حدیث نمبر :549

روایت ہے حضرت عمر ابن خطاب سے آپ نے اپنے حکام کو لکھا کہ میرے نزدیک سارے کاموں سے زیادہ اہم نماز ہے ۱؎ جس نے اسے محفوظ رکھا اور اس کی پابندی کی اس نے اپنا دین محفوظ رکھا اور جس نے اسے ضائع کردیا تو وہ نماز کے سواءکوبہت ضائع کرےگا ۲؎ پھرلکھا کہ ظہراس وقت پڑھو جب سایہ ایک گز ہوجائے۳؎ یہاں تک پڑھو کہ ہر ایک کا سایہ اس کے برابرہوجائے۴؎ اورعصرجب پڑھو کہ سورج اونچا سفید صاف ہوجس قدرکہ سواء آفتاب ڈوبنے سے پہلے دوتین کوس چل لے ۵؎ اورمغرب جب پڑھو کہ سورج ڈوب جائے اورعشاء اس وقت کہ شفق غائب ہوجائے تہائی رات تک ۶؎ تو جوعشاء سے پہلے سوجائے خدا کرے اس کی آنکھیں نہ سوئیں،جو سوجائے اس کی آنکھیں نہ سوئیں،جوسوجائے اس کی آنکھیں نہ سوئیں ۷؎ اور فجر پڑھو کہ تارے چمکتے ہوں گتھے ہوئے ہوں ۸؎ (مالک)

شرح

۱؎ یعنی سلطنت کے کام ملکی انتظام نماز کے بعدہیں جب نمازکا وقت آجائے توسارے کام ویسے ہی چھوڑ دو اس سے دو مسئلےمعلوم ہوئے:ایک یہ کہ سلطان اسلام کو چاہیئے کہ رعایا کے دینی حالات سنبھالے صرف دنیا پر نظر نہ رکھے۔دوسرے یہ کہ بڑوں کو سنبھالوچھوٹے خودسنبھل جائیں گے اسی لئے آپ نے حکام کو خصوصیت سے خطاب فرمایا۔

۲؎ حفظ سے مراد نمازکو درست کرکے پڑھنا ہے اورمحافظت سے مرادہمیشہ اورصحیح وقت پرپڑھنا۔اس فرمان سےمعلوم ہوا کہ جیسے نمازکی پابندی تمام نیکیوں کا دروازہ کھول دیتی ہے ایسے ہی نماز چھوڑنا گناہوں کا دروازہ کھولتا ہے،رب فرماتاہے:”اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ”الایہ۔

۳؎ سایہ سے مراد عام انسان کا سایہ ہے،گز سے شرعی گز مراد ہے،یعنی ۲۴ انگل یا ڈیڑھ فٹ۔آپ کا یہ فرمان اس موسم کے لحاظ سے ہے جب خط لکھاتھا اس وقت اس ملک میں ایک ہاتھ سایہ ہونے پرہی وقت ظہر شروع ہوتا ہوگا ورنہ مختلف وقتوں اورمختلف علاقوں میں وقت ظہرمختلف رہتاہے۔

۴؎ اس قسم کی تمام احادیث امام شافعی کی دلیل ہیں کہ وقت ظہرایک مثل پرختم ہوجاتا ہے،امام اعظم کے نزدیک دومثل تک وقت ظہر رہتا ہے،ان کے ہاں ایک مثل کی احادیث منسوخ ہیں ان کی ناسخ وہ احادیث ہیں جو اگلے باب میں آرہی ہیں۔حضرت عمر کا یہ فرمان بیان مستحب کے لئے ہے،یعنی بہتریہ ہے کہ ظہر ایک مثل تک پڑھ لو۔ہمارا مذہب بھی یہی ہے کہ ظہر ایک مثل تک پڑھ لے اورعصردومثل کے بعد ورنہ ظاہری معنی سے یہ حدیث امام شافعی کے بھی خلاف ہوگی کیونکہ ان کے نزدیک بھی اصلی سایہ کے سواء ایک مثل سایہ چاہیئے اوریہاں اصلی سایہ کا ذکرنہیں۔

۵؎ یعنی سورج ڈوبنے سے ۵۰منٹ پہلے کیونکہ بیس منٹ پہلے سورج پیلا پڑتا ہے۔یہ وقت کراہت ہے اس سے آدھا گھنٹہ پہلے عصرشروع کرنی چاہیئے اتنی دیر میں سوار دوتین کوس بخوبی چل لے گا۔

۶؎ یہاں بھی وقت مستحب ہی کا ذکر ہے ورنہ وقت مغرب شفق ڈوبنے تک رہتا ہے اوروقت عشاءصبح صادق تک،مگر مستحب یہ ہے کہ مغرب سورج ڈوبتے ہی پڑھ لی جائے اورعشاءتہائی رات سے پہلے۔

۷؎ جناب فاروق اعظم کی یہ بددعا اظہارغضب کے لئے ہے۔خیال رہے کہ نمازعشاءسے پہلے سوجانا اور عشاء کے بعدبلاضرورت جاگتے رہنا سنت کے خلاف اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت ناپسندہے لیکن نمازسے پہلے سو کر نماز ہی نہ پڑھنا اور ایسے ہی عشاءکے بعدجاگ کرفجرقضاءکردینا حرام ہے کیونکہ حرام کا ذریعہ بھی حرا م ہوتاہے۔

۸؎ یعنی فجراندھیرے میں پڑھو،یہ حدیث امام شافعی رحمۃ اﷲ علیہ کی دلیل ہے۔امام اعظم کے نزدیک فجر اجیالاکرکے پڑھنی چاہیئے،امام صاحب کے دلائل اگلے باب میں آرہے ہیں۔اوراوقات نمازکی پوری تحقیق ہماری کتاب”جاء الحق”حصہ دوم میں دیکھو۔