وَمَنۡ يَّقۡتُلۡ مُؤۡمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَـنَّمُ خَالِدًا فِيۡهَا وَغَضِبَ اللّٰهُ عَلَيۡهِ وَلَعَنَهٗ وَاَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِيۡمًا ۞ – سورۃ نمبر 4 النساء آیت نمبر 93
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَمَنۡ يَّقۡتُلۡ مُؤۡمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَـنَّمُ خَالِدًا فِيۡهَا وَغَضِبَ اللّٰهُ عَلَيۡهِ وَلَعَنَهٗ وَاَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِيۡمًا ۞
ترجمہ:
اور جو شخص کسی مسلمان کو قصدا قتل کرے تو اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب ہوگا اور اللہ اس پر لعنت کرے گا اور اللہ نے اس کے لیے عذاب عظیم تیار کر رکھا ہے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد : اور جو شخص کسی مسلمان کو قصدا قتل کرے تو اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب ہوگا اور اللہ اس پر لعنت کرے گا اور اللہ نے اس کے لیے عذاب عظیم تیار کر رکھا ہے۔ (النساء : ٩٣)
قتل عمد کی تعریف اور اس کے متعلق احادیث :
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عمدا مسلمان کو قتل کرنے پر دوزخ کی وعید سنائی ہے اس لیے قتل عمد کی تعریف کو جاننا ضروری ہے۔
علامہ شمس الائمہ محمد بن احمد سرخسی متوفی ٤٨٣ ھ لکھتے ہیں :
قتل عمد وہ قتل ہے جس میں جان نکالنے کے لیے ہتھیار سے ضرب لگائی جائے اور جن غیر محسوس ہے پس وہ جان نکالنے کے لیے ہتھیار کو استعمال کرے گا جو زخم ڈالنے والا ہو اور بدن کے ظاہر اور باطن میں موثر ہو۔ (المبسوط ج ٢٦ ص ٥٩‘ مطبوعہ دارالمعرفہ بیروت)
امام ابوبکر احمد بن علی رازی جصاص حنفی متوفی ٣٧٠ ھ لکھتے ہیں :
امام ابوحنیفہ کی اصل کے مطابق جس قتل کو ہتھیار یا ہتھیار کے قائم مقام کے ساتھ کیا جائے وہ قتل عمد ہے ‘ مثلا بانس کی کھچی یا لاٹھی کے ٹکڑے یا کسی اور ایسی دھار والی چیز کے ساتھ قتل کر دے جو ہتھیار کا کام کرتی ہو یا آگ سے جلا دے ‘ امام ابوحنیفہ کے نزدیک یہ تمام قتل عمد کی صورتیں ہیں اور ان میں قصاص واجب ہے اور ہمارے علم کے مطابق ان صورتوں کے قتل عمد ہونے میں فقہاء کا اختلاف نہیں ہے (احکام القرآن ج ٢ ص ‘ ٢٢٨ مطبوعہ سہیل اکیڈمی ‘ لاہور ‘ ١٤٠٠ ھ)
احادیث میں تلوار اور پتھر سے قتل کرنے کو قتل عمد قرار دیا ہے۔
امام احمد بن حنبل متوفی ٢٤١ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت نعمان بن بشیر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم نے فرمایا تلوار کے علاوہ ہر چیزخطاء ہے اور ہر خطاء کا ایک تاوان ہے۔ (مسند احمد ج ٦‘ رقم الحدیث : ١٨٤٥١‘ ١٨٤٢٣‘ سنن کبری للبیہقی ج ٨ ص ٤٢)
امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں ایک یہودی نے ایک لڑکی پر حملہ کیا اور اس کے جسم سے زیورات اتار لیے اور اس کے سر کو پتھر سے کچل دیا ‘ اس لڑکی کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لایا گیا اس وقت اس میں آخری رمق حیات تھی ‘ اور اس کی گویائی ختم ہوگئی تھی ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے پوچھا تم کو کس نے قتل کیا ہے۔ کیا فلاں شخص نے ؟ اس کے قاتل کے سوا کسی اور کا نام لیا ‘ اس نے سر کے اشارہ سے کہا نہیں ‘ پھر فرمایا فلاں شخص اور اس کے قاتل کا نام لیا اس نے سر کے اشارے سے کہا ہاں ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو بلانے کا حکم دیا اور دو پتھروں کے درمیان اس کے سر کو کچل دیا۔ (صحیح البخاری ‘ رقم الحدیث : ٥٢٩٥‘ صحیح مسلم ‘ رقم الحدیث : ١٦٧٤‘ سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث : ٤٥٦٧‘ سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ١٣٩٩‘ سنن ابن ماجہ ‘ رقم الحدیث : ٢٦٦٥‘ مسند احمد ج ٤ ص ١٣٧٥٨‘ ١٣١٠٥‘ ١٢٧٤٨‘ ١٢٧٤١)
ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ تلوار ہو ‘ پتھر ہو یا کوئی اور دھاردار چیز ہو یا ہتھیار ہو اس سے قتل کرنا عمد ہے ‘ بندوق کلاشنکوف ‘ پستول وغیرہ بھی اس میں داخل ہیں۔
قتل عمد پر اللہ اور اس کے رسول کے غضب کا بیان :
امام مسلم بن حجاج قشیری ٢٦١ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت مقداد بن اسود (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! یہ بتائیے کہ میرا کسی کافر شخص سے مقابلہ ہو وہ مجھ سے قتال کرے اور تلوار سے میرا ایک ہاتھ کاٹ ڈالے ‘ پھر وہ مجھ سے بچنے کے لیے ایک درخت کی آڑ میں آئے اور کہے میں اللہ کے لیے اسلام لے آیا ‘ یارسول اللہ ! کیا میں اس کے کلمہ پڑھنے کے بعد اس کو قتل کرسکتا ہوں ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کو قتل مت کرو ‘ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ میرا ایک ہاتھ کاٹ چکا ہے ‘ اور اس نے میرا ہاتھ کاٹنے کے بعد کلمہ پڑھا ہے کیا میں اس کو قتل کر دوں ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کو مت قتل کرو اگر تم نے اس کو قتل کردیا تو وہ تمہارے قتل کرنے سے پہلے درجہ میں ہوگا اور تم اس کے کلمہ پڑھنے سے پہلے والے درجہ میں ہو گے۔ (صحیح مسلم ‘ رقم الحدیث : ٩٥‘ صحیح بخاری ‘ رقم الحدیث : ٣٧٩٤‘ سنن ابو داؤد ‘ رقم الحدیث : ٢٦٤٤)
امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ کے نزدیک ایک مسلمان کے قتل کی بنسبت پوری دنیا کا زوال زیادہ آسان ہے۔ (سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ١٤٠٢‘ المستدرک ج ٤ ص ٣٥٢‘ کنزالعمال ‘ رقم الحدیث : ٣٩٩٥٤)
امام احمد بن حنبل متوفی ٢٤١ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے ان کے پاس کر آ کر کہا یہ بتائیے کہ ایک آدمی نے کسی شخص کو عمدا قتل کیا اس کی سزا کیا ہوگی ؟ انہوں نے کہا اس کی سزا جہنم ہے وہ اس میں ہمیشہ رہے گا ‘ اللہ تعالیٰ اس پر غضب ناک ہوگا اور اس پر لعنت کرے گا اور اللہ نے اس کے لیے عذاب عظیم تیار کر رکھا ہے ‘ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا یہ وہ آتی ہے جو سب سے آخر میں نازل ہوئی (النساء : ٩٣) حتی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دنیا سے تشریف لے گئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد وحی نازل نہیں ہوئی ‘ اس نے کہا یہ بتائیے اگر وہ توبہ کرلے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے ‘ پھر وہ ہدایت یافتہ ہوجائے گا ؟ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا اس کی توبہ کیسے ہوگی ؟ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے سنا ہے : اس شخص کی ماں اس پر روئے جس نے کسی مسلمان کو عمدا قتل کردیا وہ مقتول اپنے قاتل کو دائیں یا بائیں جانب سے پکڑے ہوئے آئے گا اور دائیں یا بائیں ہاتھ سے اس نے اپنا سر پکڑا ہوا ہوگا اور عرش کے سامنے اس کی رگوں سے خون بہہ رہا ہوگا اور وہ شخص کہے گا اے میرے رب اپنے اس بندہ سے پوچھ اس نے مجھے کیوں قتل کیا تھا۔ (مسند احمد ج ١ رقم الحدیث : ٢١٤٢‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٤ ھ)
مسلمان کے قاتل کی مغفرت نہ ہونے کی توجیہات :
اس آیت پر یہ اشکال وارد ہوتا ہے کہ مسلمان کو قتل کرنا گناہ کبیرہ ہے اور شرک کے سوا ہر گناہ لائق مغفرت ہے ‘ حالانکہ اس آیت میں یہ فرمایا ہے کہ مسلمان کو عمدا قتل کرنے کی سزا ہمیشہ جہنم میں رہنا ہے اور جہنم میں خلود کفار کے لیے ہوتا ہے اور جو گناہ لائق معاف ہو اس کے لیے جہنم میں خلود نہیں ہوتا ‘ اس اشکال کے حسب ذیل جوابات ہیں :
(١) جب مشتق پر کوئی حکم لگایا جائے تو اس کا ماخذاشتقاق اس حکم کی علت ہوتا ہے لہذا اس آیت کا معنی یہ ہوا کہ جس شخص نے کسی مومن کو مومن ہونے کے سبب سے قتل کیا تو اس کی سزا جہنم میں خلود ہے اور جو شخص کسی مومن کو اس کے ایمان کی وجہ سے قتل کرے گا وہ کافر ہوگا اور کافر کی سزا جہنم میں خلود ہے۔
(٢) اس آیت میں ” من “ کا لفظ ہرچند کہ عام ہے لیکن یہ عام مخصوص عنہ البعض ہے اور اس سے ہر قاتل خواہ مومن ہو یا کافر مراد نہیں ہے بلکہ اس سے کافر قاتل مراد ہے اور کافر کی سزا جہنم میں خلود ہے۔
(٣) یہ آیت ایک خاص قاتل کے متعلق نازل ہوئی ہے یہ شخص پہلے مسلمان تھا پھر اس نے مرتد ہو کر ایک مسلمان کو اس کے مسلمان ہونے کی وجہ سے قتل کردیا۔ روح المعانی میں اس کے متعلق روایت بیان کی گئی ہے۔ (روح المعانی ج ٥ ص ١١٥)
(٤) اگر اس آیت میں قاتل سے مراد مسلمان لیا جائے تو آیت کا معنی یہ ہے کہ اس کی سزا جہنم میں خلود ہے ‘ یعنی وہ اس سزا کا مستحق ہے یہ نہیں فرمایا کہ اس کو یہ سزا دی جائے گی۔
(٥) اگر مسلمان قاتل مراد ہو تو خلود سے مجازا مکث طویل مراد ہے یعنی وہ لمبے عرصے تک جہنم میں رہے گا۔
(٦) اگر مسلمان قاتل مراد ہو تو اس آیت میں شرط محذوف ہے یعنی اگر اس کی مغفرت نہ کی گئی تو وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔ اس کو خلف وعید سے تعبیر کرتے ہیں کیونکہ بہ طور کرم خلف وعید جائز ہے لیکن یہ بظاہر خلف وعید ہے ‘ حقیقت میں چونکہ یہاں شرط محذوف ہے اس لیے کوئی خلف نہیں ہے۔
(٧) یہ آیت انشاء تخویف پر محمول ہے یعنی مسلمانوں کو قتل کرنے سے ڈرانے کے لیے ایسا فرمایا گیا ہے ‘ حقیقت میں کسی مسلمان قاتل کو جہنم میں خلود کی سزا دینے کی خبر نہیں دی گئی۔
(٨) اگر کسی مسلمان نے قتل مسلم کو معمولی سمجھ کر کسی مسلمان کو قتل کردیا تو وہ کافر ہوجائے گا اور پھر اس کی سزا جہنم میں خلود ہے۔
(٩) اگر کسی مسلمان نے بغض اور عناد کے غلبہ کی وجہ سے قتل مسلم کی حرمت کا انکار کردیا اور پھر کسی مسلمان کو قتل کردیا تو وہ کافر ہوجائے گا اور اس کی سزا جہنم میں خلود ہے۔
(١٠) اگر معاذ اللہ کسی مسلمان نے مسلمان کے قتل کرنے کو حلال اور جائز قرار دے کر یا اس حکم کی توہین کرنے کے لیے کسی مسلمان کو قتل کیا تو وہ کافر ہوجائے گا اور اس کی سزا جہنم میں خلود ہے۔ (رض) اجمعین
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء آیت نمبر 93
[…] ومن یقتل مومنا متعمدا فجزاءہ جہنم خالدا فیہا وغضب اللہ… جس شخص نے کسی مومن کو عمداً قتل کیا، اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اللہ اس پر غضب فرماتا ہے اور اس پر لعنت فرماتا ہے۔ اللہ اپنی شان کے لائق غضب فرماتا ہے، مخلوق کے غضب کی طرح نہیں کہ خون جوش مارنے لگے اور بلڈ پریشر ہائی ہوجائے۔ […]