حصہ اول

حصہ دوم

خراسان سے ہندوستان تک کا سفر نامہ: ۵۴۵؁ھ سے ۶۳۲؁ھ کا اکثر زمانہ آپ نے سفر میں گزارا ہے اس درمیان میں کہیں ہفتوں، کہیں مہینوں اور کہیں سالوں تک قیام بھی ثابت ہے، سفر کی تاریخ چونکہ مرتب حیات میں نہیں ہے اس لئے منجملہ دورانِ سفر میں جو جو مقامات آپ کے قدموں کے نیچے سے گزرے ہیں ان کی ایک اجمالی فہرست ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔

(۱)خراسان (۲)سمرقند (۳)بخارا (۴)عراق ،عرب (۵)ہارون (۶)بغداد (۷)کرمان (۸)ہمدان (۹)تبریز (۱۰)استرآباد (۱۱)خرقان (۱۲)میمنہ (۱۳)ہرات (۱۴)سبزہ وار (۱۵)افغانستان (۱۶)غزنی (۱۷)رے (۱۸)فالوجہ (۱۹)مکہ معظمہ (۲۰)مدینہ طیبہ (۲۱)بدخشاں (۲۲)دمشق (۲۳)جیلان (۲۴)اصفہان (۲۵)چشت (۲۶)ہندوستان براہِ ملتان، لاہور، سمانہ، دہلی، اجمیر۔

اس سفر نامہ میں بیس سال کا وہ سفر بھی شامل ہے جو حضرت خواجہ نے اپنے پیرومرشد حضرت عثمان ہارونی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہمرکابی میں کئے ہیں۔ اس سفر میں سرکار بغداد حضور غوثِ پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی حضرت خواجہ کی ملاقات کئی بار ہوئی ہے ایک ملاقات میں حضور خواجہ کے متعلق غوثِ اعظم کی یہ بشارت بھی منقول ہے کہ یہ مرد مقتدائے روزگار سے ہے، بہت سے لوگ اس کے ذریعہ منزلِ مقصود کو پہنچیں گے۔

مرشد سے ملاقات: انیس الارواح میں خود حضرت خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ اپنے مرشد سے ملاقات اور بیعت کا واقعہ اپنے قلم سے یوں تحریر فرماتے ہیں:

’’مسلمانوں کا یہ دعا گو معین الدین حسن سنجری بمقام بغداد شریف خواجہ جنید کی مسجد میں حضرت خواجہ عثمان ہارونی قدس سرہٗ کی دولت پا بوسی سے مشرف ہوا۔

اس وقت مشائخ کبار حاضرِ خدمت اقدس تھے جب اس درویش نے سر نیاز زمین پر رکھا، پیر و مرشد نے ارشاد فرمایا دو رکعت نماز ادا کر، میں نے ادا کی، پھر فرمایا قبلہ رو بیٹھ، میں بیٹھ گیا حکم دیا سورۂ بقرہ پڑھ میں نے پڑھی، فرمان ہوا اکیس بار درود شریف پڑھ میں نے پڑھا، پھر آپ کھڑے ہو گئے اور میرا ہاتھ پکڑ کر آسمان کی طرف منہ کیا اور فرمایا:آ تاکہ تجھے خدا تک پہنچا دوں، بعد ازاں مِقْرَاض (قینچی) لے کر دعا گو کے سر پر چلائی اور کلاہِ چہار ترکی اس درویش کے سر پر رکھی، گلیم خاص عطا فرمائی۔

پھر ارشاد فرمایا بیٹھ جا، میں بیٹھ گیا، فرمایا ہمارے خانوادہ میں ایک شبانہ روز مجاہدہ کا معمول ہے تو آج رات دن مشغول رہ، یہ درویش بحکمِ محترم مشغول رہا، دوسرے دن جب حاضرِ خدمت ہوا ارشاد فرمایا آسمان کی طرف دیکھ میں نے دیکھا، دریافت فرمایا زمین کی طرف دیکھ میں نے دیکھا، استفسار فرمایا کہاں تک دیکھتا ہے؟ عرض کیا تحت الثریٰ تک، فرمایا پھر ہزار بار سورۂ اخلاص پڑھ میں نے پڑھی، فرمایا پھر آسمان کی طرف دیکھ میں نے دیکھا، پوچھا اب کہاں تک دیکھتا ہے؟ عرض کیا حجابِ عظمت تک، فرمایا آنکھیں بند کر، میں نے بند کر لیں، فرمایا کھول، میں نے کھول دیں، پھر مجھے اپنی انگلیاں دکھا کر سوال کیا، کیا دیکھتا ہے؟ میں نے عرض کیا اٹھارہ ہزار عالم دیکھتا ہوں۔

بعد ازاں سامنے پڑی ہوئی ایک اینٹ کے اٹھانے کا حکم دیا۔ میں نے اٹھایا تو مٹھی بھر دینار بر آمد ہوئے فرمایا اسے لے جا کر فقراء میں تقسیم کر دے۔ میں نے حکم کی تعمیل کی۔ بعد ازاں حاضرِ خدمت ہوا ارشاد ہوا چند روز ہماری صحبت میں گزار عرض کیا فرمانِ عالی سر آنکھوں پر‘‘

شجرۂ طریقت: حضرت خواجہ معین الدین چشتی مرید حضرت خواجہ عثمان ہارونی چشتی مرید حضرت شریف ژندنی مرید حضرت خواجہ قطب الدین چشتی مرید حضرت خواجہ ناصر الدین ابو یوسف چشتی مرید حضرت خواجہ ابو احمد ابدال چشتی مرید حضرت خواجہ ابو اسحاق چشتی مرید حضرت خواجہ ممشاد علودینوری مرید حضرت شیخ امین الدین ہبرۃ البصری مرید حضرت سدید الدین حدیفۃ المرعشی مرید حضرت سلطان ابراہیم بن ادہم بلخی مرید حضرت ابو فضیل بن عیاض مرید حضرت خواجہ عبدالواحد بن زید مرید حضرت خواجہ حسن بصری مرید امام الاولیاء سیدنا علی کرم اللہ وجہہ۔

معین الہند کا لقب: ایک دفعہ آپ حج سے فارغ ہو کر مدینہ منورہ حاضر ہوئے اور عرصہ تک قیام پذیر رہنے کے بعد آپ نے مدینہ شریف ہی میں مستقل قیام کرنے کا ارادہ کیا تو ایک رات دربارِ رسالت مآب ا سے آپ کو یہ بشارت ہوئی ’’معین الدین! تم میرے دین کے معین ہو، میں نے ولایتِ ہندوستان تمہیں عطا کی۔ وہاں ظلمتِ کفر پھیلی ہوئی ہے، تم اجمیر جا کر قیام کرو تمہارے وہاں جانے سے ظلمتِ کفر دور ہو جائے گی اور اسلام رونق پذیر ہوگا‘‘

نبی کریمﷺ کے ارشاد پر آپ بہت خوش ہوئے اور متحیر بھی کہ اجمیر کدھر ہے اسی سوچ میں مبتلا تھے کہ آپ پر غنودگی طاری ہوئی، اسی حالت میں عالمِ رؤیا (خواب) میں سرورِ کائنات ا تشریف لائے، باقی واقعہ خود حضور خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں:

’’حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، معین الدین دیکھو! تمام مشارق و مغارب کے دروازے تمہارے لئے کھلے ہیں‘‘ اس کے بعد آپ کو اجمیر شریف، قلعہ اور تمام پہاڑ دکھائے گئے اور ایک انار عطا کیا اور ارشاد فرمایا ’خدا نے تمہیں تحفہ عطا کیا ہے‘ چنانچہ اس کے بعد آپ ہندوستان تشریف لائے اور بالآخر اجمیر شریف جلوہ افروز ہوئے۔

بارِ اول ورودِ ہند، ملتان میں تشریف آوری: ہرات سے روانہ ہو کر بار اول وارد ہند ہوئے یعنی ملتان میں قدم رنجہ فرمایا، ورودِ ملتان کے متعلق دلیل العارفین میں خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ حضرت غریب نواز کا مندرجہ ذیل بیانِ ارقام فرماتے ہیں’’یہاں ملتان میں ایک بزرگ سے ملاقات ہوئی ان بزرگ نے دورانِ ملاقات فرمایا اہلِ محبت کی توبہ تین قسم کی ہوتی ہے،اول بوجہ ندامت، دوم معصیت ترک کرنے کے خیال سے، سوم اپنے آپ کو خضومت اور ظلم سے پاک رکھنے کے لئے۔‘‘

خواجہ غریب نواز اور اشاعتِ اسلام: خواجۂ خواجگان حضور معین الدین حسن چشتی سنجری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کفرستانِ ہند میں اسلام کی شمع فروزاں کرنے والے ہیں، آپ سے پہلے اس خطہ میں تبلیغِ اسلام کے لئے تشریف لانے والے صوفیاء میں شیخ اسماعیل محدث، شیخ صفی الدین گزرانی، شیخ حسین زنجانی، شیخ علی ہجویری اور سلسلۂ چشتیہ کے بزرگ خواجہ ابو محمد ابن ابی احمد چشتی کے اسمائے گرامی آتے ہیں مگر اس علاقہ کی روحانی سیادت خواجۂ اجمیر کے لئے مقدر تھی۔

والد ماجد کا سایہ سر سے اٹھ گیا، ترکہ میں ایک باغ ملا اسی کی نگہداشت کے دوران ابراہیم قلندر نامی ایک بزرگ کا پس خوردہ منہ میں پڑا اور دل انوارِ الٰہی سے منور ہو گیا۔ دنیا کی محبت مردہ پڑ گئی۔ راہِ حق میں نکل پڑے، سمرقند میں کلام اللہ حفظ کیا اور دینی علوم حاصل کئے، عراق کا رخ کیا جس کے ایک قصبہ ہارون میں ایک خدا رسیدہ بزرگ ان کے حصہ کی نعمت سرمدی کے لئے منتظر تھے، حضرت شیخ المشائخ خواجہ عثمان ہارونی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان سے شرفِ بیعت پایا۔ مرشد کامل نے اپنے سلسلہ میں داخل فرمانے کے بعد چہرہ مبارک آسمان کی طرف اٹھایا اور مرید صادق کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا’’ترا بخدا رسانیدم و مقبولِ حضرتِ اوست گردانیدم‘‘ میں نے تجھے خدا تک پہونچا دیا اور حق تعالیٰ کا مقبول بنا دیا۔

حضرت خواجہ اجمیری کا سلسلۂ طریقت چودہ واسطوں کے بعد سیدنا مولائے کائنات علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم سے جا ملتا ہے۔ حضرت سلطان الہند غریب نواز رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے پیر و مرشد کی خدمت میں کم و بیش بیس سال رہے، مرشد کامل نے گوہر شب تاب کی تراش خراش میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا…… روحانیت کی اعلیٰ قدروں سے روشناس کرایا، خود اپنے ہمراہ اکنافِ عالم کے اولیاء اللہ اور شناورانِ راہِ طریقت سے ملاقاتیں کرائیں، تا آنکہ رحمۃ للعالمین سیدنا محمد رسول اللہ ا کی بارگاہِ رحمت میں لے کر حاضر ہوئے، دربارِ رسول میں مرشد کامل نے مرید فاضل کو پیش کیا تو آقائوں کے آقا ا کے مرقدِ مبارک سے آواز آئی ’’معین الدین مجھے پیارا ہے میں نے اسے قبول کیا اور اپنا بنایا‘‘

حضرت خواجہ عثمان ہارونی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے اس یگانۂ روزگار مرید پر ناز تھا۔ بے حد پیار فرماتے تھے۔ آپ کا فرمان ہے۔ ’’معین الدین خدا کا پیارا ہے اور مجھے اپنے اس مرید پر فخر ہے‘‘

سیر و سیاحت: دس سال تک آپ نے اپنے پیرو مرشد کے ساتھ اکناف عالم کی سیر کی۔ پیرو مرشد سے رخصت ہونے کے بعد بھی آپ نے سیر وسیاحت کا سلسلہ جاری رکھا ۔جن علاقوں کو آپ نے دوران سیاحت دیکھا ۔کچھ نام آپ پڑھ چکے ہیں۔

بغداد شریف میں آپ نے سرکار غوث الثقلین ،قطب الدارین،محی الدین الشیخ عبد القادر جیلانی بغدادی رضی اللہ عنہ کی صحبت میں ۵۷ روز گزار کر ،ان سے فیوض وبرکات لئے (اور سیر العارفین کی روایت کے مطابق غوث پاک کی خدمت عالیہ میں پانچ روز رہے) اسی طرح سنجان میں شیخ نجم الدین کبریٰ ،اور بغدادہی میں حضرت شیخ ضیاء الدین پیر ومرشد ،حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی ،تبریز میں حضرت شیخ ابو سعید تبریزی ،اصفہان میں شیخ محمود اصفہانی ، بلخ میں شیخ احمد خضرویہ، غزنین میں نظام الدین ابوالموید کے مرشد شیخ عبدالواحد غزنوی کی مجالس میں رہے اور ان تمام سے روحانی و عرفانی برکات کے خزانے سمیٹے۔ آپ نے اولیاء اللہ کے مزارات پر پہنچ کر مراقبے کئے۔ ہمدان میں مزارِ شیخ ابو یوسف ہمدانی، خرقان میں شیخ ابوالحسن خرقانی، ہرات میں شیخ عبداللہ انصاری اور ملتان میں علی ہجویری قدست اسرارہم کے مزارات پر چلہ کشی کی اور وہاں سے رخصت ہوتے وقت یہ شعر پڑھا ؎

گنج بخشِ ہر دوعالم مظہرِ نورِ خدا ناقصاں را پیر کامل کاملاں را رہنما

اشاعتِ اسلام: ملک ہند میں اپنا تبلیغی مشن شروع کرنے سے پہلے پانچ سال تک ملتان میں رہ کر ہندوستان کی زبان سیکھی۔ حضرت خواجۂ اجمیر جب حاضرِ بارگاہِ رسالت ہوئے تو سید الاولین و الآخرین ا نے انہیں ہندوستان جانے کی بشارت عطا فرمائی۔

دلیل العارفین میں اجمیر کے غالباً سفر روحانی کی جانب اشارہ ملتا ہے کہ ایک مجلس میں فقراء و مریدین کے سامنے آپ عارف کی صفتوں پر تقریر فرما رہے تھے اسی اثناء میں اشک بار ہو گئے اور فرمایا میں اسی مقام کا سفر کرتا ہوں جہاں میرا مدفن ہے اس کے بعد سب کو رخصت کر دیا صرف خواجہ قطب الدین کو ساتھ چلنے کا حکم دیا بہر حال صحیح اور مشہور ترین روایت ہے کہ راجہ رائے پتھورا کے زمانے میں آپ اجمیر تشریف لائے۔

راجہ کے مقربین کو اپنے علاقہ میں مسلمان درویشوں کا آنا ناگوار ہوا اور انہوں نے نت نئے حیلوں بہانوں اور اپنی شرارتوں سے انہیں تنگ کرنا شروع کر دیا تاکہ یہ لوگ اکتا کر چلے جائیں مگر اپنے ارادے میں کامیاب نہ ہوئے، بڑے بڑے معرکے ہوئے، ان معرکوں کی حیثیت گویا اسلام اور کفر کے مقابلے کی تھی۔ قدرت خداوندی کو اس سر زمین پر اسلام کو فروغ بخشنا منظور تھا۔ اس لئے اپنے برگزیدہ بندوں کو مبلغ اسلام نہیں، بلکہ چلتا پھرتا اسلام بنا کر یہاں بھیج دیا تھا تمام ہندو جوگیوں اور جادو گروں کو خواجہ صاحب کے مقابلے میں کھلی ہوئی شکستوں کو سامنا کرنا پڑا………… ہندو مذہبی رہنمائوں کا سردار جوگی جے پال نہ صرف یہ کہ آپ کے مقابلے میںہار گیا بلکہ اعتراف شکست کر کے دائرۂ اسلام میں داخل ہوا آپ نے اس کا نام عبداللہ رکھا اور اسے روحانی تعلیمات دے کر اپنی خلافت سے نوازا۔

حضرت خواجہ صاحب کی روحانی عظمتوں کے نئے نئے واقعات اجمیر کی سرزمین پر دیکھ دیکھ کر پتھورا رائے کے لشکریوں میں سے لوگ جوق در جوق اسلام قبول کرنے لگے۔ راجہ اوراس کے ہم مذہب ایسے لوگوں کو اذیت دیتے تو وہ لوگ آپ کی خدمت میں استغاثہ لاتے راجہ نے مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد دیکھ کر اپنے اور اپنی حکومت کے لئے خطرہ کا احساس کیا اور آپ کو اجمیر بدر کرنے کا حکم دیا۔ آپ کو جب یہ خبر ملی تو آپ نے فرمایا ’’میں نے اسے خود نکال دیا اور دوسروں کے حوالے کر دیا‘‘

چنانچہ پتھورا رائے کی اس گستاخی کے بعد ہی ایک دن کی بات ہے خراسان میں بادشاہ شہاب الدین غوری نے خواب دیکھا۔ خواجہ غریب نواز سامنے کھڑے ہوئے فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ تمہیں ملک ہند کی بادشاہت دینے والا ہے تم اس کی جانب قدم بڑھائو۔ سلطان نے فوراً حملہ کی تیاری کی اور آپ کے فرمان کے بموجب فاتح و کامراں ہوا اور وہ وارث النبی کے فیضانِ روحانی سے یہ خطہ غلغلۂ اسلام سے گونج اٹھا۔

حضور خواجۂ خواجگان کی برکت سے ہندوستان میں مشرف باسلام ہونے والوں کے بارے میں مصنف خزینۃ الاصفیاء کا بیان ہے ’’ہزار در ہزار از صغار و کبار بخدمتِ آں محبوبِ کردگار حاضر شدہ مشرف بہ شرفِ اسلام واردات آں حضرت شدند‘‘ ہزارہا ہزار چھوٹے بڑے اس محبوبِ خدا (خواجہ صاحب) کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اسلام قبول کرتے اور حضرت کے مرید ہوتے۔

عظمتِ اخلاق: سرکار غریب نواز مدنی تاجدار ﷺ کے روحانی نائب تھے، آپ کے اخلاق و کردار کی عظمت اور بنی نوعِ انسان کی سچی بہی خواہی کے جذبات نے بھی لوگوں پر اثر کیا۔ روحانی کمالات میں یدِ طولیٰ کے ساتھ ساتھ خون کے پیاسوں کے ساتھ بھی عفو و درگزر اور عطا و بخشش آپ کی فطرت میں شامل تھا۔ ایک بار ایک شخص کسی کا آلۂ کاربن کر آپ کے قتل کے ارادے سے آیا، خنجر اس کی آستین میں تھا، حضرت کو اس کے ارادے سے واقفیت ہو گئی، آپ کے باطنی نور نے اس کی بد نیتی آپ پر ظاہر کر دی، پھر جب وہ آیا تو آپ نے اس کو بہت پیار سے بٹھایا اورنہایت ملائمت سے کہا کہ جو ارادہ کر کے آئے ہو اسے پورا کرو، وہ کانپ اٹھا اور چھری سامنے رکھ کر معافی کا خواستگار ہوا اور کہا میں حاضر ہوں آپ مجھے میری نیتِ بد کی سزا دیجئے۔ خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ نے فرمایا فقیروں کا شیوہ بدلہ لینا نہیں ہے بلکہ ہم لوگوں سے تو کوئی بدی بھی کرتا ہے تو ہم اس سے نیکی سے پیش آتے ہیں۔ آپ نے اس کے حق میںدعا کے لئے دستِ مبارک اٹھایا اور آپ کی توجہ سے وہ مقربِ بارگاہِ حق ہوگیا۔ اسے ۴۵؍بار حج کی توفیق ملی اور اسی مقدس زمین پر انتقال پر کر دفن ہوا۔

آپ پڑوسی مسلمانوں کے جنازہ میں شرکت فرماتے اور دفن کے بعد سب لوگ چلے جاتے تو دیر تک دعائے خیر فرماتے رہتے۔ دلیل العارفین میں ہے کہ ایک بار آپ حسبِ معمول ایک قبر پر کھڑے تھے کہ چہرۂ مبارک کا رنگ متغیر ہوگیا پھر کچھ دیر کے بعد معمول پر آیا۔ حضرت خواجہ قطب الدین یہ حالات دیکھ رہے تھے وجہ پوچھی تو فرمایا قبر میں عذاب کے فرشتے آئے تھے لیکن پھر رب تعالیٰ کی رحمت ہوئی اور قبر سے عذاب دور ہو گیا۔

تاثیر نظر: سلطان الہند غریب نواز رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہندوستان میں نائب مصطفی بن کر تشریف لائے۔ ان کے اخلاق و کردار کا ہر گوشہ سنتِ محمدی کا آئینہ تھا۔ زبان کیا تھی کلمۂ توحید کی شمشیر براں اور نگاہ کیا تھی محبوبِ حقیقی کی جلوہ گاہ، ایک بار کی بات ہے آپ ایک باغ میں حوض کے کنارے فروکش تھے، علاقہ کا تند خو حکمراں یار محمد نامی رافضی ادھر آنکلا، اجنبی صورت دیکھ کر ذہن میں کچھ نفرت لئے بڑھا۔ خواجہ غریب نواز نے اسے ایک نظر دیکھا تو مغلوب الحال ہوگیا، ہوش حواس گم ہو گئے، آپ نے پانی کے چھینٹے دئے، ہوش میں آیا تو اپنے اہل و عیال اور دوست احباب سمیت حضرت خواجہ صاحب کا گرویدہ ہوگیا۔ رفض و شیعیت سے تائب ہوکر مرید ہوگیا اور اپنی ساری دولت نذر کو لایا۔ آپ نے ایک پیسہ بھی نہیں لیا اور فرمایا ظلم و ستم سے حاصل کیا ہوا مال اس کے مالکوں کو دے دو۔ اس نے ایسا ہی کیا پھر آپ کی صحبت میں رہ کر باطنی علوم کی تکمیل کر کے آپ کی خلافت سے سرفرازہوا۔

دلوں پر حکمرانی: حضرت خواجہ غریب نواز سیر و سیاحت کے زمانے میں بھی اکثر روزہ سے رہا کرتے، تیر کمان اور چقماق ساتھ رکھتے، شکار کرتے اور گوشت بھون کر افطار فرماتے۔

حکیم ضیاء الدین نامی ایک شخص بلخ کی آبادی میں درویشوں اور فقراء کے کمالاتِ روحانی کے منکر تھے۔ اتفاق سے اس کی ملاقات حضرت خواجہ غریب نواز سے ہوگئی۔ آپ کلنگ کا شکار کر کے گوشت بھون رہے تھے، حضرت خواجہ غریب نواز پر اس کے باطنی مرض کا انکشاف ہوا آپ نے بھنے ہوئے گوشت کا ایک ٹکڑا انہیں دیا انہوں نے وہ کھایا، کھانا تھا کہ ان کی حالت متغیر ہوگئی، دل کی دنیا میں ایک انقلابِ عظیم برپا ہوگیا۔ بے خودی کی کیفیت کچھ کم ہوگئی تو حضرت کے قدموں پر گر کر زندگی بھر کے لئے غلامی اختیار کر لی اور مرید ہوگئے، نہایت مشہور طبیب تھے، فنِ طب کی تمام کتابیں دریا بُرد کر دیں اور درویش خدامست کی نگاہوں کے شکار ہو کر عمر بھر راہِ طریقت میں بادہ پیمائی کرتے رہے۔

حضرت خواجہ غریب نواز عطائے رسول سے بہرہ ور تھے، انہیں خود محبوب رب العالمین ا نے اپنے روحانی کمالات کا مظہر بنا کر ملکِ ہند میں مقرر فرمایا تھا اسی لئے ان کے دم قدم سے اس سرزمین کفر پر اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا جتنا عظیم الشان کام ہوا، لشکر و سپاہ اور تخت و تاج والوں سے اس کا عشرِ عشیر بھی نہ ہوا۔ حضور خواجہ غریب نواز کے ذریعہ ہندوستان میں کتنے لوگوں نے کن کن ذرائع سے اور آپ کے کن کن کمالات و خصائل سے متأثر ہو کر اسلام قبول کیا گو تاریخ و سوانح کے صفحات پر ان کے واضح نشانات نہیں ملتے تاہم یہ باور کرنا ہوگا کہ ہندوستان جیسی کفر و شرک کی دھرتی پر توحید کی علمبرداری کی عظیم خدمات شہنشاہِ چشت خواجہ غریب نواز، آپ کے خلفاء اہلِ ارادت درویشوں نے انجام دی ہیں۔ انہیں اہل اللہ کا فیضان ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش نامی دو الگ ریاستیں وجود میں آنے کے باوجود موجودہ ہندوستان میں کم از کم ۱۵؍کروڑ مسلمان موجود ہیں۔ جن کی رگوں میں توحید کا لہو گردش کر رہا ہے۔

سطورِ بالا میں ذکر کیا گیا ہے کہ خود رائے پتھورا کی فوج میں سے معزز لوگ آپ کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے۔ عوام کا اندازہ بھی اسی سے لگایا جاسکتا ہے۔ آپ کی تبلیغ کا عمومی اثر تو پورے ملک پر ہوا مگر اجمیر، راجستھان اور دہلی و اطراف میں آپ سے بلا واسطہ لوگوں نے اسلام کی دولت پائی اور دوسرے خطوں میں آپ کے خلفاء و مسترشدین نے اسلام و انسانیت کی انمٹ خدمات انجام دیں، جن کا ذکر آرہا ہے۔ پروفیسر ٹی، ڈبلیو آرنلڈ کی کتاب ’’پریچینگ آف اسلام‘‘ کے ترجمہ دعوتِ اسلام میں ہے۔

یہاں (اجمیر ) پہونچنے کے بعد جس کو پہلے پہل آپ نے مسلمان کیا وہ راجہ کا ایک جوگی گرو تھا۔ رفتہ رفتہ ان کے مریدین کی ایک کثیر تعداد ان کے گرد جمع ہوگئی۔ جنہوں نے ان کی تعلیم و تلقین سے بت پرستی چھوڑ کر اسلام اختیار کر لیا۔ اب ایک مذہبی پیشوا کی حیثیت سے آپ کی شہرت سب طرف پھیل گئی اور آپ کا شہرہ سن کر بہت سے ہندو لوگ اجمیر میں آئے اور آپ کی ترغیب سے مسلمان ہوگئے۔ روایت ہے کہ جب آپ اجمیر جاتے ہوئے راستہ میں دہلی کے اندر ٹھہرے تھے تو وہاں آپ نے ۷۰۰ لوگوں کو مسلمان کیا تھا۔

خزینۃ الاصفیاء میں ہے کہ عرفان و حقیقت کی اس شمعِ فروزاں کا گزر جہاں جہاں سے ہوتا لوگ پروانہ وار نثار ہوتے اور ناقابلِ انکار حقائق کھلی آنکھوں سے دیکھ کر کلمۂ توحید کے اسیر ہوجاتے۔ ان کی تبلیغ کی اصل روح رضائے الٰہی اور انسانی برادری کی بے روگ اور بے لوث محبت تھی وہ بنی آدم کو خود ساختہ بکھیڑوں سے چھڑا کر اس کے خالق تک پہونچانے کا درد رکھتے تھے۔

ان کا جو کام ہے وہ اہلِ سیاست جانیں

میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہونچے

مولانا محمد شاکر علی رضوی نوری