توبہ کی حقیقت
sulemansubhani نے Thursday، 18 April 2019 کو شائع کیا.
توبہ کے معنی ہیں:”رجوع کرنا‘‘‘” تَائِب ‘‘بندے کی صفت ہے اور مبالغے کے ساتھ”تَوَّاب‘‘ اﷲتعالیٰ کی صفت ہے۔ بندے کی توبہ کا مطلب :”اس کا کفروشرک سے اسلام کی طرف‘ نفاق سے اخلاص کی طرف‘ مَعصیت سے اِطاعت کی طرف‘ فِسق وفُجور سے تقوے کی طرف اور گناہ سے نیکی کی طرف پلٹ کرآنا ‘‘اور اللہ تعالیٰ کے ”توّاب‘‘ ہونے کا مطلب :”اس کا عفو کرم اور مغفرت کے ساتھ بندے کی طرف توجہ فرمانا ہے ‘‘۔ پس”تَائِبْ‘‘ کے معنی ہیں:(۱):” توبہ کرنے والا‘‘ اور ”تَوَّاب‘‘ کے معنی ہیں:” بہت زیادہ توبہ قبول فرمانے والا‘‘۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:(1)”(حقیقی مومن وہ لوگ ہیں) جو توبہ کرنے والے ‘(اللہ کی) عبادت کرنے والے‘ (اس کی) حمد وثنا کرنے والے ‘ روزہ رکھنے والے‘ رکوع کرنے والے‘ سجدہ کرنے والے‘ نیکی کا حکم دینے والے اور برائی سے روکنے والے اور اللہ (کے دین) کی حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں اور (اے نبی!) مومنوں کو خوشخبری سنائیے‘(توبہ:112)‘‘۔ (2):”میں بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا (توّاب) اور نہایت مہربان ہوں‘(البقرہ:128)‘‘۔(3):”کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتاہے اور ان کے صدقات کو قبولیت سے نوازتاہے اور بے شک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے‘(توبہ:104)‘‘۔
چونکہ بندوں کا توبہ کرنا اللہ تعالیٰ کو بے حد پسند ہے ‘ اس لیے مبالغے کے ساتھ ”تَوَّاب‘‘ (بہت زیادہ توبہ کرنے والا) بندے کی صفت کے طور پر بھی قرآن مجید میں آیاہے‘ارشادِ باری تعالیٰ ہے:”بے شک اللہ بہت زیادہ توبہ کرنے والوں اور بے حد پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے محبت فرماتاہے‘(البقرہ:222)‘‘۔
یہ عنوان میں نے اس لیے منتخب کیا ہے کہ ہمارے ہاں جب کوئی آفت آئے‘ سیلاب آئے ‘ زلزلہ آئے‘طوفانِ بادوباراں ہو‘خشک سالی ہو تو کہا جاتاہے کہ سب اجتماعی توبہ کریں ‘ یومِ ”توبہ واستغفار‘‘ منائیں۔ میرے علم میں تو عہدِ رسالت مآب ﷺ میں ”اجتماعی توبہ‘‘ کی کوئی سنَّتِ مبارَکہ یا شِعار نہیں ہے‘ البتہ قرآن کریم اور احادیث مبارَکہ میں توبہ کی ترغیبات ‘ قبولیتِ توبہ کی بشارتیں اور اس کے نتیجے میں فلاحِ دنیا اور نجاتِ اُخروی کی نوید ضرورہے۔ سورج گرہن کے موقع پر ”صلوٰۃ الخسوف‘‘ ‘ قحط سالی کے موقع پر ”صلوٰۃ الاستسقائ‘‘ اور یومِ عرفہ کی شام اجتماعی دعا کا شِعار ثابت ہے‘تاہم استغفارتوبہ کے معنی کو شامل ہے۔
توبہ کا تعلق قلب اور روح سے ہے‘” نَفْسِ لَوَّامَہْ ‘‘یعنی ضمیر کی بیداری سے ہے ‘ یہ خوداحتسابی(Self Accountability) اور اصلاحِ نفس (Self Rectification)کا ایک باطنی اور روحانی عمل ہے۔ یہ کوئی میکنزم نہیں ہے کہ کوئی خوش گلو مقرر ٹیلیویژن پر یاکسی دینی پروگرام میں ”میری توبہ توبہ‘‘ یا ”میری توبہ قبول ہو‘‘کا منظوم کلام پڑھ لے اور ناظرین وسامعین عقیدت سے سن لیں ‘تو سب کی توبہ ہوگئی اورسمجھ لیاجائے کہ یہ کافی ہے۔ یہ کچھ بھی نہیں ہے‘ بلکہ میری نظر میں یہ توبہ کی حقیقت اور روحِ توبہ سے ماوَرَا ایک عمل ہے اور یہ ایک طرح سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تصور ِتوبہ کا استخفاف ہے۔
اس قلبی عمل کی نَشأۃ اور ترغیب انسان کے اندر سے پیدا ہوتی ہے اور یہ انسان کی روح میں جوہرِ ایمان کے زندہ ہونے اور زندہ رہنے کی دلیل ہے‘ یہ بیم ورَجا کی ملی جلی کیفیت کانام ہے‘ یعنی بندے کے دل میں اللہ تعالیٰ کی خَشیت بھی اعلیٰ درجے کی ہو اور اس کی رحمت پر یقین بھی انتہائی درجے کا ہو۔ خوفِ الٰہی معصیت کی طرف بڑھتے ہوئے قدموں کی زنجیر بن جاتاہے اوررحمتِ باری تعالیٰ پر یقین اس کی رحمت کی طرف بے اختیار لپکنے پربرانگیختہ کرتاہے۔
اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاداس کے گناہ گار بندوں کے لیے نجات ومغفرت کا ایک بہت بڑا سہاراہے اور اس کی بے پایاں رحمت پر امید کی اِس سلگتی ہوئی چنگاری کے ”شعلۂ جوّالہ‘‘ بننے کے لیے انسان کی روح کو بے قرار کردیتاہے:”(اے نبی!) کہہ دیجیے! اے میرے وہ بندو! جو(گناہ کرکے) اپنی جانوں پر زیادتی کرچکے ہو‘ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو‘ بے شک اللہ(تمہارے) تمام گناہوں کو بخش دے گا‘ بے شک وہی بہت بخشنے والا بے حدمہربان ہے‘(الزمر:53)‘‘۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا”اگر اس آیت کے بدلے میں مجھے پوری دنیا(کی دولت) دیدی جائے‘ تو بھی یہ سودا مجھے قبول نہیں ہوگا‘ اس پر ایک شخص نے عرض کی: اگر کسی نے شرک کیا ہو‘ تو رسول اللہ ﷺ (کچھ دیر) خاموش رہے‘ پھر آپ نے تین مرتبہ فرمایا: ہاں! اگر اس نے شرک کیاہو‘ تب بھی(اس کے لیے توبہ کادروازہ کھلاہے)‘(مسند امام احمد : 22362)‘‘۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ کفروشرک کی معافی توبہ کے بغیر ممکن نہیں ہے اور اگر کفر وشرک سے توبہ کرکے صدقِ دل سے ایمان قبول کرلیتاہے ‘ تواس کے لیے رسول اللہ ﷺ کی یہ بشارت موجود ہے:ایک طویل حدیث میں راوی بیان کرتے ہیں : عمرو بن عاص کی موت کے وقت ہم حاضر ہوئے تو انہوں نے ہمیں بتایا”جب اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اسلام (کی حقانیت) کو ڈال دیا‘ تو میںنبیﷺ کے پاس آیا اور عرض کی: (یا رسول اللہ ؐ!) اپنا ہاتھ بڑھائیے تاکہ میں آپ کی بیعت کروں‘ رسول اللہ ﷺ نے اپنا دایاں ہاتھ آگے بڑھایاتومیں نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا‘ آپ ﷺ نے فرمایا: عمرو! تمہیں کیا ہوا؟‘ انہوں نے عرض کی: (بیعت سے پہلے)میری ایک شرط ہے‘ آپ ﷺ نے فرمایا: بولو! کیا شرط ہے؟‘ میں نے عرض کی: میرے (ماضی کے )گناہوں کو بخش دیاجائے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کیا تمہیں نہیں معلوم کہ اسلام زمانۂ کفروشرک کے گناہوں کو مٹادیتاہے اور ہجرت اُس سے پہلے گناہوں کو مٹادیتی ہے اور حج اُس سے پہلے گناہوں کو مٹادیتا ہے‘(مسلم:192)‘‘۔یہ بشارت اس اسلام کے لیے ہے جو کسی خوف یا طمع کے سبب سے یاکسی کی محبت میں ڈوب کر شادی کا راستہ ہموار کرنے کے لیے نہیں‘بلکہ اسلام کی حقانیت کو دل سے تسلیم کرکے قبول کیا جائے اور ہجرت کی حقیقت کو رسول اللہ ﷺ نے ان کلمات میں بیان فرمایا”(حقیقی) مہاجروہ ہے جوہر اس چیز کوترک کر دے‘ جس سے اللہ نے منع فرمایا ہے‘(صحیح البخاری:10 )‘‘۔اسی طرح گناہوں سے پاک صاف ہونے کی بشارت اس کے لیے ہے کہ جس کا حج اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہوجائے‘ ارشادِ باری تعالیٰ ہے” بے شک اللہ تعالیٰ اس بات کو توکسی صورت میں معاف نہیں فرماتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے اور اس کے علاوہ جس کے لیے چاہے (دیگر ) گناہوں کو بخش دیتا ہے‘(النسائ:48)‘‘۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا محمل یہ ہے کہ بندہ کفروشرک سے توبہ نہ کرے بلکہ اس پر ڈٹا رہے اور اسی پر اس کی موت واقع ہو۔
پس توبہ کے روحانی اور ارتقائی مدارج حسبِ ذیل ہیں:
(1)اپنی معصیت کا اقرار واعتراف(Confession)‘ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے ”بے شک بندہ جب اپنے گناہ کا اعتراف کرکے توبہ کرتاہے‘ تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماتاہے‘(بخاری:4141)‘‘۔(2 )اس پر اللہ کے تعالیٰ کے حضور ندامت وشرمساری کا اظہار کرنا‘سورۂ القیامہ میں اللہ تعالیٰ نے انسان کے ضمیر کو” نفسِ لوّامہ ‘‘یعنی گناہ پر ملامت کرنے والا قرار دیا ہے اور اس کی قسم فرمائی ہے‘رسول اللہ ﷺ نے فرمایا”ندامت توبہ (کی روح) ہے‘(سنن ابن ماجہ:4252)‘‘۔مشہور مسئلہ ہے کہ صغیرہ گناہ پر اصرار بھی اسے کبیرہ بنادیتاہے۔ چونکہ استغفار ندامت کی علامت ہے‘ اس لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے استغفار کرلی‘ اس نے (گناہ) پر اصرار نہیں کیا‘ (3)اﷲتعالیٰ کی بارگاہ میں عفووکرم اور مغفرت کی التجا‘ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے: ”اوراپنے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف جلدی کرو‘ جس کا عرض تمام آسمان اور زمینیں ہیں ‘ جو متقین کے لیے تیار کی گئی ہے‘(آل عمران:133)‘‘,(4)آئندہ کے لیے اس کا ارتکاب نہ کرنے کا عہد‘(5)معصیت کا تعلق حقوق اللہ کی پامالی سے ہویاحقوق العباد کی‘دونوں صورتوں میں شریعت میں اس کی تلافی (Rectification & Compensation)کا جو طریقہ مقرر ہے‘ اس کے مطابق اس کی تلافی کرنا‘ مثلاً ماضی کی چھوڑی ہوئی نمازوں کی قضا‘ ماضی کی واجب الادا زکوٰۃ کی ادائیگی ‘ جس بندے کا حق غصب کیا ہے‘ اس سے معافی طلب کرنا اور غصب شدہ مال کو واپس کرنا وغیرہ۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”کیا تم جانتے ہو کہ مُفلس کون ہے؟‘ صحابہ نے عرض کی: ہمارے نزدیک مفلس وہ ہے‘ جس کے پاس درہم (ودینار) اوردنیاوی ساز و سامان نہ ہو‘ آپ ﷺ نے فرمایا: میری امت میں مُفلس وہ ہے‘جو قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے نامۂ اعمال میں نمازیں ‘ روزے اور زکوٰۃ سب کچھ ہوگا‘( لیکن اس کے ساتھ ساتھ) اس نے کسی کو گالی دی ہوگی‘ کسی پر(بدکاری کی) تہمت لگائی ہوگی‘ کسی کا مال(ناحق) کھایا ہوگا‘ کسی کا(ناحق) خون بہایا ہوگا‘ کسی کو (ظلماً) مارا ہوگا‘ توان سب حق داروں کو اُن کے حقو ق کے بدلے میں اس کی نیکیاں دے دی جائیں گی‘ پھر جب دوسروں کے حقوق کے بدلے میں دینے کے لیے اس کی نیکیاں ختم ہو جائیں گی‘ تواُن کے گناہ اُس کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں گے‘ پھر اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا‘(مسلم:2581)‘‘‘(6):اللہ تعالیٰ سے اس پیمانِ وفا پر عہدہ برا ہونے کی توفیق طلب کرنااور توفیق کے معنی ہیں : اللہ تعالیٰ کی طرف سے نیک مقصد کے لیے اسباب کو سازگار بنانا‘اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:”اور جس نے (اپنا مال )اللہ کی راہ میں دیا اور پرہیز گاری اختیار کی اور اس نے اچھائی کی تصدیق کی‘ تو ہم عنقریب اس کے لیے(جنت تک رسائی کو) آسان کردیں گے‘(اللّیل:5-7)‘‘۔رسول اللہ ﷺ کا ارشادہے: ”تم میں سے ہر ایک کے لیے جنت یا جہنم میں ٹھکانا مقدر ہے‘ صحابہ نے عرض کی: ”یارسول اللہ! کیا ہم اپنی تقدیر پر توکل کرکے (عمل سے دستبردار نہ ہوجائیں)؟‘‘، آپ ﷺ نے فرمایا:(نہیں) تم (نیک )کام کیے جاؤ ‘ ہر ایک کے لیے اس کی منزل تک رسائی کو آسان کر دیا جاتاہے‘ سو جو اہلِ سعادت میں سے ہے‘ اس کے لیے سعادت کے کاموں کو آسان کردیاجائے گااور جو اہلِ شقاوت میں سے ہے وہ اپنے لیے بدبختی کے کاموں میں آسانی سمجھے گا‘ پھر آپ نے سورۃ اللیل کی مندرجہ بالا آیات تلاوت فرمائیں‘ (بخاری:1362)‘‘۔ الغرض توبہ قُربِ باری تعالیٰ کے لیے ایک باطنی تبدیلی اور روحانی ارتقاکا نام ہے
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:(1)”صرف ان لوگوں کے لیے توبہ کی قبولیت کو اللہ نے اپنے ذمۂ کرم پر لے رکھا ہے‘ جو نادانی سے گناہ کربیٹھیں ‘ پھر ( احساس ہونے پر) جلد ہی توبہ کرلیں‘ تو یہ وہ لوگ ہیں‘ جن کی توبہ اللہ قبول فرماتاہے اوراللہ تعالیٰ خوب جاننے والا‘ بہت حکم والا ہے اور ان لوگوں کی توبہ مقبول نہیں ہے‘ جو گناہ کرتے رہتے ہیں؛ حتیٰ کہ جب ان میں سے کسی ایک کی موت سر پر آجاتی ہے‘ تو وہ کہتاہے ”میں نے اب توبہ کی‘ اور نہ ان کی توبہ قبول ہے جو کفر کی حالت میں مرتے ہیں ‘‘ (النسائ:17-18)۔رسول اللہﷺنے فرمایا :”اللہ تعالیٰ سکراتِ موت طاری ہونے تک اپنے بندے کی توبہ قبول فرماتاہے ‘‘(ترمذی: 3537)۔(2):”ہر گز نہیں!بلکہ ان کے کرتوتوں کے سبب ان کے دل زنگ آلود ہوگئے ہیں‘‘(المطففین :14)۔
توبہ کاطریقہ یہ ہے کہ آئینۂ قلب جو گناہوں سے آلودہ ہوچکا ہے‘ پہلے اسے پاک وصاف کیا جائے ‘تاکہ اس پر اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول مکرم ﷺ کی محبت کا رنگ چڑھ سکے ‘یعنی اس کا نقش ثبت ہوسکے‘ جس طرح دیوار پر رنگ کرنے والا پہلے سابق رنگ کو کھرچ کر صاف کرتاہے اور اس کے بعد نیا رنگ کرتاہے‘ تاکہ وہ دیر پاثابت ہو‘ اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے:”(تم ان سے کہو) ہم نے خود کو اللہ کے رنگ میں رنگ لیااور اللہ کے رنگ سے بہتراور کس کا رنگ ہوگااور ہم اسی کی عبادت کرتے ہیں‘‘ (البقرہ:138)۔اور قلب وذہن کی یہ تطہیر توبہ سے ہوتی ہے‘ اس کے بغیر ممکن نہیں ہے۔رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے ”گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے‘ جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہیں‘‘(سنن ابن ماجہ:4250)۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:(۱): ”میرے دل پر اَبر سا چھا جاتاہے اور میں دن میں سو بار اللہ سے استغفار کرتا ہوں‘ (مسلم:41)‘‘۔ محدثینِ کرام نے اس حدیث کی کئی توجیہات بیان فرمائی ہیں‘ان کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں ‘ان میں سے ایک یہ ہے : رسول اللہ ﷺ کے قلب پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے انوار وتجلیّات کا نزول ہوتاہے اور آپ اس کے تشکر کے طور پر استغفار فرماتے ہیں ۔ (۲):”رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”بندہ جب گناہ کرتاہے‘ تواس کے دل پر سیاہ دھبہ پڑ جاتاہے‘ پس اگر وہ گناہ کی کیفیت سے نکل آئے اور استِغفار کرے اور توبہ کرے تواس کا دل صاف ہوجاتاہے اور اگر وہ اُس گناہ کا اعادہ کرے تو یہ دھبہ پھیلتا چلا جاتاہے‘ یہاں تک اس کے قلب کو گھیر لیتاہے اور یہی وہ ”رین ‘‘ ہے ‘ جس کاذکر اللہ تعالیٰ نے سورۃ المطففین :14میں فرمایا ہے‘‘(سنن ترمذی:3334)۔
امام الصوفیہ سید علی ہجویریؒ لکھتے ہیں ”حجاب دو قسم کا ہوتاہے:ایک”رینی ‘‘ کہ بندے کی ذات حق سے حجاب کا سبب بن جائے ‘ تو اس کے نزدیک حق وباطل ایک سا ہوجاتاہے اوریہ کبھی نہیں رفع ہوتا‘ قرآن نے اسے رَیْن ‘ خَتْم ‘ طَبع ‘ قَسَاوَت ‘کُفر ‘ اِغْفَال ‘ قُفل اورکِنّ سے تعبیر فرمایا ہے اور اس آیت میں یہی معنی مراد ہے ۔ دوسرا ”غینی‘‘ کہ بندے کی صفت حق سے حجاب بن جائے ‘ یہ توبہ اور ندامت سے اٹھ جاتاہے‘‘۔ حضرت جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں ”رَین‘‘ کی مثال وطن کی سی ہے اور وطن میں استقلال ہوتاہے اور”غَین‘‘ کی مثال دل پر وارد ہونے والے خیالات ہیں ‘ جو ندامت اور توبہ سے زائل ہو جاتے ہیں اور قلب صاف ہوجاتاہے‘‘(کشف المحجوب‘ ص:79-80)۔حدیثِ پاک میں ہے:”جس نے ”لا الٰہ الا اﷲ‘‘ کہا ‘ پھر اسی پر اس کی موت واقع ہوگئی‘ تو وہ جنت میں جائے گا‘‘(صحیح البخاری: 5827)۔اس کی شرح میں امام بخاری کہتے ہیں ”یہ بشارت اس کے لیے ہے ‘ جو موت سے پہلے اپنے گناہوں پر نادم ہوکر توبہ کرے اور کلمۂ اسلام پڑھے تو اسے بخش دیا جائے گا‘‘۔
اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ سے بہت زیادہ راضی ہوتاہے ‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”جب بندہ اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرتاہے‘ تواللہ اس سے اتنا زیادہ راضی ہوتاہے ‘ جیسے ایک مسافر کی سواری کسی بیابان میں ساز وسامان سمیت گم ہوجاتی ہے‘ وہ اس کو پانے سے ناامید ہوجاتاہے اور ایک درخت کے سائے میں ٹیک لگا کر بیٹھ جاتاہے(ایک روایت میں ہے: اسے یقین ہوجاتا ہے کہ اب تو موت یقینی ہے)اسی ناامید ی کی کیفیت میں وہ اچانک نظر اٹھا کر دیکھتاہے کہ اس کی سواری سازوسامان سمیت اس کے سامنے موجود ہے‘وہ اس کی لگام پکڑتاہے اور خوشی کے غلبے کی وجہ سے جلدی میںاس کی زبان سے یہ الفاظ نکل جاتے ہیں:”اے اللہ!تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں‘‘ (مسلم: 2747)۔اس حدیث کا منشا یہ ہے کہ غیرمعمولی خوشی کے غلبے کی وجہ سے بندہ اَز خود رَفتہ ہوجاتاہے اور کہنا تو یہ چاہتاہے : ”اے اللہ! میں تیرا بندہ ہوں اور تو میرا رب ہے‘‘ ‘ مگر سبقتِ لسانی کی بنا پر اس کی زبان سے مندرجہ بالا کلمات نکل جاتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ کا دامانِ رحمت اُس کے بندوں کے لیے اتنا وسیع ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:”ایک بندہ گناہ کرتاہے ‘ پھر (نادم ہوکر) اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کرتاہے : اے پروردگار!میں نے گناہ کیا ہے ‘ تو اس کی مغفرت فرما ‘اس کا رب فرماتاہے : کیا میرے بندے کو یہ معلوم ہے کہ اس کا ایک رب ہے ‘ جو گناہ کو بخش بھی دیتاہے اور(اگر وہ چاہے تو)مواخذہ بھی فرمالیتاہے‘ میں نے اپنے بندے کو بخش دیا ‘ پھر کچھ عرصہ اطاعت کی زندگی گزارنے کے بعد (بشری تقاضے کے تحت) وہ پھر گناہ کر بیٹھتا ہے اور پھر(نادم ہوکر) عرض کرتاہے : اے پروردگار! میں گناہ کر بیٹھا ہوں‘ تواسے بخش دے‘ اللہ عزّ وجلّ فرماتاہے ‘ کیا میرے بندے کو یقین ہے کہ اس کا ایک رب ہے جو اس کے گناہوں کو بخش دیتاہے اور (وہ چاہے تو ) مواخذہ فرما لیتاہے‘ میں نے اپنے بندے کو بخش دیا‘ پھر کچھ عرصہ اطاعت کی زندگی گزارنے کے بعد(بشری کمزوری کے سبب) وہ گناہ کربیٹھتا ہے(اور احساس ہونے پر) عرض کرتاہے : اے پروردگار! میں نے گناہ کرلیاہے‘ تو مجھے بخش دے۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے: کیا میرے بندے کو یقین ہے اس کا ایک پروردگار ہے‘ جوگناہوں کو بخش دیتا ہے اور (چاہے تو) مواخذہ فرما لیتاہے‘میں نے اپنے بندے کو بخش دیا ‘وہ جو چاہے کرے‘‘(صحیح بخاری:7507)۔
یہ آخری کلمات اس لیے نہیں ہیں کہ بندے کو گناہوں کی کھلی چھوٹ دے دی ہے‘ بلکہ اس لیے ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کا عفووکرم بندے کو اپنی آغوش میں لے لے ‘ تو پھر وہ گناہوں سے اس کی حفاظت فرماتاہے ۔ گناہوں سے اسے فطری طور پر نفرت ہوجاتی ہے اور نیکیاں اس کی فطرت کے لیے مرغوب اور پسندیدہ ہوجاتی ہیں۔ اب نیکی اسے بار معلوم نہیں ہوتی‘ بلکہ اسے قرار وسکون نصیب ہوتاہے ‘ اسی کیفیت کو رسول اکرم ؐ نے اس حدیث میں بیان فرمایا: ”آپ ﷺ سے پوچھا گیا کہ ایمان کیا ہے؟‘آپ ﷺ نے فرمایا:”جب تمہاری نیکی سے تمہیں روحانی سرور ملے اور تمہارا گناہ تمہیں برا لگے تو (درحقیقت ) تم مومن ہو‘صحابی نے عرض کی: یارسول اللہ! گناہ کیا ہے ؟‘آپ ﷺ نے فرمایا:جو تمہارے دل میں کھٹکے اسے چھوڑ دو‘‘(مسند احمد:22166)۔
اللہ تعالیٰ کی مغفرت وعافیت کا سمندر تو اس سے بھی زیادہ جولانی کے ساتھ موجزن رہتاہے‘ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:(میرے خاص بندے وہ ہیں ) جو اللہ کے ساتھ کسی اورمعبود کی عبادت نہیں کرتے اورنہ وہ کسی ایسے شخص کو قتل کرتے ہیں ‘ جس کے ناحق قتل کرنے کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے اور نہ وہ زنا کرتے ہیں اور جو ایسے کام کرے گا وہ اپنے گناہوں کی سزا پائے گا‘ قیامت کے دن اس کو دوگناعذاب دیا جائے گااور وہ اس میں ذلت کے ساتھ ہمیشہ رہے گا‘ سوائے اس کے جس نے توبہ کر لی اور ایمان لایا اور( اس کے بعد )نیک اعمال انجام دیتارہا ‘ تو یہ وہ لوگ ہیں جن کے گناہوں کو اللہ نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا بے حد رحم فرمانے والا ہے‘‘(الفرقان:68-70)۔
یہ آیت اللہ تعالیٰ کی بے انتہارحمت وشفقت پر دلالت کرتی ہے کہ اگروہ مائل بہ کرم ہوجائے تو گناہوں کی معافی اس کے کرم کے مقابلے میں معمولی بات ہے‘ وہ چاہے تو گناہوں کے بدلے میں نیکیاں بھی عطا فرمادیتا ہے اور اس مفہوم کی تائید میں احادیث موجود ہیں‘ یہاں اُن کے تفصیلی بیان کی گنجائش نہیں ہے۔
امام ابوحامد محمد بن محمد غزالی نے توبہ کی قبولیت اورگناہ پر ندامت کی علامتیں یہ بیان کی ہیں: (۱)دل کا نرم ہوجانااور ندامت کے سبب آنسو نکلنا‘ ایک روایت میں ہے: توبہ کرنے والوں کے ساتھ بیٹھو ‘کیونکہ وہ بہت زیادہ نرم دل ہوتے ہیں‘(۲)توبہ کے سبب دل میں گناہ سے نفرت پیدا ہوتی ہے ‘ گناہ کی مثال زہر آلود شہد کی سی ہے کہ اس کا ذائقہ شیریں اور اثر المناک ہوتا ہے ؛ چنانچہ جس نے ایک بار زہر آلود شہد کا اثر دیکھ لیا‘ وہ زہر سے پاک شہد سے بھی اجتناب کرتا ہے کہ ”دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے‘‘۔ (۳)گناہ پر ندامت مقبول توبہ کا درجہ اُس وقت پاتی ہے کہ یہ تاحیات رہے ‘اس کا اثر محض عارضی اور وقتی نہ ہو ‘ (۴)گناہ کے اثرات کی تلافی نیک اعمال سے کرے ‘اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”بے شک نیکیاں گناہوں کے اثر کو زائل کردیتی ہیں‘‘ (ہود:114)۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”تم جہاں کہیں بھی ہو‘اللہ سے ڈرتے رہو اور اپنے گناہوں کا ازالہ نیکیوں سے کرواورلوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئو‘‘ (سنن ترمذی:1987)۔(۵) بعض اوقات پے در پے مشکلات کا آنا بھی گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے؛ بشرطیکہ بندہ ان مشکلات پر جزع وفزع نہ کرے ‘اللہ تعالیٰ سے شکوہ وشکایت نہ کرے ‘ بلکہ صابر وشاکر رہے ‘(۶) گناہِ کبیرہ کے ایک مرتکب پر جب حد نافذ کی جارہی تھی اور کسی نے اُسے حقارت سے دیکھا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اس نے ایسی توبہ کی کہ اگر پوری امت کے لیے تقسیم کردی جائے تو اُن کے لیے کافی ہے ‘‘۔ امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے سوال ہوا: ”ہمیں کیسے معلوم ہو کہ ہماری نماز اللہ کی بارگاہ میں قبول ہوگئی‘‘‘آپ نے فرمایا: ”اس کی علامت قرآنِ کریم میں بیان کردی گئی ہے : ”بے شک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے‘‘(العنکبوت:45) سو اپنا جائزہ لے کر خود فیصلہ کرلو۔
از مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمان قبلہ
بشکریہ روزنامہ دنیا پاکستان