أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاذْکُرُوْ انِعْمَةَ اللهِ عَلَیْکُمْ وَمِیْثَاقَهُ الَّذِیْ وَاثَقَکُمْ بِهٖ ۙ اِذْقُلْتُمْ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا وَاتَّقُوا اللهَ ؕ اِنَّ اللهَ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ ۞

ترجمہ:

اور تم پر جو اللہ کی نعمت ہے اس کو یاد کرو ‘ اور اس عہدوپیمان کو جو اس نے پختگی کے ساتھ تم سے لیا ہے ‘ جب تم نے کہا ہم نے سنا اور اطاعت کی ‘ اور اللہ سے ڈرتے رہو ‘ بیشک اللہ دلوں کی باتوں کو جاننے والا ہے۔

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور تم پر جو اللہ کی نعمت ہے اس کو یاد کرو ‘ اور اس عہدوپیمان کو جو اس نے پختگی کے ساتھ تم سے لیا ہے ‘ جب تم نے کہا ہم نے سنا اور اطاعت کی ‘ اور اللہ سے ڈرتے رہو ‘ بیشک اللہ دلوں کی باتوں کو جاننے والا ہے۔ (المائدہ : ٧) 

اللہ کی نعمت اور اس کے عہد ومیثاق کا معنی : 

اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اے مسلمانو ! اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جو اس نے تم کو عطا فرمائی ہے کہ اس نے تم کو اسلام کی ہدایت دی اور اس عہد کو یاد کرو جو اس نے تم سے لیا تھا۔ جب تم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بات پر بیعت کی تھی کہ تمہیں خوشی ہو یا رنج ‘ سہولت ہو یا تنگی ‘ ہرحال میں تم اللہ کے احکام سن کر قبول کرو گے اور اس کی اطاعت کرو گے اور تم نے یہ کہا تھا کہ آپ ہمیں جس چیز کا حکم دیں گے ہم اس کو بجا لائیں گے اور جس کام سے منع کریں گے ‘ اس سے باز رہیں گے اور تم یہ بھی اللہ کا انعام تھا کہ تم نے یہ عہد کیا ‘ سو اے مسلمانو ! تم اپنے اس عہد کو پورا کرو ‘ تاکہ اللہ تعالیٰ تمہیں آخرت میں دائمی نعمتیں عطا فرمائے۔ 

تم اس عہد کو توڑنے یا پورا نہ کرنے کے معاملہ میں اللہ سے ڈرو ‘ ایسا نہ کرنا کہ زبان سے اطاعت کا اقرار کرو اور دل میں اس کے خلاف ہو ‘ اور اپنے باطن میں اس عہد کی خلاف ورزی کرنے سے اللہ سے ڈرو ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کی باتوں کو جاننے والا ہے۔ 

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کسی معین نعمت کا ذکر نہیں فرمایا ‘ بلکہ جنس نعمت کا ذکر فرمایا ہے اس آیت سے مقصود یہ ہے کہ تم اللہ کی ان نعمتوں پر غور کرو جو اس نے تم کو عطا فرمائی ہیں۔ اللہ نے بندوں کو جو نعمتیں دی ہیں ‘ ان کا شمار کون کرسکتا ہے۔ اس نے حیات عطا فرمائی ‘ صحت دی ‘ عقل اور ہدایت دی۔ آفتوں اور مصیبتوں سے محفوظ رکھا اور دنیا میں بہت اچھائیاں عطا فرمائیں ‘ بندوں کو چاہیے کہ اللہ کی ان نعمتوں پر غور کریں ‘ اس کا شکر بجا لائیں اور اس کی اطاعت کریں۔ اس آیت میں فرمایا ہے تم ان نعمتوں کو یاد کرو ‘ اور یاد کرنا بھولنے کی فرع ہے ‘ یعنی انسان اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو بھول جاتا ہے۔ دنیا، کی رنگینیوں میں اور نفس کے تقاضوں کو پورا کرنے کی تگ ودو میں لگا رہتا ہے ‘ اور جب کوئی نعمت چلی جاتی ہے ‘ تو پھر اس نعمت کو یاد کرتا ہے۔ حالانکہ اسے چاہیے کہ وہ نعمت کی حالت میں اپنے منعم کو یاد رکھے۔ 

اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ کرنے کا ایک سبب اللہ کی دی ہوئی نعمتیں ہیں اور اس کی طرف متنبہ کرنے کا دوسرا سبب اللہ تعالیٰ سے کیا ہوا عہد ومیثاق ہے۔ اس میثاق کی ایک تفسیر وہ ہے جس کو ہم اوپر بیان کرچکے ہیں کہ مسلمانوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیعت کے وقت آپ کی اطاعت کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اس کی دوسری تفسیر یہ ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے بنو اسرائیل سے عہد اور میثاق لیا کہ وہ تورات پر ایمان لائیں اور تورات پر ایمان لائیں اور تورات میں سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشارت ہے ‘ تو انہوں نے تورات کے ضمن میں آپ کی نبوت پر ایمان لانے کا بھی اقرار کیا تھا ‘ سو اس سے یہ میثاق مراد ہے ‘ اور اس کی تیسری تفسیر یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے تمام روحوں کو حضرت آدم کی پشت سے نکالا تو ان سے اپنی ربوبیت کا عہد لیا ‘ اور چوتھی تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید اور شریعت پر جو عقلی دلائل اور شرعی براہین قائم کی ہیں ‘ عہد اور میثاق سے وہ دلائل اور براہین مراد ہیں :

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 5 المائدة آیت نمبر 7