img_1554036424

سید نا علی المرتضیٰ شیر خدارضی اﷲتعالیٰ عنہ

پروردہ رسول ﷺاقلیم ولا یت کے شہنشاہ، عبادات وریاضت میں مسلمانوں کے پیشوا،ہمت وشجا عت کے عظیم تاج دار ،معرکہ خیبر کے شہسوار،خاتون جنت کے شوہر نامدار،سرداران جنت کے والد گرامی ،حضرت علی رضی اﷲتعالیٰ عنہ جن کی ولادت ’’کعبہ ‘‘میں ہوئی اور شہا دت ’’مسجد ‘‘میں پائی۔ یعنی جن کی زندگی کا محور آغاز سے انجام تک اﷲتعالیٰ کا گھر تھا ۔رسول ﷺخاتم الانبیاء ہیں اور خاتم الخلفاء ہیں ،وہ جن کی سید کونین ﷺنازبرداری کریں۔یہ وہ ہیں جن کی محبت میں جینا عبادت ہے اور ان کی محبت میں مرنا سعادت ہے۔انہی عظیم المرتبت کوحضرت علی رضی اﷲتعالیٰ عنہ کہتے ہیں۔

حضرت علی رضی اﷲتعالیٰ عنہ،نجیب الطرفین ہاشمی اور رسول اﷲﷺکے سگے چچا زاد بھائی ہیں ،آپ کی کنیت ’’ابو الحسن اور ابو تراب ‘‘ہے یوں تو حضرت علی کے بہت سے القاب وخطاب ہیں مگر آپ کو ’’ابو تراب ‘‘بہت پسند تھا ۔

حضرت علی رضی اﷲتعالیٰ عنہ کی جملہ خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ آپ رسول اﷲﷺکے سگے چچا زاد بھائی ہونے کے علاوہ ’’عقد مواخاۃ ‘‘میں بھی آپ ﷺکے ’’بھائی ‘‘ہیں ،حضرت عبد اﷲبن عمر بیان کرتے ہیں کہ جب اﷲکے رسول ﷺنے صحابہ کرام کے درمیان ’’بھائی چارہ ‘‘قائم فرمایااور ایک صحابی کودوسرے صحابی کادینی واسلامی بھائی بنا دیا تو حضرت علی آبدیدہ ہوکر بارگاہ رسالت ﷺمیں حاضر ہوئے اور عرض کیا’’یارسول اﷲﷺآپ نے تمام صحابہ کو ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا لیکن مجھے کسی کا بھائی نہیں بنایا ‘‘ اس پر رسول اﷲﷺنے نہایت پیا راور محبت سے فرمایا ’’اے علی !تم دنیا وآخرت دونو ں میں میرے بھائی ہو ۔‘‘

حضرت علی کی عمر ابھی صرف دس سال تھی ،جب حضرت محمد ﷺکو بارگاہ خداوند ی سے نبوت ورسالت ﷺکا عظیم الشان منصب عطا کیا گیا۔حضرت علی بچپن سے ہی حضور اکرم ﷺکے ساتھ رہتے آرہے تھے ،اس لئے آپ کو اسلام کے مذہبی مناظر سب سے پہلے نظر آئے ۔ایک روزحضور سید عالم ﷺاور ام المومنین حضرت خدیجۃ ُالکبریٰ کو اﷲکی عبا دت میں مصروف دیکھا تو پو چھنے لگے کہ یہ آپ دونو ں کیا کر رہے ہیں ؟نبی اکرم ﷺنے اپنے نبوت ورسالت کے منصب گرامی کی خبر دی اور ساتھ ہی کفرو شرک کی مذمت کرکے آپ کو توحیدورسالت پر ایمان لانے کی دعوت دی ۔چنانچہ حضرت علی ؓنے فوراًہی اسلام وایمان کی دولت حاصل کی ۔

حضور سرکاردوعالم ﷺکی جو ہر شناس نگاہوں نے حضرت علی کی خداداد قابلیت واستعداد کا پہلے ہی اندازہ کرلیا تھا اور آپ ﷺکی زبان سے حضرت علی کو ’’باب العلم ‘‘کی سند مل چکی تھی ۔حضرت علی نے نبی کریم ﷺسے تقریباًپانچ سو چھیاسی احادیث روایت کی ہیں آپ ﷺکے علمی نکات ،فتاویٰ اور بہترین فیصلو ں کا انمول مجمو عہ اسلامی علوم کے خزانوں کا بہترین اور قیمتی سرمایہ ہیں ۔حضرت علی کمال علم وفضل ،جمال وفصاحت وبلا غت ،پر تاثیر مواعظ وخطابت بے مثال فیاضی وسخاوت ،بے نظیر جرأت وشجا عت اور قرابت رسول ﷺمیں تمام صحابہ کرام میں ایک ممتاز اور منفرد فضیلت کے مالک ہیں ۔

حضرت علی رضی اﷲتعالیٰ عنہ کی بے مثا ل ہمت وشجا عت اور جرأت وبہا دری کی لازوال داستانوں کے ساتھ سارے عرب وعجم میں آپ کی قوت بازوکے چرچے تھے ۔آپ کے رعب ودبدبہ سے بڑے بڑے پہلوانوں کے دل کانپ جاتے تھے ۔جنگ تبوک کے موقع پر سرکا ر  دوعالم ﷺنے آپ کو مدینہ منورہ میں اپنا جا نشین مقررفرمایا تھا ،اس لئے اس غزوہ میں آپ شریک نہ ہوسکے۔اس کے علاوہ باقی تما م غزوات وسرایا میں آپ شریک ہوئے اور بڑی جانبازی کے ساتھ کفار ومشرکین کا مقابلہ کیا اور بڑے بڑے بہادروں اور شہسواروں کو’’ذوالفقار حیدری ‘‘سے موت کے گھاٹ اُتارا ۔

حضرت علی رضی اﷲتعالیٰ عنہ سید عالم ﷺکی بعثت سے دس سال پہلے پیدا ہوئے ،ابو طالب چونکہ کثیر العیال اور مالی ومعاشی تنگی سے نہا یت پریشان تھے ،اس لئے رحمت دوعالمﷺنے اپنے محبوب چچا کی تنگ دستی اور مفلسی سے متاثرہوکر علی رضی اﷲتعالیٰ عنہ کی کفالت کی ذمے داری لی ۔چنانچہ آغازطفولیت ہی سے حضرت علی رضی اﷲتعالیٰ عنہ ،حضور خاتم الانبیاء ﷺکی آغوش پرورش میں رہے ۔اس لئے آپ قدرتاًمحاسن اخلاق اور حسن تربیت کا بہترین نمونہ تھے ،گویا حضرت علی رضی اﷲتعالیٰ عنہ ،حضرت محمد مصطفی ﷺکے اخلا ق حسنہ کے چمن کے باغ وبہا ر ہیں ،حضرت علی ؓ کو بچپن سے ہی درس گاہ نبوت میں تعلیم وتربیت حاصل کرنے کا موقع ملا جس کا سلسلہ ہمیشہ قائم ودوائم رہا ۔آپ رضی اﷲتعالیٰ عنہ اس پر فخر ونا زکرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں روزانہ صبح کو آپ ﷺکی خدمت اقدس میں حاضر ہوا کرتا تھا اور تقرب کا یہ درجہ میرے علاوہ کسی کو حاصل نہ تھا۔چنانچہ اسی وجہ سے آپ کو حضور اکرم ﷺکے تحریری کام کرنے کی سعادت بھی حاصل تھی ۔کاتبان وحی میں آپ کا اسم گرامی سرفہر ست ہے۔’’صلح حدیبیہ ‘‘کا صلح نامہ آپ نے ہی لکھا تھا ۔

حضرت علی المرتضیٰ کرم اﷲوجہہ نے ایک طویل مدت تک اہل ایمان کے قلوب واذہان کو قرآن وحدیث اور علم وعرفان سے فیض یاب فرمایا ،اسلام کی راہ میں آخر عمر تک کفار سے بر سر پیکار رہے ۔دین اسلام کی بے مثال تبلیغ اور خدمت کی ،ہر قدم پر اپنے سابق خلفائے راشدین اور صحابہ کرام کی ہرممکن راہنمائی کی ،اسلام کی راہ میں اپنا مال ومتاع اور اپنا تن من دھن قربان کیا اور آخر اسلام کی خاطر اپنی جان بھی قربان کردی ۔اکیس رمضان المبارک بروزجمعۃ ُالمبارک 40ہجری کوفجر کی نماز میں عین حالت سجدہ میں حضرت علی رضی اﷲتعالیٰ عنہ شہا دت کے عظیم منصب پر فائز ہوئے اور یوں علم وفضل ،زہد وتقویٰ ،فیاضی وسخاوت ،جرأت وبہادری ،شجاعت وبسالت اور رشد وہدایت کا روشن وتابان آفتاب غروب ہو گیا ۔حضرت علی رضی اﷲتعالیٰ عنہ ہما ری ظاہری نگاہوں سے ضرور اوجھل ہوگئے ہیں لیکن اہل باطن کے سامنے آج بھی رونق افروز ہیں ،اہل محبت آج بھی آپ سے رابطہ کرتے ہیں،خانہ کعبہ سے لے کر کو فہ کی جامع مسجد تک آپ کی زندگی کا ہر لمحہ لائق رشک اور قابل تقلید ہے ۔ بشکریہ  روزنامہ اوصاف