قوم نصاریٰ(عیسائیوں) کے حالات:

حضرتِ عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام نے بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں کے سامنے رُشد و ہدایت کی تعلیم کے لئے اپنے بارہ شاگرد (حواری) منتخب فرمائے تھے۔ آپ نے کما حقہٗ انہیں علم و حکمت سے نوازا لیکن آپ کے آسمان پر تشریف لے جانے کے بعد ان کے درمیان سخت اختلافات پیدا ہو گئے جس سے کئی فرقے پھوٹ پڑے۔ اس فرقہ بندی میں بولص نام کے یہودی نے خاص کر اہم رول ادا کیا،یہ حضرت ِعیسیٰ علیہ السلام اور ان کے حواریوں کو تکلیفیں دیتا تھا لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب آسمان پر اٹھا لئے گئے تو یہ عیسائی بن کر گمراہ کرنے میں مصروف ہو گیا جس کی وجہ سے حضرتِ عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکار کئی فرقوں میں منقسم ہو گئے اور ہر فرقہ نے آپ کے متعلق الگ الگ عقید ہ بنالیا۔

نسطوری آپ کو خدا کا بیٹا کہتے تھے مرقوسی کہتے کہ خدا تین ہیں اور حضرتِ عیسیٰ ان میں سے ایک ہیں ۔تین خدا کون ہیں ؟ اس کی توجیہ میں بھی بڑے اختلافات تھے ۔

حضرت صدر الافاضل علیہ الرحمہ چھٹے پارے کی ایک آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں۔ نسطوری آپ کو خدا کا بیٹا کہتے تھے، مرقوسی کہتے کہ وہ تین میں کے تیسرے ہیں اور اس کلمہ کی توجیہات میں بھی اختلاف تھا ، بعض تین اقنوم مانتے تھے اور کہتے تھے کہ باپ، بیٹا، روح القدس ، باپ سے ذات، بیٹے سے عیسیٰ، روح القدس سے ان میں حلول کرنے والی حیات مراد لیتے تھے تو ان کے نزدیک الٰہ تین تھے اور اس تین کو ایک بتاتے تھے ’’تَوْحِید فِی التَّثْلِیث‘‘ اور ’’تَثْلِیث فِی التَّوْحِید ‘‘ کے چکر میں گرفتار تھے ۔بعض کہتے تھے کہ عیسیٰ نا سوتیت اورالوہیت کے جامع ہیں ، ماں کی طرف سے ان میں ناسوتیت آئی اور باپ کی طرف سے الوہیت آئی ۔ العیاذ باللّٰہ تعالٰی!

قرآن مقدس ان کی ان بدعقیدگیوں کو بیان کر کے یوں مذمت فرماتا ہے ’’لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْآ اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ‘‘ بے شک کافر ہیں وہ جو کہتے ہیں کہ اللہ وہی مسیح مریم کا بیٹا ہے۔ (سورۂ مائدہ، آیت:۷۲)

’’لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْآ اِنَّ اللّٰہَ ثَالِثُ ثَلٰثَۃٍ‘‘ بے شک کافر ہیں وہ جو کہتے ہیں اللہ تین خدائوں میں کا تیسرا ہے۔ (سورۂ مائدہ، آیت:۷۳)

ان تمام بد عقیدگیوں کے ساتھ ساتھ کفارہ کا مسئلہ عیسائیت کی جڑوں کو کھوکھلی کر رہا تھا ، اس کی وجہ سے اعمالِ صالحہ سے بے رغبتی پیدا ہو گئی تھی ، حضرتِ عیسیٰ کے نجات دہندہ ہونے کے عقیدہ کی آڑ میں ہر فرقہ اپنی نفسانی خواہشات کی مکمل طور پر پیروی کرتا تھا ،اخلاق کا پورے معاشرہ میں کہیں نام و نشان بھی نہ تھا، ہر کوئی خود ساختہ عقائد و احکام کے ذریعہ اپنی خواہشات کی تکمیل میں آزاد تھا ۔ ان میں سے بعض کا یہ خیال تھا کہ حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ علی نبینا و علیہما الصلوٰۃ و السلام کے صدقے سرے سے انہیں عذاب میں گرفتار ہی نہیں کیا جائے گا اور بعض یہودیوں کے مثل یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ صرف چند دنوں کے لئے وہ گرفتارِ عذاب ہوں گے اس کے بعد انہیں ہمیشہ کے لئے جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔

ان کی ذلت و رسوائی اور بدعقیدگی کی یہی حالت تھی کہ اللہ کے آخری پیغمبر رحمۃٌ للعالمین ا دنیا میں جلوہ گر ہوئے پھر آپ کی پیش کردہ تعلیمات اور ارشادات کے نتیجہ میں شام، مصر اور عراق وغیرہ کے عیسائیوں کو امن و امان کی زندگی میسر آئی اور اپنے غلط و خود ساختہ معتقدات کو سدھارنے کا موقع ملا۔