وضاحت:*

علامہ کاسانی نے اس سے پہلے حدیث شریف سے استدلال کیا کہ استنجاء فرض نہیں ہے اور ہم دیگر دلائل سے وضاحت کرچکے ہیں کہ استنجاء سنتِ موکدہ ہے۔ اور یہ بات بھی ثابت ہوچکی ہے کہ اگر سنت ادا نہ ہوئی تو نماز جائز ہوجاتی ہے اگرچہ اس میں کراہت موجود ہو۔

اب علامہ کاسانی استنجاء کے مشروع ہونے کی توجیہ بیان کررہے ہیں کہ دراصل استنجاء کو پانی کے قائم مقام قرار دیا گیا ہے۔

ہم سابقہ دروس میں پڑھ چکے ہیں کہ طہارت، نجاست سے پاکی حاصل کرنے کو کہتے ہیں اورجس شے کے ذریعے طہارت حاصل کی جائے اس کا خود پاک ہونا اور پاک کرنے کی صلاحیت رکھنے والا ہونا ضروری ہے، اسکے لئے *پانی* سب سے موزوں چیز ہے۔

*ڈھیلے دراصل پانی کے قائم مقام ہیں*

علامہ کاسانی فرمارہے ہیں کہ ڈھیلوں سے استنجاء کو جائز رکھا گیا ہے اسلئے کہ وہ پانی کے قائم مقام ہے اور بعض اوقات پانی میسر نہیں ہوتا اور انسان کو حاجت پیش آجاتی ہے تو ضرورتا اس کو جائز قرار دیا گیاہے۔ چونکہ پانی اصل ہےاسلئےڈھیلوں کے مقابلے اس سے استنجاء افضل ہے۔ اور حضور سیدِ عالم ﷺ سے ڈھیلے اور پانی دونوں کے ساتھ استنجاء ثابت ہے۔

(علامہ کاسانی نے پانی سے استنجاء کو الگ سے شمار کیا ہےاور ہاتھوں کو گٹے تک دھونے کے بعد اسکا ذکر کیا ہے مگر ہم وہ بحث اسی استنجاء کے ساتھ ہی ذکر کردیں گے تاکہ تسلسل نہ ٹوٹے)

ڈھیلا سے استنجاء *نجاست پونچھنے کا عمل* ہے لہذا اگر ڈھیلے کے قائم مقام کوئی ایسی چیز مل جائے جو ڈھیلے کی طرح *مزیلِ نجاست* یعنی نجاست کو زائل کرنے والی ہو تو اس سے بھی استنجاء ہوجائے گا، یہ الگ بات ہے کہ اس سے استنجاء جائز قرار دیا گیا ہو یا نہیں۔ اسکی تفصیل آتی ہے۔

علامہ کاسانی نے ایک روایت نقل فرمائی اور کہا کہ اگر ڈھیلے سے استنجاء کرنے سےکراہت باقی رہتی تو حضور سید عالم ﷺ کبھی اس پر کفایت کرکے نماز ادا نہ فرماتے۔ کیونکہ حضور ﷺ نماز میں مکمل طہارت کا اہتمام فرمانے والے تھے اور آپ سے بڑھ کر کوئی بھی نماز کے احکامات کی رعایت فرمانے والا نہیں ہے۔

*ابو محمد عارفین القادری*