تحریر کو لازمی پڑھیں…

وہ کونسے احکام ہیں جن میں رمضان کے روزوں کی اداء اور قضاء کے اعتبار سے فرق ہوتا ہے ؟

جواب أز ابن طفیل الأزہری ( محمد علی ):

سب سے پہلے أداء اور قضاء کا معنی:

أداء یعنی ماہ رمضان میں روزے رکھنے کو کہتے ہیں

اور قضاء کا معنی جو ماہ رمضان میں روزے نہ رکھ سکے اور بعد میں رکھے اسکو قضاء رمضان کہتے ہیں۔

بنیادی أحکام کا فرق :

رمضان کے روزوں کی أداء اور قضاء میں درج ذیل أحکام کا فرق ہوتا ہے:

پہلا حکم: وقت

رمضان کے روزوں کی أداء کا وقت ماہ رمضان ہے ، اور رمضان کی قضاء کا کوئی وقت خاص نہیں لیکن بعض فقہائے کرام فرماتے ہیں :

اگلا رمضان آنے سے پہلے قضاء کرلے اور یہی مستحب ہے جمیع فقہاء کے ہاں۔

دوسرا حکم: تبییت النیہ

یعنی رمضان کے روزوں کی اداء میں تبییت النیہ( طلوع فجر ثانی سے پہلے نیت کرنا یعنی رات کو نیت کرنا) شرط نہیں ہے أئمہ أحناف کے ہاں بلکہ انکے ہاں شرط ہے کہ: آدھا دن گزرنے سے پہلے نیت کرلے تو روزہ صحیح ہے لیکن رات کو نیت کرنا افضل ہے.

أور أئمہ مالکیہ شافعیہ حنابلہ کے ہاں رات سے ہی نیت کرنا شرط ہے یعنی طلوع فجر سے پہلے پہلے۔

رہی قضاء تو اس میں سب کا اتفاق ہے کہ تبییت النیہ شرط ہے یعنی اگر طلوع فجر کے بعد نیت کی تو رمضان کی قضاء کا روزہ صحیح نہیں ہوگا۔

تيسرا حکم: تعیین النیہ

یعنی رمضان کا نام لے کر نیت کرنا

یہ أداء میں أحناف کے ہاں شرط نہیں الا کہ مسافر اور مریض کے إمام أبو حنیفہ کی راۓ پہ لیکن باقی مذاہب ثلاثہ کے ہاں سب کے لیے شرط ہے چاہے وہ مسافر ہے یا نہیں.

اور رمضان کی قضاء میں رمضان کا نام لے کر نیت کرنا سب فقہاء کے ہاں شرط ہے قضاء رمضان میں رمضان کا نام لیے بغیر نیت کرنے سے روزہ صحیح نہیں ہوگا۔

چوتھا حکم: تعدد النیہ

یعنی رمضان کے ہر روزے کی نیت کرنا یہ أداء رمضان میں أحناف اور شافعیہ کے ہاں شرط ہے لیکن مالکیہ کے ہاں نہیں

پر رمضان کے قضاء روزوں میں باتفاق الفقہاء تعدد نیت شرط ہے

پانچواں حکم: تتابع

یعنی مسلسل روزے رکھنا بغیر ناغہ کیے یہ تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ رمضان کے أداء روزوں میں شرط ہے

لیکن رمضان کے قضاء روزوں میں نہیں بلکہ تتابع مستحب ہے ،

أور امام طحاوی احکام قرآن میں فرماتے ہیں : کوئی قضاء رمضان کے روزے مسلسل رکھے یا وقفے سے فضیلت و ثواب میں دونوں برابر ہیں۔

چھٹا حکم: کفارہ

تمام فقہائے کرام کا اتفاق ہے کہ : رمضان کے أداء روزوں میں کوئی جان بوجھ کر کھاۓ یا پیے یا جماع کرے تو قضاء اور کفارہ دونوں واجب ہیں

لیکن رمضان کے روزے کی قضاء کرتے وقت اگر یہی افعال جان بوجھ کر کرتا ہے تو صرف قضاء واجب ہے کفارہ نہیں ہوگا۔

ملاحظہ:

ہر مذہب نے أپنی راۓ پر قرآن و حدیث سے استنباط کیا ہے جو انکی کتب میں کتاب الصوم میں مذکور ہے:

۔بدائع الصنائع، کاسانی

۔ حاشیہ دسوقی ، دسوقی مالکی

۔مجموع، نووی شافعی

۔مغنی ابن قدامہ حنبلی

۔ ملاحظہ فرمائیں کہ قضاء کے مسائل میں سب فقہاء کا اتفاق رہا ہے تو یہ انکا رد ہے جو کہتے ہیں ایک بھی مسئلہ میں ان مذاہب کا اتفاق نہیں.

واللہ أعلم