أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قُلۡ اَنَدۡعُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ مَا لَا يَنۡفَعُنَا وَلَا يَضُرُّنَا وَنُرَدُّ عَلٰٓى اَعۡقَابِنَا بَعۡدَ اِذۡ هَدٰٮنَا اللّٰهُ كَالَّذِى اسۡتَهۡوَتۡهُ الشَّيٰطِيۡنُ فِى الۡاَرۡضِ حَيۡرَانَ ۖ لَـهٗۤ اَصۡحٰبٌ يَّدۡعُوۡنَهٗۤ اِلَى الۡهُدَى ائۡتِنَا ‌ؕ قُلۡ اِنَّ هُدَى اللّٰهِ هُوَ الۡهُدٰى‌ؕ وَاُمِرۡنَا لِنُسۡلِمَ لِرَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَۙ ۞

ترجمہ:

آپ کہئے کیا ہم اللہ کو چھوڑ کر ان کی پرستش کریں جو ہم کو نہ نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں ؟ اور ہم اللہ کے ہدایت دینے کے بعد الٹے پاؤں لوٹا دیے جائیں، اس شخص کی طرح جس کو جنات نے جنگل میں بھٹکا دیا ہو اور وہ اس حال میں حیران و پریشان پھر رہا ہو، اس کے احباب اس کو پکار رہے ہوں کہ یہ سیدھا راستہ ہے ہمارے پاس آؤ، آپ کہیے کہ اللہ کا بتایا ہوا راستہ ہی سیدھا راستہ ہے اور ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم تمام جہانوں کے رب کے لیے سراطاعت خم کردیں۔

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آپ کہئے کیا ہم اللہ کو چھوڑ کر ان کی پرستش کریں جو ہم کو نہ نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں ؟ اور ہم اللہ کے ہدایت دینے کے بعد الٹے پاؤں لوٹا دیے جائیں، اس شخص کی طرح جس کو جنات نے جنگل میں بھٹکا دیا ہو اور وہ اس حال میں حیران و پریشان پھر رہا ہو، اس کے احباب اس کو پکار رہے ہوں کہ یہ سیدھا راستہ ہے ہمارے پاس آؤ، آپ کہیے کہ اللہ کا بتایا ہوا راستہ ہی سیدھا راستہ ہے اور ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم تمام جہانوں کے رب کے لیے سراطاعت خم کردیں۔ اور یہ کہ تم نماز قائم کرو ‘ اور اسی سے ڈرتے رہو ‘ اور وہی ہے جس کی طرف تم جمع کیے جاؤ گے۔ (الانعام : ٧٢، ٧١) 

گمراہی میں بھٹکنے والے شخص کی مثال : 

خلاصہ یہ ہے کہ اے رسول مکرم ! آپ ان مشرکوں سے کہئے کہ اللہ بزرگ و برتر جو نفع اور نقصان کا مالک ہے ‘ کیا اس کو چھوڑ کر ہم ان بتوںٗ کی پرستش کریں جو ہمیں نفع دینے یا نقصان پہنچانے پر قدرت نہیں رکھتے اور ہم الٹے پیر شرک اور کفر کی طرف لوٹا دیئے جائیں ‘ جب کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے نجات دے کر اسلام کی طرف ہماری رہنمائی کرچکا ہے۔ پھر ہماری مثال اس شخص کی طرح ہوگی جس کو کسی جنگل یا صحراء میں جنات نے راستہ بھٹکا دیا ہو اور اس کی عقل کام نہ کر رہی ہو کہ وہ کدھر جائے ‘ وہ حیران اور پریشان پھر رہا ہو اور اس کے دوست اور ساتھی اس کو بلا رہے ہوں کہ ہماری طرف آؤ‘ ادھر سیدھا راستہ ہے۔ 

امام عبدالرحمن بن محمد بن ابی حاتم متوفی ٣٢٧ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بتوں کی اور اللہ کی طرف دعوت دینے والوں کی یہ مثال بیان فرمائی ہے ‘ جیسے ایک شخص راستہ سے بھٹک گیا ہو اور اسے کوئی شخص پکارے کہ اس طرف آؤ اور اس کے خیر خواہ بھی ہوں جو اس کو بلائیں کہ اس راستہ پر آؤ تو اگر وہ اگر وہ پہلے بلانے والے کی پکار پر چلا جائے تو وہ اس کو تباہی کے گڑھے میں گرا دے گا۔ اور اگر وہ ہدایت کی دعوت دینے والے کے پاس چلا جائے تو راستہ کی ہدایت پا جائے گا اور یہ صحرا یا جنگل میں بلانے والے جنات ہیں۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم ‘ ج ٤‘ ص ١٣٢٢‘ مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ ‘ ١٤١٧ ھ) 

امام ابن جریر متوفی ٣١٠ ھ لکھتے ہیں : 

حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا یہ جنات ہیں جو جنگل میں بھٹکے ہوئے انسان کو اس کا نام اور اس کے باپ دادا کا نام لے کر بلاتے ہیں۔ اے فلاں بن فلاں بن فلاں ! ادھر آؤ۔ (جامع البیان ‘ جز ٧ ص ٣٠٨‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت ١٤١٥ ھ) 

جو انسان حق سے باطل کی طرف لوٹ آئے یا حق کو چھوڑ کر باطل کی طرف آئے ‘ اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ اپنے پیروں پر لوٹ گیا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انسان ابتداء میں جاہل تھا۔ پھر وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی قوتوں اور صلاحیتوں سے علم اور ہدایت کو حاصل کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : 

(آیت) ” واللہ اخرجکم من بطون امھتکم لا تعلمون شیئا وجعل لکم السمع والابصار والافئدۃ لعلکم تشکرون “۔ (النحل : ٧٨)

ترجمہ : اور اللہ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹ سے پیدا کیا ‘ حالانکہ تمہیں کسی چیز کا علم نہ تھا اور تمہارے کان ‘ آنکھیں اور دل بنائے تاکہ تم شکر بجالاؤ۔ 

سو جو شخص علم سے جہل کی طرف لوٹ جائے اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے پیروں پر لوٹ گیا۔ 

آپ ان سے کہئے کہ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم اللہ رب العلمین کی اطاعت کے لیے سرتسلیم خم کردیں ‘ یعنی صرف اسی کی اخلاص سے عبادت کریں اور ہم کو نماز قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور نماز قائم کرنے کا معنی یہ ہے کہ اللہ سے اس طرح مناجات کی جائے ‘ گویا کہ بندہ اللہ کے سامنے کھڑا ہوا اس کو دیکھ رہا ہے ‘ جس کے آثار سے ایک اثر یہ ہے کہ وہ بےحیائی اور برائی کے کاموں سے رک جائے اور اس کا نفس پاکیزہ ہوجائے اور نیز ہمیں اللہ سے ڈرتے رہنے کا حکم دیا ہے یعنی خوف خدا سے ہر قسم کے کاموں اور گناہوں کو چھوڑ دیا جائے اور فرائض وواجبات پر پابندی سے عمل کیا جائے اور سنن اور مستحبات کا نفس کو عادی بنایا جائے۔ 

خلاصہ یہ ہے کہ ہم کو تین باتوں کا حکم دیا گیا ہے۔ اخلاص کے ساتھ صرف اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کی جائے ‘ دوام کے ساتھ کامل طریقہ سے نماز پڑھی جائے اور ظاہر و باطن ہرحال میں تقوی کے تقاضوں پر عمل کیا جائے۔ پھر فرمایا قیامت کے دن تم سب اللہ کے سامنے پیش کیے جاؤ گے ‘ وہ تمہارے اعمال کا حساب لے گا اور تم کو تمہارے اعمال کی جزا دے گا۔ پس عقل اور حکمت کا یہ تقاضا ہے کہ صرف اللہ کی عبادت کی جائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنایا جائے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 6 الأنعام آیت نمبر 71