وَمَا كَانَ لِمُؤۡمِنٍ اَنۡ يَّقۡتُلَ مُؤۡمِنًا اِلَّا خَطَــئًا ۚ وَمَنۡ قَتَلَ مُؤۡمِنًا خَطَــئًا فَتَحۡرِيۡرُ رَقَبَةٍ مُّؤۡمِنَةٍ وَّدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰٓى اَهۡلِهٖۤ اِلَّاۤ اَنۡ يَّصَّدَّقُوۡا ؕ فَاِنۡ كَانَ مِنۡ قَوۡمٍ عَدُوٍّ لَّـكُمۡ وَهُوَ مُؤۡمِنٌ فَتَحۡرِيۡرُ رَقَبَةٍ مُّؤۡمِنَةٍ ؕ وَاِنۡ كَانَ مِنۡ قَوۡمٍۢ بَيۡنَكُمۡ وَبَيۡنَهُمۡ مِّيۡثَاقٌ فَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰٓى اَهۡلِهٖ وَ تَحۡرِيۡرُ رَقَبَةٍ مُّؤۡمِنَةٍ ۚ فَمَنۡ لَّمۡ يَجِدۡ فَصِيَامُ شَهۡرَيۡنِ مُتَتَابِعَيۡنِ تَوۡبَةً مِّنَ اللّٰهِ ؕ وَكَانَ اللّٰهُ عَلِيۡمًا حَكِيۡمًا ۞ – سورۃ نمبر 4 النساء آیت نمبر 92
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَمَا كَانَ لِمُؤۡمِنٍ اَنۡ يَّقۡتُلَ مُؤۡمِنًا اِلَّا خَطَــئًا ۚ وَمَنۡ قَتَلَ مُؤۡمِنًا خَطَــئًا فَتَحۡرِيۡرُ رَقَبَةٍ مُّؤۡمِنَةٍ وَّدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰٓى اَهۡلِهٖۤ اِلَّاۤ اَنۡ يَّصَّدَّقُوۡا ؕ فَاِنۡ كَانَ مِنۡ قَوۡمٍ عَدُوٍّ لَّـكُمۡ وَهُوَ مُؤۡمِنٌ فَتَحۡرِيۡرُ رَقَبَةٍ مُّؤۡمِنَةٍ ؕ وَاِنۡ كَانَ مِنۡ قَوۡمٍۢ بَيۡنَكُمۡ وَبَيۡنَهُمۡ مِّيۡثَاقٌ فَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰٓى اَهۡلِهٖ وَ تَحۡرِيۡرُ رَقَبَةٍ مُّؤۡمِنَةٍ ۚ فَمَنۡ لَّمۡ يَجِدۡ فَصِيَامُ شَهۡرَيۡنِ مُتَتَابِعَيۡنِ تَوۡبَةً مِّنَ اللّٰهِ ؕ وَكَانَ اللّٰهُ عَلِيۡمًا حَكِيۡمًا ۞
ترجمہ:
اور کسی مومن کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے مومن کو قتل کر دے ماسوا خطا کے (نادانستہ طور پر) اور جس نے کسی مسلمان کو خطاء (بلاقصد) قتل کردیا تو اس پر ایک مسلمان گردن (غلام یا باندی) کو آزاد کرنا لازم ہے اور اس کے وارثوں کو دیت ادا کی جائے ماسوا اس کے کہ وہ معاف کردیں پھر اگر وہ مقتول اس قوم سے ہو جو تمہاری دشمن ہے اور وہ (مقتول) مسلمان ہو تو صرف ایک مسلمان گردن کا آزاد کرنا لازم ہے ‘ اور اگر وہ (مقتول) اس قوم سے ہو جس کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہے تو اس کے وارثوں کو دیت ادا کی جائے اور ایک مسلمان گردن کو آزاد کیا جائے، سو جو شخص (غلام یا باندی) کو نہ پائے تو وہ مسلسل دو ماہ کے روزے رکھے یہ اللہ کی طرف سے (اس کی) توبہ ہے اور اللہ بہت علم والا بڑی حکمت والا ہے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد : اور کسی مومن کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے مومن کو قتل کر دے ماسوا خطا کے (نادانستہ طور پر) ۔ (النساء : ٩٢)
اس سے پہلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے خلاف جہاد کرنے کی ترغیب دی تھی اور کفار کے خلاف جہاد نہ کرنے والوں کی مذمت کی تھی ‘ اس آیت میں جہاد سے متعلق بعض احکام بیان کیے ہیں کیونکہ جب مسلمان کافروں پر حملہ کریں گے تو بلاقصد و ارادہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی مسلمان مسلمان کے ہاتھوں مارا جائے ‘ ایسی صورت کا اللہ تعالیٰ نے حکم بیان فرمایا ہے کہ اگر مسلمان مقتول دارالاسلام کا باشندہ ہو یا کسی معاہد ملک کا باشندہ ہو تو اس کے ورثاء کو اس کی دیت ادا کی جائے گی اور اس خطا کے کفارہ میں ایک مسلمان غلام یا باندی کو آزاد کیا جائے گا اور اگر وہ مقتول دار الحرب کا باشندہ ہو تو صرف ایک مسلمان غلام یا باندی کو آزاد کیا جائے گا اور اگر غلام یا باندی کو آزاد کر نیکی استطاعت نہ ہو تو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے جائیں گے۔
قتل خطاء کے شان نزول میں متعدد اقوال :
اس آیت کا شان نزول میں متعدد اقوال ہیں ‘ ایک قول یہ ہے کہ جنگ احد میں مسلمانوں نے حضرت حذیفہ (رض) کے والد یمان کو غلط فہمی سے قتل کردیا تھا ‘ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔
امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ جنگ احد کے دن مشرکین شکست کھا گئے تھے اس وقت ابلیس لعنت اللہ علیہ نے چلا کر کہا : اے اللہ کے بندو اے اللہ کے بندو اپنے پیچھے والوں پر حملہ کرو ‘ پھر اگلی صفوں نے پچھلی صفوں پر حملہ کیا اور وہ آپس میں گتھم گتھا ہوگئے اچانک حضرت حذیفہ (رض) نے دیکھا کہ مسلمان حضرت یمان پر حملہ کر رہے ہیں ‘ انہوں نے چلا کر کہا یہ میرے باپ ہیں ‘ یہ میرے باپ ہیں حضرت عائشہ (رض) بیان کیا بہ خدا وہ اس وقت تک باز نہیں آئے جب تک کہ انہوں نے حضرت یمان کو قتل نہیں کردیا ‘ حضرت حذیفہ (رض) نے کہا اللہ تعالیٰ تمہاری مغفرت فرمائے (صحیح البخاری ‘ رقم الحدیث : ٣٠٦٥)
دوسرا قول یہ ہے کہ بنو عامر کا ایک شخص مسلمان ہوگیا تھا ‘ حضرت عیاش بن ابی ربیعہ کو اس کو خبر نہ تھی انہوں نے غلط فہمی سے اس کو قتل کردیا ‘ اس کی تفصیل یہ ہے :
امام محمد ابن جریر متوفی ٣١٠ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
حضرت عیاش بن ابی ربیعہ ‘ ابوجہل بن ہشام کے اخیافی (سوتیلے) بھائی تھے ‘ وہ مسلمان ہوگئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہجرت کرنے سے پہلے مہاجرین اولین کے ساتھ مدینہ چلے گئے ‘ ابو جہل ‘ حارث بن ہشام اور ان کے ساتھ بنو عامر کا ایک اور شخص تھا ‘ یہ ان کو لینے مدینہ پہنچ گئے ‘ عیاش سے ان کی ماں بہت محبت کرتی تھی ‘ انہوں نے کہا تمہاری ماں نے قسم کھائی تھی کہ جب تک تم کو دیکھ نہ لے گی سائے میں نہیں بیٹھے گی ‘ وہ دھوپ میں لیٹتی ہے ‘ تم جا کر اپنی ماں کو دیکھ لو ‘ پھر واپس چلے جانا ‘ اور انہوں نے اللہ کی قسمیں کھا کر یقین دلایا کہ وہ ان کو واپس مدینہ پہنچا دیں گے ‘ جب وہ مدینہ کی حدود سے باہر آئے تو انہوں نے حضرت عیاش کو باندھ لیا اور بنو عامر کے شخص نے ان کو کوڑے مارے ‘ اس پر انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ عامری کو قتل کردیں گے ‘ پھر وہ کافی عرصہ تک مکہ میں قید رہے اور فتح مکہ کے دن آزاد ہوئے ‘ ایک دن ان کے سامنے سے عامری آرہا تھا ‘ وہ مسلمان ہوچکا تھا حضرت عیاش کو اس کے اسلام کا علم نہیں تھا ‘ انہوں نے اس کو قتل کردیا اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (جامع البیان جز ٥ ص ٢٧٧‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)
امام واحدی نیشا پوری متوفی ٤٥٨ ھ نے لکھا ہے کہ حضرت عیاش بن ابی ربیعہ نے غلط فہمی سے حارث بن زید کو قتل کیا تھا ‘ اس کے گمان میں وہ کافر تھا ‘ ان کو اس کے اسلام لانے کی خبر نہیں تھی۔ (الوسیط ج ٢ ص ٩٤۔ ٩٣‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)
امام ابن الاثیر شیبانی متوفی ٦٣٠ ھ نے لکھا ہے کہ حارث بن زید مکہ میں مسلمانوں کو ایذاء پہنچایا کرتا تھا وہ مسلمان ہوگیا اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب کو اس کے اسلام لانے کی خبر نہ تھی حتی کہ جب وہ ہجرت کرکے مدینہ پہنچا تو عیاش بن ربیعہ نے اس کو قتل کردیا۔ (اسد الغابہ ج ١ ص ٣٩٤)
تیسرا قول یہ ہے کہ حضرت ابوالدرداء (رض) نے ایک مسلمان کو غلط فہمی سے قتل کردیا تھا اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی :
ابن زید بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوالدرداء کسی لشکر کے ساتھ جارہے تھے وہ قضاء حاجت کے لیے ایک گھاٹی میں اترے تو انہوں نے ایک شخص کو دیکھا وہ اپنی بکریوں کو لے جا رہا تھا ‘ انہوں نے اس پر تلوار سے حملہ کیا اس نے کہا ” لا الہ الا اللہ “ حضرت ابوالدرداء نے اس کو قتل کردیا ‘ اور اس کی بکریاں لے کر اپنے اصحاب کے پاس آگئے پھر ان کے دل میں اضطراب ہوا ‘ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس واقعہ کا ذکر کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم نے اس کا دل چیر کا کیوں نہیں دیکھا ! اس نے تم کو اپنی زبان سے اسلام لانے کی خبر دی ‘ اور تم نے اس کی تصدیق نہیں کی ‘ حضرت ابوالدرداء نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اب میرا کیا ہوگا ‘ آپ نے فرمایا ” لا الہ الا اللہ “ کا کیا ہوگا ‘ میں بار بار حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہی عرض کرتا اور آپ یہی فرماتے حتی کہ میں نے تمنا کی کاش یہ واقعہ میرے اسلام لانے سے پہلے کا ہوتا۔ (جامع البیان جز ٥ ص ٢٧٨‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)
چوتھا قول سعید بن جبیر کا ہے ‘ انہوں نے کہا کہ یہ آیت حضرت اسامہ بن زید (رض) کے متعلق نازل ہوئی ہے انہوں نے غلط فہمی سے مرداس بن عمر کو خطاء قتل کردیا تھا۔ (روح المعانی ‘ الدرالمنثور) اس کی تفصیل یہ ہے :
امام مسلم بن حجاج قشیری ٢٦١ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت اسامہ بن زید (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک لشکر میں بھیجا ‘ ہم صبح کے وقت جہینہ کے ایک مقام حرقات میں پہنچے ‘ میں نے ایک شخص کو پکڑ لیا اس نے کہا ” لا الہ الا اللہ “ میں نے اس کو نیزہ سے مار دیا ‘ پھر مجھے اضطراب ہوا تو میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس واقعہ کا ذکر کیا ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا اس نے ” لا الہ الا اللہ “ کہہ دیا تھا پھر تم نے اس کو قتل کردیا ‘ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس نے حملہ کے خوف سے ” لا الہ الا اللہ “ کہا تھا ‘ آپ نے فرمایا تم نے اس کا دل چیر کر کیوں نہیں دیکھا حتی کہ تمہیں معلوم ہوجاتا کہ اس نے دل سے کہا ہے یا نہیں ! آپ بار بار یہ کلمات فرماتے رہے حتی کہ میں نے تمنا کی کہ کاش میں آج ہی مسلمان ہوا ہوتا (صحیح مسلم ‘ رقم الحدیث : ٩٦‘ صحیح البخاری ‘ رقم الحدیث : ٤٢٠١‘ ٦٤٧٨‘ سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث : ٢٦٤٣)
قتل خطاء کا معنی اور اس کی دیگر اقسام :
قتل خطاء کی دو صورتیں ہیں ایک صورت یہ ہے کہ فعل میں خطاء ہوجائے مثلا انسان ایک ہرن کا نشانہ لے رہا تھا اور گولی کسی انسان کو لگ گئی ‘ اور دوسری صورت یہ ہے کہ قصد میں خطاء ہو ‘ قتل کرنے والے کا گمان یہ تھا کہ وہ شخص کافر ہے اور وہ درحقیقت مسلمان تھا ‘ قتل خطا کی دوسری قسم قتل قائم مقام خطاء ہے ‘ مثلا ایک انسان کے ہاتھ سے اینٹ یا لکڑی گرگئی جس سے دوسرا شخص ہلاک ہوگیا ‘ اس کا حکم بھی قتل خطاء کی طرح ہے۔ اس میں مقتول کے ورثاء کو دیت ادا کی جائے گی اور ایک غلام یا باندی کو آزاد کیا جائے گا ‘ اور ایک قتل بالسبب ہے، مثلا ایک شخص نے دوسرے کی ملکیت میں کنواں کھودا جس میں کوئی شخص گر کر ہلاک ہوگیا یا کوئی کسی سواری پر سوار تھا اور اس سواری نے کسی شخص کو ہلاک کردیا ‘ اس میں صرف عاقلہ پر دیت ہے۔ (آج کل ٹریفک کے حادثات میں کار ‘ ٹرک یا بس کے نیچے آکر جو لوگ ہلاک ہوجاتے ہیں وہ بھی قتل بالسبب ہیں) (عالم گیری ج ٦ ص ٣ مطبوعہ مصر ‘ ١٣١٠ ھ)
دیت کا معنی :
وہ مال جو مقتول کے ورثاء کو مقتول کی جان کے عوض میں دیا جاتا ہے اس کو دیت کہتے ہیں ‘ اگر مسلمان مقتول کے قرابت دار کافر ہوں تو ان کو دیت نہیں دی جائے گی کیونکہ کافر مسلمان کا وارث نہیں ہوتا ‘ مسلمان مقتول کے جو وارث مسلمان ہوں ان کو دیت ادا کی جائے گی۔ علامہ فیروز آبادی متوفی ٨١٧ ھ نے لکھا ہے کہ دیت کا معنی ہے مقتول کا حق (القاموس ج ٤ ص ٥٧٩) اور اس کی اصطلاحی تعریف یہ ہے کہ کسی مسلمان یا ذمی کو ناحق قتل کرنے یا اس کے کسی عضو کو ناحق تلف کرنے کی وجہ سے جو شرعا مالی تاوان لازم آتا ہے اس کو دیت کہتے ہیں ‘ اور بعض اوقات جان کے تاوان کو دیت اور عضو کے تاوان کو ارش کہتے ہیں۔
قتل خطاء قتل شبہ عمد اور عقل عمد میں دیت کی مقدار :
امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قتل خطاء کی دیت یہ مقرر کی ہے : ایک سال کی بیس اونٹنیاں ‘ ایک سال کے بیس اونٹ ‘ دو سال کی بیس اونٹنیاں ‘ تین سال کی بیس اونٹنیاں ‘ اور چار سال کی بیس اونٹنیاں (اس حدیث کی سند ضعیف ہے خشف بن مالک مجہول الحال ہے اور معروف یہ ہے کہ یہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کا اثر ہے) (سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ١٣٩١‘ سنن ابو داؤد ‘ رقم الحدیث : ٤٥٤٥‘ سنن نسائی ‘ رقم الحدیث : ٤٨١٦‘ سنن ابن ماجہ ‘ رقم الحدیث : ٢٦٣١‘ موطا امام مالک ‘ رقم الحدیث : ١٦٠٥)
امام ابوحنیفہ کے نزدیک قتل خطاء کی دیت اسی طرح ہے جس طرح اس حدیث میں بیان کی گئی ہے اور قتل شبہ عمد (کسی شخص کو ایسے آلہ سے ضرب لگائی جائے جس سے قتل نہیں کیا جاتا اور اس کو قصد صرف ضرب لگانا ہو قتل کرنا نہ ہو لیکن اس ضرب کے نتیجہ میں مضروب مرجائے) کی دیت امام ابوحنیفہ کے نزدیک یہ ہے کہ پچیس ایک سال کی اونٹنیاں ‘ پچیس دو سال کی اونٹنیاں ‘ پچیس تین سال کی اونٹنیاں اور پچیس چار سال کی اونٹنیاں (عالم گیری ج ٦ ص ٢٤ مطبوعہ مصر ‘ ١٣١٠ ھ)
امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ روایت کرتے ہیں :
عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے کسی مومن کو عمدا قتل کیا اس کو مقتول کے ورثا کے حوالے کردیا جائے گا اگر وہ چاہیں تو اس کو قتل کردیں اور اگر وہ چاہیں تو اس سے دیت وصول کرلیں ‘ قتل عمد کی دیت یہ ہے : تیس تین سال کی اونٹنیاں ‘ تیس چار سال کی اونٹنیاں اور چالیس پانچ سال کی اونٹنیاں اس کے علاوہ جس مقدار پر وہ صلح کرلیں۔ (سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ١٣٩٢‘ سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث : ٤٥٠٦‘ سنن ابن ماجہ ‘ رقم الحدیث : ٢٦٢٦)
امام ابوحنیفہ کے نزدیک قتل خطاء کی دیت میں ایک ہزار دینار یادس ہزار درہم بھی دیئے جاسکتے ہیں (ہدایہ اخیرین ص ٥٨٥۔ ٥٨٤‘ مطبوعہ شرکت علمیہ ملتان)
ایک ہزار دینار (٣٧٤ ء ٤) چار اعشاریہ تین سات چار کلو گرام سونے کے برابر ہے اور دس ہزار درہم ‘ (٦١٨ ء ٣٠) تیس اعشاریہ چھ ایک آٹھ کلو گرام چاندی کے برابر ہے۔
دیت کی ادائیگی کی مدت اور جن لوگوں کے ذمہ دیت کی ادائیگی ہے۔
امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ روایت کرتے ہیں :
تمام اہل علم کا اس پر اجماع ہے کہ دیت تین سال میں لی جائے گی ہر سال میں تہائی (٣، ١) دیت وصول کی جائے گی اور قتل خطاء کی دیت عاقلہ پر ہے ‘ باپ کی طرف سے جو رشتہ دار ہیں وہ عاقلہ ہیں ‘ یہ امام مالک اور امام شافعی کا قول ہے ‘ بعض ائمہ نے کہا دیت صرف ان مردوں پر ہے جو عصبات ہوں عورتوں اور بچوں پر دیت نہیں ہے ‘ اور ہر شخص پر چوتھائی (٤۔ ١) دینار دیت لازم کی جائے گی۔ بعض ائمہ نے کہا کہ نصف دینار تک دیت لازم کی جائے گی اگر ان رشتہ داروں سے دیت پوری ہوجائے تو فبہا ورنہ جو قریب ترین قبیلہ کے لوگ ہیں ان پر دیت لازم کی جائے گی (سنن ترمذی ج ٣ ص ٩٥‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت)
امام ابوحنیفہ کے نزدیک عمد ‘ شبہ العمد اور خطاتینوں کے دیت کی ادائیگی کی مدت تین سال ہے اور جمہور فقہاء کے نزدیک دیت العمد معجل ہے اور باقی دیت تین سال میں ادا کی جائے گی (بدایۃ المجتہد ج ٢ ص ٣٠٧)
علامہ محمد بن اثیر الجزری متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں :
عاقلہ عصبات کو کہتے ہیں یعنی باپ کی طرف سے رشتہ دار جو قتل خطاء میں قاتل کی جانب سے مقتول کی دیت ادا کرتے ہیں اور اسی معنی میں حدیث ہے ” دیت عاقلہ پر ہے “
علامہ سید عبدالقادر عودہ لکھتے ہیں :
امام شافعی کے نزدیک باپ ‘ دادا ‘ بیٹا ‘ اور پوتا ‘ عاقلہ میں داخل نہیں ہیں ‘ امام احمد کا بھی ایک یہی قول ہے ‘ امام مالک اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک آباء اور ابناء عاقلہ میں داخل ہیں کیونکہ دیت کو برداشت کرنے میں عصبات میراث کی طرح ہیں ‘ جس طرح میراث میں عصبات اقرب فالاقرب اعتبار کیا جاتا ہے اسی طرح دیت کو برداشت کرنے میں بھی ان کا اعتبار ہوگا۔ (التشریع الجنائی ج ٢ ص ١٩٨۔ ١٩٥‘ ملخصا مطبوعہ بیروت)
جو لوگ کسی کمپنی کی بس ‘ ٹرک ‘ یاٹریلر کے نیچے آکر حادثۃ میں ہلاک ہوجاتے ہیں اس میں قاتل کی عاقلہ وہ کمپنی یا ادارہ ہے اور اس کی دیت اس کمپنی کو ادا کرنی چاہیے۔
امام مالک اور امام احمد کے نزدیک عاقلہ کے ہر فرد پر دیت کی جو مقدار ہوگی وہ حاکم کی رائے پر موقوف ہے ‘ امام شافعی کے نزدیک امیر آدمی پر نصف دینار اور متوسط شخص پر چوتھائی مثقال ہے ‘ اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک کسی شخص سے تین یا چار درہم سے زیادہ نہ لیے جائیں (نصف دینار ‘ پانچ درہم یعنی ایک اعشاریہ ایک دو تولہ چاندی کے برابر ہے اور ربع مثقال ایک اعشاریہ ایک ایک پانچ گرام چاندی کے برابر ہے)
اگر کسی شخص کے عصبات نہ ہوں تو اس کی دیت بیت المال سے ادا کی جائے گی ‘ ائمہ اربعہ کا یہی مذہب ہے ‘ اور امام ابوحنیفہ ‘ امام محمد اور امام احمد کا ایک قول یہ ہے کہ قاتل کے مال سے دیت وصول کی جائے گی دیت کی دائیگی کی مدت تین سال ہے۔ (التشریع الجنائی ج ٢ ص ١٩٨۔ ١٩٥‘ ملخصا مطبوعہ بیروت)
عورت کی نصف دیت کی تحقیق :
عورت کی دیت مرد کی دیت کا نصف ہے ‘ یہ حضرت علی (رض) سے موقوفا روایت ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مرفوعا مروی ہے ‘ کیونکہ عورت کا حال اور اس کی منفعت مرد سے کم ہے ‘ عورت کے اعضاء اور اطراف کی دیت بھی مرد کی دیت کا نصف ہے (ہدایہ اخیرین ص ٥٨٥‘ مطبوعہ شرکت علمیہ ملتان)
امام ابوبکراحمد بن حسین بیہقی متوفی ٤٥٨‘ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت معاذ بن جبل (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عورت کی دیت مرد کی دیت کا نصف ہے۔ (سنن کبری ج ٨ ص ٩٥‘ مطبوعہ نشرالسنہ ملتان)
امام محمد بن حسن شیبانی متوفی ١٨٩ ھ لکھتے ہیں :
امام ابوحنیفہ از حماد از ابراہیم روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ عورت کے تمام زخموں کی دیت مردوں کے زخموں کی دیت کا نصف ہے۔ (کتاب الآثار ص ١٢٦‘ مطبوعہ ادارۃ القرآن کراچی ‘ ١٤٠٧ ھ)
امام مالک بن انس اصبحی متوفی ١٧٩ ھ روایت کرتے ہیں :
سر کی چوٹ اور دیگر جن زخموں کی تہائی یا اس سے زیادہ دیت ہوتی ہے ‘ ان میں عورت کی دیت مرد کی دیت کا نصف ہے (موطا امام مالک ‘ رقم الحدیث ١٦٠٧)
علامہ قرطبی مالکی متوفی ٦٦٨ ھ نے لکھا ہے کہ اس پر علماء کا اجماع ہے کہ عورت کی دیت مرد کی دیت کا نصف ہے۔ (الجامع الاحکام القرآن ج ٥ ص ٣٢٥)
علامہ یحییٰ بن شرف نووی شافعی متوفی ٦٧٦ ھ لکھتے ہیں :
عورت کی دیت مرد کی دیت کا نصف ہے اور عورت کے اعضاء اور زخموں کی دیت بھی مردوں کی دیت کا نصف ہے (روضۃ الطالبین ج ٩ ص ٢٥٧‘ مطبوعہ مکتب اسلامی بیروت)
علامہ ابوالحسن علی بن سلیمان مرداوی حنبلی متوفی ٨٨٥ ھ لکھتے ہیں :
عورت کی دیت مرد کی دیت کا نصف ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ (الانصاف ج ١٠ ص ٦٣‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٣٧٦ ھ)
خلاصہ یہ ہے کہ حدیث میں بھی ہے کہ عورت کی دیت مرد کی دیت کا نصف ہے اور ائمہ اربعہ کا بھی یہی مذہب ہے اور اس پر تمام ائمہ مذاہب کا اجماع ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد : اور جس نے کسی مسلمان کو خطاء (بلاقصد) قتل کردیا تو اس پر ایک مسلمان گردن (غلام یا باندی) کو آزاد کرنا لازم ہے اور اس کے وارثوں کو دیت ادا کی جائے ماسوا اس کے کہ وہ معاف کردیں۔ (النساء : ٩٢)
قتل خطاء کے کفارہ میں مسلمان غلام کو آزاد کرنے کی حکمت :
اس آیت میں مسلمان کو خطاء قتل کرنے والے پر دو چیزیں واجب کی ہیں ‘ کفارہ اور دیت ‘ اور کفارہ میں یہ تصریح کی ہے کہ مسلمان غلام کو آزاد کیا جائے کیونکہ قاتل نے مسلمان شخص کو قتل کیا ہے تو اس کے کفارہ میں مسلمان غلام کو آزاد کرے ‘ غلام ہونا بہ منزلہ موت ہے ‘ اور آزادی بہ منزلہ حیات ہے ‘ تو ایک مسلمان کو مارنے کی تلافی اس طرح ہوگی کہ ایک مسلمان کو زندہ کیا جائے ‘ ہرچند کہ یہاں غلام کا مطلقا ذکر کیا گیا ہے لیکن یہ قاعدہ ہے کہ جب مطلق کو ذکر کیا جائے تو اس سے ذات کے اعتبار سے کامل فرد مراد ہوتا ہے اور صفت اپنے اطلاق پر رہتی ہے ‘ اس لیے اندھا ‘ لنگڑا مجنون اور لولا غلام آزاد کرنا معتبر نہیں اور نہی ہی مکاتب ‘ مدبر یا ام ولد کا اعتبار ہوگا ‘ اس کے علاوہ غلام کا چھوٹا یا بڑا ہونا ‘ مرد یا عورت ہونا کالا یا گورا ہونا ‘ یہ از قبیل صفات ہیں اور کسی بھی صفت کا غلام آزاد کیا جاسکے گا ‘ اب چونکہ اسلام کی تعلیمات کی اشاعت کی وجہ سے غلام بنانے کا دور ختم ہوچکا ہے ‘ اس لیے اب قتل خطاء کے کفارہ میں مسلسل دو ماہ کے روزے رکھے جائیں گے۔
ورثاء مقتول میں دیت کو تقسیم کرنے کے احکام :
مسلمان مقتول کی دیت کے متعلق ہم بتا چکے ہیں کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک سو اونٹ ہیں یا ایک ہزار دینار یا دس ہزاردرہم ‘ اور یہ دیت تین سال کے اندر مقتول کے ورثاء کو ادا کی ادا کی جائے گی اور جس طرح ورثاء میں مرنے والے کا ترکہ تقسیم کیا جاتا ہے اسی قاعدہ اور تناسب سے دیت تقسیم کی جائے گی ‘ مقتول کی تجہیز و تکفین کے بعد اس میں سے پہلے میت کا قرض ادا کیا جائے گا پھر تہائی (٣۔ ١) دیت سے اس کی وصیت پوری کی جائے گی اور اگر مقتول کا کوئی وارث نہ ہو تو پھر دیت بیت المال میں جمع کردی جائے گی۔
یہ تمام تفصیل اس وقت ہے جب مقتول کے ورثاء دیت معاف نہ کریں لیکن اگر انہوں نے معاف کردی تب بھی کفارہ بہرحال ادا کرنا ہوگا۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد : پھر اگر وہ مقتول اس قوم سے ہو جو تمہاری دشمن ہے اور وہ (مقتول) مسلمان ہو تو صرف ایک مسلمان گردن کا آزاد کرنا ہے۔ (النساء : ٩٢)
دارالحرب میں کسی مسلمان کو خطاء قتل کرنے پر دیت لازم نہ کرنے کی حکمت :
اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اگر کسی مسلمان نے مسلمان کو دارالحرب میں خطاء قتل کردیا تو اس کے کفارہ میں صرف ایک مسلمان غلام کو آزاد کیا جائے گا اور مقتول کے اولیاء کو دیت ادا نہیں کی جائے گی ‘ کیونکہ دیت بطور وراثت دی جاتی ہے اور دارالاسلام اور دارالحرب کے رہنے والوں کے درمیان وارثت نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد : اگر وہ (مقتول) اس قوم سے ہو جس کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہے تو اس کے وارثوں کو دیت ادا کی جائے اور ایک مسلمان گردن کو آزاد کیا جائے۔ (النساء : ٩٢)
ذمی کافر کی دیت میں مذاہب ائمہ :
جس کافر قوم سے مسلمانوں نے معاہدہ کیا ہو اس کے کسی فرد کو اگر کسی مسلمان نے خطاء قتل کردیا یا مسلمان ملک میں کسی ذمی کافر کو مسلمان نے خطاء قتل کردیا تو اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس کا یہ حکم بیان فرمایا ہے کہ اس کے ورثاء کو بھی دیت ادا کی جائے گی ‘ اور کفارہ میں ایک مسلمان غلام کو آزاد کیا جائے گا ‘ امام ابوحنیفہ کے نزدیک ذمی کافر اور مسلمان کی دیت میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دیت کو کسی خاص مقدار میں سے معین نہیں فرمایا اس سے واضح ہوتا ہے کہ اس کے ورثاء کو پوری دیت ادا کی جائے گی ‘ نیز اہل عرب میں دیت کا لفظ سو اونٹوں میں معروف تھا اور اسلام سے پہلے اور اسلام کے بعد مقتول کی دیت سو اونٹ ادا کرنے کا تعامل تھا ‘ اس لیے جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ معاہد اور ذمی کو اگر خطاء قتل کردیا جائے تو اس کی دیت ادا کی جائے گی تو اس کو متعارف معنی پر محمول کیا جائے گا اور اس کا معنی ہوگا کہ ذمی مقتول کے ورثاء کو پوری دیت ادا کی جائے گی ‘ نیز اس آیت کے نزول سے پہلے مسلم اور کافر کی دیت میں فرق نہیں تھا اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ذمی کی دیت کو مسلم کی دیت کے ذکر کے بعد بغیر کسی فرق کے ذکر کیا لہذا اس آیت میں بھی دیت کو متعارف معنی پر محمول کیا جائے گا اور ذمی کافر کی بھی پوری دیت ادا کی جائے گی۔
علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ لکھتے ہیں :
امام مالک نے کہا کہ ذمی کی دیت مسلمان کی دیت کا نصف ہے امام احمد بن حنبل کا بھی یہی مذہب ہے اور امام شافعی نے کہا ہے کہ یہودی اور نصرانی کی دیت مسلمان کی دیت کا تہائی ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن ج ٥ ص ٣٢٧‘ ملخصا مطبوعہ ایران)
ذمی کافر کی نصف دیت پر ائمہ ثلاثہ کی دلیل اور اس کا غیر مستحکم ہونا :
امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ روایت کرتے ہیں :
عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کافر کی دیت مومن کی دیت کا نصف ہے۔
امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن لکھا ہے کیونکہ عمرو بن شعیب ازوالد از جد مختلف فیہ ہے۔ (سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ١٤١٨‘ سنن نسائی ‘ رقم الحدیث : ٤٨٢١‘ سنن ابن ماجہ ‘ رقم الحدیث : ٢٦٤٤‘ سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث : ٤٥٨٣)
امام ترمذی اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
یہودی اور نصرانی کی دیت میں اہل علم کا اختلاف ہے ‘ بعض اہل علم کا مذہب اس مسئلہ میں اس حدیث کے مطابق ہے ‘ اور عمر بن عبدالعزیز نے کہا کہ یہودی اور نصرانی کی دیت مسلمان کی دیت کا نصف ہے ‘ امام احمد بن حنبل کا بھی یہی مذہب ہے ‘ اور حضرت عمر بن الخطاب (رض) سے مروی ہے کہ یہودی اور نصرانی کی دیت چار ہزار درہم ہے ‘ اور مجوسی کی دیت اٹھ سو درہم ہے ‘ امام مالک بن انس ‘ امام شافعی اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے ‘ اور بعض اہل علم نے کہا کہ یہودی اور نصرانی کی دیت مسلمان کی دیت کے برابر ہے ‘ یہ سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا قول ہے۔ (سنن ترمذی ج ٣ ص ١٠٨۔ ١٠٧ مطبوعہ دارالفکر بیروت ١٤١٤ ھ)
امام نسائی نے اس حدیث کو جس سند سے روایت کیا ہے اس میں ایک راوی محمد بن راشد ہے اس کے متعلق امام عبداللہ بن مبارک نے کہا یہ صادق تھا لیکن یہ شیعی یا قدری تھا۔ (تہذیب التہذیب ج ٩ ص ١٣٥)
اور امام ابن ماجہ نے اس حدیث کو جس سند کے ساتھ روایت کیا ہے اس میں ایک روای عبدالرحمان بن الحارث بن عبداللہ بن عیاش بن ابی ربیعہ ہے اس کے متعلق امام احمد نے کہا یہ متروک ہے اور علی بن المدینی نے اس کو ضعیف کہا ہے تاہم اس کی تعدیل بھی کی گئی ہے۔ (تہذیب التہذیب ج ٦ ص ١٤٣)
ان حوالوں سے واضح ہوگیا کہ جس حدیث سے ائمہ ثلاثہ نے استدلال کیا ہے وہ اس قدر مستحکم نہیں کہ وہ قرآن مجید کے ذکر کردہ لفظ کے متعارف معنی کے مزاحم ہو سکے۔
ذمی کافر اور مسلم کی دیت کے مساوی ہونے پر امام اعظم کے دلائل :
امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک قتل نفس میں مسلمان اور کافر ذمی یا معاھد کی دیت برابر ہے ‘ قرآن مجید میں لفظ دیت کے متعارف معنی کے علاوہ ان کے موقف پر حسب ذیل احادیث دلیل ہیں ‘ امام ابوحنیفہ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں۔
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہودی اور نصرانی کی دیت مسلم کی دیت کی مثل ہے۔ (مسند ابی حنیفہ مع شرح القاری ص ٢٠٨‘ مطبوعہ بیروت)
امام قاضی ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم متوفی ١٨٢ ھ روایت کرتے ہیں :
ابراہیم نخعی نے کہا ذمی مرد کی دیت آزاد مسلمان کی دیت کے برابر ہے۔ (کتاب الآثار ‘ رقم الحدیث : ٩٦٩)
امام محمد بن حسن شیبانی متوفی ١٨٩ ھ لکھتے ہیں :
ابو الہیثم روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر (رض) اور حضرت عثمان (رض) نے فرمایا ہے کہ ذمی کی دیت آزاد مسلمان کے برابر ہے۔ (کتاب الآثار ‘ رقم الحدیث : ٥٨٧)
زہری بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر ‘ حضرت عمر اور حضرت عثمان (رض) نے نصرانی کی دیت اور یہودی کی دیت کو آزاد مسلمان کے برابر قرار دیا امام محمد نے کہا ہمارا اسی حدیث پر عمل ہے اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے (کتاب الآثار ‘ رقم الحدیث : ٥٨٩)
امام ابوالقاسم سلیمان بن احمد طبرانی متوفی ٣٦٠ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ذمی کی دیت مسلم کی دیت کی مثل ہے۔ (المعجم الاوسط ‘ رقم الحدیث : ٧٩٥)
اس حدیث کی سند میں ایک راوی ابو کرز ضعیف ہے لیکن باقی احادیث اور آثار صحیحہ امام اعظم (رح) کے موقف پر قوی دلیل ہیں اور ظاہر قرآن بھی آپ کے موقف پر دلیل ہے کیونکہ قرآن مجید نے مسلم اور کافر کی دیت عمد اور دیت خطا میں کوئی فرق نہیں کیا۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد : سو جو شخص (غلام یا باندی) کو نہ پائے تو وہ مسلسل دو ماہ کے روزے رکھے یہ اللہ کی طرف سے (اس کی) توبہ ہے اور اللہ بہت علم والا بڑی حکمت والا ہے۔ (النساء : ٩٢)
قتل خطاء کے کفارہ کا بیان :
کسی مسلمان نے کسی مسلمان کو دارالاسلام میں خطاء قتل کیا ہو یا کسی مسلمان کو دارالحرب میں خطاء قتل کیا ہو یا کسی ذمی کو دارالاسلام میں قتل کیا ہو تینوں صورتوں میں اللہ تعالیٰ نے مسلمان قاتل پر کفارہ لازم کیا ہے اور وہ ایک مسلمان گردن (باندی یا غلام) کو آزاد کرنا ہے ‘ اب اگر کسی شخص کی قدرت میں غلام آزاد کرنا نہ ہو یا غلام کا رواج ہی ختم ہوگیا ہو جیسا کہ آج کل ہے تو وہ دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے گا ‘ بایں طور کہ یہ روزے رمضان کے علاوہ کسی اور ماہ میں اس ترتیب سے رکھے جائیں کہ عیدین اور ایام کے دن ان میں حائل نہ ہوں ‘ اس لیے یہ روزے ایام تشریق کے بعد رکھنے چاہئیں اور جو شخص نادم ہو کر خطاء قائم مقام خطاء قتل شبہ عمد اور قتل بالسبب میں دیت اور کفارہ ادا کر دے گا تو اللہ کے نزدیک اس کی توبہ قبول ہوجائے گی۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء آیت نمبر 92