خواجۂ خواجگان، حضرت خواجہ معین الدین چشتی، اجمیری رحمۃ اللہ علیہ
الصّلوٰۃ و السّلام علیک یا رسول اللّٰہ ﷺ
و علیٰ آلک واصحابک یاحبیب اللّٰہ ﷺ
خواجۂ خواجگان، حضرت خواجہ معین الدین چشتی، اجمیری رحمۃ اللہ علیہ
اللہ عزوجل نے انسانوں کی ہدایت کے لئے انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ و السلام مبعوث فرمائے، حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ و السلام سے لے کر تاجدارِ کائنات ا تک جتنے بھی انبیاء تشریف لائے سب نے انسانوں کے ساتھ خیر خواہی کا بھر پور مظاہرہ فرمایا اور راہ بھٹکے انسانوں کو صراطِ مستقیم پر چلنے کی دعوت دیتے رہے۔ ظاہرسی بات ہے کفر کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے اور ظلم و عصیاں کے سمندر میں ڈوبے ہوئے انسانوں کے لئے راہِ راست پر جلدی آنا آسان تو نہ تھا چنانچہ کبھی دعوتِ دین دینے والے مقدس انبیائِ کرام پر نصیحت کے جواب میں پتھر برسائے گئے اور کبھی نا شائستہ جملوں کے تیر برسا کر ان کے کلیجے کو چھلنی کیا گیا۔ لیکن اللہ کے فرستادہ پیغمبر ہر ظلم سہتے رہے اور لوگوں پر شفقت و مہربانی کے بادل بن کر برستے رہے۔
اگر ہم قرآنِ مقدس کا مطالعہ کریں تو بے شمار انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ و السلام انسانوں کو خود کے خیر خواہ ہونے کے دلائل پیش کرتے رہے۔ جیسا کہ ’’اُبَلِّغُکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ اَنْصَحُ لَکُمْ وَ اَعْلَمُ مِنَ اللّٰہِ مَا لاَ تَعْلَمُوْنَ‘‘ (سورۂ ، آیت نمبر ۶۲)
ترجمہ: تمہیں اپنے رب کی رسالتیں پہنچاتا اور تمہارا بھلا چاہتا اور میں اللہ کی طرف سے وہ علم رکھتا ہوں جو تم نہیں رکھتے۔
مذکورہ آیتِ کریمہ میں بھٹکے ہوئے انسانوں کے سامنے حضرتِ نوح علیہ السلام نے اپنا مقصد اور منصب بیان فرمایا۔ اسی طرح سے اگر ہم دوسرے مقام پر دیکھیں تو حضرتِ صالح علیہ الصلوٰۃ و السلام نے بھی اپنی قوم سے اس طریقہ کا ارشاد فرمایا۔ جیسا کہ قرآنِ مقدس میں اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا ’’لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسَالَۃَ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَکُمْ وَ لٰکِنْ لَّا تُحِبُّوْنَ النَّاصِحِیْنَ‘‘
ترجمہ: بے شک میں نے تمہیں اپنے رب کی رسالت پہنچادی اور تمہارا بھلا چاہا مگر تم خیر خواہوں کے غرضی ہی نہیں۔ (سورۂ اعراف، آیت ۷۹)
مذکورہ آیتِ کریمہ میں قوم کی ہٹ دھرمی اور عدم شناسی کا ذکر کرتے ہوئے حضرت صالح علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا کہ خیر خواہوں سے تم کو کوئی غرض ہی نہیں۔ اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جہالت کی وادیوں میں بھٹکنے والے انسان اور کفر و ضلالت کی تاریکی میں گم ہونے والی قوم بھلے اور برے کی تمیز سے محروم رہتی ہے۔
اگر ہم حضرت صالح علیہ الصلوٰۃ و السلام کی قوم کا جائزہ لیں تو اس قوم کی بے راہ روی اور گمرہی کا اندازہ لگ سکتا ہے۔
اسی طرح سے حضرت شعیب علیہ الصلوٰۃ و السلام کا قول ’’یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَکُمْ فَکَیْفَ اٰسٰی عَلٰی قَوْمٍ کٰفِرِیْنَ‘‘ اے میری قوم میں تمہیں اپنے رب کی رسالت پہنچا چکا اور تمہارے بھلے کو نصیحت کی تو کیوں کر غم کروں کافروں کا۔
مذکورہ آیتِ کریمہ میں اللہ کے جلیل القدر پیغمبر نے اپنی ذمہ داریٔ منصب کو واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمادیا کہ رسالت اور نصیحت ہم نے پہنچا دی اب اگر تم ایمان نہ لائو تو قصور تمہارا ہے۔
میرے پیارے آقاﷺ کے پیارے دیوانو! ایک اور مقام پر حضرت ہود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اسی بات کو دوسرے انداز میں فرمایا ’’اُبَلِّغُکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ اَنَا لَکُمْ نَاصِحٌ اَمِیْنٌ‘‘ تمہیں اپنے رب کی رسالتیں پہنچاتا ہوں اور تمہارا معتمد خیر خواہ ہوں۔
(سورۂ اعراف، آیت:۶۸)
کفّار کا حضرت ہود علیہ السلام کی جناب میں یہ گستاخانہ کلام کہ تمہیں بے وقوف سمجتے ہیں، جھوٹا گمان کرتے ہیں، انتہائی درجے کی بے ادبی اور کمینگی تھی اور وہ مستحق اس بات کے تھے کہ انہیں سخت ترین جواب دیا جاتا مگر آپ نے اپنے اخلاق و آداب اور شانِ حلم سے جو جواب دیا اس میں شان مقابلہ ہی نہ پیدا ہونے دی اور ان کی جہالت سے چشم پوشی فرمائی۔ اس سے دنیا کو سبق ملتا ہے کہ سفہاء اور بد خصال لوگوں سے اس طرح مخاطبہ کرنا چاہئے مع ہٰذا آپ نے اپنی رسالت اور خیر خواہی و امانت کا ذکر فرمایا اس سے یہ مسئلہ معلوم ہوا کہ اہلِ علم و کمال کو ضرورت کے موقع پر اپنے منصب و کمال کا اظہار جائز ہے۔
میرے پیارے آقا ﷺ کے پیارے دیوانو! آپ دیکھتے چلے جائیں کہ انسانوں کی خیر خواہی کے لئے شب و روز کاوشیں کرنے والے انبیاء علیہم الصلوٰۃ و السلام کو دنیا کیا کیا سمجھتی رہی اور کہتی رہی، لیکن صبر و استقامت کے پیکر بن کر وہ لوگوں کو دین حنیف کی طرف بلاتے رہے اور جواباً دنیا کیا کہہ رہی ہے اس کی پرواہ تک نہ کی اس لئے کہ وہ جانتے تھے کہ خالق عزت اللہ ہے اور بھلائی کی دعوت دینا یہ ہماری ذمہ داری ہے۔
حرص و دنیا کی لالچ میں اندھی قوم اور ’’دنیا ہی کے لئے جینا دنیا ہی کے لئے مرنا‘‘ اس ضابطہ پر عمل کرنے والی قوم یہ تصور کر تی رہی کہ نصیحت کے عوض میں انبیائِ کرام علیہم الصلوٰۃ و السلام شاید ہمیں دعوتِ اسلام دے کر اور دین کی اعلیٰ قدروں سے آشنا کرا کر کچھ مال و منفعت کے خواہش مند ہوں گے تو دولت و ثروت کی لالچ دے کر دعوتِ دین کے فروغ کو روکنے کے لئے انہوں نے کوشش کی حتی کہ تاجدارِ کائنات ا سے جزیرۃ العرب کی جو زمین اور جو دوشیزہ پسند ہو اس کی پیش کش کی گئی لیکن معبودِ برحق کے فرستادہ پیغمبر دردِ انسانیت سے لبریز سینہ لے کر جس مقصد کے تحت اس فرشِ گیتی پر تشریف لائے تھے اس مقصد کو کیسے چھوڑ سکتے تھے، چنانچہ ان کے شکوک و شبہات کو رفع کرتے ہوئے اللہ کے پیارے محبوب ا نے صاف لفظوں میں فرمایا ’’لَآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِیْ الْقُرْبٰی‘‘ اور واضح کر دیا کہ مال و زر کی حرص تو بہت دور کی بات ہے اگر چاند و سورج بھی میرے ہاتھوں میں رکھ دئے جائیں تو بھی لمحے بھر کے لئے میں اپنے مقصد سے انحراف نہیں کر سکتا۔
ارے جس رسول کو اللہ اپنے خزانوں کی کنجیاں عطا فرمادے اور جس کے ارد گرد پہاڑ سونے اور چاندی کے بن کر چلنے کے لئے تیار ہوں اسے کسی انسان سے مال و دولت کی کیا حاجت۔ سچ کہا ہے بریلی کے تاجدار نے ؎
مالکِ کونین ہیں وہ پاس کچھ رکھتے نہیں
دو جہاں کی نعمتیں ہیں ان کے خالی ہاتھ میں
رسولِ معظم ﷺ نے اپنی شفقت، رحمت اور بے غرضی سے انسانوں کے دلوں کا تزکیہ فرمایا اور دیکھتے دیکھتے تیئیس سال کی قلیل مدت میں ایک لاکھ سے زائد انسانوں کو شربتِ اسلام پلا کر نشۂ اسلام میں مخمور کر دیا اور وہ لوگ جن کے دل اتنے سخت تھے کہ جنہیں بچیوں کے زندہ در گور کرنے پر احساسِ جرم تک نہ تھا ان کے دلوں میں یتیم بچیوں کی پرورش کرنے کا جذبہ پیدا کرکے یہ واضح کر دیا کہ اسلام ہی وہ سچا مذہب ہے جس کے ایک ایک حکم میں ہزارہا بھلائیاں اللہ نے رکھی ہے۔
چوں کہ حضورﷺ اللہ کے آخری نبی بن کر تشریف لائے تھے اس لئے حضورﷺ کے بعد کسی نبی کا آنا تو ممکن نہ تھا تو اللہ عزوجل نے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ذریعہ فروغِ اسلام کا کام لیا، ان کے بعد تابعین نے یہ ذمہ داری سنبھالی اور پھر تبعِ تابعین نے۔ غرض کہ خلافتِ راشدہ کے بعد چوں کہ ملوکیت کے دور کا آغاز ہو چکا تھا لہٰذا جو کام خلیفۂ وقت کیا کرتے اور مضطرب انسانوں کو قانونِ اسلام کا پابند کر کے اطمینان و چین کی دولت سے مالا مال فرماتے، وہ کام آہستہ آہستہ ملوکیت کے عروج کے ساتھ ساتھ مدہم پڑتا رہا۔ چوں کہ اسلام خیر خواہی کا مذہب ہے اس لئے بھٹکے ہوئے انسانوں کی خیر خواہی کے لئے اللہ کے وہ بندے جن کو رب نے اپنی دوستی کا تاج عطا فرمایا وہ میدانِ عمل میں کود پڑے اور اپنے پاکیزہ کردار کے ذریعہ اور بے لوثی کے ذریعہ مخلوقِ خدا کی وہ خدمت کی اور ایسا بھلا چاہا کہ دنیا ان کے حسنِ اخلاق و خیر خواہی سے متاثر ہو کر دامنِ اسلام میں پناہ لینے لگی۔ انہیں اولیاء میں سلطان الہند، عطائے رسولﷺ، خواجۂ خواجگاں معین الدین چشتی علیہ الرحمہ ہیں جن کے وصال کو آج صدیاں گزر گئیں لیکن آج بھی دکھی انسانوں کی خیر خواہی اور مضطرب انسانوں کو چین کی دولت اپنے مزارِ پر انوار سے بانٹتے نظر آتے ہیں۔
میرے پیارے آقا ﷺ کے پیارے دیوانو!خواجۂ خواجگاں، خواجہ معین الدین چشتی علیہ الرحمۃ و الرضوان اپنی مرضی سے ہند کی زمین پر تشریف نہیں لائے بلکہ تاجدارِ کائناتﷺ نے انہیں سلطان الہند بنا کر ہندوستان کی سرزمین پر اجمیر کے علاقے میں جانے کا حکم عطا فرمایا۔ ہند کی سرحد میں داخل ہونے سے پہلے شہاب الدین غوری کی شکست خوردہ فوج کا ایک سپاہی جو پرتھوی راج سے شکست خوردہ فوج کا ایک سپاہی تھا، اس نے غریب نواز کو جب دیکھا کہ آپ عازمِ اجمیر ہیں تو عرض کرنے لگا اے اللہ کے برگزیدہ بندے! خدا کے لئے تم اجمیر نہ جائو، ابھی ہم پرتھوی راج کی فوج سے شکست کھا کر لوٹ رہے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کے ساتھ کوئی برا سلوک وہ کر بیٹھے لہٰذا میری گزارش ہے کہ آپ اجمیر کا ارادہ ترک کر دو۔
سلطان الہند غریب نواز علیہ الرحمہ نے اس کے کلمات جب سنے تو آپ کا عشق الٰہی جوش میں آیا اور برجستہ آپ نے ارشاد فرمایا ’’اے شہاب الدین غوری کی شکست خوردہ فوج کے سپاہی! کان کھول کر سن لے، تم لوگ جب چلے تھے تو تلواروں کے بھروسے پر اور معین الدین چلا ہے تو اللہ کے بھروسے پر‘‘
کچھ ہی دنوں میں دنیا نے دیکھ لیا کہ بوسیدہ لباس میں ملبوس اور اللہ کے رنگ میں رنگے ہوئے اس عاشق نے صرف اجمیر کی دھرتی ہی کو تکبیر کے لاہوتی نغموں سے مسحور نہ کیا بلکہ لاکھوں انسانوں کے دلوںمیں شمعِ اسلام کو جلا کر یہ واضح کر دیا کہ جب بھی مادی طاقتوں کا مقابلہ روحانی طاقتوں سے ہوا تو اللہ عزوجل نے اپنے فرمان ’’قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی‘‘ کے مطابق کامیابی انہیںکو عطا فرمائی جن کا دل یادِ الٰہی اور یادِ رسول ا اور دردِ امت میں تڑپتا ہے۔
آئیے ان تمہیدی کلمات کے بعد سلطان الہند خواجۂ خواجگاں، خواجہ معین الدین چشتی علیہ الرحمہ کے حالاتِ زندگی اور سوانحِ عمری پڑھیں اور اپنے دل کو ان کی محبت سے منور و مجلیٰ کریں۔
خاندان: حضرت خواجہ خاندانِ رسالت کے وہ روشن چراغ ہیں جس کی نورانی شعاعوں نے نہ صرف سر زمینِ ایشیا میں ہزاروں قلوب کو نورِ توحید و ضیائے معرفت سے منور کر دیا بلکہ تمام عالم میں اپنی لا زوال روشنی پھیلا دی، آپ کے آباء و اجداد کو علم و فضل، زہد و تقویٰ اور حق شناسی و خدا رسی میں طرۂ امتیاز حاصل رہا ہے، جس طرح سرورِ عالم ا کا شجرۂ نسب حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضور ا تک نہ صرف جاہلیت سے پاک و صاف ہے بلکہ ہدایت خلق کے لئے بعض انبیاء علیہم السلام کا بھی حامل ہے، اسی طرح آپ کا نسب نامہ رسول خدا ا سے لے کر آپ کی ذات اقدس تک نہ صرف دینداری اور پرہیزگاری میں ممتاز ہے بلکہ اس میں مخلوق کی رہبری کے لئے بعض اماموں کی مقدس شخصیتیں بھی نظر آتی ہیں، یہ حضرات فقر و درویشی اور بزرگی میں یگانۂ روزگار ہوئے ہیں۔ آپ کے شجرہ میں بہت سے اختلافات ہیں مگر یہ امر مسلمہ ہے کہ آپ بلحاظ نسب نامۂ پدری حسینی ہیں اور بموجبِ شجرۂ مادری حسنی ہیں۔
نسب نامہ پدری: معین الدین بن خواجہ غیاث الدین بن خواجہ نجم الدین ظاہرین سید عبدالعزیز بن سید ابراہیم بن سید ادریس بن سید امام موسیٰ کاظم بن امام جعفر صادق بن امام محمد باقر بن امام زین العابدین بن حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ
شجرۂ مادری: بی بی ام الورع المعروف بہ بی بی ماہِ نور و خاص الملکہ بنت سید دائود بن حضرت عبداللہ الحنبلی بن سید زاہد بن سید مورث بن سید دائود بن سیدنا موسیٰ جون بن سیدنا عبداللہ بن سیدنا حسن مثنیٰ بن سیدنا حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ
والدین و برادران: آپ کے والد بزرگوار حضرت سید غیاث الدین بہت متقی پرہیزگار تھے اور مشائخینِ خراسان میں ممتاز تھے، خاندانی شرافت کے ساتھ صاحبِ دولت و ثروت بھی تھے۔
غوث الاعظم سے قرابت: حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلی المعروف بہ غوث پاک حضرت عبداللہ الحنبلی کے پوتے ہیں اور غریب نواز کی والدہ ماجدہ بی بی ماہِ نور حضرت عبداللہ الحنبلی کی پوتی ہیں۔ ان ہر دو کے والد آپس میں بھائی ہیں۔ اس رشتہ سے غریب نوازکی والدہ غوث الاعظم کی چچا زاد بہن ہیں اور غوث پاک غریب نواز کے ماموں ہیں۔ ایک دوسرے رشتہ سے غریب نواز اور غوثِ پاک آپس میں خالہ زاد بھائی ہیں، تیسرے رشتہ سے غریب نواز غوث الاعظم کے ماموں ہوتے ہیں۔ ان رشتوں کی مطابقت اس طرح ہو جاتی ہے کہ غوثِ پاک کی والدہ غریب نواز کی ننہالی رشتہ میں خالہ اور ددھیالی رشتہ میں بہن ہیں۔
مولانا محمد شاکر علی رضوی نوری
[…] پارٹ ون کے لیے […]
[…] حصہ اول […]
[…] حصہ اول […]
حوالہ نہیں ہے کسی بات کا
مولانا شاکر نوری صاحب کی کتاب سے ماخوذ ہے