اہل ہند کے حالات:

ملک ہندوستان پر یہاں کی بسنے والی قوموں کی قدیم تاریخ بالکل تاریک ہے۔ مہابھارت (جیسا کہ ہندوئوں کا خیال ہے) جنگ کے بعد یہ قوم اور یہ ملک مسلسل زوال پذیر رہا، سارے ہندوستانی دو فریق میں بٹ گئے تھے اور دونوں برسوں تک ایک دوسرے سے بر سر پیکار رہے حتیّٰ کہ ایک وقت ایسا آیا کہ اس قوم کے چند افراد رہ گئے۔ حضرتِ عیسیٰ علیہ السلام کی آمد سے تقریباً چھ سو سال پیشتر اس ملک میں بدھ مذہب ظہور پذیر ہوا اور برسوں تک یہ مذہب اپنے پیروکاروں میں اضافہ کرتا رہا پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ یہ مذہب بھی زوال پذیر ہو گیا، اس کے بعد ملک ہندوستان کی حالت بد سے بدتر ہو گئی اور ہندو قوم فسق و فجور، فواحش اور معاصی میں مبتلا ہو کر رہ گئی۔ بدھ مذہب کے ختم ہونے کے بعد ہندوستانی کئی فرقوں میں بٹ گئے اور ملک بھر میں سیکڑوں دیوتائوں کی پرستش ہونے لگی۔ کوئی بجلی پانی کو پوجتا، کوئی درخت، سانپ، بندر، گائے وغیرہ کی پرستش کرتا، کوئی اینٹوں اور پتھروں کو اپنا خدا مانتا۔ اس ملک میں انسانیت چار طبقوں میں منقسم تھی، برہمن، چھتری، ویش اور شودر۔ شودروں کے ساتھ نہایت ہی غیر انسانی سلوک برتا جاتا، کسی شودر کو برہمن کے گھاٹ سے پانی پینے کا حق حاصل نہیں تھا، شراب، جوا، بد کاری کو مذہب کا لباس پہنا دیا گیا تھا۔

پھر جب سندھ اور دیگر سمندری راستوں سے رسول اللہ ﷺ کی تعلیم رحمت کے فیض یافتہ مبلغین نے اس ملک کا رخ کیا تو یہاں کے باشندے حق سے روشناس ہونے لگے اور انہیں اپنی بدتہذیبی اور باطل پرستی کا احساس ہوا جس کے نتیجہ میں ہزاروں بلکہ لاکھوں نے دامنِ اسلام سے وابستہ ہونے میں ہی عافیت سمجھی اور اسی کو نجات کا بہترین راستہ سمجھ کر حلقہ بگوش اسلام ہونے لگے۔