کنزالایمان مع خزائن العرفان پارہ 1 رکوع 5 سورہ البقرہ آیت نمبر40 تا 46
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِیْۤ اُوْفِ بِعَهْدِكُمْۚ-وَ اِیَّایَ فَارْهَبُوْنِ(۴۰)
اے یعقوب کی اولاد (ف۶۹) یاد کرو میرا وہ احسان جو میں نے تم پر کیا (ف۷۰) اور میرا عہد پورا کرو میں تمہارا عہد پورا کروں گا (ف۷۱) اور خاص میرا ہی ڈر رکھو (ف۷۲)
(ف69)
اسرائیل بمعنی عبداللہ عبری زبان کا لفظ ہے یہ حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب ہے۔(مدارک) کلبی مفسر نے کہا اللہ تعالیٰ نے ” یٰۤاَیُّھَاالنَّاسُ اعْبُدُوْا ” فرما کر پہلے تمام انسانوں کو عموماً دعوت دی پھر ” اِذْ قَالَ رَبُّکَ ” فرما کر انکے مبدء کا ذکر کیا اس کے بعد خصوصیت کے ساتھ بنی اسرائیل کو دعوت دی یہ لوگ یہودی ہیں اور یہاں سے سیقول تک ان سے کلام جاری ہے کبھی بملاطفت انعام یاد دلا کر دعوت کی جاتی ہے کبھی خوف دلا یا جاتا ہے کبھی حجت قائم کی جاتی ہے۔ کبھی ان کی بدعملی پر توبیخ ہوتی ہے کبھی گزشتہ عقوبات کا ذکر کیا جاتا ہے۔
(ف70)
یہ احسان کہ تمہارے آباء کو فرعون سے نجات دلائی ، دریا کو پھاڑا ابر کو سائبان بنایا ان کے علاوہ اور احسانات جو آگے آتے ہیں ان سب کو یاد کرو اور یاد کرنا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و بندگی کرکے شکر بجالاؤ کیونکہ کسی نعمت کا شکر نہ کرنا ہی اس کا بھلانا ہے۔
(ف71)
یعنی تم ایمان و اطاعت بجالا کر میرا عہد پورا کرو میں جزاء و ثواب دے کر تمہارا عہد پورا کروں گا اس عہد کا بیان آیہ ” وَلَقَدْ اَخَذَ اللّٰہ ُ مِیْثَاقَ بَنِیْ اِسْرَآءِ یْلَ ” میں ہے۔
(ف72)
مسئلہ : اس آیت میں شکر نعمت ووفاء عہد کے واجب ہونے کا بیان ہے اور یہ بھی کہ مومن کو چاہئے کہ اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرے ۔
وَ اٰمِنُوْا بِمَاۤ اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ وَ لَا تَكُوْنُوْۤا اَوَّلَ كَافِرٍۭ بِهٖ۪-وَ لَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا٘-وَّ اِیَّایَ فَاتَّقُوْنِ(۴۱)
اور ایمان لاؤ اس پر جو میں نے اتارا اس کی تصدیق کرتا ہوا جو تمہارے ساتھ ہے اور سب سے پہلے اس کے منکر نہ بنو (ف۷۳) اور میری آیتوں کے بدلے تھوڑے دام نہ لو (ف۷۴) اور مجھی سے ڈرو
(ف73)
یعنی قرآن پاک توریت وانجیل پرجو تمہارے ساتھ ہیں ایمان لاؤاور اہلِ کتاب میں پہلے کافر نہ بنوکہ جو تمہارے اتباع میں کفر اختیار کرے اس کا وبال بھی تم پر ہو ۔
(ف74)
ان آیات سے توریت و انجیل کی وہ آیات مراد ہیں جن میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت و صفت ہے مقصد یہ ہے کہ حضور کی نعت دولت دنیا کے لئے مت چھپاؤ کہ متاع دنیا ثمن قلیل اور نعمت آخرت کے مقابل بے حقیقت ہے ۔
شانِ نُزول : یہ آیت کعب بن اشرف اور دوسرے رؤساء و علماء یہود کے حق میں نازل ہوئی جو اپنی قوم کے جاہلوں اور کمینوں سے ٹکے وصول کرلیتے اور ان پر سالانے مقرر کرتے تھے اور انہوں نے پھلوں اور نقد مالوں میں اپنے حق معین کرلئے تھے انہیں اندیشہ ہوا کہ توریت میں جو حضور سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت و صفت ہے اگر اس کو ظاہر کریں تو قوم حضور پر ایمان لے آئے گی اور ان کی کچھ پرسش نہ رہے گی۔ یہ تمام منافع جاتے رہیں گے اس لئے انہوں نے اپنی کتابوں میں تغییر کی اور حضور کی نعت کو بدل ڈالا جب ان سے لوگ دریافت کرتے کہ توریت میں حضور کے کیا اوصاف مذکور ہیں تو وہ چھپالیتے۔ اور ہر گز نہ بتاتے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(خازن وغیرہ)
وَ لَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَكْتُمُوا الْحَقَّ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۴۲)
اور حق سے باطل کو نہ ملاؤ اور دیدہ و دانستہ حق نہ چھپاؤ
وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَ(۴۳)
اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو (ف۷۵)
(ف75)
اس آیت میں نمازو زکوٰۃ کی فرضیت کا بیان ہے اور اس طرف بھی اشارہ ہے کہ نمازوں کو ان کے حقوق کی رعایت اور ارکان کی حفاظت کے ساتھ ادا کرو مسئلہ : جماعت کی ترغیب بھی ہے حدیث شریف میں ہے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا تنہا پڑھنے سے ستائیس درجہ زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔
اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَ اَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْكِتٰبَؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(۴۴)
کیا لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ہو اور اپنی جانوں کو بھولتے ہو حالانکہ تم کتاب پڑھتے ہو تو کیا تمہیں عقل نہیں (ف۷۶)
(ف76)
شان نُزول : عُلَماءِ یہود سے ان کے مسلمان رشتہ داروں نے دین اسلام کی نسبت دریافت کیا تو انہوں نے کہا تم اس دین پر قائم رہو حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دین حق اور کلام سچا ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی ایک قول یہ ہے کہ آیت ان یہودیوں کے حق میں نازل ہوئی جنہوں نے مشرکین عرب کو حضور کے مبعوث ہونے کی خبر دی تھی اور حضور کے اتباع کرنے کی ہدایت کی تھی پھر جب حضور مبعوث ہوئے تو یہ ہدایت کرنے والے حسد سے خود کافر ہوگئے اس پر انہیں توبیخ کی گئی ۔(خازن و مدارک)
وَ اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِؕ-وَ اِنَّهَا لَكَبِیْرَةٌ اِلَّا عَلَى الْخٰشِعِیْنَۙ(۴۵)
اور صبر اور نماز سے مدد چاہو اور بےشک نماز ضرور بھاری ہے مگر ان پر جو دل سے میری طرف جھکتے ہیں (ف۷۷)
(ف77)
یعنی اپنی حاجتوں میں صبر اور نماز سے مدد چاہو سبحان اللہ کیا پاکیزہ تعلیم ہے صبر مصیبتوں کا اخلاقی مقابلہ ہے انسان عدل و عزم حق پرستی پر بغیر اس کے قائم نہیں رہ سکتا صبر کی تین قسمیں ہیں۔(۱) شدت و مصیبت پر نفس کو روکنا (۲)طاعت و عبادت کی مشقتوں میں مستقل رہنا(۳)معصیت کی طرف مائل ہو نے سے طبیعت کو باز رکھنا ،بعض مفسرین نے یہاں صبر سے روزہ مراد لیا ہے وہ بھی صبر کا ایک فرد ہے اس آیت میں مصیبت کے وقت نما ز کے ساتھ استعانت کی تعلیم بھی فرمائی،کیونکہ وہ عبادتِ بدنیہ ونفسانیہ کی جامع ہے اور اس میں قربِ الہٰی حاصل ہو تا ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہم امور کے پیش آنے پر مشغولِ نماز ہو جاتے تھے،اس آیت میں یہ بھی بتایا گیا کہ مومنین صادقین کے سوا اوروں پر نماز گرا ں ہے ۔
الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّهِمْ وَ اَنَّهُمْ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ۠(۴۶)
جنہیں یقین ہے کہ انہیں اپنے رب سے ملنا ہے اور اسی کی طرف پھرنا (ف۷۸)
(ف78)
اس میں بشارت ہے کہ آخرت میں مؤمنین کو دیدارالہی کی نعمت ملے گی