غسل شروع کیسے ہوا
الفصل الثالث
تیسری فصل
حدیث نمبر :510
روایت ہے حضرت عکرمہ سے فرماتے ہیں ۱؎ کہ کچھ عراقی لوگ آئے۲؎ اور بولے کہ اے ابن عباس کیا آپ جمعہ کے دن کا غسل واجب سمجھتے ہیں فرمایا نہیں،لیکن یہ بہت پاکی ہے اورغسل کرنے والے کے لیئے اچھا ہے اور جوغسل نہ کرے اس پر ضروری نہیں۳؎ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ غسل شروع کیسے ہوا۔لوگ مشقت میں تھے کہ اون پہنتے اور اپنی پیٹھ پرمزدوریاں کرتے تھے ان کی مسجد تنگ تھی جس کی چھت نیچے تھی جو صرف چھپر(خس پوش)تھی حضور انورصلی اللہ علیہ وسلم ایک گرم دن میں تشریف لائے اور لوگ اسی اون میں پسینہ پسینہ تھے کہ ان سے بو پھیل گئی جس کی وجہ سے بعض نے بعض سے تکلیف پائی۴؎ تو جب رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بو پائی ۵؎ تو فرمایا اے لوگو جب یہ دن ہواکرے تونہالیاکرو،اور چاہیئے کہ ہرایک اپنا بہترین تیل و خوشبو مل لیا کرے ۶؎ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ پھر اﷲ نے مال دیا۷؎ اورلوگوں نے اون کے علاوہ اچھے لباس پہنے اور کام کاج سے چھوٹ گئے ۸؎ ان کی مسجد فراخ ہوگئی ۹؎ اور پسینہ سے جو بعض کو بعض سے تکلیف پہنچتی تھی وہ جاتی رہی۔(ابوداؤد)
شرح
۱؎ آپ بربری ہیں،سیدناعبداﷲ ابن عباس رضی اللہ عنھما کے غلام ہیں،تابعین میں سے ہیں اور مکہ مکرمہ کے فقہاء میں سے ہیں،اپنے زمانہ کے بڑے عالم تھے،۸۲ سال عمر ہوئی، ۱۰۷ھ میں وفات پائی۔
۲؎ عراق ملک عرب کا پانچواں صوبہ ہے،طول میں عبّادان سے موصل تک اورعرض میں قادسیہ سے حلوان تک پھیلا ہوا ہے،اس کادارالخلافہ بغدادہے۔کوفہ اوربصرہ وہاں کے مشہورشہرہیں،کربلااورنجف بھی عراق کی ہی بستیاں ہیں۔
۳؎ قریبًا تمام صحابہ کا یہی مذہب ہے اورجمہورعلماءبھی اس غسل کو سنت ہی مانتے ہیں۔
۴؎ وہ بھی ایسا کہ لکڑیوں کے ستون قائم کرکے کھجور کی شاخوں اورپتوں کی چھت ڈال دی گئی تھی،بارش میں پانی چھنتاتھااورعام دنوں میں دھوپ مگراس مسجد کا درجہ عرش معلی سے افضل تھا کہ یہاں کے امام امام الانبیاء تھے(صلی اللہ علیہ وسلم)۔معلوم ہوا کہ مسجد کا کمال عمارت سے نہیں بلکہ امام سے ہے۔
۵؎ اس سے دو مسئلے معلوم ہوئے: ایک یہ کہ صحابہ نے اس کی شکایت نہ کی کیونکہ صابروں کے سردار تھے۔دوسرے یہ کہ حضورکو اپنی امت کے دکھ درد کا بڑا خیال ہے کیونکہ نہ ہو وہ امت کے رکھوالے ہیں کوئی اپنا دکھ بیان کرے یا نہ،سب کا خیال ہے۔حضور کی یہ خبر گیری قیامت تک ہے،رب فرماتاہے:”عَزِیۡزٌ عَلَیۡہِ مَاعَنِتُّمْ”۔
۶؎ تیل سروجسم میں اورخوشبوکپڑوں میں۔اس سےمعلوم ہوا کہ مسلمانوں کے مجمعوں میں اچھے کپڑے پہن کر جانا چاہیئے،شادی،عرس،تبلیغ کے جلسے سب میں اس بات کا خیال رکھا جائے۔مجلسوں میں ہار پھول ڈالنے کی اصل یہ حدیث ہے۔
۷؎ چونکہ یہ مال اسلام کے ظہوراورمسلمانوں کے غلبہ کی علامت تھی اس لیے اسے خیرفرمایا،ورنہ اکثرفقرغنا سے اورصبرشکرسے افضل ہے۔
۸؎ کیونکہ جہادوں میں بہت غنیمتیں ہاتھ آئیں اورمسلمان لونڈی غلاموں کے مالک ہوئے۔
۹؎ مرقاۃ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات کے قریب خودمسجد بڑھائی۔اشعۃ میں ہے کہ پھر سیدنا عمر فاروق نے مسجد میں توسیع کی،پھر عثمان غنی نے اپنے زمانۂ خلافت میں بہت شانداراور وسیع مسجد بنائی،محراب عثمانی اب تک آپ کی یادگارموجودہے۔خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اسلام میں اولًاغسل جمعہ فرض تھا مذکورہ وجوہات سے،پھرسنت رہ گیافرضیت منسوخ ہوگئی۔