عہد تابعین میں تدوین حدیث
عہد تابعین میں تدوین حدیث
تابعین عظام نے بھی ان طریقوں پر عمل کرتے ہوئے حفظ وکتابت کا فریضہ انجام دیا صحابہ کرام نے اپنے بچوں اورزیرتربیت افرادکوخاص طور پراس کام کیلئے منتخب کیا اور حفظ قرآن کے ساتھ احادیث بھی زبانی یاد کراتے تھے ۔
حضرت عکرمہ جو سیدنا حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے تلمیذ خاص اورغلام تھے اپنے بچپن کے حالات یوں سناتے تھے ۔
کان ابن عباس یضع الکیل فی رجلی علی تعلیم القرآن والسنن۔( تذکرۃ الفاظ للذہبی، ۹۰)
حضرت ابن عباس میرے پائوں میں قرآن مجید اور احادیث یاد کرانے کیلئے بیڑیاں ڈال دیتے تھے ۔
حضرت ابوہریرہ کی خدمت میں لوگ کثرت سے اپنے بچے حفظ احادیث کیلئے بٹھاتے تھے ۔ آپس میں مذاکرئہ حدیث کا طریقہ بھی جاری کیاگیا تھا ،اساتذہ متعلمین کا آموختہ سنتے ،سبقاسبقا احادیث یادکرائی جاتی تھیں ،کوئی صرف پانچ حدیثوں کادرس دیتا اورکوئی دوپرہی اکتفا کرلیتا تھا ۔
حضرت عروہ نے اپنی اولاد ،حضرت ابن عباس نے اپنے تلامذہ اور امام زہری نے اپنے شاگردوں کے ساتھ یہ ہی طریقہ اختیار کیا جس سے یہ فائدہ ہوتا کہ رفتہ رفتہ وہ عظیم ذخیرہ کے حافظ ہوجاتے تھے ۔ورنہ نتیجہ وہی نکلتا جو امام زہری نے فرمایا تھا ۔
من طلب العلم جملۃ فاتتہ جملۃ۔(تدریب الراوی للسیوطی، ۱۸۰)
جوایک دم سب حاصل کرنے کے درپے ہووہ سب کچھ کھوبیٹھتا ہے ۔
یہ اہتمام ان لوگوں کے یہاں تھا جوحفظ وضبط میں یگانۂ روزگار تھے ، جنکی مثالیں آج دنیا پیش کرنے سے قاصر ہے ۔ اس احتیاط کا مقصد صرف یہ تھا کہ حدیث رسول میں کسی طرح کی غلط بیانی راہ نہ پاسکے اورفرمان رسول کی حفاظت خوب سے خوب تر کے انداز میں ہوتی رہے ۔ انکی قوت حافظہ دیکھنا ہوتو حفاظت حدیث کے چندواقعات سماعت فرماتے چلئے ۔ اگلے پیغامات میں ۔۔۔