📜کامیابی ، معیار اور حصول ؟

🔦 نت نئی ایجادات اور مختلف مصنوعات کا دور دورہ ہے ۔ ہر چیز کے ساتھ بنانے والی کمپنی کی طرف سے ایک تحریر ملتی ہے جس پر اس چیز کے سارے فنکشن ، استعمال کا طریق کار ، حفاظتی تدابیر اور دیگر ضروری معلومات درج ہوتی ہیں جو ان بنانے والوں کو ہی بہتر طور پر معلوم ہوتی ہیں اور اس چیز کی بقا، کامیابی اور سارے فوائد کا دارومدار انہی ہدایات پر عمل کرنے میں مضمر ہوتا ہے ۔

🎇 یہ ساری کائنات اللہ عزوجل کی بنائی ہوئی ہے اس کی ساخت اور ترکیب کے اجزاء اور ان کے بارے میں معلومات اس سے بڑھ کر کسی اور کو پھر کیسے ہو سکتی ہیں ؟

انسان تو اس کی شاہکار تخلیق ہے

اور وہ خود فرماتا ہے کہ

🕋 میں نے اس انسان کو عبث اور فضول پیدا نہیں کیا ۔

تو اب یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اس عز و جل نے اس کی فوز و فلاح اور کامیابی و کامرانی کے حصول کے طریقے نہ بنائے اور بتائے ہوں ۔

اور وہ طریقے اس سے بہتر نہ کوئی جان سکتا اور بتا سکتا ہے ۔

🍁بحیثیت اس کی انسانی مخلوق ہونے کے اپنی کامیابی کے لیئے ہمیں اس کی ہدایات پر ہی عمل کرنا چاہیے تھا

لیکن اس کا ہم پر تو مزید کرم یہ ہے کہ اس نے ہمیں اپنے اوپر ایمان رکھنے کی لازوال بے مثال سعادت عطا فرما رکھی ہے ۔ ہمارا معبود و مسجود بھی وہی ہے اور خالق ومالک اور رب بھی وہی چنانچہ ہم پر تو اس نسبت کی بنا پر اور زیادہ لازم ہو جاتا ہے کہ ہم اپنی کامیابی و کامرانی اسے ہی سمجھیں جو وہ فرمائے اوراس کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہونے کے لئے اس گفتار و کردار کو اپنائیں جو وہ بتاتا ہے

🕌 اس کی ہی تعلیمات کی روشنی میں مساجد کے موذنین دن میں 5 مرتبہ

📢حَیَّ عَلَی الْفَلَاحْ

( آؤ کامیابی کی طرف ) کی صدا لگا کر ہمارے اذہان میں تازہ کرتے ہیں کہ کامیابی کیا ہے اور کہاں ہے ؟ ۔

اگر یہ فرمان صرف ایک بار بھی ہوتا تو ہمارا یقین وعمل یہ ہونا چاہیے تھا کہ ہم اپنی کامیابی کو اسی میں ہی مضمر سمجھتے لیکن یہ دل نواز صدائیں تو ہمیں دن میں پانچ مرتبہ سنائی دیتی ہیں جس سے بخوبی پتہ چل جاتا ہے کہ ہماری کامیابی میں اس اذان اور اس کے نتیجے میں کھڑی ہونے والی نماز کا کتنا بڑا حصہ ہے ۔ اسی لیئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی کوئی اہم کام درپیش ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع فرما دیتے

🌹اللہ تبارک وتعالی نے اپنے مقدس کلام میں کامیابی کا معیار بڑا واضح طور پر بیان فرما دیا ہے

🌹 فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ الْنَارِ وَاُدْخِلُ الْجَنَّۃَفَقَدْ فَازَ

(سورۃ آل عمران آیت 185)

“پس جو شخص آگ سے دور کر دیا گیا اور جنت میں داخل کیا گیا، بے شک وہی کامیاب ہو گیا “

اس ارشاد سے واضح ہوتا ہے کہ کامیابی ان امور اور اطوار کو اختیار کرنے میں ہے جو جہنم سے دور اور جنت سے قریب کرتے ہیں ۔

اللہ تعالی نے تو فرما دیا ہے

🔖وَھَدَیْنٰهُ النَّجْدَیْنَ

(سورۃالبلدآیت10)

ہم نے انسان کے سامنے کامیابی اور نا کامی دونوں راستے کھول کر رکھ دیے ہیں

🔖 فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ

(سورۃالکھف آیت 29)

اب انسان کے اپنے اختیار میں ہے جو چاہے انہیں مان کر کامیاب ہوجائے اور جو چاہے نہ مان کر ناکام و نامراد اور جہنم کا ایندھن بن جائے ۔

🔆اللہ تبارک تعالی ہمیں ، ہمارے والدین، اساتذہ، مشائخ ، اہل خانہ و اعزہ و احباب و کل امت مسلمہ کو جہنم کی آگ سے محفوظ رہنے اور جنت میں داخل ہونے کی توفیقات عطاء فرمائے ۔🤲

آمین آمین آمین

اللہ تبارک و تعالی سے اس کا فضل مانگتے رہنا چاہئے کہ دیگر نعمتوں کی طرح کامیابی اور کامرانی اس کے فضل کی ہی مرہون منت ہے

🌲 کامیابی و کامرانی کے لیئے جس طرح ایک مخلص اور مکمل ہادی اور رہنما کا ہونا ضروری ہے اسی طرح کامیابی کی خواہش رکھنے والے کے لئے چند اور صلاحیتوں کا ہونا بھی لازم ہے اور اللہ تعالی نے قرآن مجید میں وہ بھی بتائی ہیں

مثلا دانائی , بینائی, سماعت ، زندہ اور سلیم دل ، وغیرہا ۔

اس پوری کائنات کا خالق اور رب فرماتا ہے کہ جو لوگ اس کے فرمائے ہوئے ، عطا کئے ہوئے اصول و ضوابط کی روشنی میں زندگی بسر نہیں کرتے کامیاب و بامراد ہونا تو دور کی بات وہ بہرے ہیں, گونگے ہیں, اندھے ہیں ,بلکہ دلوں کے اندھے ہیں عقل سے بھی بے بہرہ ہیں بلکہ جانوروں سے بھی زیادہ گمراہ اور بد تر ہیں ۔

🔖صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ ( سورة البقرة 18 )

🔖صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَعْقِلُونَ ( سورة البقرة 171)

🔖لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَّا يَسْمَعُونَ بِهَا ۚ أُولَٰئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ

( سورة الاعراف 179)

🔖أَمْ تَحْسَبُ أَنَّ أَكْثَرَهُمْ يَسْمَعُونَ أَوْ يَعْقِلُونَ إِنْ هُمْ إِلَّا كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ سَبِيلاً

( سورة الفرقان:44 )

🔖فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَٰكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ

( سورة الحج 46 )

 بینا ، دانا ، زندہ دل انسان کامیابی کے لئے وقت کی قدروقیمت کو بخوبی جانتا ہے لیکن اللہ کا فضل عمیم کہ کتاب ہدایت قرآن کریم میں ارشاد فرمایا

فَإِذَا فَرَغْتَ فَانصَبْ (7)وَإِلَىٰ رَبِّكَ فَارْغَب (8 سورة الانشراح )

حضرات مفسرین کی تفسیر کا خلاصہ کچھ یوں بنتا ہے کہ ایک کام سے فارغ ہوئے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں بلکہ اور زیادہ لگن مزید جوش اور جذبے سے کسی اور کام میں لگ جائیں

یہاں یہ بھی غور کرنے کی بات ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے حکم میں “نصب “کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس کا معنی ہے “کام کی جسم کو چور چور کردینے والی تھکاوٹ” .

کام دین کا ہو یا دنیا کا اس میں کچھ دیر مصروف رہنے سے ایک سستی سی پیدا ہو جاتی ہے ۔

سبحان اللہ

انسانی نفسیات سے ہم آہنگ کتنی خوبصورت تعلیم دی بے۔۔

بے دلی ، پریشان فکری سے کام کرنے میں ثمرات بہت کم ہو جاتے ہیں ۔ تو انسان اس سے کسی قدر فارغ ہو کر کسی اور کام میں لگ جائے تو نئی دلچسپی نئی توجہ نئی اٹھان کی وجہ سے اب کیا جانے والا کام زیادہ ثمرات دے گا

اور إلى ربك فارغب

فرما کر یہ بتا دیا کہ جس بھی کام میں لگو اس میں تمہاری ساری رغبت اور دلچسپی تمہارے رب کی طرف ہونی چاہیے اور یہ تو ظاہر ہے کہ رب کی رغبت والے کام کس طرح کے با برکت اور نتیجہ خیز ہوں گے ۔

 اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تبارک تعالی کے دو انعامات ایسے ہیں کہ لوگوں کی اکثریت ان کے اندر سخت گھاٹے میں مبتلا ہیں

1 صحت

2 فارغ وقت

حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کا ارشاد ہے کہ مجھے یہ دیکھنا سخت ناگوار گزرتا ہے کہ میں تم میں سے کسی کو خالی اور بیکار دیکھوں نہ تو دنیا کے کسی کام میں مصروف ہے اور نہ ہی دین کے

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما دو کشتی کرتے ہوئے مردوں کے پاس سے گزرے آپ نے فرمایا ہمیں اپنے فارغ وقت میں اس کا حکم نہیں دیا گیا

🌻 فراغت اور ٹال مٹول کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور دونوں ہی کامیابی کے دشمن ہیں ۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی جناب ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک نصیحت ہے ” اپنے آپ کو بہت بچاؤ اس رویہ سے کہ اچھا تھوڑی دیر بعد میں کرلیتا ہوں ۔ اس لیئے کہ تم ! آج اس وقت تم ہو اس کے بعد ( تو سمجھ لے کے تم نہیں ہو گے) اور اگر اللہ کے فضل سے کل کی مہلت مل گئی تو اس میں بھی یہی سوچ رکھنا ۔ کل کر لونگا اگر تم نے اپنے آج سے نکال دیا تو تجھے کسی کمی کوتاہی رہ جانے کی ندامت نہیں ہوگی ۔

🌟 زندگی میں ناکامی اور آس امید کے ٹوٹنے اور بہت کچھ کھو جانے والے واقعات بھی ہوتے ہیں لیکن اگر کوئی ان کو دل پر لے کر پڑ جائے تو کبھی بھی کامیاب انسان نہیں بن سکتا بلکہ سبق سیکھ کر نئے جذبے اور نئے ولولے سے دوبارہ میدان عمل میں کودنا ضروری ہوتا ہے

غزوہ احد میں شروع کی شاندار فتح کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے پسپائی ، ناکامی اور بہت زیادہ جانی نقصان مسلمانوں کو برداشت کرنا پڑا۔

اس موقع پر بھی اللہ نے فرمایا

🌹 وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ( سورة ال عمران 139 )

اور نہ کمزوری دکھاؤ اور نہ غم کرو تم ہی بلند و بالا ہو جب تک کہ تم مومن ہو

وھن بدن کی کمزوری کو بولتے ہیں اور حزن دل میں پیدا ہونے والی ناامیدی ، افسوس اور غم کو اور یہ دونوں کیفیتیں انسان کو بزدل ، درماندہ اور ناکارہ سا بنا دیتی ہیں چنانچہ اللہ تبارک وتعالی نے فورا یہ اصلاح فرمائی کہ یہ وقتی نقصان ہے اپنی کمزوریوں پر قابو پاؤ ۔ دل میں یقین پیدا کرو ۔ میرے اس فرمان ” تم ہی سب سے اعلی ہو ” کو اپنا طغری اور تمغہ سمجھ کر نئے جذبے ، نئی حکمت عملی اور نئی تیاری سے کمربستہ ہو جاؤ ۔

یقین محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم

جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں….

کیا آپ بینا و دانا ہیں ؟

کسوٹی حاضر خدمت ہے ۔

۞ أَفَمَن يَعْلَمُ أَنَّمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ هُوَ أَعْمَىٰ ۚ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ ( سورة الرعد 19)

تو کیا جو جانتا ہے کہ جوکچھ آپ پر آپ کے رب کی جناب سے نازل کیا گیا ہے وہ بالکل حق ہے ، وہ اس جیسا ہے جو ( اس نازل شدہ پر ایمان و عمل نہ کر کے ) اندھا ہو ۔ بات تو یہی ہے کہ نصیحت اہل عقل ہی پکڑتے ہیں ۔

یہاں اللہ تعالی نے سبھی لوگوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے

(1) جو اللہ کے رسول پر نازل فرمودہ کو حق جانتے ہیں اور حق جاننے کا مطلب اس پر عمل اور اس کے مطابق اپنی کردار سازی ہے ۔

(2) جو ایسے نہیں اور اللہ نے انہیں اندھا قرار دیا ہے ۔

اس نصیحت کو فرمانے کے بعد ، بتایا کہ جو اس نصیحت کو قبول کرے وہ عقل والا ہے

یعنی جو اس پر کان نہ دھرے وہ لاکھ عقلمند بنا پھرے ، خالق کائنات کی جناب میں بے عقل بھی ہے ، اندھا تو پہلے ہی بیان ہو چکا ۔

فقیر خالد محمود عرض گذار ہے کہ اپنے رب کے ارشاد پر ضرور غور فرمائیں ۔ ایسا ہو سکتا ہے کہ اندھا تو ہے لیکن ہے عقل والا تو نابینائی کی وجہ سے جو کمی پیدا ہوئی وہ کسی حد تک عقل کی وجہ سے پوری ہو گئی جیسا کہ مشاہدہ بھی ہے لیکن اگر دونوں ہی نہ ہوں تو !!!

اب لگے ہاتھوں یہ غور بھی فرما لیں کہ اللہ تبارک و تعالی نے کیا نازل فرمایا ہے ، وہ کہاں ہے اور کن کے پاس اور ان کے بارے میں آپ کا رویہ کیا ہے ؟ آپ اس میں کہاں ہیں ؟

اور

اللہ تبارک و تعالی نے اگلی آیات میں ان اہل عقل کی درج ذیل نشانیاں بیان فرمائی ہیں ۔

اللہ تعالی کے ساتھ اپنے ( روز الست کے ) عھد کو پورا کرتے ہیں

اپنے پختہ قول و قرار کو توڑتے نہیں ( آیت نمبر 20)

اللہ نے جسے ملانے کا حکم دیا ہے اسے ملا کر ہی رکھتے ہیں

اپنے رب کی خشیت رکھتے ہیں

اور بڑے حساب خوفزدہ رہتے ہیں ( آیت نمبر 21)

جو اپنے رب کی رضا کی طلب میں صبر رکھتے ہیں

نماز قائم رکھتے ہیں

ہمارے دیئے ہوئے رزق میں سے پوشیدہ اور علانیہ خرچ کرتے ہیں

برائی کا بدلہ اچھائی سے دیتے ہیں ۔ ( آیت نمبر 22)

اللہ تبارک و تعالی سے دعاء ہے کہ وہ یہ صفات اعلی ترین پیمانے پر ہمارے اندر پیدا فرما دے ۔

آمین آمین یا رب العالمین…

(مفتی خالد محمود صاحب)