أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَمۡ يَحۡسُدُوۡنَ النَّاسَ عَلٰى مَاۤ اٰتٰٮهُمُ اللّٰهُ مِنۡ فَضۡلِهٖ‌ۚ فَقَدۡ اٰتَيۡنَاۤ اٰلَ اِبۡرٰهِيۡمَ الۡـكِتٰبَ وَالۡحِكۡمَةَ وَاٰتَيۡنٰهُمۡ مُّلۡكًا عَظِيۡمًا‏ ۞

ترجمہ:

یا یہ لوگوں سے اس چیز پر حسد کرتے ہیں جو اللہ نے ان کو اپنے فضل سے عطا فرمائی ہے، تو بیشک ہم نے آل ابراہیم کو کتاب اور حکمت عطا کی تھی اور ہم نے ان کو ملک عظیم عطا کیا تھا

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد : یا یہ لوگوں سے اس چیز پر حسد کرتے ہیں جو اللہ نے ان کو اپنے فضل سے عطا فرمائی ہے، تو بیشک ہم نے آل ابراہیم کو کتاب اور حکمت عطا کی تھی اور ہم نے ان کو ملک عظیم عطا کیا تھا (النساء : ٥٤) 

یہود کے حسد کی مذمت : 

اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہود کے بخل کی مذمت کی تھی اور اس آیت میں ان کے حسد کی مذمت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے فضل سے جو نعمت عطا فرمائی تھی یہود اس پر حسد کرتے تھے ‘ وہ کس نعمت پر حسد کرتے تھے اس میں اختلاف ہے ‘ قتادہ نے کہا ان کو یہ امید تھی کہ آخری نبی بنواسرائیل سے مبعوث ہوں گے اور جب اللہ تعالیٰ نے بنو اسماعیل سے آخری نبی مبعوث فرمایا تو وہ اس پر حسد کرنے لگے۔ اور حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ یہود نے کہا (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس قدر تواضع کا دعوی کرتے ہیں اور ان کے نکاح میں اتنی ازواج ہیں۔ (جامع البیان ج ٥ ص ٨٨) لیکن پہلی تفسیر زیادہ مناسب ہے کیونکہ اس آیت کے دوسرے جملہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے تو بیشک ہم نے آل ابراہیم کو کتاب اور حکمت عطا کی تھی اور ہم نے انکو ملک عظیم عطا کیا تھا تو پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حسد کیوں کرتے ہیں یہ نعمت تو حضرت ابراہیم کی آل کو بھی ملی تھی اور ان کو بھی مل چکی ہے۔ 

اس آیت میں کتاب سے مراد جنس کتاب ہے اور وہ تورات ‘ انجیل اور زبور اور دیگر صحائف کو شامل ہے اور حکمت سے مراد نبوت ہے یا وہ اسرار ہیں جو اللہ کی کتاب میں ودیعت کیے گئے ہیں ‘ حضرت ابراہیم کی آل میں نبی اور رسول مبعوث کیے گئے جن کو یہ کتابیں اور حکمتیں دی گئیں اور وہ سب ان یہودیوں کے آباء اور اسلاف تھے ‘ اور ان کے آباء اور اسلاف کو ملک عظیم بھی دیا گیا جیسے حضرت یوسف (علیہ السلام) ‘ حضرت دادؤ (علیہ السلام) اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو ملک دیئے گئے ‘ حضرت داؤد (علیہ السلام) اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لئے بہت زیادہ بیویاں حلال کی گئی تھیں۔ پھر سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ کیوں اعتراض کرتے ہیں۔

حافظ جلال الدین سیوطی متوفی ٩١١ ھ لکھتے ہیں : 

امام ابوداؤد نے سنن میں اور امام بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا حسد کرنے سے بچو کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑکیوں کو کھا جاتی ہے۔ 

امام ابن جریر اور امام ابن ابی حاتم نے اس آیت کی تفسیر میں سدی سے روایت کیا ہے کہ ملک عظیم سے مراد عورتوں سے نکاح ہے۔ جب حضرت داؤد (علیہ السلام) کی ننانوے بیویاں تھیں اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی سو بیویاں تھیں تو سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے کثرت ازدواج کس طرح باعث اعتراض ہوگا ! 

اور حاکم نے مستدرک میں محمد بن کعب سے روایت کیا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی تین سو بیویاں اور سات سو باندیاں تھیں۔ (الدرالمنثور ج ٢ ص ١٧٣‘ مطبوعہ ایران)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء آیت نمبر 54