اَلۡيَوۡمَ اُحِلَّ لَـكُمُ الطَّيِّبٰتُ ؕ وَطَعَامُ الَّذِيۡنَ اُوۡتُوۡا الۡكِتٰبَ حِلٌّ لَّـکُمۡ ۖ وَطَعَامُكُمۡ حِلٌّ لَّهُمۡ وَالۡمُحۡصَنٰتُ مِنَ الۡمُؤۡمِنٰتِ وَالۡمُحۡصَنٰتُ مِنَ الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡـكِتٰبَ مِنۡ قَبۡلِكُمۡ اِذَاۤ اٰتَيۡتُمُوۡهُنَّ اُجُوۡرَهُنَّ مُحۡصِنِيۡنَ غَيۡرَ مُسَافِحِيۡنَ وَلَا مُتَّخِذِىۡۤ اَخۡدَانٍؕ وَمَنۡ يَّكۡفُرۡ بِالۡاِيۡمَانِ فَقَدۡ حَبِطَ عَمَلُهٗ وَهُوَ فِى الۡاٰخِرَةِ مِنَ الۡخٰسِرِيۡنَ ۞- سورۃ نمبر 5 المائدة آیت نمبر 5
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلۡيَوۡمَ اُحِلَّ لَـكُمُ الطَّيِّبٰتُ ؕ وَطَعَامُ الَّذِيۡنَ اُوۡتُوۡا الۡكِتٰبَ حِلٌّ لَّـکُمۡ ۖ وَطَعَامُكُمۡ حِلٌّ لَّهُمۡ وَالۡمُحۡصَنٰتُ مِنَ الۡمُؤۡمِنٰتِ وَالۡمُحۡصَنٰتُ مِنَ الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡـكِتٰبَ مِنۡ قَبۡلِكُمۡ اِذَاۤ اٰتَيۡتُمُوۡهُنَّ اُجُوۡرَهُنَّ مُحۡصِنِيۡنَ غَيۡرَ مُسَافِحِيۡنَ وَلَا مُتَّخِذِىۡۤ اَخۡدَانٍؕ وَمَنۡ يَّكۡفُرۡ بِالۡاِيۡمَانِ فَقَدۡ حَبِطَ عَمَلُهٗ وَهُوَ فِى الۡاٰخِرَةِ مِنَ الۡخٰسِرِيۡنَ ۞
ترجمہ:
آج تمہارے لیے پاک چیزیں حلال کردی گئیں ‘ اور اہل کتاب کا ذبیحہ تمہارے لیے حلال ہے۔ اور تمہارا ذبیحہ ان کے لیے حلال ہے اور آزاد پاک دامن مسلمان عورتیں اور تم سے پہلے اہل کتاب کی آزاد پاک دامن عورتیں (بھی تمہارے لیے حلال ہیں) جب تم ان کے مہر ان کو ادا کردو ‘ دراں حالیکہ تم ان کو نکاح کی قید میں لانے والے ہو نہ علانیہ بدکاری کرنے والے اور نہ خفیہ طریقہ سے آشنا بنانے والے ‘ اور جس نے ایمان (لانے) کے بعد کفر کیا تو بیشک اس کا عمل ضائع ہوگیا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہے۔ ؏
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آج تمہارے لیے پاک چیزیں حلال کردی گئیں ‘ اور اہل کتاب کا ذبیحہ تمہارے لیے حلال ہے۔ اور تمہارا ذبیحہ ان کے لیے حلال ہے اور آزاد پاک دامن مسلمان عورتیں اور تم سے پہلے اہل کتاب کی آزاد پاک دامن عورتیں (بھی تمہارے لیے حلال ہیں) جب تم ان کے مہر ان کو ادا کردو ‘ دراں حالیکہ تم ان کو نکاح کی قید میں لانے والے ہو نہ علانیہ بدکاری کرنے والے اور نہ خفیہ طریقہ سے آشنا بنانے والے ‘ اور جس نے ایمان (لانے) کے بعد کفر کیا تو بیشک اس کا عمل ضائع ہوگیا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہے۔ (المائدہ : ٥)
جن جانوروں کو قرآن اور حدیث میں حرام کیا گیا ہے ‘ ہم ان کا یہاں تفصیل سے ذکر کر رہے ہیں۔ اور ان کے ماسوا جانور حلال ہیں۔
قرآن اور حدیث میں بیان کردہ حرام جانور :
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں خصوصیت کے ساتھ خنزیرکو حرام فرمایا ہے۔ اور چونکہ اسرائیل کے ایک گروہ کو اللہ تعالیٰ نے مسخ کرکے بندر بنادیا تھا ‘ اس سے اشارۃ معلوم ہوا کہ بندر بھی حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
(آیت) ” من لعنہ اللہ وغضب علیہ وجعل منھم القردۃ والخنازیر “۔ (المائدہ : ٦)
ترجمہ : وہ لوگ جن پر اللہ نے لعنت کی اور ان پر غضب فرمایا اور ان میں سے بعض کو بندر اور بعض کو خیزیر بنادیا۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک قاعدہ بیان فرما دیا ہے کہ جو درندے کچلیوں (نوک دار دانتوں) سے پھاڑ کر کھاتے ہیں ‘ جیسے شیر اور بھیڑیا وغیرہ اور جو پرندے اپنے ناخنوں سے شکار کرکے کھاتے ہیں ‘ جیسے باز اور شکرہ وغیرہ ‘ یہ سب حرام ہیں۔
امام مسلم بن حجاج قشیری ٢٦١ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر کچلیوں والے درندے اور ہر ناخنوں (سے شکار کرنے) والے پرندے کو کھانے سے منع فرمایا ہے (صحیح مسلم ‘ ج ٣“ رقم الحدیث :‘ ١٩٣٤‘ صحیح البخاری ‘ ج ٦“ رقم الحدیث :‘ ٥٥٣٠‘ سنن ترمذی ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ١٤٨٣‘ سنن ابوداؤد ‘ ج ٢“ رقم الحدیث :‘ ٣٨٠٣‘ سنن نسائی ‘ ج ٧ رقم الحدیث : ٤٣٣٧‘ موطا امام مالک ‘ ١٠٧٥‘ سنن کبری للبیہقی ‘ ج ٩‘ ص ٣١٥‘ مصنف عبدالرزاق ‘ ٨٧٠٤‘ المعجم الکبیر ‘ ج ٢٢‘ رقم الحدیث :‘ ٥٦٦۔ ٥٤٩‘ مسند احمد ‘ ج ٦‘ رقم الحدیث :‘ ١٧٧٥٠) شیخ احمد محمد شاکر نے لکھا ہے کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ (مسند احمد ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ص ٣١٤١‘ ص ٣٥٨‘ مطبوعہ دارالحدیث ‘ قاہرہ ‘ ١٤١٦ ھ)
پھاڑنے والے درندوں سے حملہ آور جنگلی جانور مراد ہیں ‘ لہذا اس حدیث سے ہاتھی ‘ لومڑی اور بجو بھی حرام ہیں۔ نیز ہاتھی کی کچلیاں بھی ہوتی ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس برتن کو دھونے کا حکم دیا ہے ‘ جس میں کتا منہ ڈال دے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا لعاب نجس ہے۔ اور لعاب گوشت سے پیدا ہوتا ہے اس لیے اس کا گوشت بھی نجس ہوا اور ہر نجس حرام ہوتا ہے۔ اس سے واضح ہوا کہ کتے کا کھانا بھی حرام ہے۔
امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تم میں سے کسی شخص کے برتن میں کتا منہ ڈال تو اس کو سات مرتبہ دھوؤ۔ (صحیح البخاری ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ١٧٢‘ صحیح مسلم ‘ رقم الحدیث :‘ ٢٩١‘ سنن ابوداؤد ‘ ج ١ رقم الحدیث ‘ ٧١‘ سنن ترمذی ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ٩١‘ سنن کبری للبیہقی ‘ ج ١ ص ٢٤٠‘ قدیم ‘ مسند احمد ‘ ج ١“ رقم الحدیث :‘ ٨١٣٣)
احمد محمد شاکر نے لکھا ہے ‘ یہ حدیث صحیح۔ مطبوعہ دارالحدیث ‘ القاھرہ ١٤١٦ ھ)
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کتے کی بیع کو حرام فرمایا ہے ‘ اس سے بھی واضح ہوا کہ کتا حلال نہیں ہے۔
امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابو مسعود انصاری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کتے کی قیمت ‘ فاحشہ کی اجرت اور کاہن کی شیرینی سے منع فرمایا (صحیح البخاری ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ٢٢٣٧‘ صحیح مسلم ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ١٥٦٨‘ سنن ابو داؤد ‘ ج ٢‘ رقم الحدیث :‘ ٣٤٢٨‘ سنن ترمذی ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ١١٣٦‘ سنن نسائی ‘ رقم الحدیث :‘ ج ٧‘ رقم الحدیث :‘ ٤٣٠٣‘ سنن ابن ماجہ ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ٣١٥٩)
نیزامام احمد بن شعیب نسائی متوفی ٣٠٣ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کتے کی قیمت ‘ کاہن کی شیرینی اور فاحشہ کی اجرت حلال نہیں ہے۔ (سنن نسائی ج ٧‘ رقم الحدیث :‘ ٤٣٠٤‘ سنن ابوداؤد ‘ ج ٢‘ رقم الحدیث :‘ ٣٤٨٤)
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سیاہ کتے کو قتل کرنے کا حکم دیا اور شکاری کتے ‘ کھیتوں اور مویشیوں کی حفاظت کے کتوں کی سوا اور کسی کتے کو رکھنے کی اجازت نہیں دی ‘ اگر کتے کو کھانا حلال ہوتا تو مطلقاکتے کو رکھنے کو اجازت ہوتی۔
حضرت عبداللہ بن مغفل (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر کتے اللہ کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق نہ ہوتے تو میں ان (سب) کو قتل کرنے کا حکم دیتا۔ پس تم ان میں سے کالے سیاہ کتے کو قتل کردو ‘ اور جن لوگوں نے کھیت ‘ شکار اور مویشیوں کے بغیرکتا رکھا ‘ ان کے اجر میں سے ہر روز ایک قیراط کم ہوتا رہے گا۔ (سنن نسائی ‘ ج ٧‘ رقم الحدیث :‘ ٤٢٩١‘ سنن ترمذی ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ١٤٩٢، ١٤٩١‘ صحیح مسلم ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث : ١٥٧٤‘ سنن ابو داؤد ‘ رقم الحدیث :‘ ٢٨٤٥‘ سنن ابن ماجہ ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ٣٢٠٥‘ موطا امام مالک ‘ ١٨٠٨‘ مسند احمد ‘ ج ٢‘ رقم الحدیث :‘ ٤٤٧٩‘ صحیح البخاری ‘ ج ٦‘ رقم الحدیث :‘ ٥٤٨٠)
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے : جس گھر میں کتا ہو اس میں فرشتے داخل نہیں ہوتے۔ اگر کتے کا کھاناحلال ہوتا تو فرشتے اس سے نفرت نہ کرتے۔
امام مسلم بن حجاج قشیری ٢٦١ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ام المومنین میمونہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ ایک دن صبح کے وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بہت پریشان تھے۔ حضرت میمونہ نے کہا ‘ آج صبح سے میں آپ کو بہت مغموم دیکھ رہی ہوں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھ سے جبرائیل نے رات کو ملاقات کا وعدہ کیا تھا ‘ وہ نہیں آئے۔ بخدا انہوں نے مجھ سے کبھی وعدہ خلافی نہیں کی ‘ پھر سارا دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہی کیفیت رہی ‘ پھر رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک کتے کے پلے کا خیال آیا جو ہمارے پردے کے پیچھے تھا ‘ آپ نے اس کو گھر سے نکالنے کا حکم دیا تو نکال دیا گیا ‘ پھر آپ نے پانی سے اس جگہ کو دھویا جہاں کتا تھا ‘ جب شام ہوئی تو جبرائیل (علیہ السلام) نے آپ سے ملاقات کی۔ آپ نے ان سے کہا ‘ تم نے گزشتہ رات مجھ سے ملاقات کا وعدہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا ‘ ہاں لیکن ہم اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا یاتصویر ہو۔ پھر اس دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کتوں کو قتل کرنے کا حکم دیا ‘ حتی کہ چھوٹے باغ (کی حفاظت) کے کتے کو بھی قتل کرنے کا حکم دیا ‘ حتی کہ چھوٹے باغ (کی حفاظت) کے کتے کو بھی قتل کرنے کا حکم دیا اور بڑے باغ کی حفاظت کے کتے کو چھوڑ دیا۔ (صحیح مسلم ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ٣١٠٥‘ سنن ابو داؤد ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ٤١٥٧‘ سنن ترمذی ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث :‘ ٢٨١٥‘ مسنداحمد ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث : ١٠١٩٧‘ سنن کبری للبیہقی ‘ ج ٧‘ ص ٢٧٠‘ قدیم)
عبارت النص کے ساتھ آپ کے نے کتا کھانے کو حرام نہیں فرمایا ‘ لیکن ان احادیث سے دلالت النص کے ساتھ کتا کھانے کی حرمت ثابت ہے۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ کتا کھانے کی حرمت حدیث سے ثابت نہیں ہے ‘ اس لیے ہم نے اس مسئلہ میں اس قدر تفصیل کی ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پالتوں گدھوں کے کھانے کو بھی حرام فرما دیا۔
امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت علی بن ابی طالب (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنگ خیبر کے دن عورتوں سے متعہ کرنے کو اور پالتو گدھوں کے کھانے کو حرام فرماا دیا۔ (یہ حدیث حضرت جابر (رض) اور حضرت مقدام بن معدی کرب (رض) سے بھی مروی ہے)
(صحیح البخاری ج ٥‘ رقم الحدیث :‘ ٤٢١٦‘ صحیح مسلم ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ١٤٠٧‘ سنن ابو داؤد ‘ ج ٢‘ رقم الحدیث :‘ ٣٨٠٨‘ سنن دارقطنی ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث :‘ ٤٧٢٣‘ سنن کبری ‘ للبیہقی ‘ الجدیدہ ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث :‘ ١٩٩٩٥)
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چوہے ‘ بچھو ‘ چیل ‘ کوے ‘ اور باؤلے کتے کے متعلق فرمایا : ان کو حرم میں بھی قتل کردیا جائے گا اور ان کو فاسق فرمایا۔
امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پانچ (جانور) فاسق ہیں ‘ جن کو حرم میں بھی قتل کردیا جائے۔ چوہا ‘ بچھو ‘ چیل ‘ کوا اور باؤلاکتا۔ (بعض روایات میں بچھو کی جگہ سانپ کا ذکر ہے) (صحیح البخاری ج ٤‘ رقم الحدیث :‘ ٣٣١٤‘ صحیح مسلم ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ١١٩٨‘ سنن نسائی ‘ ج ٥‘ رقم الحدیث :‘ ٢٨٢٩‘ سنن ابوداؤد ج ٢‘ رقم الحدیث :‘ ١٨٤٨‘ سنن ترمذی ‘ ج ٢‘ رقم الحدیث :‘ ٨٣٨ سنن ابن ماجہ ج ٢‘ رقم الحدیث :‘ ٣٠٨٧‘ مسند احمد ج ٩‘ رقم الحدیث :‘ ٢٤٧١٥)
امام یزید ابن ماجہ متوفی ٢٧٣ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ کوا کون شخص کھائے گا ‘ حالانکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو فاسق فرمایا ہے۔ بخدا وہ پاک جانوروں میں سے نہیں ہے۔ (سنن ابن ماجہ ج ٢ رقم الحدیث : ٣٢٤٨)
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چھپکلی کو بھی فاسق فرمایا اور اس کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ چھپکلی کو بھی کھانا حرام ہے۔
امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چھپکلی کو فویسق فرمایا۔ ام شریک (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چھپکلیوں کو قتل کرنے کا حکم دیا۔ (صحیح البخاری ج ٤‘ رقم الحدیث :‘ ٣٣٠٦‘ ٣٣٠٧‘ صحیح مسلم ج ٤‘ رقم الحدیث :‘ ٢٢٣٩)
امام احمد بن حنبل متوفی ٢٤١ ھ روایت کرتے ہیں :
ابو الاحوص جثمی بیان کرتے ہیں کہ ایک دن حضرت ابن مسعود خطبہ دے رہے تھے۔ اسی اثناء میں دیوار پر ایک سانپ گزر رہا تھا ‘ حضرت ابن مسعود (رض) نے اپنا خطبہ منقطع کیا اور اس کو لاٹھی سے مار کر قتل کردیا۔ پھر کہا ‘ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جس شخص نے کسی سانپ کو قتل کیا ‘ اس نے گویا اس مشرک کو قتل کیا جس کا خون مباح تھا۔ احمد محمد شاکر نے لکھا ہے کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ (مسند احمد بشرح احمد شاکر ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث : ٣٩٩٥‘ مطبوعہ قاہرہ ‘ ١٤١٦ ھ)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ چوہا ‘ سانپ ‘ چھپکلی اور بچھو حرام ہیں۔ فقہاء نے ان پر قیاس کرکے باقی حشرات الارض کو بھی حرام قرار دیا ہے۔ نیز قرآن مجید میں ہے۔
(آیت) ” ویحل لھم الطیبت ویحرم علیہم الخبئث “۔ (الاعراف : ١٥٧)
ترجمہ : اور وہ ان کے لیے پاک اور مرغوب چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور ناپاک اور نفرت انگیز چیزوں کو ان پر حرام کرتے ہیں۔
طبیعت سلیمہ حشرات الارض سے نفرت کرتی ہے اور گھن کھاتی ہے۔ اس لیے تمام حشرات الارض حرام ہیں۔
امام ابوبکراحمد بن حسین بیہقی متوفی ٤٥٨‘ ھ روایت کرتے ہیں :
ہم نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وہ احادیث روایت کی ہیں جو سانپ اور بچھو کی تحریم پر دلالت کرتی ہیں۔ اسی طرح جو جانور ان کے حکم میں ہیں ‘ جن کو عرب خبیث قرار دیتے ہیں اور ان کو بلا اضطرار نہیں کھاتے۔ (سنن الکبری ‘ ج ١٤‘ ص ٣١١‘ الجدیدہ ‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت ‘ ١٤١٦ ھ)
نیز نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گوہ کو حرام فرمایا ہے اور گوہ حشرات الارض میں سے ہے۔
امام ابو داؤد سلیمان بن اشعث متوفی ٢٧٥ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت عبدالرحمن بن شبل (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گوہ کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے۔ (سنن ابودؤاد ج ٢‘ رقم الحدیث : ٣٧٩٦‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت ‘ ١٤١٦ ھ)
بجو ‘ کچھوا اور بھڑ بھی حشرات الارض میں سے ہیں ‘ اس لیے وہ بھی حرام ہیں۔ امام شافعی بجو اور گوہ کو حلال کہتے ہیں ‘ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خچر کو حرام فرمایا ہے۔
امام ابو داؤد سلیمان بن اشعث متوفی ٢٧٥ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت خالد بن ولید (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گھوڑوں ‘ خچروں اور پالتوں گدھوں کے گوشت کو کھانے سے منع فرمایا ہے اور حیوۃ نے یہ اضافہ کیا ہر کچلیوں والے درندے سے منع فرمایا ہے۔ (سنن ابوداؤد ج ٢‘ رقم الحدیث : ٣٧٩٠‘ مطبوعہ بیروت)
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لومڑی ‘ بھیڑیے اور بجو کے متعلق خصوصیت کے ساتھ ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا۔
امام ابو عبد اللہ محمد بن یزید ابن ماجہ متوفی ٢٧٣ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت خزیمہ بن جزء (رض) روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا ‘ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں آپ سے جنگلی جانوروں کے متعلق پوچھنے کے لیے آیا ہوں ‘ آپ لومڑی کے متعلق کیا فرماتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا لومڑی کو کون کھائے گا ؟ میں نے پوچھا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ بھیڑیے کے متعلق کیا فرماتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا جس میں کوئی خیر ہوگی ‘ ہو بھیڑیے کو کھائے گا ؟ (سنن ابن ماجہ ج ٢‘ رقم الحدیث :‘ ٣٥‘ ٣٣‘ سنن ترمذی ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ١٧٩٩‘ سنن کبری للبیہقی ‘ ج ١٤‘ رقم الحدیث :‘ ١٩٩٣١‘ مختصرالجدیدہ)
امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت خزیمہ بن جزء (رض) روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بجو کھانے کے متعلق سوال کیا آپ نے فرمایا کیا کوئی شخص بجو کھائے گا ؟ پھر میں نے بھیڑیے کے متعلق سوال کیا۔ آپ نے فرمایا کیا جس شخص میں کوئی خیر ہو وہ بھیڑیا کھائے گا ؟ (سنن ترمذی ‘ ج ٣ رقم الحدیث : ١٧٩٩‘ سنن ابن ماجہ ‘ ج ٢ رقم الحدیث : ٣٢٣٧)
اس حدیث کی سند ضعیف ہے۔ اسماعیل بن مسلم پر بعض محدثین نے جرح کی ہے ‘ لیکن کسی حدیث سے مجتہد کا استدلال کرنا بھی اس کی تقویت کا سبب ہوتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ کچلیوں اور ناخنوں سے پھاڑنے ‘ چیرنے والے درندے اور پرندے ‘ خچر اور پالتو گدھے ‘ کتا اور خنزیر سانپ ‘ بچھو ‘ بجو ‘ گوہ اور دیگر حشرات الارض کو کھانا قرآن اور حدیث سے حرام ہے۔
سمندری جانوروں کے متعلق تفصیل یہ ہے کہ امام شافعی اور امام مالک کے نزدیک تمام مردار سمندری جانور حلال ہیں ‘ خواہ طبعا مرے ہوں یا شکار سے۔ امام احمد کے نزدیک جو سمندری جانور خشکی میں رہتے ہیں ‘ وہ بغیر ذبح کے حلال نہیں جیسے کچھوا اور جن سمندری جانوروں میں بہنے والا خون نہیں ہے۔ وہ بغیر ذبح کے حلال ہیں اور جن میں بہنے والا خون ہو ‘ ان کو ذبح کرنا ضروری ہے۔ ائمہ ثلاثہ کی دلیل یہ آیت ہے۔
(آیت) ” احل لکم صید البحر وطعامہ متاعالکم وللسیارۃ “۔ (المائدہ : ٩٦)
ترجمہ : تمہارے اور مسافروں کے فائدہ کے لیے سمندر کا شکار اور اس کا طعام حلال کردیا گیا ہے۔
فقہاء احناف کے نزدیک اس سے مراد سمندر کا شکار کرنا ہے اور حرام جانوروں کا بھی دیگر فائدوں کے لیے شکار کرنا جائز ہے اس سے مراد شکار کھانا نہیں ہے اور طعام سے مراد مچھلی ہے۔ ائمہ ثلاثہ اس حدیث سے بھی استدلال کرتے ہیں۔
امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے سوال کیا ‘ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم سمندر میں سفر کرتے ہیں اور ہمارے پاس پانی تھوڑا سا ہوتا ہے ‘ اگر ہم اس پانی سے وضو کریں تو ہم پیاسے رہ جائیں گے۔ کیا ہم سمندر کے پانی سے وضو کرلیا کریں ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سمندر کا پانی پاک کرنے والا ہے اور اس کا مردار حلال ہے۔ (فقہاء احناف اس مردار کو مچھلی پر محمول کرتے ہیں) (سنن ترمذی ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ٦٩‘ سنن ابوداؤد ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ٨٣‘ سنن نسائی ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ٥٠‘ سنن ابن ماجہ ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ٣٨٦‘ الموطاء ‘ رقم الحدیث :‘ ٤٣‘ مسند احمد ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ٧٢٣٧‘ المستدرک ‘ ج ١ ص ١٤٠)
فقہاء احناف اس حدیث میں بھی مردار کو مچھلی پر محمول کرتے ہیں اور اس پر قرینہ یہ حدیث ہے۔
امام ابو عبد اللہ محمد بن یزید ابن ماجہ متوفی ٢٧٣ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہمارے لیے دو مردار حلال کیے گئے ہیں۔ مچھلی اور ٹڈی۔ (سنن ابن ماجہ ‘ ج ٢‘ رقم الحدیث : ٣٢١٨‘ مسند احمد ج ٢‘ رقم الحدیث : ٥٧٢٧)
امام ابوحنیفہ کے نزدیک مچھلی کے سوا تمام سمندری جانور حرام ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ مچھلی کے سوا تمام سمندری جانور خبیث ہیں ‘ یعنی غیر مرغوب ہیں اور قرآن مجید میں ہے :
(آیت) ” ویحرم علیھم الخبائث “۔ (الاعراف : ١٥٧)
ترجمہ : اور ناپاک اور نفرت انگیز چیزوں کو ان پر حرام کرتے ہیں۔
جو مچھلی طبعی موت سے مر کر سطح آب پر آجائے ‘ ائمہ ثلاثہ کے نزدیک وہ بھی حلال ہے اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک وہ حرام ہے ‘ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ عنہ کی دلیل یہ حدیث ہے :
امام ابو داؤد سلیمان بن اشعث متوفی ٢٧٥ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس چیز کو سمندر پھینک دے یا جس سے سمندر کا پانی ہٹ جائے ‘ اس کو کھالو ‘ اور جو پانی میں مر کر اوپر آجائے ‘ سو تم اس کو نہ کھاؤ (سنن ابو داؤد ‘ ج ٢ رقم الحدیث : ٣٨١٥‘ سنن ابن ماجہ ج ٢‘ رقم الحدیث : ٣٢٤٧)
محدثین نے کہا ہے اس حدیث کی سند میں یحییٰ بن سلیم الطائفی ہے ‘ اور یہ ضعیف راوی ہے۔ لیکن امام بیہقی نے اس کو دیگر متعدد اسانید کے ساتھ بھی روایت کیا ہے۔ (سنن کبری ‘ ج ١٤‘ ص ١٦١۔ ١٥٩‘ الجدیدہ) علاوہ ازیں جب حلت اور حرمت میں تعارض ہو تو حرمت کو ترجیح دی جاتی ہے۔ لہذا حلت کی روایات پر یہ حدیث راجح ہے۔
خشکی اور سمندری حرام جانوروں کی یہ تفصیل ہے ‘ ان کے علاوہ باقی تمام جانور حلال ہیں۔ بشرطیکہ ان کو اللہ کے نام پر ذبح کیا جائے۔ اس کی تفصیل (المائدہ : ٣) میں گزر چکی ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور اہل کتاب کا طعام تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا طعام ان کے لیے حلال ہے۔
اہل کتاب کی تعریف اور ان کے ذبیحہ کی تحقیق :
جمہور فقہاء اسلام کے نزدیک اس آیت میں طعام سے مراد ذبیحہ ہے۔ غلہ پھل اور میوہ جات وغیرہ مراد نہیں ہیں ‘ کیونکہ ذبیحہ وہ ہے جس کے طعام ہونے میں انسان کا دخل ہے۔ باقی کھانے پینے کی چیزیں تمام لوگوں کے لیے مباح ہیں ‘ اس لیے ان کی اہل کتاب کے ساتھ تخصیص کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ عنقریب ہم بعض آثار نقل کریں گے جن سے یہ واضح ہوجائے گا کہ یہاں طعام سے مراد ذبائح ہیں۔
اہل کتاب سے مراد یہود اور نصاری ہیں ‘ جن کے انبیاء (علیہم السلام) پر اللہ تعالیٰ نے تورات اور انجیل کو نازل فرمایا۔ کیونکہ زمانہ نزول قرآن میں یہودی حضرت عزیر کو اور عیسائی حضرت عیسیٰ کو خدا مانتے تھے ‘ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو اہل کتاب فرمایا :
(آیت) ” وقالت الیھود عزیرابن اللہ وقالت النصری المسیح ابن اللہ “۔ (التوبہ : ٣٠)
اور یہود نے کہا کہ عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصاری نے کہا کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے۔
امام ابوجعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ روایت کرتے ہیں :
ابن شہاب سے نصاری عرب کے ذبیحہ کے متعلق سوال کیا گیا ‘ تو انہوں نے کہا ‘ ان کا ذبیحہ کھایا جائے گا ‘ کیونکہ وہ دین میں اہل کتاب ہیں اور ذبح کے وقت اللہ کا نام لیتے ہیں۔ (جامع البیان ‘ جز ٦ ص ١٣٦‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)
حضرت علی (رض) نے نصاری بنو تغلب کے ذبیحہ کے متعلق فرمایا : ” وہ حلال نہیں ہے “۔
عبیدہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے فرمایا نصاری بنو تغلب کے ذبیحہ کو نہ کھاؤ‘ کیونکہ وہ شراب پینے کے سوا نصرانیت کی اور کسی چیز پر عمل نہیں کرتے۔ (جامع البیان ‘ جز ٦ ص ١٣٧‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)
لیکن اکثر فقہاء تابعین مثلا حسن بصری ‘ عکرمہ قتادہ ‘ سعید بن المسیب ھعبی اور ابن شہاب وغیرہ بنو تغلب کے ذبیحہ کو کھانے اور ان کی عورتوں سے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ (جامع البیان ‘ جز ٦ ص ١٣٦‘ طبع بیروت)
علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی ١٢٥٢ ھ لکھتے ہیں :
علامہ زیلعی نے کہا ہے کہ جو شخص آسمانی دین کا معتقد ہو اور اس کے پاس کتاب ہو ‘ جیسے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے صحائف یا حضرت شیث کے یا حضرت داؤد کی زبور ہو ‘ وہ اہل کتاب میں سے ہے اور ان کے ذبیحہ کو کھانا جائز ہے۔
مستصفی میں مذکور ہے کہ ان کے ذبیحہ کے حلال ہونے میں یہ قید ہے کہ وہ مسیح کی الوہیت کا عقیدہ نہ رکھتے ہوں اور اسی کے موافق شیخ الاسلام کی مبسوط میں مذکور ہے کہ اگر وہ مسیح کی الوہیت یا عزیر کی الوہیت کا عقیدہ رکھیں تو واجب ہے کہ ان کا ذبیحہ نہ کھایا جائے اور نہ ان کی عورتوں سے نکاح کیا جائے۔ ایک قول یہ ہے کہ اسی پر فتوی ہے لیکن دلیل کے اعتبار سے ان کا ذبیحہ کھانا اور ان کی عورتوں سے نکاح کرنا جائز ہے۔ البحرالرائق میں مذکور ہے کہ مذہب یہ ہے کہ ان کا ذبیحہ اور ان کی عورتوں سے نکاح کرنا مطلقا جائز ہے۔ کیونکہ شمس الائمہ سرخسی نے مبسوط میں ذکر کیا ہے کہ نصرانی کا ذبیحہ مطلقا حلال ہے ‘ خواہ وہ تین میں کے تیسرے کا قول کریں یا نہیں ‘ کیونکہ مجید نے ان کے طعام کھانے اور ان کی عورتوں سے نکاح کرنے کی مطلقا اجازت دی ہے۔ علامہ ابن ہمام نے بھی اسی قول کو راجح قرار دیا ہے اور یہ دلیل کا تقاضا ہے۔ کیونکہ اہل کتاب پر مشرکین کا اطلاق نہیں کیا جاتا ‘ اور مشرک اس کو کہتے ہیں جو غیر اللہ کی عبادت کرے اور کسی نبی کی اتباع کا مدعی نہ ہو۔ (رد المختار ج ٢ ص ‘ ٢٨٩ مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی ‘ بیروت ١٤٠٧ ھ)
نیز علامہ ابن ہمام نے لکھا ہے کہ اولی یہ ہے کہ بلاضرورت ان کا ذبیحہ کھائے نہ ان کی عورتوں سے نکاح کرے۔ (رد المختار ج ٥ ص ‘ ١٨٨ مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی ‘ بیروت ١٤٠٧ ھ)
اگر کوئی شخص کسی عیسائی سے ذبح کے وقت یہ سنے کہ وہ مسیح کا نام لے کر ذبح کر رہا ہے ‘ تو اس کا ذبیحہ کھانا جائز نہیں ہے ‘ اور اگر وہ اللہ کا نام لے کر ذبح کرے اور اس سے ارادہ مسیح کا کرے تو فقہاء نے کہا ہے کہ اس کا ذبیحہ کھالیا جائے گا۔ ہاں اگر وہ صراحتا کہے اللہ کے نام سے جو تین میں کا تیسرا ہے ‘ تو پھر اس کا ذبیحہ کھانا جائز نہیں ہے۔ (ہندیہ) اور اس سے یہ معلوم ہوا کہ جب عیسائی ذبح کرکے لے آئے تو اس کا ذبیحہ کھالیا جائے گا۔ (عنایہ) جیسا کہ اس نے صرف اللہ کا نام لیکر سامنے ذبح کیا ہو۔ (رد المختار ج ٥ ص ١٨٨‘ مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی ‘ بیروت ١٤٠٧ ھ)
علامحمد بن علی بن محمد حصکفی حنفی متوفی ١٠٨٨ ھ لکھتے ہیں :
غیر اہل کتاب کا ذبیحہ جائز نہیں ہے۔ خواہ وہ بت پرست ہو ‘ مجوسی ہو ‘ مرتد ہو ‘ جنی ہو یا جبری ہو۔ اگر یہودی یا عیسائی ‘ مجوسی ہوجائے تو اس کا ذبیحہ جائز نہیں ہوگا اور اگر مجوسی یہودی یا عیسائی ہو تو اس کا ذبیحہ جائز ہوجائے گا۔ (رد المختار ج ٥ ص ١٨٩‘ مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی ‘ بیروت ١٤٠٧ ھ)
اہل کتاب مردوں سے مسلمان عورتوں کے نکاح ناجائز ہونے کی وجہ :
اللہ تعالیٰ نے ذبیحہ کے بیان میں جانبین سے حکم فرمایا کہ اہل کتاب کا ذبیحہ تمہارے لیے حلال ہے ‘ اور تمہارا ذبیحہ ان کے لیے حلال ہے ‘ اور نکاح کے متعلق فرمایا اور اہل کتاب کی عورتیں تمہارے لیے حلال ہیں ‘ یہاں یہ نہیں فرمایا کہ اور تمہاری عورتیں ان کے لیے حلال ہیں۔ سو نکاح میں صرف ایک جانب سے حلت ہے اور وجہ فرق ظاہر ہے ‘ کیونکہ مسلمانوں اور اہل کتاب میں دونوں طرف سے طعام کا حلال ہونا کسی شرعی خرابی کو مستلزم نہیں ہے اور اگر نکاح میں بھی دونوں جانب سے جواز ہوتا اور مسلمان عورتوں کا اہل کتاب سے نکاح جائز ہوتا اور شوہر بیوی پر حاکم ہوتا تو مسلمان عورت پر کافر مرد کا غلبہ ہوتا اور یہ شرعا ممنوع ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
(آیت) ” ولن یجعل اللہ للکافرین علی المؤمنین سبیلا “۔ (النساء : ١٤١)
اور اللہ کافروں کے لیے مسلمانوں کو مغلوب کرنے کا کوئی راستہ ہرگز نہیں بنائے گا۔
دیگر کفار کے برعکس اہل کتاب کے ذبیحہ کے حلال ہونے کی وجہ :
دیگر کفار کے برعکس صرف اہل کتاب کے ذبیحہ کو اسلام میں حلال کیا گیا ہے۔ اس تخصیص کی وجہ یہ ہے کہ اسلام اور اہل کتاب کے دین میں متعدد امور مشترک ہیں ‘ یہ دونوں آسمانی مذہب ہیں۔ اللہ تعالیٰ ‘ فرشتے انبیاء (علیہم السلام) ‘ آسمانی کتابیں قیامت ‘ مرنے کے بعد اٹھنا ‘ جزا ‘ سزا اور جنت و دوزخ کے دونوں قائل ہیں۔ اس کے علاوہ جانور کی حلت اور حرمت میں بھی ان میں کئی امور مشترک ہیں۔ اسلام میں مردار جانور ‘ جس کا گلا گھونٹا گیا ہو ‘ جس کو درندے نے پھاڑا ہو ‘ جو بتوں کے لیے ذبح کیا گیا ہو اور خون اور خنزیر حرام ہیں اور موجودہ چھپی ہوئی کتاب مقدس (بائبل) میں بھی ان کی حرمت بیان کی ہے۔ جو جانور خود بخود مرگیا ہو اور جس کو درندوں نے پھاڑا ہو ‘ ان کی چربی اور کام میں لاؤ‘ پر اسے تم کسی حال میں نہ کھانا (پرانا عہد نامہ ‘ احبار باب : ٧‘ آیت ٢٤‘ مطبوعہ بائبل سوسائٹی ‘ لاہور)
اور سور کو کیونکہ اس کے پاؤں الگ اور چرے ہوئے ہیں ‘ پر وہ جگالی نہیں کرتا ‘ وہ بھی تمہارے لیے ناپاک ہے ‘ تم ان کا گوشت نہ کھانا۔ (پرانا عہد نامہ ‘ احبار باب : ١١ آیت ٩۔ ٧‘ مطبوعہ بائبل سوسائٹی ‘ لاہور)
مگر غیر قوموں میں سے جو ایمان لائے ‘ انکی بابت ہم نے یہ فیصلہ کر کے لکھا تھا کہ وہ صرف بتوں کی قربانی کے گوشت سے اور لہو اور گلا گھونٹے ہوئے جانوروں اور حرام کاری سے اپنے آپ کو بچائے رکھیں۔ (نیا عہد نامہ ‘ احبار باب : ٢١ آیت ٢٥‘ مطبوعہ بائبل سوسائٹی ‘ لاہور)
اہل کتاب عورتوں سے مسلمان مردوں کے نکاح حلال ہونے کی وجہ :
اس تخصیص کی بھی یہ وجہ ہے کہ اسلام اور اہل کتاب کے دین میں بنیادی امور مشترک ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو ‘ فرشتوں کو ‘ آسمانی کتابوں کو ‘ انبیاء (علیہم السلام) کو ‘ مرنے کے بعد اٹھنے کو ‘ جزا و سزا کو اور جنت و دوزخ کو یہ سب مانتے ہیں۔ اس کے علاوہ جن رشتوں سے اسلام میں نکاح حرام ہے ‘ اھل کتاب کے نزدیک بھی ان سے نکاح حرام ہے۔ موجودہ چھپی ہوئی کتاب مقدس میں لکھا ہوا ہے۔
تو اپنی ماں کے بدن کو جو تیرے باپ کا بدن ہے ‘ بےپردہ نہ کرنا کیونکہ وہ تیری ماں ہے ‘ تو اس کے بدن کو بےپردہ نہ کرنا، تو اپنے باپ کی بیوی کے بدن کو بےپردہ نہ کرنا کیونکہ وہ تیرے باپ کا بدن ہے۔ تو اپنی بہن کے بدن کو چاہے وہ تیرے باپ کی بیٹی ہو ‘ چاہے تیری ماں کی اور خواہ وہ گھر میں پیدا ہوئی ہو ‘ خواہ اور کہیں ‘ بےپردہ نہ کرنا۔ تو اپنی پوتی یا نواسی کے بدن کو بےپردہ نہ کرنا کیونکہ ان کا بدن تو تیرا ہی بدن ہے۔ تو اپنی پھوپھی کے بدن کو بےپردہ نہ کرنا ‘ کیونکہ وہ تیرے باپ کی قریبی رشتہ دار ہے۔ تو اپنی خالہ کے بدن کو بےپردہ نہ کرنا ‘ کیونکہ وہ تیری ماں کی قریبی رشتہ دار ہے۔ تو اپنے باپ کے بھائی کے بدن کو بےپردہ نہ کرنا ‘ یعنی اس کی بیوی کے پاس نہ جانا۔ وہ تیری چچی ہے۔ تو اپنی بہو کے بدن کو بےپردہ نہ کرنا ‘ کیونکہ وہ تیرے بیٹے کی بیوی ہے ‘ سو تو اس کے بدن کو بےپردہ نہ کرنا ‘۔ تو اپنی بھاوج کے بدن کو بےپردہ نہ کرنا ‘ اور نہ تو اس عورت کی پوتی یا نواسی سے بیاہ کرکے ان میں سے کسی کے بدن کو بےپردہ نہ کرنا ‘ کیونکہ وہ دونوں اس عورت کی قربیی رشتہ دار ہیں۔ یہ بڑی خباثت ہے۔ تو اپنی سالی سے بیاہ کرکے اسے اپنی بیوی کی سوکن نہ بنانا کہ دوسرے کے جیتے جی اس کے بدن کو بھی بےپردہ کرے۔ اور تو عورت کے پاس جب تک وہ حیض کے سبب ناپاک ہے اس کے بدن کو بےپردہ کرنے کے لیے نہ جانا۔ (پرانا عہد نامہ ‘ احبار باب : ١٨ آیت ١٩۔ ٧‘ مطبوعہ بائبل سوسائٹی ‘ لاہور)
آزاد اور پاک دامن عورتوں کی تخصیص کی وجہ :
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور آزاد پاک دامن مسلمان عورتیں اور تم سے پہلے ایک کتاب کی آزاد پاک دامن عورتیں (بھی تمہارے لیے حلال ہیں)
اس آیت کا معنی یہ ہے اے مسلمانو ! تمہارے لیے آزاد مسلمان عورتیں اور یہودیوں اور عیسائیوں کی عورتیں خواہ ذمی ہوں یا حربی ہوں ‘ حلال کردی گئی ہیں۔ جب تم ان کے مہر ادا کردو ‘ مہر کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ مسلمان باندیوں سے نکاح کرنے کی بہ نسبت آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کرنا اولی اور راجح ہے اور اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ مسلمان باندیوں سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے۔
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے درآنحالیکہ تم ان کو نکاح کی قید میں لانے والے ہو ‘ یہ اعلانیہ بدکاری کرنے والے اور نہ خفیہ طریقہ سے آشنا بنانے والے اور جس نے ایمان (لانے) سے انکار کیا ‘ تو بیشک اس کا عمل ضائع ہوگیا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہے۔ (المائدہ : ٥)
اس کا معنی یہ ہے کہ تمہارے لیے مسلمان آزاد عورتوں سے نکاح حلال کیا گیا ہے جبکہ تم آزاد عورتوں سے نکاح کرکے اپنے آپ کو زنا سے بچاؤ نہ ظاہرا بدکاری کرو اور نہ خفیہ طریقہ سے بدکاری کرو۔ یعنی صحیح اور قانونی طریقہ سے خواہش نفس پوری کرو اور اعلانیہ اور خفیہ طریقہ سے بدکاری سے اجتناب کرو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے وعید فرمائی کہ اگر کسی شخص نے ان احکام شرعیہ کی جائز سمجھ کر مخالفت کی ‘ تو وہ کافر ہوجائے گا۔ دنیا میں اس کے عمل ضائع ہوجائیں گے اور آخرت میں وہ عذاب کا مستحق ہوگا ‘ اس آیت میں ایمان لانے کے بعد کفر کرنے سے یہی مراد ہے اور اس میں یہ تصریح ہے کہ ارتداد سے تمام اعمال ضائع ہوجاتے ہیں۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 5 المائدة آیت نمبر 5