ہے تو رضا نرا ستم جرم پہ گر لجائیں ہم

کوئی بجائے سوز غم ساز طرب بجائے کیوں

سیدی اعلٰحضرت کے اس شعر کی تشریح کرنے والوں نے اس شعر کی شرح یوں بیان کی ہے

مشکل الفاظ معانی :

نرا: خالص ، ستم : ظلم ، لجائیں : شرمانا ، سوز غم : غم کی جلن ، ساز ِطرب :خوشی کا ساز

کہ رضا یہ تو خالص ظلم ہے کہ ہم اپنے جرم پر شرمندہ ہورہے ہوں اورکوئی غم کی جلن کی اس کیفیت کی جگہ ، خوشی کے ساز بجانا شروع کردے

غالبًا سن ۲۰۱۲ کی بات ہے کہ ایک مرتبہ قبلہ اُستاد گرامی مفتی احمد میاں برکاتی صاحب زید مجدہ سے کلام رضا سے متعلق گفتگو ہورہی تھی آغا جان ( مفتی صاحب ) نے اس شعر پر بات کی اور کہا کہ اسکی شرح کیا ہے میں نے وہی بیان کی جو شارحین بیان کرتے ہیں ، آغا جان فرمانے لگے میرے نزدیک اس شعر سے اعلٰحضرت کی یہ مراد نہیں ہے جسے شارحین نے بیان کیا کیوں کہ جرم پرلجانا ( شرمانا ) توبہ کا تقاضا ہے یہ لجانا نرا ستم کیسے ہوسکتا ہے ۔۔

میں نے عرض کی کہ پھر آپ ہی فرمائیں کہ کیا ہونا چاہئے ۔ فرمانے لگے اُس کو لُجانا لام کے پیش کے ساتھ پڑھیں جس کے معنی ہونگے اصرار کرنا ۔۔

پھر یہ معنی ہوگا کہ رضا یہ تو خالص ظلم ہے کہ ہم جرم پر اصرار کرتے جائیں اور جرم پر اصرار یہ غم کے سوز کی جگہ ہے ۔۔ اس اصرار پر خوشی کے ساز کیوں بجائے جائیں ۔۔

آج صبح درس قرآن کے لئے مطالعہ کرتے ہوئے سورہ مومنون کی آیت نمبر ۷۵ ، ولو رحمنٰھم وکشفنا مابھم من ضر للجو فی طغیانھم یعمھون

اگر ہم ان پر رحم کریں اور جو تکلیفیں انہیں پہنچ رہی ہیں وہ دور کردیں ، تو وہ اپنی سرکشی پر اڑے رہیں اور بھٹکتے پھریں ،

میں للجو لفظ پر غور کیا تو اس کے مصدر اللجاج کہ یہ ہی معنٰی ہیں کہ کسی ممنوع کام کےکرنے میں بڑھتے چلے جانا ، اور اس پر ضد کے ہیں ۔۔

اس حساب سے شعر میں لجا ( لام کے زبر یا پیش کے ساتھ ) جرم پر اصرار مراد لیا جائے تو زیادہ مناسب ہے ۔۔

آپ احباب کی کیا رائے ہے ؟؟؟؟ کونسا معنی زیادہ مناسب ہے ؟؟؟

محمد حسن رضا قادری