أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَهُوَ الۡقَاهِرُ فَوۡقَ عِبَادِهٖ‌ وَيُرۡسِلُ عَلَيۡكُمۡ حَفَظَةً ؕ حَتّٰٓى اِذَا جَآءَ اَحَدَكُمُ الۡمَوۡتُ تَوَفَّتۡهُ رُسُلُـنَا وَهُمۡ لَا يُفَرِّطُوۡنَ ۞

ترجمہ:

اور وہی اپنے بندوں پر غالب ہے اور تم پر نگرانی کرنے والے (فرشتے) بھیجتا ہے ‘ حتی کہ جب تم میں سے کسی کو موت آتی ہے تو ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے اس (کی روح) کو قبض کرتے ہیں اور وہ کوئی کوتاہی نہیں کرتے۔

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور وہی اپنے بندوں پر غالب ہے اور تم پر نگرانی کرنے والے فرشتے بھیجتا ہے ‘ (الایہ) (الانعام : ٦١) 

اللہ تعالیٰ کا قہر کا معنی : 

اس سے پہلی آیتوں میں بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حکمت پر دلائل تھے اور اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حکمت پر دلیل ہے۔ اس آیت کے شروع میں فرمایا ہے اور وہ اپنے بندوں پر قاہر ہے۔ اللہ تعالیٰ کبھی عدم پر قہر فرماتا ہے تو ممکن کو عدم سے وجود میں لے آتا ہے اور کبھی وجود پر قہر فرماتا ہے تو ممکن کو وجود سے عدم کی طرف لے آتا ہے۔ اسی طرح وہ ہر چیز پر اس کی ضد سے قہر فرماتا ہے۔ مثلا نور پر ظلمت کے ساتھ قہر فرماتا ہے اور ظلمت پر نور کے ساتھ ‘ دن پر رات کے ساتھ اور رات پر دن کے ساتھ قہر فرماتا ہے حیات پر موت کے ساتھ ‘ موت پر حیات کے ساتھ قہر فرماتا ہے اور یہ قہر کا ایسا بحر ہے جس کا کوئی ساحل نہیں ہے۔ وہ ہر چیز پر اس کی ضد کے ساتھ قہر فرماتا ہے۔ وہ مالک الملک ہے جس کو چاہتا ہے ‘ ملک عطا فرماتا ہے اور جس سے چاہتا ہے ملک چھین لیتا ہے ‘ وہ جس کو چاہتا ہے ‘ عزت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ‘ ذلت میں مبتلا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : 

(آیت) ” وان یمسسک اللہ بضر فلا کاشف لہ الا ھو وان یردک بخیر فلا رآد لفضلہ “۔ (یونس : ١٠٧) 

ترجمہ : (اے مخاطب) اور اللہ اگر تجھے کوئی ضرر پہنچائے تو اس کے سوا کوئی اسے دور کرنے والا نہیں اور اگر وہ تیرے لیے کسی خیر کا ارادہ کرلے تو اس کے سوا کوئی اور اس کے فضل کو روکنے والا نہیں۔ 

اللہ تعالیٰ نے دن کام کاج کے لیے بنایا ہے اور رات نیند کے لیے بنائی ہے۔ اگر انسان دن میں نیند کا معمول بنانا چاہیں اور رات کو کام کاج کا معمول بنانا چاہیں تو نہیں بنا سکتے۔ وہ قہرارات کو سونے اور دن کو کام کاج پر مجبور ہیں۔ کتنی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان جاگنا چاہتا ہے اور نیند اس پر غالب آجاتی ہے اور کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ وہ سونا چاہتا ہے اور اس کو نیند نہیں آتی ‘ صحت اور بیماری اور حیات اور موت میں انسان کا مغلوب ہونا اور اللہ تعالیٰ کا ان پر غالب ہونا اور بھی واضح ہے۔ 

کراما کاتبین کی تعریف اور ان کے فرائض : 

اس کے بعد فرمایا اور وہ تم پر حفاظت کرنے والے فرشتے بھیجتا ہے۔ حفظۃ ‘ حافظ کی جمع ہے جیسے طلبہ طالب کی جمع ہے۔ اس سے مراد وہ فرشتے ہیں جو بندوں کے اعمال کی حفاظت کرتے ہیں اور بندوں کی آفات سے حفاظت کرتے ہیں۔ قتادہ سے منقول ہے کہ وہ عمل ‘ رزق اور میعاد حیات کی حفاظت کرتے ہیں۔ یہ دو فرشتے رات کے اعمال کو لکھنے کے لیے ہیں اور دو دن کے اعمال کے لکھنے کے لیے ہیں۔ ایک فرشتہ نیکیوں کو لکھتا ہے اور اور دوسرا فرشتہ برائیوں کو لکھتا ہے ‘ اور مباح کاموں کے لکھنے میں اختلاف ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ کل پانچ فرشتے حفظہ ہیں۔ دو دن کے ‘ دو رات کے اور ایک فرشتہ وہ ہے جو دن رات میں سے کسی بھی وقت جدا نہیں ہوتا۔ 

کراما کاتبین کے متعلق قرآن مجید کی آیات : 

(آیت) ” وان علیکم لحفظین، کراما کاتبین، یعلمون ما تفعلون “۔ (الانفطار : ١٢۔ ١٠) 

ترجمہ : اور بیشک تم پر ضرور حفاظت کرنے والے (فرشتے مقرر) ہیں ‘ معزز لکھنے والے ‘ وہ جانتے ہیں جو کچھ تم کرتے ہو۔ 

(آیت) ” اذ یتلقی المتلقیان عن الیمین وعن الشمال قعید، مایلفظ من قول الا لدیہ رقیب عتید “۔ (ق : ١٨۔ ١٧) 

ترجمہ : جب (اس کے ہر قول اور فعل کو) لے لیتے ہیں دو لینے والے (فرشتے) ایک دائیں طرف اور دوسرا بائیں طرف بیٹھا ہوتا ہے ‘ وہ جو کچھ زبان سے کہتا ہے ‘ اس کو لکھنے کے لیے ایک نگہبان (فرشتہ) تیار ہوتا ہے۔ 

(آیت) ” ووضع الکتب فتری المجرمین مشفقین مما فیہ ویقولون یویلتنا مال ھذا الکتب لایغادر صغیرۃ ولا کبیرۃ الا احصھا ووجدوا ماعملوا حاضرا ولا یظلم ربک احدا “۔ (الکہف : ٤٩) 

ترجمہ : اور نامہ اعمال رکھ دیا جائے پس آپ دیکھیں گے کہ مجرم اس سے ڈر رہے ہوں گے جو اس میں (مذکور) ہے اور وہ کہیں گے ہائے ہماری کم بختی ! یہ کیسا نوشتہ اعمال ہے کہ اس نے نہ کوئی چھوٹا گناہ چھوڑا ہے نہ بڑا گناہ ‘ مگر اس کا احاطہ کرلیا ہے ‘ اور جو کچھ انہوں نے کیا تھا ‘ وہ سب اپنے سامنے موجود پائیں گے اور آپ کا رب کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ 

کراما کاتبین کے فرائض اور وظائف کے متعلق احادیث : 

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : رات کے فرشتے اور دن کے فرشتے تمہارے پاس باری باری آتے ہیں اور فجر اور عصر کی نمازوں میں جمع ہوتے ہیں۔ پھر جن فرشتوں نے تمہارے ساتھ رات گزاری ہے ‘ وہ اوپر چڑھ جاتے ہیں۔ ان کا رب ان سے سوال کرتا ہے ‘ حالانکہ وہ ان سے زیادہ جاننے والا ہے ‘ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا ؟ وہ کہتے ہیں ہم نے جس وقت ان کو چھوڑا تو وہ (فجر کی) نماز پڑھ رہے تھے اور جب ہم ان کے پاس گئے تو وہ (عصر کی) نماز پڑھ رہے تھے۔ (صحیح البخاری ‘ ج ١ رقم الحدیث : ٥٥٥‘ صحیح مسلم ‘ المساجد ٢١٠‘ (٦٣٢) ١٤٠٥‘ سنن النسائی ‘ ج ١‘ رقم الحدیث : ٤٨٧‘ ٤٨٦‘ السنن الکبری للنسائی ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث : ٧٧٦٠) 

حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم برہنگی سے احتراز کرو ‘ کیونکہ تمہارے ساتھ وہ (فرشتے) ہوتے ہیں جو تم سے بیت الخلاء اور عمل تزویج کے سوا کسی وقت جدا نہیں ہوتے ‘ تم ان سے حیا کرو اور ان کا اکرام کرو۔ (سنن ترمذی ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث : ٢٨٠٩‘ شعب الایمان ‘ ج ٦‘ رقم الحدیث : ٧٧٣٩) 

امام ابوجعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ روایت کرتے ہیں : 

مجاہد بیان کرتے ہیں کہ دائیں طرف کا فرشتہ نیکیاں لکھتا ہے اور بائیں طرف کا فرشتہ برائیاں لکھتا ہے۔ 

ابراہیم تیمی بیان کرتے ہیں کہ دائیں جانب کا فرشتہ بائیں جانب کے فرشتہ کا امیر ہوتا ہے ‘ جب بندہ کوئی برائی کرتا ہے تو دائیں جانب والا فرشتہ بائیں جانب والے فرشتے سے کہتا ہے ‘ رک جاؤ‘ شاید یہ توبہ کرلے۔ 

مجاہد بیان کرتے ہیں کہ ہر انسان کے ساتھ دو فرشتے ہوتے ہیں۔ ایک دائیں جانب اور ایک بائیں جانب۔ جو دائیں جانب ہے ‘ وہ نیکیاں لکھتا ہے اور جو بائیں جانب ہے ‘ وہ برائیاں لکھتا ہے۔ (جامع البیان ‘ جز ٢٦ ص ٢٠٥‘ ٢٠٤ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت) 

خاتم الحفاظ حافظ جلال الدین سیوطی متوفی ٩١١ ھ لکھتے ہیں : 

امام ابن ابی الدنیا نے الندیہ میں اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا نیکیاں لکھنے والا دائیں جانب ہے اور برائیاں لکھنے والا بائیں جانب ہے ‘ جب بندہ کوئی نیکی کرتا ہے تو دائیں جانب والا دس نیکیاں لکھ لیتا ہے ‘ اور جب وہ کوئی برائی کرتا ہے تو دائیں جانب والا بائیں جانب والے سے کہتا ہے ‘ اس کو چھوڑ دو ‘ حتی کہ یہ تسبیح کرے یا استغفار کرے۔ پھر جب جمعرات کا دن آتا ہے تو اس وقت تک جو نیکیاں اور برائیاں ہوں ‘ وہ لکھ دی جاتی ہیں اور اس کے ماسوا کو چھوڑ دیا جاتا ہے ‘ پھر یہ نوشتہ لوح محفوظ پر پیش کیا جاتا ہے ‘ تو اس میں یہ تمام چیزیں لکھی ہوئی ہوتی ہیں۔ 

امام ابن ابی الدنیا احنف بن قیس سے روایت کرتے ہیں کہ دائیں جانب والا نیکیاں لکھتا ہے اور وہ بائیں جانب والے فرشتہ پر امیر ہوتا ہے۔ اگر بندہ کوئی گناہ کرتا ہے تو وہ کہتا ہے رک جاؤ پھر اگر بندہ استغفار کرے تو وہ اس کو وہ گناہ لکھنے سے منع کرتا ہے اور اگر و استغفار کی بجائے گناہ پر اصرار کرتا ہے تو وہ اس گناہ کو لکھ لیتا ہے۔ (الدرالمنثور ‘ ج ٧‘ ص ٥٩٤‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت ‘ ١٤١٤ ھ) 

امام ابو محمد عبداللہ بن محمد المعروف بابی الشیخ الاصبھانی المتوفی ٣٩٦ ھ روایت کرتے ہیں : 

ابن جریج (رح) بیان کرتے ہیں دو فرشتے ہیں۔ ان میں سے ایک دائیں جانب ہے جو نیکیاں لکھتا ہے اور دوسرا فرشتہ بائیں جانب ہے ‘ جو برائیاں لکھتا ہے۔ جو دائیں جانب ہے وہ اپنے صاحب کی شہادت کے بغیر لکھتا ہے اور جو بائیں جانب ہے وہ اپنے صاحب کی شہادت کے بغیر نہیں لکھتا۔ اگر بندہ بیٹھ جائے تو ایک فرشتہ دائیں جانب ہوتا ہے اور دوسرا بائیں جانب اور اگر بندہ چلنے لگے تو ایک فرشتہ بندہ کے آگے ہوتا ہے اور ایک پیچھے ‘ اور اگر وہ سو جائے تو ایک فرشتہ اس کے سر کی جانب ہوتا ہے اور ایک پیروں کی جانب ‘ اور ابن المبارک (رح) نے کہا انسان کے ساتھ پانچ فرشتے مقرر کیے جاتے ہیں ‘ دو فرشتے رات کے ‘ دو دن کے ‘ یہ آتے جاتے رہتے ہیں اور پانچواں فرشتہ دن رات کے کسی وقت میں اس سے الگ نہیں ہوتا۔ (کتاب العظمہ ‘ رقم الحدیث : ٥٢١‘ ص ١٨٥‘ مطبوعہ مکتبہ دارالباز ‘ مکہ مکرمہ ‘ ١٤١٤ ھ) 

امام ابوبکراحمد بن حسین بیہقی متوفی ٤٥٨‘ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ جب کسی مسلمان کے جسم کو کسی مصیبت میں مبتلا کرتا ہے تو فرشتہ سے فرماتا ہے : اس کے اس عمل کو لکھتے رہو جو یہ کیا کرتے تھا ‘ پھر اگر اس کو شفا دیتا ہے تو اس کو غسل سے پاک کردیتا ہے اور اگر اس کو روح کو قبض کرلیتا ہے تو اس کو بخش دیتا ہے اور اس پر رحم فرماتا ہے۔ (شعب الایمان ‘ ج ٧‘ رقم الحدیث : ٩٩٣٣‘ مطبوعہ دارالکتب العلیہ بیروت ‘ ١٤١٠ ھ)

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو مسلم اپنے جسم کی کسی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے مرض میں اس کی صحت کے ہر نیک عمل کو لکھتا رہتا ہے۔ (شعب الایمان ‘ ج ٧‘ رقم الحدیث : ٩٩٣٤‘ مطبوعہ دارالکتب العلیہ بیروت)

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ اپنے بندہ مومن کے ساتھ دو فرشتے مقرر کردیتا ہے جو اس کے عمل کو لکھتے رہتے ہیں۔ جب وہ بندہ فوت ہوجاتا ہے تو جو فرشتے اس کے عمل لکھتے تھے ‘ وہ اللہ تعالیٰ سے عرض کرتے ہیں کہ تو اب ہمیں اجازت دے تو ہم آسمان پر چڑھ جائیں۔ اللہ عزوجل فرماتا ہے میرا آسمان ان فرشتوں سے بھرا ہوا ہے جو میری تسبیح کر رہے ہیں۔ وہ عرض کریں گے تو کیا ہم زمین میں قیام کریں ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میری زمین میری مخلوق سے بھری ہوئی ہوئی ہے جو میری تسبیح کر رہی ہے ‘ وہ کہیں گے پھر ہم کہاں جائیں ؟ اللہ تبارک وتعالیٰ فرمائے گا تم میرے اس بندہ کی قبر پر قیام کرو اور سبحان اللہ ‘ الحمد اللہ ‘ اللہ اکبر اور الا الہ الا اللہ پڑھو اور قیامت تک اس کو میرے اس بندہ کے لیے لکھتے رہو۔ (شعب الایمان ‘ ج ٧‘ رقم الحدیث : ٩٩٣١‘ مطبوعہ دارالکتب العلیہ بیروت)

آیا دل کی باتوں کو کراما کاتبین لکھتے ہیں یا نہیں ؟ 

بعض احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے دل کی باتوں اور ارادوں پر مطلع ہوتے ہیں اور ان کو لکھ لیتے ہیں۔ 

امام مسلم بن حجاج قشیری ٢٦١ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے جب میرا بندہ کسی گناہ کا ارادہ کرے تو اس کو نہ لکھو اور اگر وہ اس پر عمل کرے تو اس کا ایک گناہ لکھ لو اور اگر وہ نیکی کا ارادہ کرے اور اس پر عمل نہ کرے تو ایک نیکی لکھ لو اور اگر وہ اس پر عمل کرے تو دس نیکیاں لکھ لو۔ امام مسلم نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے اور ایک روایت اس طرح کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا فرشتے عرض کرتے ہیں اے رب ! تیرا یہ بندہ گناہ کرنے کا ارادہ کر رہا ہے ‘ حالانکہ اسے گناہ پر خوب بصیرت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس کا انتظار کرو ‘ اگر یہ اس گناہ کو کرے تو اس کا ایک گناہ لکھ لو اور اگر اس کو ترک کر دے تو اس کی ایک نیکی لکھ لو ‘ کیونکہ اس نے میری وجہ سے اس گناہ کو ترک کیا ہے۔ (صحیح مسلم ‘ ایمان ‘ ٢٠٥‘ ٢٠٣‘ (١٢٨) ٣٢٧‘ صحیح البخاری ‘ ج ٨‘ رقم الحدیث : ٧٥٠١‘ سنن ترمذی ‘ ج ٥‘ رقم الحدیث : ٣٠٨٤‘ سنن کبری للنسائی ‘ ج ٦‘ رقم الحدیث : ١١٨١‘ صحیح ابن حبان ‘ ج ٢‘ رقم الحدیث : ٣٨٠‘ مسند احمد ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث : ٧٣٠٠)

اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ فرشتے دل کی باتوں اور ارادوں پر مطلع ہوتے ہیں اور بعض دیگر احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے دل کے احوال اور نیات پر مطلع نہیں ہوتے۔ 

امام عبداللہ بن محمد ابو الشیخ الاصبہانی المتوفی ٣٩٦ ھ روایت کرتے ہیں۔ 

ضمرہ بن حبیب بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا فرشتے اللہ کے بندوں میں سے ایک بندے کے عمل لے کر اوپر چڑھتے ہیں ‘ اس عمل کو وہ بہت زیادہ اور بہت بابرکت گمان کرتے ہیں۔ وہ اللہ کی سلطنت میں جہاں تک اللہ چاہتا ہے ‘ اس دل کی نگہبانی کرنے والا ہوں۔ میرے اس بندہ نے یہ عمل میرے لیے اخلاص سے نہیں کیا ‘ اس کو سجین (جہنم کی ایک وادی) میں ڈال دو اور وہ اللہ عزوجل کے بندوں میں سے ایک اور بندے کے عمل کو لے کر اوپر چڑھیں گے ‘ اور عمل کو بہت کم گمان کریں گے۔ پھر وہ اللہ کی سلطنت میں سے جہاں تک اللہ چاہے گا ‘ اس عمل کو لے کر پہنچیں گے۔ پھر اللہ عزوجل ان کی طرف وحی فرمائے گا تم حفاظت کرنے والے ہو اور جو کچھ اس کے دل میں ہے ‘ میں اس پر نگہبان ہوں۔ اس کے اس عمل کو دگنا چوگنا کردو اور اس کو علیین میں ڈال۔ (کتاب العظمہ ‘ رقم الحدیث : ٥٢٢‘ ص ١٨٥‘ مطبوعہ بیروت ‘ کتاب الزھد لابن المبارک ‘ رقم الحدیث : ٤٥٢‘ مطبوعہ بیروت) 

امام ابن المبارک کی روایت میں ہے میرے اس بندے نے اخلاص سے عمل کیا ہے ‘ اس کو علیین میں لکھ دو ۔ 

بہ ظاہر ان حدیثوں میں تعارض ہے ‘ لیکن حقیقت میں تعارض نہیں ہے ‘ کیونکہ جس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے دل کی باتوں پر مطلع ہوتے ہیں۔ وہ صحیح بخاری ‘ صحیح مسلم ‘ صحیح ابن حبان اور سنن ترمذی اور سنن نسائی کی روایت ہے اور جس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے دل کی باتوں پر مطلع نہیں ہوتے ‘ وہ کتاب العظمہ اور کتاب الزھد کی روایت ہے اور ثانی الذکر کتابیں اول الذکر کتابوں کے پائے کی نہیں ہیں۔ نیز اول الذکر حدیث متصل ہے اور ثانی الذکر مرسل روایت ہے اور اول الزکر سندا صحیح ہے اور ثانی الزکر سندا ضعیف ہے۔ اس لیے ترجیح پہلی حدیث کو ہے اور راجح یہی ہے کہ فرشتے دل کی باتوں پر بھی مطلع ہوتے ہیں اور موخر روایت کی یہ توجیہ کی جاسکتی ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ نے ریا اور اخلاص کو مستثنی فرمایا ہے ‘ اخلاص کو مخفی رکھا ‘ تاکہ قیامت کے دن اس بندے کی عزت افزائی کی جائے اور ریا کو مخفی رکھا ‘ تاکہ ریا کار کے عمل کی قیامت کے دن زیادہ رسوائی ہو ‘ جیسا کہ اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے۔ 

امام ابوالقاسم سلیمان بن احمد طبرانی متوفی ٣٦٠ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت عدی بن حاتم (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن کچھ لوگوں کو جنت میں جانے کا حکم دیا جائے گا ‘ حتی کہ جب وہ جنت کے قریب ہوں گے اور جنت کی خوشبو سونگھیں گے ‘ اور جنت کے محلوں کی طرف دیکھیں گے اور ان چیزوں کی طرف دیکھیں گے جو اللہ تعالیٰ نے جنتیوں کے لیے تیار کی ہیں تو ان کو ندا کی جائے گی کہ جنت سے واپس آجائیں ‘ ان کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ وہ حسرت کے ساتھ جنت سے واپس آئیں گے اور کہیں گے ‘ اے ہمارے رب ! کاش ! تو ہمیں اپنا ثواب دکھانے سے پہلے اور اپنے اولیاء کے لیے جو تو نے نعمتیں تیار کی ہیں ان کو دکھانے سے پہلے ہمیں دوزخ میں دادخل کردیتا تو یہ ہم پر آسان ہوتا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے یہ ارادہ اس وقت کیا تھا کہ جب تم خلوت میں ہوتے تو میرے ساتھ بہت بڑا مقابلہ کرتے تھے اور لوگوں کے سامنے تم میرے لیے عاجزی کرتے تھے۔ تم لوگوں کے لیے دکھاوا کرتے تھے اور تم اپنے دلوں سے مجھے اس کے خلاف دیتے تھے اور تم لوگوں سے ڈرتے تھے اور مجھ سے نہیں ڈرتے تھے ‘ اور تم لوگوں کو بزرگ جانتے تھے اور مجھے بڑا نہیں جانتے تھے۔ سو آج میں تم کو دردناک عذاب چکھاؤں گا اور تم کو چواب سے محروم کروں گا۔ (المعجم الاوسط ‘ ج ٦‘ رقم الحدیث :‘ ٥٤٧٤‘ المعجم الکبیر ‘ ج ٧١‘ رقم الحدیث :‘ ١٩٩‘ ص ٨٦‘ حلیۃ الاولیاء ‘ ج ٤‘ ص ١٢٥۔ ١٢٤‘ شعب الایمان ‘ ج ٥‘ رقم الحدیث : ٦٨٠٩‘ مجمع الزوائد ‘ ج ١٠‘ ص ٢٢٠) 

اعمال کو لکھوانے کی حکمتیں : 

اس میں اختلاف ہے کہ ایک شخص کی نیکیاں اور برائیاں لکھنے والے فرشتے ہر روز بدلتے ہیں یا اخیر عمر تک وہی فرشتے لکھتے رہتے ہیں۔ لیکن یہ بہرحال ثابت ہے کہ دن اور رات کے فرشتے بدلتے رہتے ہیں ‘ اسی طرح اس میں اختلاف ہے کہ بندہ کی موت کی بعد فرشتے کیا کرتے ہیں ؟ بعض نے کہا وہ آسمان پر جا کر عبادت کرتے ہیں ‘ لیکن ہم شعب الایمان کے حوالے سے یہ حدیث ذکر کرچکے ہیں کہ وہ قیامت تک اس بندے کی قبر پر بیٹھ کر اس کے لیے استغفار کرتے رہتے ہیں۔ 

کراما کاتبین جو بندوں کے اعمال لکھتے ہیں اس کی کیا حکمت ہے ؟ ایک حکمت تو یہ ہے کہ قیامت کے دن بندہ کے سامنے اس کے خلاف ایک مادی حجت قائم کردی جائے ‘ تاکہ وہ اپنے کسی قول یا عمل سے انکار نہ کرسکے۔ دوسری حکمت یہ ہے کہ جب بندہ کو یہ معلوم ہوگا کہ اس کے اعمال لکھ کر محفوظ کیے جارہے ہیں۔ اور برسر محشر لوگوں کے سامنے یہ اعمال پیش کیے جائیں گے ‘ تو لوگوں کے سامنے اپنی برائیاں اور بےحیائیاں کھلنے کے خوف سے وہ برے اور فحش کاموں کے ارتکاب سے باز رہے گا۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ فرشتوں نے ابن آدم کی پیدائش پر یہ کہا تھا کہ یہ زمین میں خون ریزی اور فتنہ و فساد کرے گا اور جب وہ خوداپنے ہاتھوں سے مسلمانوں کی نیکیاں لکھیں گے تو ان پر ابن آدم کی پیدائش کی حکمت کامل طریقہ سے واضح ہوگی۔ چوتھی حکمت یہ ہے کہ انسان کے اعمال میزان میں وزن کیے جائیں گے۔ بظاہر یہ مستبعد معلوم ہوتا ہے کیونکہ اعمال از قبیل اعراض ہیں ‘ لہذا ہوسکتا ہے کہ اعمال کے وزن کرنے سے مراد صحائف اعمال کا وزن کرنا ہو۔ 

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :‘ حتی کہ جب تم میں سے کسی کو موت آتی ہے تو ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے اس (کی روح) کو قبض کرتے ہیں اور وہ کوئی کوتاہی نہیں کرتے۔ (الانعام : ٦١) 

(آیت) ” اللہ یتوفی الانفس حین موتھا “۔ (الزمر : ٤٢) 

ترجمہ : اللہ موت کے وقت روحوں کو قبض کرتا ہے۔ 

(آیت) ” قل یتوفکم ملک الموت الذی وکل بکم ثم الی ربکم ترجعون “۔ (السجدہ : ١١) 

ترجمہ ؛ آپ کہئے کہ موت کا فرشتہ تمہاری روح قبض کرتا ہے جو تم پر مقرر کیا گیا ہے ‘ پھر تم اپنے رب کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ 

اور زیر تفسیر آیت میں فرمایا ہے ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے اس (کی روح) کو قبض کرتے ہیں۔ (الانعام : ٦١) 

ان آیات میں اس طرح تطبیق دی گئی ہے کہ روح قبض کرنے کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف اس اعتبار سے ہے کہ وہ روح قبض کرنے کا فاعل حقیقی ہے اور مالک الموت کی طرف اس اعتبار سے نسبت ہے کہ وہ ظاہری فاعل ہے اور روح قبض کرنے والے فرشتوں کا رئیس ہے ‘ اور دوسرے فرشتوں کی طرف اس اعتبار سے نسبت ہے کہ وہ روح قبض کرنے میں ملک الموت کے اعوان اور انصار ہیں۔ بعض صوفیاء نے کہا کہ انسان کے درجہ اور مقام کے اعتبار سے احوال مختلف ہوتے ہیں ‘ اس لیے بعض انسانوں کی روح اللہ تعالیٰ بلاواسطہ قبض کرتا ہے ‘ بعض کی روح الملک الموت قبض کرتا ہے اور بعض کی دیگر فرشتے روح قبض کرتے ہیں۔ 

موت کے وقت مسلمانوں اور کافروں کی روحوں کے نکلنے کی کیفیت : 

امام احمد بن حنبل متوفی ٢٤١ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مرنے والے کے پاس فرشتے آتے ہیں۔ پاس جب وہ کوئی نیک شخص ہوتا ہے تو وہ کہتے ہیں ‘ اے پاکیزہ روح نکلو تم پاکیزہ جسم میں تھیں ‘ تم تعریف کی ہوئی باہر آؤ‘ تمہیں خوشی اور مسرت کی نوید ہو اور رب کے راضی ہونے کی بشارت ہو۔ اس کو یونہی کہا جاتا رہے گا ‘ حتی کہ روح باہر آجائے گی۔ پھر وہ روح آسمان کی طرف چڑھے گی۔ اس کے لیے آسمان کو کھلوایا جائے گا۔ پوچھا جائے گا ‘ یہ کون ہے ؟ پھر اسے بتایا جائے گا یہ فلاں ہے ! آسمان والے کہیں گے ‘ پاکیزہ روح کو خوش آمدید ہو ‘ یہ پاکیزہ جسم میں تھی ‘ تم تعریف کی ہوئی داخل ہو۔ تمہیں خوشی اور مسرت کی بشارت ہو ‘ اور رب کے راضی ہونے کی نوید ہو۔ اس سے یونہی کہا جاتا رہے گا ‘ حتی کہ وہ اس آسمان (عرش الہی) میں پہنچے گی ‘ جس پر اللہ عزوجل جلوہ فرما ہے۔ اور جب مرنے والا کوئی برا شخص ہوتا ہے تو فرشتے کہتے ہیں نکل اے خبیث (ناپاک) روح ! تو خبیث جسم میں تھی ‘ نکل تو مذمت کی ہوئی ہے۔ تجھے کھولتے ہوئے بدبودار پانی کی بشارت ہو ‘ اور اسی قسم کے اور پانی کی۔ اسے یونہی کہا جاتا رہے گا ‘ حتی کہ وہ روح جسم سے نکلے گی۔ پھر اس کو آسمان کی طرف چڑھایا جائے گا ‘ اور اس کے لیے آسمان کو کھلوایا جائے گا۔ پوچھا جائے گا یہ کون ہے ؟ پھر بتایا جائے گا ‘ یہ فلاں ہے پھر کہا جائے گا اس ناپاک روح کا آنا نامبارک ہو ‘ یہ ناپاک جسم میں تھی ‘ تو مذمت کی ہوئی واپس ہوجا ‘ تیرے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے ‘ پھر اس کو آسمان سے بھیج دیا جائے گا ‘ پھر قبر تک پہنچے گی۔ 

علامہ محمد احمد شاکر متوفی ١٣٧٦ ھ نے کہا ہے کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ (مسند احمد ‘ ج ٨‘ رقم الحدیث :‘ ٨٧٥٤‘ مطبوعہ دارالحدیث : القاہرہ ‘ مسند احمد ‘ ج ٢‘ ص ٣٦٥۔ ٣٦٤‘ طبع قدیم ‘ سنن ابن ماجہ ‘ ج ٢‘ رقم الحدیث :‘ ٤٢٦٢) 

امام ابو عبدالرحمن احمد بن شعیب نسائی متوفی ٣٠٣ ھ روایت کرتے ہیں :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب مومن پر موت کا وقت آتا ہے تو اس کے پاس رحمت کے فرشتے سفید ریشم کو لے کر آتے ہیں اور کہتے ہیں (اے روح) نکلو اور آنحالیکہ تم اللہ سے راضی ہو اور اللہ تم سے راضی ہو ‘ تم اللہ کی راحت اور خوشی کی طرف نکلو ‘ اور رب کی رضا کی طرف نکلو۔ پھر روح مشک کی پاکیزہ خوشبو کی طرف نکلتی ہے ‘ حتی کہ بعض فرشتے اس روح کو لیتے ہیں اور اس کو آسمان کے دروازے کی طرف لاتے ہیں اور آسمان والے کہتے ہیں ‘ یہ کیسی پاکیزہ خوشبو ہے جو زمین کی طرف سے آئی ہے ؟ پھر وہ اس روح کو مومنین کی ارواح سے ملاتے ہیں اور وہ روحیں اس روح سے مل کر اسی طرح خوش ہوتی ہیں ‘ جیسے کوئی شخص اپنے بچھڑے ہوئے دوست سے مل کر خوش ہوتا ہے۔ 

پھر وہ اس سے پوچھتے ہیں کہ فلاں شخص کیسا ہے ؟ فلاں شخص کیسا ہے ؟ پھر کہتے ہیں کہ اس کو چھوڑو ‘ وہ دنیا کے غم میں ہے اور جب وہ کہتا ہے کہ کیا وہ تمہارے پاس نہیں آیا ؟ تو وہ کہتے ہیں ؟ کہ اس کو دوزخ میں ڈال دیا گیا ‘ اور جب کافر کے پاس موت کا وقت آتا ہے تو فرشتے اس کے پاس ٹاٹ کو لے کر آتے ہیں اور اس کو روح سے کہتے ہیں ‘ نکل درآنحالیکہ تو اللہ تعالیٰ سے ناراض ہے اور اللہ تجھ سے ناراض ہے۔ تو اللہ کے عذاب کی طرف نکل ‘ تو وہ انتہائی ناگوار بدبو کی طرح نکلتی ہے۔ حتی کہ وہ اس کو زمین کے دروازہ کی طرف لاتے ہیں اور زمین والے کہتے ہیں ‘ یہ کیسی ناگوار بدبو ہے ؟ پھر وہ اس کو کفار کی روحوں کی طرف لے جاتے ہیں۔ (سنن نسائی ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث :‘ ١٨٣٢‘ صحیح ابن حبان ‘ ج ٧‘ رقم الحدیث :‘ ٣٠١٤‘ المستدرک ‘ ج ١‘ ص ٣٥٣) 

حافظ جلال الدین سیوطی متوفی ٩١١ ھ لکھتے ہیں : 

امام بزار اور امام ابن مردویہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب مومن پر موت کا وقت آتا ہے تو اس کے پاس فرشتے ریشم میں مشک اور گل ریحان کے گچھے لے کر آتے ہیں۔ پھر اس کے جسم سے روح اس طرح نکال لیتے ہیں جس طرح آٹے سے بال نکال لیا جاتا ہے ‘ اے پاکیزہ روح ‘ اللہ کی خوشی اور اس کی کرامت کی طرف راضیہ اور مرضیہ ہو کر چلو ‘ اور اس کو ریشم میں لپیٹ کر علیین کی طرف لے جاتے ہیں اور کافر پر جب موت کا وقت آتا ہے تو فرشتے ایک ٹاٹ میں انگارے لے کر آتے ہیں اور بڑی سختی سے اس کی روح کو کھینچتے ہیں اور کہا جاتا ہے ‘ اے ناپاک روح ‘ نکل درآنحالیکہ تو اللہ سے ناراض ہے اور اللہ تجھ سے ناراض ہے ‘ نکل اللہ کی دی ہوئی ذلت اور اس کے عذاب کی طرف۔ اور جب روح نکل جاتی ہے تو اس کو اس انگارے پر رکھ کر ٹاٹ میں لپیٹ دیا جاتا ہے اور اس کو سجین کی طرف لے جایا جاتا ہے۔ (شرح الصدور ‘ ص ٦٤‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت ‘ ١٤٠٤ ھ)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 6 الأنعام آیت نمبر 61