کنزالایمان مع خزائن العرفان پارہ 2 رکوع 6 سورہ البقرہ آیت نمبر177 تا 182
لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓىٕكَةِ وَ الْكِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَۚ-وَ اٰتَى الْمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ ذَوِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِۙ-وَ السَّآىٕلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِۚ-وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَى الزَّكٰوةَۚ-وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰهَدُوْاۚ-وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِؕ-اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْاؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ(۱۷۷)
کچھ اصل نیکی یہ نہیں کہ منہ مشرق یا مغرب کی طرف کرو (ف۳۱۱) ہاں اصلی نیکی یہ کہ ایمان لائے اللہ اور قیامت اور فرشتوں اور کتاب اور پیغمبروں پر (ف۳۱۲) اور اللہ کی محبت میں اپنا عزیز مال دے رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور راہ گیر اور سائلوں کو اور گردنیں چھوڑانے میں (ف ۳۱۳) اور نماز قائم رکھے اور زکوٰۃ دے اور اپنا قول پورا کرنے والے جب عہد کریں اور صبر والے مصیبت اور سختی میں اور جہاد کے وقت یہی ہیں جنہوں نے اپنی بات سچی کی اور یہی پرہیزگار ہیں
(ف311)
شان نزول: یہ آیت یہود و نصاریٰ کے حق میں نازل ہوئی کیونکہ یہود نے بیت المقدس کے مشرق کو اور نصاریٰ نے اس کے مغرب کو قبلہ بنا رکھا تھا اور ہر فریق کا گمان تھا کہ صرف اس قبلہ ہی کی طرف منھ کرنا کافی ہے اس آیت میں ان کا رد فرمادیا گیا کہ بیت المقدس کا قبلہ ہونا منسوخ ہوگیا ۔(مدارک) مفسرین کا ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ خطاب اہل کتاب اور مؤمنین سب کو عام ہے اور معنی یہ ہیں کہ صرف روبقبلہ ہونا اصل نیکی نہیں جب تک عقائد درست نہ ہوں اور دل اخلاص کے ساتھ رب قبلہ کی طرف متوجہ نہ ہو۔
(ف312)
اس آیت میں نیکی کے چھ طریقے ارشاد فرمائے (۱) ایمان لانا (۲) مال دینا (۳) نماز قائم کرنا (۴) زکوۃ دینا (۵) عہد پورا کرنا (۶) صبر کرنا ایمان کی تفصیل یہ ہے کہ ایک تو اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے کہ وہ حی و قیوم علیم حکیم سمیع بصیر غنی قدیر ازلی ابدی واحد لاشریک لہ ہے دوسرے قیامت پر ایمان لائے کہ وہ حق ہے اس میں بندوں کا حساب ہوگا اعمال کی جزا دی جائے گی مقبولان حق شفاعت کریں گے سید عالم صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم سعادت مندوں کو حوض کوثر پر سیراب فرمائیں گے پل صراط پر گزر ہوگا اور اس روز کے تمام احوال جو قرآن میں آئے یا سید انبیاء نے بیان فرمائے سب حق ہیں تیسرے فرشتوں پر ایمان لائے کہ وہ اللہ کی مخلوق اور فرمانبردار بندے ہیں نہ مردہیں نہ عورت ان کی تعداد اللہ جانتا ہے چار ان میں سے بہت مقرب ہیں جبرئیل میکائیکل’ اسرافیل’ عزرائیل ‘ علیہم السلام چوتھے کتب الہیہ پر ایمان لانا کہ جو کتاب اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی حق ہے ان میں چار بڑی کتابیں ہیں۔(۱) توریت جو حضرت موسٰی علیہ السلام پر (۲) انجیل جو حضرت عیسی علیہ السلام پر (۳) زبور حضرت داؤد علیہ السلام پر (۴) قرآن حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلمپر نازل ہوئیں اور پچاس صحیفے حضرت شیث پر تیس حضرت ادریس پر دس حضرت آدم پر دس حضرت ابراہیم پر نازل ہوئے علیہم الصلوۃ والسلام پانچویں تمام انبیاء پر ایمان لانا کہ وہ سب اللہ کے بھیجے ہوئے ہیں اور معصوم یعنی گناہوں سے پاک ہیں ان کی صحیح تعدادا للہ جانتا ہے’ ان میں سے تین سو تیرہ رسول ہیں ” نَبِیّٖنَ ” بصیغہ جمع مذکر سالم ذکر فرمایا اشارہ کرتا ہے کہ انبیاء مرد ہوتے ہیں کوئی عورت کبھی نبی نہیں ہوئی جیسا کہ ” وَمَآاَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ اِلَّا رِجَالاً ” الآیہ سے ثابت ہے’ ایمان مجمل یہ ہے ” اٰمَنْتُ بِاللّٰہ ِ وَبِجَمِیْعِ مَاجَآءَ بِہِ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم” یعنی میں اللہ پر ایمان لایا ‘ اور ان تمام امور پر جو سید انبیاء صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم اللہ کے پاس سے لائے (تفسیر احمدی)”
(ف313)
ایمان کے بعد اعمال کا اور اس سلسلہ میں مال دینے کا بیان فرمایا اس کے چھ مصرف ذکر کئے گردنیں چھڑانے سے غلاموں کا آزاد کرنا مراد ہے یہ سب مستحب طور پر مال دینے کا بیان تھا مسئلہ: اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ صدقہ دینا بحالت تندرستی زیادہ اجر رکھتا ہے بہ نسبت اس کے کہ مرتے وقت زندگی سے مایوس ہو کر دے (کذافی حدیث عن ابی ہریرہ )
مسئلہ : حدیث شریف میں ہے کہ رشتہ دار کو صدقہ دینے میں دو ثواب ہیں ایک صدقہ کا ایک صلہ رحم کا (نسائی شریف)
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰىؕ-اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَ الْاُنْثٰى بِالْاُنْثٰىؕ-فَمَنْ عُفِیَ لَهٗ مِنْ اَخِیْهِ شَیْءٌ فَاتِّبَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ وَ اَدَآءٌ اِلَیْهِ بِاِحْسَانٍؕ-ذٰلِكَ تَخْفِیْفٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ رَحْمَةٌؕ-فَمَنِ اعْتَدٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَلَهٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۷۸)
اے ایمان والو تم پر فرض ہے (ف۳۱۴) کہ جو ناحق مارے جائیں ان کے خون کا بدلہ لو (ف۳۱۵) آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت (ف۳۱۶) تو جس کے لیے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی ہوئی (ف۳۱۷) تو بھلائی سے تقاضا ہو اور اچھی طرح ادا یہ تمہارے رب کی طرف سے تمہارا بوجھ ہلکا کرنا ہے اور تم پر رحمت تو اس کے بعد جو زیادتی کرے (ف۳۱۸) اس کے لیے دردناک عذاب ہے
(ف314)
شان نزول :یہ آیت اوس و خزرج کے بارے میں نازل ہوئی ان میں سے ایک قبیلہ دوسرے سے قوت تعداد مال و شرف میں زیادہ تھا اس نے قسم کھائی تھی کہ وہ اپنے غلام کے بدلے دوسرے قبیلہ کے آزاد کو اور عورت کے بدلے مرد کو اور ایک کے بدلے دو کو قتل کرے گا زمانہ جاہلیت میں لوگ اس قسم کی تعدی کے عادی تھے عہد اسلام میں یہ معاملہ حضور سید انبیاء صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ اور عدل و مساوات کا حکم دیا گیا اورا س پر وہ لوگ راضی ہوئے قرآن کریم میں قصاص کا
مسئلہ کئی آیتوں میں بیان ہوا ہے اس آیت میں قصاص و عفو دونوں کے مسئلہ ہیں اور اللہ تعالٰی کے اس احسان کا بیان ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو قصاص وعفو میں مختار کیا چاہیں قصاص لیں یا عفو کریں’ آیت کے اول میں قصاص کے وجوب کا بیان ہے۔
(ف315)
اس سے ہر قاتل بالعمد پر قصاص کا وجوب ثابت ہوتا ہے خواہ اس نے آزاد کو قتل کیا ہو یا غلام کو مسلمان کو یا کافر کو مرد کو یا عورت کو کیونکہ قتلیٰ جو قتیل کی جمع ہے وہ سب کو شامل ہے ہاں جس کودلیلِ شرعی خاص کر ے وہ مخصوص ہوجائے گا۔ (احکام القرآن)
(ف316)
اس آیت میں بتایا گیا جو قتل کرے گا وہی قتل کیا جائے گا’ خواہ آزاد ہو یا غلام مرد ہو یا عورت اور اہل جاہلیت کا یہ طریقہ ظلم ہے جو ان میں رائج تھا کہ آزادوں میں لڑائی ہوتی تو وہ ایک کے بدلے دو کو قتل کرتے غلاموں میں ہوتی تو بجائے غلام کے آزاد کو مارتے عورتوں میں ہوتی تو عورت کے بدلے مرد کو قتل کرتے اور محض قاتل کے قتل پر اکتفا نہ کرتے اس کو منع فرمایا گیا ۔
(ف317)
معنی یہ ہیں کہ جس قاتل کو ولی مقتول کچھ معاف کریں اور اس کے ذمہ مال لازم کیا جائے ‘ اس پر اولیاء مقتول تقاضا کرنے میں نیک روش اختیار کریں اور قاتل خوں بہا خوش معاملگی کے ساتھ ادا کرے اس میں صلح برمال کا بیان ہے۔(تفسیر احمدی) مسئلہ : ولی مقتول کو اختیار ہے کہ خواہ قاتل کو بے عوض معاف کرے ےامال پر صلح کرے اگر وہ اس پر راضی نہ ہو اور قصاص چاہے تو قصاص ہی فرض رہے گا۔(جمل) مسئلہ : اگر مقتول کے تمام اولیاء قصاص معاف کردیں تو قاتل پر کچھ لازم نہیں رہتا مسئلہ : اگر مال پر صلح کریں تو قصاص ساقط ہوجاتا ہے اور مال واجب ہوتا ہے۔ (تفسیراحمدی) مسئلہ :ولی مقتول کو قاتل کا بھائی فرمانے میں دلالت ہے اس پر کہ قتل گرچہ بڑاگناہ ہے مگر اس سے اخوت ایمانی قطع نہیں ہوتی اس میں خوارج کا ابطال ہے جو مرتکب کبیرہ کو کافر کہتے ہیں۔
(ف318)
یعنی بدستور جاہلیت غیر قاتل کو قتل کرے یادیت قبول کرنے اور معاف کرنے کے بعد قتل کرے۔
وَ لَكُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوةٌ یّٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ(۱۷۹)
اور خون کا بدلہ لینے میں تمہاری زندگی ہے اے عقلمندو (ف۳۱۹) کہ تم کہیں بچو
(ف319)
کیونکہ قصاص مقرر ہونے سے لوگ قتل سے باز رہیں گے اور جانیں بچیں گی۔
كُتِبَ عَلَیْكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَكَ خَیْرَاﰳ -ۖۚ – الْوَصِیَّةُ لِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ-ۚ–حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِیْنَؕ(۱۸۰)
تم پر فرض ہوا کہ جب تم میں کسی کو موت آئے اگر کچھ مال چھوڑے تو وصیت کرجائے اپنے ماں باپ اور قریب کے رشتہ داروں کے لیے موافق دستور (ف۳۲۰) یہ واجب ہے پرہیزگاروں پر
(ف320)
یعنی موافق دستور شریعت کے عدل کرے اور ایک تہائی مال سے زیادہ کی وصیت نہ کرے اور محتاجوں پر مالداروں کو ترجیح نہ دے
مسئلہ : ابتدائے اسلام میں یہ وصیت فرض تھی جب میراث کے احکام نازل ہوئے منسوخ کی گئی اب غیر وارث کے لئے تہائی سے کم میں وصیت کرنا مستحب ہے بشرطیکہ وارث محتاج نہ ہوں یا ترکہ ملنے پر محتاج نہ رہیں ورنہ ترکہ وصیت سے افضل ہے۔ (تفسیر احمدی)
فَمَنْۢ بَدَّلَهٗ بَعْدَ مَا سَمِعَهٗ فَاِنَّمَاۤ اِثْمُهٗ عَلَى الَّذِیْنَ یُبَدِّلُوْنَهٗؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌؕ(۱۸۱)
تو جو وصیت کو سن سنا کر بدل دے (ف۳۲۱) اس کا گناہ انہیں بدلنے والوں پر ہے (ف۳۲۲) بےشک اللہ سنتا جانتا ہے
(ف321)
خواہ وصی ہو یا ولی شاہد اور وہ تبدیل کتابت میں کرے یا تقسیم میں یا ادائے شہادت میں اگر وہ وصیت موافق شرع ہے تو بدلنے والا گنہگار ہے۔
(ف322)
اور دوسرے خواہ وہ مُوْصِیْ ہوں یا مُوْصٰی لَہ، بری ہیں۔
فَمَنْ خَافَ مِنْ مُّوْصٍ جَنَفًا اَوْ اِثْمًا فَاَصْلَحَ بَیْنَهُمْ فَلَاۤ اِثْمَ عَلَیْهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠(۱۸۲)
پھر جسے اندیشہ ہوا کہ وصیت کرنے والے نے کچھ بے انصافی یا گناہ کیا تو اس نے ان میں صلح کرادی اس پر کچھ گناہ نہیں (ف۳۲۳) بےشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے
(ف323)
معنی یہ ہیں کہ وارث یا وصی یا امام یا قاضی جس کو بھی موصی کی طرف سے ناانصافی یا ناحق کارروائی کا اندیشہ ہو وہ اگر موصی لہ یا وارثوں میں شرع کے موافق صلح کرادے تو گنہگار نہیں کیونکہ اس نے حق کی حمایت کے لئے باطل کو بدلا ایک قول یہ بھی ہے کہ مراد وہ شخص ہے جو وقت وصیت دیکھے کہ موصی حق سے تجاوز کرتا اور خلاف شرع طریقہ اختیار کرتا ہے تو اس کو روک دے اور حق و انصاف کا حکم کرے۔