أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَلَوۡ اَنَّهُمۡ اَقَامُوا التَّوۡرٰٮةَ وَالۡاِنۡجِيۡلَ وَمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَيۡهِمۡ مِّنۡ رَّبِّهِمۡ لَاَ كَلُوۡا مِنۡ فَوۡقِهِمۡ وَمِنۡ تَحۡتِ اَرۡجُلِهِمۡ‌ؕ مِنۡهُمۡ اُمَّةٌ مُّقۡتَصِدَةٌ‌  ؕ وَكَثِيۡرٌ مِّنۡهُمۡ سَآءَ مَا يَعۡمَلُوۡنَ ۞

ترجمہ:

اور اگر یہ لوگ تورات اور انجیل کو قائم رکھتے اور اس کو (قائم رکھتے) جو ان کی طرف ان کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے تو ان کے اوپر سے بھی ان پر رزق برستا اور زمین سے بھی ان کے لیے رزق ابلتا، ان میں سے کچھ لوگ میانہ روی پر ہیں اور ان میں سے زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو برے کام کر رہے ہیں۔ ؏

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور اگر یہ لوگ تورات اور انجیل کو قائم رکھتے اور اس کو (قائم رکھتے) جو ان کی طرف ان کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے تو ان کے اوپر سے بھی ان پر رزق برستا اور زمین سے بھی ان کے لیے رزق ابلتا، ان میں سے کچھ لوگ میانہ روی پر ہیں اور ان میں سے زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو برے کام کر رہے ہیں۔ (المائدہ : ٦٦) 

گناہوں کو ترک کرنے اور نیکیاں کرنے سے رزق میں وسعت اور فراخی : 

اس سے پہلی آیت میں یہ فرمایا تھا کہ اگر اہل اللہ اور رسول پر ایمان لے آئیں اور کفر اور سرکشی میں اللہ سے ڈرتے رہیں ‘ تو وہ اخروی عذاب سے محفوظ رہیں گے ‘ اور آخرت میں جنت کی نعمتوں کو حاصل کریں گے اور اس آیت میں یہ فرمایا ہے کہ اگر یہ تورات اور انجیل کو قائم رکھیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی دنیا کو بھی جنت بنا دے گا۔ 

تورات اور انجیل کو قائم کرنے سے مراد یہ ہے کہ : 

(١) وہ تورات اور انجیل میں اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد کو پورا کریں اور ان میں یہ عہد بھی ہے کہ وہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائیں گے اور تورات اور انجیل میں آپ کی نبوت پر جو دلائل ہیں اور آپ کی جو علامات مذکور ہیں ‘ ان کو ظاہر کریں گے۔ 

(٢) تورات اور انجیل کے احکام پر عمل کریں گے ‘ اور اس میں مذکور حدود کو نافذ کریں گے۔ rnّ (٣) اس کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ اگر وہ ظہور اسلام سے پہلے تورات اور انجیل کی شریعت کو قائم رکھتے اور اس کے احکام پر عمل کرتے تو اللہ تعالیٰ کے غضب سے محفوظ رہتے ‘ لیکن انہوں نے تورات کے احکام پر عمل نہیں کیا اور انجیل کا انکار کیا اس لیے ان پر معاشی تنگی اور رزق میں کمی اور دنیا میں رسوائی اور خواری مسلط کردی گئی۔ 

اس آیت میں فرمایا ہے اور اس کو (قائم رکھتے) جو ان کی طرف ان کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے۔ اس کی تفسیر میں کئی قول ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد قرآن مجید ہے ‘ دوسرا قول یہ ہے اس سے مراد باقی انبیاء پر نازل کیے ہوئے صحیفے ہیں ‘ مثلا حضرت یبعیاہ ‘ حضرت حبقوق ‘ اور حضرت دانیال کے صحائف۔ 

نیز فرمایا تو یہ اپنے اوپر سے بھی کھاتے اور اپنے پیروں کے نیچے سے بھی کھاتے ‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب یہود نے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب پر اصرار کیا تو ان پر قحط اور تنگی مسلط کردی گئی ‘ حتی کہ انہوں نے کہا اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اگر یہ کفر کو چھوڑ دیں تو ان کے حالات بدل جائیں گے اور ان کی تنگی خوش حالی سے اور قحط غلہ کی فراوانی سے بدل جائے گا۔ اور یہ جو فرمایا : تو یہ اپنے اوپر سے بھی کھاتے اور اپنے پیروں کے نیچے سے بھی کھاتے ‘ اس کی کئی تفسیریں ہیں۔ 

(١) اس سے مراد غذائی اجناس کی پیداوار میں مبالغہ اور وسعت ہے۔ 

(٢) اوپر سے کھانے سے مراد ہے بارشوں کا ہونا اور پیروں سے کے نیچے سے کھانے سے مراد ہے زمین کا غلہ اگانا۔ 

(٣) اوپر سے کھانے سے مراد ہے درختوں کا پھلوں سے لد جانا اور پیروں کے نیچے سے کھانے سے مراد ہے کھیتوں کا لہلہانا۔ 

(٤) اوپر سے کھانے سے مراد ہے درختوں سے پھل اتارنا اور نیچے سے مراد ہے زمین پر پڑے ہوئے پھلوں کو چننا۔ 

خلاصہ یہ ہے کہ خوف خدا سے گناہوں کو ترک کرنے اور عبادات اور نیکیوں کے کرنے سے آسمان سے بھی رزق برستا ہے اور زمین بھی سونا اگلتی ہے۔ اس کی تائید اور نظیر میں حسب ذیل آیات ہیں : 

(آیت) ” ولو ان اھل القری امنوا واتقوا لفتحنا علیھم برکت من السمآء والارض “۔ (الاعراف : ٩٦) 

ترجمہ : اور اگر بستیوں والے ایمان لے آتے اور ڈرتے رہتے تو ہم ضرور ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے۔ 

(آیت) ” وان لواستقاموا علی الطریقۃ لاسقینھم مآء غدقا “۔ (الجن : ١٦) 

ترجمہ : اگر وہ سیدھی راہ پر قائم رہتے تو ہم ضرور کثیر پانی سے سیراب فرماتے۔ 

(آیت) ” ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا، ویرزقہ من حیث لا یحتسب ومن یتوکل علی اللہ فھو حسبہ ‘ ‘۔ (الطلاق : ٣۔ ٢) 

ترجمہ : جو شخص اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کے لئے نجات کی راہ پیدا کر دے گا اور اس کو وہاں سے روزی دے گا جہاں اسکا گمان بھی نہ ہوگا اور جو اللہ پر بھروسہ کرے تو وہ اسے کافی ہے۔ 

(آیت) ” لان شکرتم لازیدنکم “۔ (ابراھیم : ٧)

ترجمہ : اگر تم شکر کروگے تو میں ضرور تم کو زیادہ دوں گا۔ 

اس کے بعد فرمایا : ان میں سے کچھ لوگ وہ ہیں جو میانہ روی پر ہیں۔ ان سے مراد وہ لوگ ہیں جو اہل کتاب میں سے سلیم الفطرت تھے اور انہوں انہوں نے اسلام قبول کرلیا ‘ جیسے یہودوں میں سے حضرت عبداللہ بن سلام (رض) اور عیسائیوں میں سے نجاشی اور یا کفار میں سے وہ لوگ ہیں مراد ہیں جو معتدل تھے اور انہوں نے جلد یا بدیر اسلام قبول کرلیا۔ 

اس آیت کے آخر میں فرمایا : اور ان میں سے زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو برے کام کر رہے ہیں۔ اور یہ وہی لوگ ہیں جن کی مذمت اس سے پہلی آیتوں میں کی گئی ہے ‘ جو تورات اور انجیل میں تحریف کرتے تھے۔ حق کو چھپاتے تھے اور حرام کھاتے تھے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 5 المائدة آیت نمبر 66