*تمدن مغرب کی اسیری کے منفی اثرات اور علم دین سے دوری و غفلت کے نقصانات*

[مسلمانوں کے عروج و سربلندی اور ترقی کا راز علم دین سے رشتوں کی استواری میں مضمر]

غلام مصطفی رضوی

[نوری مشن، مالیگاؤں]

علم نعمت ہے۔ رحمت و برکت ہے۔ باعثِ نجات و وجہِ سربلندی ہے۔ اصل علم-علمِ دین- ہے۔ جس سے وابستگی نے قومِ مسلم کو ہرمحاذ پر کامیاب کیا۔ جس سے جُڑے رہنے کی بنیاد پر اسلامی شوکت کا علَم بنجر وادیوں کی سربلند چوٹیوں پر لہرایا۔ جس سے رشتہ و تعلق نے مسلم اُمہ کو عظیم مناصب اور کامیابی کی بلند منازل پر فائز کیا۔جس سے وابستگی کی بنیاد پر تمدنِ اسلامی کا سویرا تھا۔ تمدنِ مغرب وادیِ ضلالت میں غرقاب تھی۔

*جہاں بانی کا زوال:*

مسلم اُمہ کے زوال کے اسباب پر غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ- جہاں اغیار کی سازشیں رہیں وہیں ہماری کوتاہیوں کا بھی عمل دخل رہا۔ ہمارا زوال ہماری غفلت کا ہی نتیجہ ہے۔ ہم اس وقت مٹائے گئے جب ہم نے اپنے دین سے ناطہ کم زور کیا۔ ہم اس وقت فنا کیے گئے جب ہم نے اپنی ہی شناخت مٹا دی۔ اپنا چہرہ، اپنا وقار، اپنا لبادہ، اپنے تمدن سے بغاوت نے ہمیں ذلت کی پستی میں ڈال دیا۔جب تک علم دین سے وابستگی رہی؛ دُنیا کی برہم زُلفیں بھی سنورتی رہیں۔ مسلمانوں نے علم و فضل کی بلند چوٹیوں پر کامیابیوں کے پھریرے لہرائے۔ان سب کے باوجود ناکامیوں کی گرد کیوں وارد ہوئی؟ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

’’سب سے زیادہ اہم سب کی جان سب کی اصل اعظم وہ دین متین تھا جس کی رسّی مضبوط تھامنے نے اگلوں کو ان مدارج عالیہ پر پہنچایا چاردانگ عالم میں ان کی ہیبت کا سکہ بٹھایا ،نانِ شبینہ کے محتاجوں کو بلند تاجوں کا مالک بنایا اور اسی کے چھوڑنے نے پچھلوں کو یوں چاہِذلت میں گرایا فانّا للّٰہ وانّاالیہ راجعون، ولا حول ولا قوۃ الّا باللّٰہ العلی العظیم۔ دین متین علم دین کے دامن سے وابستہ ہے، علم دین سیکھنا پھر اس پر عمل کرنا اپنی دونوں جہان کی زندگی جانتے وہ انھیں بتا دیتا اندھو! جسے ترقی سمجھ رہے ہو سخت تنزل ہے جسے عزت جانتے ہو اشد ذلت ہے۔‘‘[تدبیر فلاح و نجات و اصلاح،نوری مشن مالیگاؤں،ص۱۲۔۱۳]

*غور طلب نکات:

مذکورہ اقتباس (از اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ) کے مطالعہ سے یہ نتائج نکلتے ہیں:

[۱] مسلمانوں کی سربلندی کا راز دین کی رسی مضبوط تھامنے میں ہے۔ دین سے دوری ہی ناکامیوں کی اصل ہے۔اور زوال کا سبب بھی۔

[۲] شوکت اسلامی ،دبدبہ، مسلم مملکتوں کا قیام، وقارِ ملکِ مسلم- اسلام سے وابستگی کی بنیاد پر تھے۔ دین سے دوری نے جہاں بانی سے الگ تھلگ کر دیا۔

[۳] دین سے وابستگی کی بنیاد پر تاجِ شہنشہی زیر قدم تھے۔ قصریٰ سرنگوں اور قیصر مفتوح تھا۔ آج بھی دامن مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستہ ہونے میں تاج وری، مملکت، تخت سب کچھ ملیں گے۔ خادمِ دین بن جائیں تو لوگ مخدوم بنا لیں گے۔

[۴] موجودہ تنزل اور پستی دین سے دوری کے باعث ہے۔ غلامیِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اختیار کر لو۔ میادینِ علم و فن میں تمہاری عظمتوں کی گونج سُنائی دے گی۔

*تمدن مغرب کی اسیری:*

اعلیٰ حضرت کے مذکورہ دینی و تعلیمی نکتے کے پیش نظر پروفیسر رفیع اللہ صدیقی(کوئنز یونیورسٹی کینیڈا) یہ تجزیہ پیش کرتے ہیں:

’’یہ وہ زمانہ تھا کہ سر سید کی تعلیمی اصلاحات کی کوششیں رنگ لا رہی تھیں۔ مسلمان مغربی تعلیم حاصل کرنے کے لیے آگے بڑھ رہے تھے لیکن جو بات تشویش ناک تھی اور جسے مولانا کی ذات گرامی نے اسی وقت محسوس کر لیا تھا وہ یہ تھی کہ انگریزی تعلیم کے ساتھ ساتھ نوجوان نسل مغربی تہذیب کی بھی دل دادہ ہوتی جا رہی تھی یعنی کوّا ہنس کی چال اختیار کر رہا تھا جو ایک غیر فطری بات تھی۔(اعلیٰ حضرت) امام احمد رضا نے سمجھ لیا تھا کہ اگر مسلمان علم دین سے بے بہرہ ہو گئے تو وہ اپنی حیثیت و انفرادیت کو گم کر بیٹھیں گے۔ نئی تہذیب ان کی وحدت کو ختم کر دے گی۔[تعارف:تدبیر فلاح و نجات و اصلاح،طبع نوری مشن مالیگاؤں،ص۸]

موجودہ عہد میں میانہ روی، وسطیت، اعتدال کا یہ تقاضا ہے کہ اگر ہم ظاہری علوم و فنون حاصل کریں تو اس بات کا زیادہ خیال رکھیں کہ اصل تعلق علم دین سے باقی رہے۔ عملی زندگی میں فرامین مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کریں کہ یہی حقیقی کامیابی کی ضمانت اور عروج کی راہ ہے۔ مغربی تمدن کی اسیری قوم کی موت کے مترادف ہے۔ ہمیں اسیرِ گنبدِ خضریٰ ہونا چاہیے تو تمدنِ مغرب کے سراب نگاہوں کو خیرہ نہ کر سکیں گے ؎

خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانش فرنگ

سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف

٭٭٭