قُلْ لَّا يَسۡتَوِى الۡخَبِيۡثُ وَالطَّيِّبُ وَلَوۡ اَعۡجَبَكَ كَثۡرَةُ الۡخَبِيۡثِ ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ يٰۤاُولِى الۡاَ لۡبَابِ لَعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ۞- سورۃ نمبر 5 المائدة آیت نمبر 100
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
قُلْ لَّا يَسۡتَوِى الۡخَبِيۡثُ وَالطَّيِّبُ وَلَوۡ اَعۡجَبَكَ كَثۡرَةُ الۡخَبِيۡثِ ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ يٰۤاُولِى الۡاَ لۡبَابِ لَعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ۞
ترجمہ:
آپ کہیے کہ پاک اور ناپاک برابر نہیں ہوسکتا، خواہ (اے مخاطب) تم کو ناپاک کی کثرت اچھی لگتی ہو ‘ سو اے عقل والو ‘ تم اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ ؏
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آپ کہیے کہ پاک اور ناپاک برابر نہیں ہوسکتا، خواہ (اے مخاطب) تم کو ناپاک کی کثرت اچھی لگتی ہو ‘ سو اے عقل والو ‘ تم اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ (المائدہ : ١٠٠)
اللہ کے نزدیک نیکوکاروں اور بدکاروں کا برابر نہ ہونا :
پاک اور ناپاک کو برابر کرنا اور صالح اور فاسق وفاجر کو برابر رکھنا اللہ تعالیٰ کی حکمت کے خلاف ہے ‘ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
(آیت) ” ام نجعل الذین امنوا وعملوا الصلحت کالمفسدین فی الارض ام نجعل المتقین کالفجار “۔ (ص : ٢٨)
ترجمہ : کیا ہم ایمان لانے والوں اور نیک کام کرنے والوں کو زمین میں فساد کرنے والوں کی مثل کردیں گے یا ہم متقین کو بدکاروں کی مثل کردیں گے۔
(آیت) ” ام حسب الذین اجترحوا السیات ان نجعلھم کالذین امنوا وعملوا الصلحت سوآء محیاھم ومماتھم سآء ما یحکمون “۔ (الجاثیہ : ٢١)
ترجمہ : کیا جن لوگوں نے گناہوں کا ارتکاب کیا ہے ان کا یہ گمان ہے کہ ہم انہیں ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کی مثل کردیں گے کہ انکی زندگی اور موت برابر ہوجائے ؟ وہ کیسا برا فیصلہ کرتے ہیں۔
(آیت) ” افنجعل المسلمین کالمجرمین، مالکم کیف تحکمون “۔ (القلم : ٣٦۔ ٣٥)
کیا ہم فرمانبرداروں کو مجرموں کی مثل کردیں گے ؟ تمہیں کیا ہوگیا تم کیسا فیصلہ کر رہے ہو ؟
اس آیت میں یہ فرمایا ہے کہ اے رسول ! آپ انہیں بتا دیجئے کہ کھرا اور کھوٹا ‘ نفع بخش اور ضرر رساں ‘ نیک اور بد ‘ حلال اور حرام ‘ عادل اور ظالم کبھی برابر نہیں ہوسکتے ‘ خواہ دیکھنے والوں کو دنیا میں بدکردار اور بےایمان لوگ زیادہ عیش و عشرت اور زیادہ عزت وجاہ میں کیوں نہ دکھائی دیتے ہوں جیسے مسلمانوں کی بہ نسبت کفار زیادہ ترقی یافتہ اور زیادہ قومی اور مستحکم ہیں ‘ حتی کہ امریکی جس ملک پر چاہے فضائی پابندی لگوا دیتا ہے ‘ جیسے کئی سالوں سے لیبیا پر پابندی لگوائی ہوئی تھی ‘ اور جس ملک پر چاہے تجارتی اور اسلحہ سازی کی پابندی لگوا دے ‘ جیسے کئی سالوں سے عراق پر یہ پابندی لگوائی ہوئی ہے ‘ اسی طرح مسلمانوں میں بھی زیادہ عزت دار ‘ زیادہ خوشحال اور زیادہ طاقتور وہ لوگ ہیں جو بدعنوان سیاست دان اور بددیانت سرمایہ دار ہیں ‘ جو اسمگلنگ اور چور بازاری کرتے ہیں ‘ سودی کاروبار کرتے ہیں ‘ ٹیکس ادا نہیں کرتے ‘ قومی کاروبار معاہدوں میں رشوت اور ناجائز کمیشن لیتے ہیں اور بینکوں سے قرضے لے کر کھا جاتے ہیں ‘ یا معاف کرا لیتے ہیں ‘ معاشرہ میں یہی لوگ عزت دار سمجھے جاتے ہیں اور سڑک کے کنارے بیٹھا ہوا موچی جو اپنی محنت سے رزق حلال کماتا ہے ‘ اخبار فروش ‘ ملوں میں کام کرنے والے محنت کش اور راج اور مستری کا کام کرنے والے مزدور جو اپنے خون اور پسینہ سے حلال کمائی کھاتے ہیں ‘ ان کو معاشرہ میں ذلیل اور پسماندہ خیال کیا جاتا ہے ‘ لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال کھانے والے اور حرام کھانے والے ‘ پاک اور ناپاک ‘ طیب اور خبیث ہرگز برابر نہیں ہیں۔
سو اے صاحبان عقل ان خبیث لوگوں کی ظاہری آن بان کو نہ دیکھو ‘ شیطان کے دام میں نہ آؤ‘ اور مال حرام کی زیب وزینت سے مسحور مت ہو ‘ کیونکہ عقل مندی کا تقاضا یہ ہے کہ بندہ اللہ سے ڈرے اور فانی کو باقی پر ‘ عارضی کو دائمی پر ‘ باطل کو حق پر ‘ فساد کو صلاح پر اور حرام کو حلال پر ترجیح نہ دے اور دنیا کے بدلہ میں آخرت کا سودا نہ کرے ‘ کہ یہ سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 5 المائدة آیت نمبر 100