الفصل الثالث

تیسری فصل

حدیث نمبر :460

روایت ہے حضرت یحیی ابن عبدالرحمان سے فرماتے ہیں کہ حضرت عمر اس قافلہ میں تشریف لے گئے جن میں حضرت عمرو ابن عاص تھے حتی کہ ایک حوض پر پہنچے تو عمرو نے کہا اے حوض والے کیا تیرے حوض پر درندے ہوتے ہیں؟۱؎ تو حضرت عمر ابن خطاب نے فرمایا اے حوض والے نہ بتانا کیونکہ ہم درندوں پر اور درندے ہم پر آتے ہیں۲؎ (مالک)اور رزین نے یہ بھی زیادہ کیا کہ کہا کہ بعض راویوں نے حضرت عمر کے فرمان میں یہ بڑھایا کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ جو درندے اپنے پیٹوں میں لے گئے وہ ان کا اور جو بچ رہا وہ ہمارا پانی بھی ہے اورطہارت بھی ۳؎

شرح

۱؎ یعنی اگر درندے اس سے پانی پیتے ہوں تو ہم اس سے نہ وضو و غسل کریں اور نہ پیئیں۔انہیں آب قلیل و کثیر کا فرق معلوم نہ تھا ۔

۲؎ یعنی چونکہ یہ پانی کثیر ہے لہذا کسی جانور کے پی جانےسے نجس نہیں ہوتا اورکسی گندگی کے پڑ جانے سے گندا نہیں ہوتا،تاوقتکہق پانی کی بو یا مزا اور رنگ گندگی کی وجہ سے نہ بدلے۔یہ حدیث گزشتہ حدیث جابر کی تفسیر ہے،اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کی قوی دلیل ہے۔۳؎ اس جملے میں بھی آب کثیر ہی مراد ہے۔لہذا یہ حدیث ہماری دلیل ہے نہ کہ شوافع کی۔امام شافعی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث مطلق پانی کے لئے ہے تھوڑا ہو یا بہت مگر یہ توجیہ اگلی آنے والی حدیث کے خلاف ہے۔ نیز فصل ثانی کے شروع میں گزر گیا کہ جب پانی دو قلے ہو تو درندوں کے پینے سے ناپاک نہ ہوگا اگر درندوں کا جھوٹاپاک ہے تو وہاں دوقلوں کی قیدکیوں ہے۔