يَسۡتَفۡتُوۡنَكَ ؕ قُلِ اللّٰهُ يُفۡتِيۡكُمۡ فِى الۡـكَلٰلَةِ ؕ اِنِ امۡرُؤٌا هَلَكَ لَـيۡسَ لَهٗ وَلَدٌ وَّلَهٗۤ اُخۡتٌ فَلَهَا نِصۡفُ مَا تَرَكَ ۚ وَهُوَ يَرِثُهَاۤ اِنۡ لَّمۡ يَكُنۡ لَّهَا وَلَدٌ ؕ فَاِنۡ كَانَـتَا اثۡنَتَيۡنِ فَلَهُمَا الثُّلُثٰنِ مِمَّا تَرَكَ ؕ وَاِنۡ كَانُوۡۤا اِخۡوَةً رِّجَالًا وَّنِسَآءً فَلِلذَّكَرِ مِثۡلُ حَظِّ الۡاُنۡثَيَيۡنِ ؕ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَـكُمۡ اَنۡ تَضِلُّوۡا ؕ وَاللّٰهُ بِكُلِّ شَىۡءٍ عَلِيۡمٌ ۞- سورۃ نمبر 4 النساء آیت نمبر 176
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
يَسۡتَفۡتُوۡنَكَ ؕ قُلِ اللّٰهُ يُفۡتِيۡكُمۡ فِى الۡـكَلٰلَةِ ؕ اِنِ امۡرُؤٌا هَلَكَ لَـيۡسَ لَهٗ وَلَدٌ وَّلَهٗۤ اُخۡتٌ فَلَهَا نِصۡفُ مَا تَرَكَ ۚ وَهُوَ يَرِثُهَاۤ اِنۡ لَّمۡ يَكُنۡ لَّهَا وَلَدٌ ؕ فَاِنۡ كَانَـتَا اثۡنَتَيۡنِ فَلَهُمَا الثُّلُثٰنِ مِمَّا تَرَكَ ؕ وَاِنۡ كَانُوۡۤا اِخۡوَةً رِّجَالًا وَّنِسَآءً فَلِلذَّكَرِ مِثۡلُ حَظِّ الۡاُنۡثَيَيۡنِ ؕ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَـكُمۡ اَنۡ تَضِلُّوۡا ؕ وَاللّٰهُ بِكُلِّ شَىۡءٍ عَلِيۡمٌ ۞
ترجمہ:
آپ سے حکم معلوم کرتے ہیں، آپ کہیے کہ اللہ تمہیں کلالہ (کی میراث) میں یہ حکم دیتا ہے کہ اگر کوئی شخص فوت ہوجائے جس کی نہ اولاد ہو (نہ ماں باپ) اور اس کی (ایک حقیقی یا علاتی) بہن ہو تو اس (بہن) کو اس کے ترکہ کا نصف ملے گا اور وہ اپنی اس بہن کا ہوگا اگر اس (بہن) کی کوئی اولاد نہ ہو ‘ پھر اگر دو بہنیں ہوں تو ان کا حصہ اس (بھائی) کے ترکہ سے دو تہائی ہے اور اگر بہن بھائی وارث ہوں مرد اور عورتیں تو ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصہ کے برابر ہے، اللہ تمہارے لیے (اپنے احکام وضاحت سے) بیان فرماتا ہے تاکہ تم گمراہ نہ ہوجاؤ اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔ ؏
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آپ سے حکم معلوم کرتے ہیں، آپ کہیے کہ اللہ تمہیں کلالہ (کی میراث) میں یہ حکم دیتا ہے کہ اگر کوئی شخص فوت ہوجائے جس کی نہ اولاد ہو (نہ ماں باپ) اور اس کی (ایک حقیقی یا علاتی) بہن ہو تو اس (بہن) کو اس کے ترکہ کا نصف ملے گا اور وہ اپنی اس بہن کا وارث ہوگا اگر اس (بہن) کی کوئی اولاد نہ ہو ‘ پھر اگر دو بہنیں ہوں تو ان کا حصہ اس (بھائی) کے ترکہ سے دو تہائی ہے اور اگر بہن بھائی وارث ہوں مرد اور عورتیں تو ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصہ کے برابر ہے، اللہ تمہارے لیے (اپنے احکام وضاحت سے) بیان فرماتا ہے تاکہ تم گمراہ نہ ہوجاؤ اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔ (النساء : ١٧٦)
آخری سورت اور آخری آیت کی تحقیق :
امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت براء بیان کرتے ہیں کہ جو سورت سب سے آخر میں نازل ہوئی وہ سورة توبہ ہے اور جو آیت سب سے آخر میں نازل ہوئی وہ ” یستفتونک “ (النساء : ١٧٦) ہے۔ (صحیح البخاری ‘ رقم الحدیث :‘ ٤٦٠٥‘ صحیح مسلم ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ١٦١٨‘ سنن ابو داؤد ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ٢٨٨٨‘ سنن ترمذی ج ٤‘ رقم الحدیث :‘ ٣٠٥٢)
امام ابو عبد اللہ محمد بن خلفہ وشتانی ابی مالکی متوفی ٨٢٨ ھ لکھتے ہیں :
علامہ خطابی نے کہا کہ ایک قول یہ ہے کہ آخری سورت النصر ہے ‘ اس کے نزول کے وقت میں کئی اقوال ہیں حق کے زیادہ قریب حضرت ابن عمر (رض) کا قول ہے کہ یہ حجۃ الوداع میں نازل ہوئی اس کو سورة التودیع بھی کہتے ہیں ‘ اس کے بعد (آیت) ” الیوم اکملت لکم دینکم “۔ (المائدہ : ٣) نازل ہوئی ‘ اس کے بعد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی (٨٠) دن زندہ رہے ‘ اس کے بعد (آیت) ” یستفتونک قل اللہ یفتیکم فی الکلالۃ “۔ (النساء : ١٧٦) نازل ہوئی۔ اس کے بعد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پچاس دن زندہ رہے ‘ پھر اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی : (آیت) ” لقد جاء کم رسول من انفسکم “۔ (التوبہ : ١٢٨) اس کے بعد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پینتیس (٣٥) دن زندہ رہے ‘ پھر اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی : (آیت) ” واتقوا یوما ترجعون فیہ الی اللہ “ (البقرہ : ١٢٨) اس کے بعد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکیس دن زندہ رہے اور مقاتل نے کہا سات دن زندہ رہے ‘ یہ ترتیب ابو الفضل محمد بن یزید نے ذکر کی ہے۔ (اکمال اکمال المعلم ج ٥ ص ٥٦٧‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)
اس تحقیق کے اعتبار سے سورة النساء کی اس آیت کو جو آخری آیت کہا گیا ہے اس سے مراد آخری اضافی ہے۔
کلالہ کا لغوی معنی :
علامہ سید محمد مرتضی حسینی زبیدی حنفی متوفی ١٢٠٥ ھ لکھتے ہیں :
کلالہ اس مورث کو کہتے ہیں جس کا نہ والد (ماں باپ) زندہ ہو نہ اولاد ہو ‘ یا کلالہ اس وارث کو کہتے ہیں جو نہ والد (ماں باپ) ہو نہ اولاد ہو ‘ جیسے عم زاد بھائی ‘ یا اخیافی بھائی بہن ‘ ازہری نے کہا کہ سورة نساء میں دو جگہ کلالہ کا ذکر کیا گیا ہے۔ (آیت) ” : ١٢ اور آیت : ١٧٦ میں ‘ آیت : ١٢ میں فرمایا اگر ایسے مرد یا عورت کا ترکہ تقسیم کیا جائے جو کلالہ ہو ‘ اور اس کلالہ کی طرف سے) بھائی یا بہن ہو تو ان دونوں میں سے ہر ایک کے لیے چھٹا حصہ ہے پس اگر وہ (اخیافی بہن یا بھائی) ایک سے زیادہ ہوں تو وہ سب ایک تہائی میں شریک ہیں اور آیت : ١٧٦ میں فرمایا : آپ کہئے اللہ تمہیں کلالہ میں یہ حکم دیتا ہے کہ اگر ایسا مرد فوت ہوجائے جس کی کوئی اولاد نہ ہو ‘ اور اس کی ایک (حقیقی یا علاتی) بہن ہو تو اس (بہن) کو اس کے ترکہ سے نصف ملے گا ‘ اور وہ اس (بہن) کا وارث ہوگا اگر اس کی اولاد نہ ہو۔ الآیہ۔
ابن الاعرابی سے منقول ہے کہ دور کے عم زاد کو کلالہ کہتے ہیں اور اخفش نے فراء سے نقل کیا ہے کہ والد (ماں باپ) اور اولاد کے سوا قرابت داروں کو کلالہ کہتے ہیں ‘ اور ان کو کلالہ اس لیے کہتے ہیں کہ وہ میت کے نسب کے گرد قرابت کی جہت سے گھومتے رہتے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جس کے والد (ماں باپ) اور ولد ساقط ہوجائیں وہ کلالہ ہے ‘ نیز کل کا معنی تھکنا ہے اور ضعیف کو تھکنا لازم ہے ‘ یہاں لازم بول کر ملزوم مراد لیا ہے کیونکہ جو وارث اصول اور فروع نہ ہوں وہ ضعیف ہوتے ہیں۔ اس لیے کلالہ کا معنی ہے ضعیف وارث (تاج العروس ج ٨ ص ١٠١‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت)
کلالہ کا شرعی معنی :
علامہ ابو سلیمان خطابی متوفی ٣٨٨ ھ لکھتے ہیں :
اکثر صحابہ کا یہ قول ہے کہ جس کا نہ والد (ماں باپ) ہو نہ اولاد ہو وہ کلالہ ہے ‘ حضرت عمر بن الخطاب (رض) کے اس میں دو قول ہیں ایک قول جمہور صحابہ کو مثل ہے ‘ اور دوسرا قول یہ ہے کہ کلال وہ شخص ہے جس اولاد نہ ہو اور یہ ان کا آخری قول ہے۔ امام عبدالرزاق نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر نے ان کو موت کے وقت یہ وصیت کی کہ کلالہ تمہارے قول کے مطابق ہے ‘ حضرت ابن عباس (رض) نے کہا میرا کیا قول ہے تو انہوں نے کہا جس شخص کی اولاد نہ ہو ‘ حسن کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) سے سوال کیا کہ کلالہ کون ہے ؟ انہوں نے کہا والد اور ولد کے ماسوا کلالہ ہے ‘ میں نے کہا اللہ عزوجل تو فرماتا ہے (آیت) ” ان امرؤ ھلک لیس لہ ولد “۔ (النساء : ١٧٦) ” اگر کوئی شخص مرجائے اور اس کی اولاد نہ ہو۔ “ (یعنی اس آیت میں کلالہ کی تعریف میں والد کی نفی کا ذکر نہیں ہے) حضرت ابن عباس (رض) ناراض ہوئے اور مجھے جھڑک دیا ‘ میں کہتا ہوں اشکال کی وجہ یہ ہے کہ اس آیت میں کلالہ کی تعریف کی گئی ہے کہ اس کی اولاد نہ ہو اور اس میں والد کی نفی کا ذکر نہیں ہے ‘ اور اس کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ کلالہ کی تعریف میں والد کی نفی حضرت جابر بن عبداللہ کی حدیث سے ماخوذ ہے کیونکہ یہ آیت ان ہی کے متعلق نازل ہوئی ہے اور جب یہ آیت نازل ہوئی اس وقت حضرت جابر کی اولاد تھی نہ والد زندہ تھے۔ ؛ (حضرت جابر کی اس وقت والدہ بھی زندہ نہیں تھیں۔ اس لیے کلالہ اس کو کہتے ہیں جس کے نہ ماں باپ زندہ ہوں نہ اولاد ہو) (معالم السنن علی مختصر سنن ابو داؤد ج ٤ ص ١٦٤۔ ١٦٣‘ مطبوعہ دارالمعرفہ بیروت)
کلالہ کے متعلق حضرت جابر کی حدیث :
امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میری عیادت کرنے کے لیے تشریف لائے اس وقت میں بیمار تھا ہوش میں نہیں تھا ‘ آپ نے اپنے وضو کا بچا ہوا پانی مجھ پر ڈالا تو مجھے ہوش آگیا ‘ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ میری میراث کس کے لیے ہوگی ؟ میرا وارث تو کلالہ ہوگا ! تو فرائض کی آیت نازل ہوگئی۔ صحیح مسلم میں ہے یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ” یستفتنونک قل اللہ یفتیکم فی الکلالۃ “۔ (النساء : ١٧٦) (صحیح البخاری ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ١٩٤‘ صحیح مسلم ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ١٦١٦‘ سنن ابوداؤد ج ٢‘ رقم الحدیث :‘ ٢٨٨٦‘ سنن ترمذی ج ٤‘ رقم الحدیث :‘ ٢١٠٤‘ سنن ابن ماجہ ج ٢‘ رقم الحدیث :‘ ٢٧٢٨‘ مسند احمد ج ٥‘ رقم الحدیث :‘ ١٤١٩‘ مسند حمیدی ج ٢‘ رقم الحدیث :‘ ١٢٢٩)
اس حدیث میں صالحین کی استعمال شدہ اشیاء اور آثار سے تبرک حاصل کرنے کا ثبوت ہے ‘ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی برکت کے آثار کا ظہور ہے ‘ اور یہ کہ اکابر کو اصاغر کی عیادت کرنی چاہیے اور اہل علم سے مسائل معلوم کرنا چاہیے اور اس حدیث میں یہ دلیل ہے کہ کلالہ وہ ہوتا ہے جس کا نہ والد (ماں باپ) ہو نہ اولاد ‘ کیونکہ اس وقت حضرت جابر کی صرف بہنیں تھیں ‘ نہ والدین تھے نہ اولاد۔ کلالہ کی تعریف میں جہاں یہ کہا ہے کہ اس کا والد نہ ہو اس سے ماں اور باپ دونوں مراد ہیں اور جہاں یہ کہا ہے کہ اس کی اولاد نہ ہو اس سے مراد یہ ہے کہ نہ اس کا بیٹا ہو نہ بیٹی۔ (التفسیر المنیر جز ٦ ص ٥٧)
مناسبت : اس سورت کے شروع میں بھی اللہ تعالیٰ نے اموال اور میراث کے احکام بیان کئے تھے اور اس کے آخر میں بھی میراث کے احکام بیان کیے ہیں ‘ تاکہ سورت کے اول اور آخر میں مناسبت ہو ‘ اور اس سورت کے وسط میں یہود ‘ نصاری اور منافقین کا رد فرمایا ہے اور ان کے شبہات کو زائل فرمایا ہے۔
کلالہ کی وراثت کے چار احوال :
جو شخص کلالہ ہونے کی حالت میں فوت ہو اس آیت میں اس کے بھائیوں اور بہنوں کی وارثت کے چار احوال بیان فرمائے ہیں :
(١) ایک شخص فوت ہو اور اس کی صرف ایک بہن ہو ‘ تو اس کو اس کے ترکہ میں سے نصف ملے گا پھر اگر اس کے عصبات ہیں تو باقی ترکہ ان کو ملے گا ورنہ وہ باقی نصف بھی اسی بہن کو مل جائے گا۔
(٢) ایک عورت فوت ہوجائے اور اس کا صرف ایک بھائی وارث ہو تو اس عورت کا تمام مال اس بھائی کو مل جائے گا ‘ اسی طرح اگر ایک شخص فوت ہوجائے اور اس کا صرف ایک بھائی وارث ہو تو وہ بھی اس کے تمام ترکہ کا وارث ہوگا۔
(٣) کوئی مرد یا عورت فوت ہو اور اس کی صرف دو یا دو سے زائد حقیقی یا علاتی بہنیں ہوں تو ان بہنوں کو دو تہائی ملے گا۔
(٤) کوئی مرد یا عورت فوت ہو اور اس کے وارث صرف بھائی اور بہن ہوں تو ان بہن بھائیوں میں اس کا ترکہ تقسیم کردیا جائے گا بایں طور کہ مرد کو دو حصہ اور عورت کو ایک حصہ دیا جائے گا۔
ایک اشکال کا جواب :
اس کے بعد ارشاد ہے :
اللہ تعالیٰ تمہارے لیے (اپنے احکام) بیان فرماتا ہے کہ تم گمراہ ہوجاؤ۔ بہ ظاہر اس پر اشکال ہے اس کا جواب یہ ہے کہ اس جگہ کراہیت مضاف محذوف ہے اور معنی یہ ہے اللہ تمہارے لیے (احکام) بیان فرماتا ہے تمہاری گمراہی کو ناپسند کرتے ہوئے جیسے قرآن مجید میں ہے وسئل القریۃ (یوسف : ٨٢) دوسرا جواب یہ ہے کہ یہاں حرف نفی محذوف ہے اور معنی ہے اللہ (احکام) بیان فرماتا ہے کہیں تم گمراہ نہ ہوجاؤ جیسے (آیت) ” ان اللہ یمسک السموت والارض ان تزولا ای لئلا تزولا (فاطر : ٤١) میں ہے اور تیسرا جواب یہ ہے کہ اس کا معنی ہے اللہ تمہارے لیے گمراہی کو بیان فرماتا ہے تاکہ تم جان لو کہ یہ گمراہی ہے اور اس سے اجتناب کرو۔
سورت نساء کے اول اور آخر میں مناسب :
اس سورت کے شروع میں فرمایا تھا اے لوگو اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک نفس سے پیدا کیا اور یہ آیت اللہ تعالیٰ کی کمال قدرت پر دلالت کرتی ہے اور اس سورت کے آخر میں فرمایا اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے اور یہ آیت اللہ کے کمال علم پر دلالت کرتی ہے اور علم اور قدرت ہی دو ایسے وصف ہیں جن پر بناء الوہیت ہے ‘ کیونکہ جس کو علم نہ ہو کہ اس کی مخلوق اس کی اطاعت کر رہی ہے یا نہیں وہ خدا نہیں ہوسکتا اور جس کو علم تو وہ لیکن وہ اطاعت کرنے والوں کو جزا دینے پر اور نافرمانی کرنے والوں کو سزا دینے پر قادر نہ ہو وہ بھی خدا نہیں ہوسکتا ‘ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہم السلام) سے خصوصیت کے ساتھ ان کے ذاتی علم اور ذاتی قدرت کی نفی کی ہے ‘ حالانکہ ان کا کوئی وصف بھی ذاتی نہیں ہے۔
اختتامی کلمات اور دعا :
آج ٦ رجب ١٤١٧ ھ۔ ١٨ نومبر ١٩٩٦ ء بروز پیر کو سحر کے مبارک وقت میں اس سورت کی تفسیر ختم ہوگئی ” فالحمد اللہ رب العالمین۔ الہ العلمین “ جس طرح سورة النساء تک آپ نے اس تفسیر کو مکمل کرنے کی توفیق دی اسی طرح اپنے فضل اور کرم سے پورے قرآن کی تفسیر مکمل کرا دینا ‘ مجھے اس تفسیر میں خطاء اور ذلل سے محفوظ رکھنا اور ہدایت پر ثابت قدم رکھنا اور اس تفسیر کو اپنی بارگاہ میں مقبول کرنا اور اس کو تاقیام قیامت باقی اور فیض آفرین رکھنا اور اس کو میرے لیے ذریعہ نجات اور صدقہ جاریہ بنادینا ‘ مجھے اس تفسیر کے ناشر ‘ اس کے مصحح اور اس کے معاونین ‘ قارئین اور محبین کو دنیا اور آخرت کے ہر شر اور ہر بلا سے محفوظ رکھنا اور دنیا اور آخرت میں ہر قسم کی نعمتوں اور سعادتوں سے بہرہ مند کرنا۔ ” امین یا رب العالمین بجاہ حبیبک سیدنا محمد خاتم النبیین وعلی الہ و صحابہ وازواجہ و علمآء ملتہ واولیآء امتہ اجمعین
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء آیت نمبر 176