أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قُلۡ اِنِّىۡ عَلٰى بَيِّنَةٍ مِّنۡ رَّبِّىۡ وَكَذَّبۡتُمۡ بِهٖ‌ؕ مَا عِنۡدِىۡ مَا تَسۡتَعۡجِلُوۡنَ بِهٖؕ اِنِ الۡحُكۡمُ اِلَّا لِلّٰهِ‌ؕ يَقُصُّ الۡحَـقَّ‌ وَهُوَ خَيۡرُ الۡفٰصِلِيۡنَ‏ ۞

ترجمہ:

آپ کہیے بیشک میں اپنے رب کی طرف سے اس روشن دلیل پر ہوں جس کو تم نے جھٹلایا ہے جس چیز کو تم عجلت سے طلب کر رہے ہو وہ میرے پاس نہیں ہے، حکم صرف اللہ کا ہے ‘ وہ حق بیان فرماتا ہے اور وہ بہترین فیصلہ فرمانے والا ہے۔

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آپ کہیے بیشک میں اپنے رب کی طرف سے اس روشن دلیل پر ہوں جس کو تم نے جھٹلایا ہے جس چیز کو تم عجلت سے طلب کر رہے ہو وہ میرے پاس نہیں ہے، حکم صرف اللہ کا ہے ‘ وہ حق بیان فرماتا ہے اور وہ بہترین فیصلہ فرمانے والا ہے۔ آپ کہیے اگر میرے پاس وہ چیز ہوتی جس کو تم بہ عجلت طلب کر رہے ہو تو میرے اور تمہارے درمیان (کبھی کا) فیصلہ ہوچکا ہوتا اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔ (الانعام : ٥٨۔ ٥٧) 

کفار کے مطالبہ کے باوجود ان پر عذاب نازل نہ کرنے کی وجہ : 

اس آیت میں یہ ذکر ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل پر قائم تھے اور کفار قریش اس دلیل کی تکذیب کرتے تھے۔ اس دلیل سے مراد وہ دلیل ہے جو قرآن مجید میں اللہ کی توحید پر قائم کی گئی ہے ‘ جب کفار اس دلیل کو سنتے تو اس کو جھٹلاتے تھے ‘ وہ ظالم لوگ آپس میں سرگوشی کرتے ہوئے کہتے تھے : 

(آیت) ” ھل ھذا الا بشر مثلکم افتاتون السحر وانتم تبصرون “۔ (الانبیاء : ٣) 

ترجمہ : یہ صرف تم جیسے بشر ہیں ‘ کیا تم جادو کے پاس جاتے ہو حالانکہ تم دیکھتے ہو۔ 

نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان مشرکین کو عذاب الہی سے ڈراتے تھے ‘ تو وہ ڈرنے کے بجائے آپ سے اس عذاب کو جلد بھیجنے کا مطالبہ کرتے تھے۔ قرآن مجید میں ہے : 

(آیت) ” واذ قالوا اللھم ان کان ھذا ھو الحق من عندک فامطر علینا حجارۃ من السمآء او ائتنا بعذاب الیم، وما کان اللہ لیعذبھم وانت فیھم وما کان اللہ معذبھم وھم یستغفرون “۔ (الانفال : ٣٣۔ ٣٢) 

ترجمہ : اور جب انہوں نے یہ کہا کہ اے اللہ ! اگر یہی (قرآن) تیری جانب سے حق ہے تو تو اپنی طرف سے ہم پر آسمان سے پتھر برسا ‘ یا (کوئی اور) دردناک عذاب لے آ ‘ اور اللہ کی شان نہیں کہ وہ ان کو عذاب دے دو آنحالیکہ آپ ان میں موجود ہوں اور اللہ انہیں عذاب دینے والا نہیں ہے ‘ درآنحالیکہ وہ استغفار کر رہے ہوں۔ 

علامہ عبدالرحمان بن علی بن محمد جوزی حنبلی متوفی ٥٩٧ ھ لکھتے ہیں : 

ابو صالح حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ نضر بن الحارث اور باقی قریش نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے استہزاء کہا اے (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس وہ عذاب لے کر آئیں جس سے آپ ہم کو ڈراتے ہیں ‘ اور نضر نے کعبہ کے پاس کھڑے ہو کر کہا اے اللہ ! جو یہ کہتے ہیں اگر وہ حق ہے تو ‘ تو ہمارے اوپر عذاب بھیج دے۔ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی ‘ جس چیز کو تم عجلت سے طلب کر رہے ہو وہ میرے پاس نہیں ہے۔ نیز فرمایا آپ کہئے ! اگر میرے پاس وہ چیز ہوتی جس کو تم بہ عجلت طلب کر رہے ہو تو میرے اور تمہارے درمیان (کبھی کا) فیصلہ ہوچکا ہوتا۔ (زادالمیسر ج ٣ ص ‘ ٥١ مطبوعہ مکتب اسلامی ‘ بیروت ‘ ١٤٠٧ ھ اسباب النزول ‘ ٢٢٢) 

اس آیت سے مراد یہ ہے کہ اس عذاب کو نازل کرنا صرف اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کے اختیار میں ہے۔ وہ اگر چاہے گا تو عذاب کو نازل فرمائے گا اور اگر وہ اپنی کسی حکمت کی بنا پر عذاب کو نہ نازل کرنا چاہے تو نہیں فرمائے گا ‘ مجھے اس عذاب کے نازل کرنے یا اس کو مقدم اور موخر کرنے پر قدرت نہیں ہے ‘ اور اگر بالفرض یا معاملہ میرے اختیار میں ہوتا تو میں تمہارے مطالبہ پر عذاب کو لا چکا ہوتا۔ 

زیر بحث آیت کا ایک حدیث سے تعارض اور اس کا جواب : 

اس جگہ یہ سوال وارد ہوتا ہے کہ اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ چاہتے تھے کہ کفار پر عذاب نازل ہو اور بعض احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ نہیں چاہتے تھے کہ کفار پر عذاب نازل ہو ‘ جیسا کہ حسب ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے۔ 

نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجہ حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا ‘ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ پر کوئی ایسا دن آیا جو جنگ احد سے زیادہ شدید تھا ؟ آپ نے فرمایا مجھے تمہاری قوم سے بہت زیادہ تکلیف پہنچی اور سب سے زیادہ تکلیف وہ تھی جو مجھے یوم عقبہ کو پہنچی۔ جب میں نے اپنے آپ کو ابن عبد یا لیل بن عبد کلال پر پیش کیا (یعنی اس کو دعوت اسلام دی) لیکن اس نے وہ چیز قبول نہیں کی جو میں چاہتا تھا۔ پس میں غم زدہ ہو کر واپس چلا آیا ‘ اور قرن ثعالب پر پہنچ کر مجھے افاقہ ہوا ‘ اچانک میں نے سراٹھا کر دیکھا تو مجھ پر ایک بادل نے سایہ کیا ہوا تھا۔ میں نے دیکھا اس میں جبرائیل تھے ‘ انہوں نے مجھے آواز دی اور کہا آپ نے اپنی قوم سے جو کچھ کہا تھا ‘ وہ اللہ تعالیٰ نے سن لیا اور جو انہوں نے آپ کو جواب دیا ‘ وہ بھی سن لیا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے ‘ تاکہ آپ اس کو ان کفار کے متعلق جو چاہیں ‘ حکم دیں۔ حضور نے فرمایا پھر پہاڑوں کے فرشتہ نے مجھے آواز دی اور مجھے سلام کیا۔ پھر کہا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کا جواب سن لیا اور میں پہاڑوں کا فرشتہ ہوں اور مجھے آپ کے رب نے آپ کے پاس اس لیے بھیجا ہے ‘ تاکہ آپ مجھے جو چاہیں حکم دیں۔ اگر آپ چاہیں تو میں ان دونوں پہاڑوں کو ان پر بچھا دوں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلکہ مجھے یہ امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی پشتوں سے ان لوگوں کو پیدا کرے گا جو صرف اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے۔ (صحیح مسلم ‘ جہاد ‘ ١١١‘ (١٧٩٥) ٤٥٧٢‘ صحیح البخاری ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ٣٢٣١‘ سنن کبری للنسائی ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث :‘ ٧٧٠٦) 

اس آیت میں اور اس حدیث میں اس طرح موافقت ہے کہ آیت میں کفار کی طرف سے عذاب کے مطالبہ پر عذاب نازل کرنے کا ذکر ہے اور حدیث میں کفار کی طف سے عذاب کے مطالبہ کا ذکر نہیں ہے ‘ بلکہ پہاڑوں کے فرشتے کی اس خواہش کا ذکر ہے کہ کفار پر عذاب نازل کیا جائے جس کے جواب میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے امید ہے کہ ان کی پشتوں سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ شرک نہیں کریں گے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 6 الأنعام آیت نمبر 57