فرشتے افضل یا بنو آادم
فرشتے افضل یا بنو آادم
قَالَ يٰٓاٰدَمُ اَنْۢبِئْـھُمْ بِاَسْمَاۗىِٕهِمْ ۚ فَلَمَّآ اَنْۢبَاَھُمْ بِاَسْمَاۗىِٕهِمْ ۙ قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّكُمْ اِنِّىْٓ اَعْلَمُ غَيْبَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَ
ترجمہ تبیان القرآن؛ فرمایا : اے آدم ! ان کو ان سب چیزوں کے نام بتاؤ ‘ جب آدم (علیہ السلام) نے ان سب چیزوں کے نام ان کو بتا دیئے تو فرمایا : کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں ہی آسمانوں اور زمین کا غیب جاننے والا ہوں ‘ اور جس کو تم ظاہر کرتے ہو اور جس کو تم چھپاتے تھے وہ سب جانتا ہوں
امام قرطبی رحمتہ اللہ علیہ اپنی شہرہ آفاق تصنیف میں اس آیت کی تفسیر لکھتے ہیں
اس باب میں علما نے اختلاف کیا ہے کہ فرشتے افضل ہیں یا انسان افضل ہے۔ علمائے کرام کے دو اقوال ہیں: ایک قوم کا خیال ہے کہ انسانوں میں سے رسل، فرشتوں میں رسل پر افضل ہیں، انسانوں میں سے اولیا، فرشتوں میں سے اولیا پر افضل ہیں۔ دوسرے علما کا خیال ہے کہ ملاء اعلی افضل ہے جنہوں نے فرشتوں کو فضیلت دی ہے۔ انہوں نے ان آیات اور احادیث سے حجت پکڑی ہے۔
عباد مکرمون لا یسبقونہ بالقول وھم بامرہٖ یعملون (الانبیاء (ترجمہ: وہ معزز بندے ہیں نہیں سبقت کرتے بات کرنے میں اور وہ اسی کے حکم پر کاربند ہیں))۔ لایعصون اللہ امرھم ویفعلون مایؤمرون (التحریم) لن یستنکف المسیح ان یکون عبدًا للہ ولا الملٰئکۃ المقربون (النساء 172)۔ ہرگز عار نہ سمجھے گا مسیح (علیہ السلام) کہ وہ اللہ کا بندہ ہو اور نہ ہی مقرب فرشتے (اس کو عار سمجھیں گے)۔
قل لا اقول لکم عندی خزآئن اللہ ولا اعلم الغیب ولا اقول لکم انی ملک (الانعام؛ 50)۔ آپ فرمائیے کہ میں نہیں کہتا تم سے کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ یہ کہوں گا کہ خود جان لیتا ہوں غیب اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔
اور بخاری میں ہے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: من ذکرنی فی ملاءِ ذکرتہ ملاءِ خیر منھم ۔ جس نے مجھے مجمع میں یاد کیا میں نے اسے ان سے بہتر مجمع میں یاد کیا۔ ) یہ نص ہے (بحوالہ بخاری باب قول اللہ تعالیٰ عزوجل ویحذرکم اللہ نفسہ، حدیث نمبر 6856ضیاء القرآن پبلیکیشنز)۔
اور جن علماء نے بنی آدم کو ترجیح دی انہوں نے ان آیات اور احادیث سے استدلال کیا ہے: ان الذین آمنو و عملوا الصٰلحٰت اولٰئِک ھم خیرالبریۃ (البینہ) یقیناً جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے وہی ساری مخلوق سے بہتر ہیں۔
اور حضور علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے: ان الملائکۃ لتضع اجنھتھا رضی لطالب العلم (جامع ترمذی ابواب العلم۔ صفحہ 93 جلد 2 ۔ وزارتِ تعلیم)۔بے شک فرشتے طالب علم کی رضا کے لیئے اپنے پر بچھاتے ہیں۔
یہ حدیث ابوداؤد نے ذکر کی ہے، ایسی بہت سی احادیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل عرفات کی وجہ سے فرشتوں پر مباہات فرماتا ہے اور مباہات ہمیشہ افضل کی وجہ سے کیا جاتا ہے۔ (بحوالہ صحیح مسلم کتاب الحج صفحہ 436 جلد 1 قدیمی کتبخانہ)۔
بعض علماء نے فرمایا: کوئی قطعی دلیل نہیں ہے کہ انبیاء فرشتوں سے افضل ہیں اور نہ اس پر کوئی قطعی دلیل ہے کہ فرشتے انبیاء کرام سے افضل ہیں کیونکہ ان کا طریق اللہ تعالٰی کا کوئی ارشاد ہے یارسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے یا اجماع امت ہے اور اس بارے میں کوئی چیز بھی موجود نہیں ہے۔ قدریہ فرقہ اور قاضی ابوبکر کا نظریہ اس کے خلاف ہے۔ وہ کہتے ہیں: فرشتے افضل ہیں۔ قاضی نے کہا: ہمارے اصحاب نے اور شیعہ حضرات نے جو کہا ہے کہ انبیاء افضل ہیں اسکی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے فرشتوں کو آدم کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ تو ان کو یہ کہا جائے گا کہ مسجودلہ، سجدہ کرنے والے سے افضل نہین ہوتا، کیا آپ نے ملاحظہ نہیں کیا کہ کعبہ مسجودلہا ہے انبیاء اور ساری مخلوق اسے سجدہ کرتی ہے، پھر انبیاء بالاتفاق کعبہ سے بہتر و افضل ہیں، اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ سجدہ صرف اللہ تعالیٰ کے لیئے ہوتا ہے کیونکہ سجدہ عبادت ہے اور عبادت صرف اللہ تعالیٰ کی ہوتی ہے۔ جب معاملہ اس طرح ہے تو سجدہ ایک چھت کی طرف ہونا اسکی دلیل نہیں ہے کہ وہ چھت سجدہ کرنے والے اور عابد سے افضل ہے اوریہ بات واضح ہے۔ مزید بیان اس کے بعد آئے گا۔ (اختتام تفسیر قرطبی و کلام قرطبی زیر تحت مسئلہ 3)۔
مزید امام قرطبی اسی تفسیر میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ (مسئلہ نمبر 4)۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: انی اعلم غیب السمٰوٰت والارض اس آیت میں دلیل ہے کہ کوئی شخص غیب نہیں جانتا مگر جن کو اللہ تعالیٰ علم عطا فرمائے جیسے انبیاء کرام یا جن کے لیئے اللہ نے علم غیب عطا فرمایا وہ کسی کو کچھ غیب کا علم عطا فرمادیں۔ پس یہ نجوی اور کاہن لوگ جھوٹے ہیں۔ مزید بیان انشاء اللہ سورہ انعام میں آئے گا۔(اختتام کلام امام)۔
یعنی معلوم پڑا کہ غیراللہ (جس میں انبیاء کرام اولیائے کرام آتے ہیں) ان کو بھی اللہ نے غیب عطا فرمایا ہے مگر وہ کتنا ہے اسکا ہمیں علم نہیں لیکن وہ اتنا ضرور ہے کہ انبیاء اپنی امت کے اولیاء کو بھی کچھ عطا فرماتے ہیں)۔ لہٰذا خوارج کا علمء غیبِ نبی سے انکار فقط ان کے اپنے دماغ کی اختراع اور ساتھ ساتھ (سلف) کے نام پر (سلفی) بننے والوں اور (دیو) کے نام پر (دیوبندی) کہلانے والوں کی جہالت ہے کہ وہ سلف ہی کے بیان کیئے گئے تفسیر اور اسکی روشنی میں آیتِ قرآنی یعنی نص کا انکار کرتے ہیں اور بنتے دیندار ہیں۔ وہ خود فیصلہ کرلیں
خوارج یعنی (سلفی وہابی دیوبندی نااھل حدیث) کے مشہور مفسر مولوی صلاح الدین یوسف اپنی تفسیر مکہ مطبع شاہ فہد قرآن کمپلیکس سعودیہ 1994 میں اس آیت 33 البقرۃ کی تفسیر میں لکھتے ہیں؛
٣٣۔ ١ اسماء سے مراد مسمیات (اشخاص و اشیاء) کے نام اور ان کے خواص و فوائد کا علم ہے جو اللہ تعالیٰ نے الہام کے ذریعے حضرت آدم علیہ کو سکھلا دیا۔ پھر جب ان سے کہا گیا کہ آدم (علیہ السلام) ان کے نام بتلاؤ تو انہوں نے فورا سب کچھ بیان کردیا جو فرشتے بیان نہ کرسکے۔ اسطرح اللہ تعالیٰ نے ایک تو فرشتوں پر حکمت تخلیق آدم واضح کردی۔ دوسرے دنیا کا نظام چلانے کے لئے علم کی اہمیت و فضیلت بیان فرما دی جب یہ حکمت و اہمیت فرشتوں پر واضح ہوئی تو انہوں نے اپنے قصور علم و فہم کا اعتراف کرلیا۔ فرشتوں کے اس اعتراف سے یہ بھی واضح ہوا کہ عالم الغیب صرف اللہ کی ذات ہے اللہ کے برگزیدہ بندوں کو بھی اتنا ہی علم ہوتا ہے جتنا اللہ تعالیٰ انہیں عطا فرماتا ہے۔ (اختتام وہابی تفسیر)۔
نوٹ: اس کا آخری جملہ نوٹ کیئے جانے کے قابل ہے کہ فاضل سوکالڈ مفسر صاحب نے لکھا (فرشتوں کے اس اعتراف سے یہ بھی واضح ہوا کہ عالم الغیب صرف اللہ کی ذات ہے اللہ کے برگزیدہ بندوں کو بھی اتنا ہی علم ہوتا ہے جتنا اللہ تعالیٰ انہیں عطا فرماتا ہے)۔۔۔۔ یعنی یہاں انکار بھی کررہے ہیں اور اقرار بھی کیونکہ سامنے آیت ہے۔ مگر عام عوام کو جب ان آیتوں کی من مانی تشریحات سمجھائی جاتی ہیں جیسے ان صلاح الدین صاحب نے کیا ہے اس کے تحت (انہیں دیوبندی وہابی خوارجہ) کی تعلیم یہ ہوتی ہے کہ غیب کا علم سب اللہ کو ہے۔ اور کسی بندے کو نہیں۔ لیکن اصلی سلف الصالحین نے کہیں نہیں لکھا کہ (عالم الغیب صرف اللہ کی ذات ہے) بلکہ امام قرطبی جیسے ہزار گنا زیادہ مستند مفسر فرمارہے ہیں کہ یہ اللہ ہی فرما رہا ہے کہ حقیقی اور مکمل علم غیب تو اللہ ہی کے اختیار میں ہے مگر اپنے پیغمبروں کو اور پھر وہ پیغمبر آگے اپنے امتیوں تک بھی غیب پہنچاتے ہیں۔ تو امام اور سلف کی تفسیر کے مطابق کتنی عیاری کے ساتھ اپنی بات گھسیڑ کر (تفسیرِ مکہ) چھاپ دی گئی۔ لاء کی زبان میں بہت ہی ہوشیاری کے ساتھ اپنے الفاظ کو یہاں ایڈ کیا گیا۔ جبکہ سلف کی اصل تفاسیر میں وہ کیا فرما رہے ہیں وہ آپ پڑھ ہی چکے ہیں۔ تو یہ لوگ ایسے قرآن کی آیات کے ساتھ ٹھٹھول کرتے ہیں اور لوگوں کو گمراہ کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ان کے اپنے الفاظ سے ان کا عقیدہ غلط ثابت ہوتا ہے۔ اور سلف کے مطابق ہمارا یعنی اصلی اہلسنت وجماعت صوفیاء کا عقیدہ سوفیصد درست کہ اللہ ہی عالم الغیب ہے اور اسی عالم الغیب نے اپنی عطا سے اپنے بندوں کو بھی علم الغیب عطا فرمایا ہے۔ کتنا ہے کیا ہے وہ ہمارا کام نہیں، ہمارا کام سمعنا و اطعنا ہے۔
(makshfa )