*درس 030: (كِتَابُ الطَّهَارَةِ) (فَصْلٌ سُنَنُ الْوُضُوءِ)*

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وَالْمُعْتَبَرُ فِي إقَامَةِ هَذِهِ السُّنَّةِ عِنْدَنَا هُوَ الْإِنْقَاءُ دُونَ الْعَدَدِ، فَإِنْ حَصَلَ بِحَجَرٍ وَاحِدٍ كَفَاهُ، وَإِنْ لَمْ يَحْصُلْ بِالثَّلَاثِ زَادَ عَلَيْهِ

اور ہم احناف کے نزدیک اس سنت پر عمل کرنے کے لئے صفائی کا اعتبار کیا جائے گا نہ کہ ڈھیلوں کی تعداد کا۔۔ تو اگر ایک ہی ڈھیلے سے صفائی ہوگئی تو کافی ہے اور اگر تین ڈھیلوں سے بھی صفائی نہ ہوسکے تو زیادہ ڈھیلے لینا ہوں گے۔

وَعِنْدَ الشَّافِعِيِّ الْعَدَدُ مَعَ الْإِنْقَاءِ شَرْطٌ، حَتَّى لَوْ حَصَلَ الْإِنْقَاءُ بِمَا دُونِ الثَّلَاثِ كَمَّلَ الثَّلَاثَ، وَلَوْ تَرَكَ لَمْ يُجْزِهِ.

اور امام شافعی کے نزدیک صفائی تو شرط ہے مگر اس کے ساتھ ڈھیلوں کی تعداد بھی شرط ہے، لہذا اگر تین سے کم ڈھیلوں میں صفائی ہوگئی پھر بھی تین کا عدد پورا کرنا ضروری ہوگا، اگر عدد پورا نہ کیا تو استنجاء کی سنت پوری نہیں ہوگی۔

وَاحْتَجَّ الشَّافِعِيُّ بِمَا رَوَيْنَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ «مَنْ اسْتَجْمَرَ فَلْيُوتِرْ» أَمْرٌ بِالْإِيتَارِ، وَمُطْلَقُ الْأَمْرِ لِلْوُجُوبِ.

امام شافعی کی دلیل وہ روایت ہے جو ہم (درس نمبر 26 میں) بیان کرچکے ہیں کہ نبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: جو ڈھیلے سے استنجاء کرے اسے چاہئے کہ وہ طاق عدد (Odd Number) میں استعمال کرے۔ اس حدیث میں طاق عدد استعمال کرنے کا حکم ہے، اور مطلق (یعنی بغیر کسی کنڈیشن کے) حکم واجب کو ثابت کرتا ہے۔

(وَلَنَا) مَا رَوَيْنَا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلَهُ أَحْجَارَ الِاسْتِنْجَاءِ فَأَتَاهُ بِحَجَرَيْنِ وَرَوْثَةٍ فَرَمَى الرَّوْثَةَ، وَلَمْ يَسْأَلْهُ حَجَرًا ثَالِثًا،وَلَوْ كَانَ الْعَدَدُ فِيهِ شَرْطًا لَسَأَلَهُ إذْ لَا يُظَنُّ بِهِ تَرْكُ الْوَاجِبِ

اور ہماری دلیل عبد اللہ بن مسعود کی وہ حدیث ہے جسے ہم (درس نمبر 28 میں) بیان کرچکے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے عبد اللہ بن مسعود سے استنجاء کے ڈھیلے طلب فرمائے تو آپ دو ڈھیلے اور ایک لید کا ٹکڑا لے آئے، تو حضور ﷺ نے لید کا ٹکڑا پھینک دیا اور تیسرا پتھر طلب نہیں فرمایا۔

اگر استنجاء میں تعداد کا لحاظ رکھنا شرط ہوتا تو حضور ﷺ ان سے تیسرا ڈھیلا ضرور طلب فرماتے، اور حضور ﷺ سے یہ گمان نہیں کیا جاسکتا ہے کہ آپ واجب کو ترک کریں۔

وَلِأَنَّ الْغَرَضَ مِنْهُ هُوَ التَّطْهِيرُ وَقَدْ حَصَلَ بِالْوَاحِدِ، وَلَا يَجُوزُ تَنْجِيسُ الطَّاهِرِ مِنْ غَيْرِ ضَرُورَةِ.

نیز ڈھیلے کے استعمال کا اصل مقصد طہارت حاصل کرنا ہے اور جب مقصد ایک ہی ڈھیلے سے حاصل ہوجائے تو بلاضرورت پاک شے کو ناپاک کرنا جائز نہیں ہے۔

(وَأَمَّا) الْحَدِيثُ فَحُجَّةٌ عَلَيْهِ

اور امام شافعی کی پیش کردہ حدیث انہیں کے خلاف حجت ہے۔

لِأَنَّ أَقَلَّ الْإِيتَارِ مَرَّةً وَاحِدَةً، عَلَى أَنَّ الْأَمْرَ بِالْإِيتَارِ لَيْسَ لِعَيْنِهِ بَلْ لِحُصُولِ الطَّهَارَةِ فَإِذَا حَصَلَتْ بِمَا دُونَ الثَّلَاثِ فَقَدْ حَصَلَ الْمَقْصُودُ فَيَنْتَهِي حُكْمُ الْأَمْرِوَكَذَا اسْتَنْجَى بِحَجَرٍ وَاحِدٍ لَهُ ثَلَاثَةُ أَحْرُفٍ؛ لِأَنَّهُ بِمَنْزِلَةِ ثَلَاثَةِ أَحْجَارٍ فِي تَحْصِيلِ مَعْنَى الطَّهَارَةِ.

اسلئے کہ طاق عدد کم سے کم ایک ہوتا ہے اور حدیث میں طاق عدد کا حکم طہارت حاصل کرنے کے لئے ہے نہ کہ طاق کی گنتی پوری کرنے کے لئے، لہذا اگر تین سے کم میں بھی طہارت حاصل ہوگئی تو مقصود حاصل ہوگیا اور حضور ﷺ کے حکم کی تعمیل بھی ہوگئی۔

اسی طرح اگرکسی نے ایک ایسے ڈھیلے سے استنجاء کیا جس کے تین کنارے (Three Sides) تھےتو طہارت حاصل ہوجائے گی، اس لئے کہ وہ ایک ڈھیلا تین ڈھیلوں کے برابر شمار ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

*وضاحت:*

استنجاء کے لئے کن چیزوں کا استعمال جائز ہے کن کا استعمال منع ہے، اس پر بحث ہوچکی۔

اب علامہ کاسانی ایک نئی بحث کا آغاز کررہے ہیں اور اسکی وجہ امام شافعی کا اختلاف ہے۔

*استنجاء میں کتنے ڈھیلے استعمال کرنے چاہئے۔۔؟؟*

ہم احناف کے نزدیک ڈھیلوں کی کوئی تعداد مقرر نہیں ہے، بلکہ جتنے ڈھیلوں سے پاکیزگی حاصل ہوجائے اتنے ڈھیلے استعمال کرنا سنت ہے، ہاں اگر ایک یا دو ڈھیلوں سے پاکیزگی حاصل ہوجائے تو تین کا عدد پورا کرنا مستحب ہے، اسی طرح چار سے حاصل ہوجائے تو پانچ کا عدد پورا کرنا مستحب ہے۔۔ وجہ یہ ہے کہ احادیث میں جہاں طاق عدد کا ذکر آیا ہے وہی تین کا عدد بھی مذکور ہے ۔ لہذا کم از کم تین کا عدد پورا کرنا بہرحال مستحب ہے۔

طہارت کے مسائل میں عدد کے حوالے سے ہم احناف کا موقف یہ ہے *نجاست کو زائل کرنا* ضروری ہے *عدد کا لحاظ* ضروری نہیں ہے، ہاں اگر ایک یا دو بار میں نجاست زائل ہوجائے اور احادیث میں کسی عدد کا ذکر ملتا ہو تو اس عدد کو پورا کرلیناحسبِ دلیل سنت یا مستحب ہوتا ہے۔

علامہ کاسانی نے امام شافعی کی جو دلیل ذکر کی ہے دراصل امام شافعی کا استدلال صرف لفظ *وتر* سے نہیں ہے بلکہ ان کے دلائل میں وہ احادیث بھی شامل ہیں جس میں *ثلاثة احجار* یعنی تین پتھروں کے استعمال کا ذکر ہے۔ ابوداؤد، نسائی اور بیہقی وغیرہم کتبِ حدیث میں وہ روایات موجود ہیں۔

ہوسکتا ہے کسی کے ذہن میں یہ اشکال آئے کہ علامہ کاسانی نے لکھا ہے کہ جب ایک ڈھیلے سے طہارت ہوگئی تو مقصد حاصل ہوگیا۔۔۔ پھر دو ٹھیلے لینا *تنجیس الطاہر* کے اصول کے مخالف ہے یعنی پاک چیز کو ناپاک کرنا ناجائز ہے تو دو ڈھیلے لینا بھی ناجائز ہے۔

علامہ کاسانی نے عبارت میں *بلاضرورت* کی قید لگاکر اس اشکال کو دور کردیا ہے، یعنی ضرورت ہو تو ایک ڈھیلے سے طہارت ہوجانے کے باوجود دو ڈھیلے لینا جائز ہے۔۔۔ اور حدیث کے ظاہر پر عمل کرنا بلاشبہ ضرورت میں شامل ہے، لہذا تین کا عدد پورا کرنا مستحب ہے ناجائز نہیں ہے۔

علامہ کاسانی نے ایک پتھر کو تین طرف سے استعمال کرنے کی جو مثال پیش کی ہے وہ امام شافعی کےموقف کو کمزور ثابت کرنے کی بہت اچھی دلیل ہے، کیونکہ امام شافعی ایک طرف تو تین ڈھیلے استعمال کرنے کو ضروری قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف وہ خود اس بات کے قائل ہیں کہ ایک پتھر کو تین طرف سے استعمال کرلیا جائے تو تین کا عدد پورا ہوجائے گا۔

*ثلاثة أحجار* یعنی تین پتھر کے فرمان پر عمل کرنا ہے تو پتھر کا تعداد میں تین ہونا ضروری ہے، لہذا امام شافعی کا تین اطراف (Sides) کے مسئلہ کو جائز قرار دینا ان کے موقف کو کمزور ثابت کرتا ہے۔

*ابو محمد عارفین القادری*