مسجد اور امام مسجد پہ ظلم
مسجد أور إمام مسجد پہ ظلم
أز ابن طفیل الأزہری
ہمارے ہاں مساجد پہ ظلم ہوتا ہے أور بالواسطہ إمام مسجد پہ بھی ہوجاتا ہے ،
پہلے تو یہ بات ذہن میں مستحضر رہینی چاہیے کہ مساجد کے حقوق فقہ إسلامی میں شخصیت اعتباریہ کے تحت آتے ہیں ،
أور شخصیت اعتباریہ کا مفہوم فقہائے معاصرین کے ہاں معروف ہے ؛
“وہ شخصیت جسکو قانوناً حقوق و واجبات تو حاصل ہوں لیکن أسکو أدا کرنے کے لیے شخصیت طبیعی کی ضرورت ہو”
لیکن یہ اصطلاح لفظاً فقہائے قدامی کے ہاں نہیں پائی جاتی لیکن مفہوما موجود ہے أور وہ ہے “وقف “،
إسی لیے قاعدہ فقہیہ ہے:
“العبرة بالمقاصد والمعاني لا ألفاظ والمباني”
ترجمہ:
(کسی بھی شئے کا اعتبار) مقاصد و معانی (استعمال) کے اعتبار سے ہوتا ہے نہ کہ الفاظ و بناوٹ کے اعتبار سے.
( القواعد الفقہیہ وتطبیقاتہا فی المذاہب الأربعہ ، وہبہ زحیلی ، ص : 403 )
لہذا مساجد کے حقوق و واجبات کے لیے شخصیت طبیعی یعنی مسجد انتظامیہ کو آمین بنایا جاتا ہے ،
أور امین شخص أپنی مرضی سے کوئی شئے استعمال نہیں کرسکتا بلکہ جسکا أسکو أمین بنایا گیا ہے أسی کے مطابق أسکو تصرف کرنا ہوتا ہے تو مساجد کی ہر وہ شئے جو خصوصاً مسجد کے لیے وقف ہو أسکو صرف مسجد کے لیے ہی استعمال کرسکتا ہے أگر وہ زائد استعمال کرے گا تو خائن کہلائے گا أور اللہ رب العزت خائن کو پسند نہیں فرماتا.
اب ہمارے ہاں مساجد پہ درج ذیل ظلم کیا جاتا ہے جسکا سے بالواسطہ إمام مسجد بھی شکار ہوجاتا ہے:
– نمبر ایک:
مسجد کی لائٹ کو راستے کی ضروریات کے لیے پوری پوری رات استعمال کرنا جسکا استعمال صرف اس وقت جائز تھا جس میں غالباً لوگ نماز کے لیے آتے ہوں.
نمںر دو :
مسجد کی موٹر وضوء اور نماز کے وقت نمازیوں کی ضروریات کے علاوہ پورا دن استعمال ہوتی ہے أور وہاں سے لوگ پانی بھر بھر کر استعمال کرتے ہیں.
نمبر تین:
مساجد کے واش روم جو نماز کے وقت کے علاوہ بھی پورا دن استعمال ہوتے ہیں خاص کر دیہاتوں میں.
نمبر چار:
مساجد میں لگے ٹھنڈے پانی کے کولر جس سے لوگ پانی بھر بھر کر أپنی ضروریات کے لیے استعمال کرتے ہیں.
أور بھی بہت سی اشیاء کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے جس سے مساجد کے اخراجات میں إضافہ ہوتا ہے تو پھر وہ اخرجات مساجد کی اگڑائی و چندے سے پورے کیے جاتے ہیں جس إمام مسجد پر ظل ہوجاتا ہے کیونکہ أسکو تنخواہ اس لیے کم دی جاتی ہے کہ مساجد کے اخراجات بہت زیادہ ہیں ۔
مساجد انتظامیہ پہ یہ اخرجات کم کرنا فرض ہے نہیں تو وہ اللہ أور أسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیانت کے مرتکب ہورہے ہیں.
مساجد کی أشیاء کا استعمال صرف حددرجہ ضرورت کے تحت ہی کرسکتے ہیں:
کسی شئے کی بہت زیادہ ضرورت ہو أور وہ ضرورت کسی أور طریقے سے پوری بھی نہ ہو تو صرف ضرورت کے تحت استعمال کرسکتے ہیں لیکن صاحب ضرورت کو أپنی ضرورت پوری کرنے کا کوئی أور اہتمام جلد ازجلد کرنا ہوتا ہے.
حتی کہ مساجد کی لائٹیں أیسے وقت بند کرنا ضروری ہوتی ہیں جس وقت غالباً کوئی مسجد میں نہ آتا ہو ، أور إسی طرح أگر ایک لائٹ کی ضرورت ہو یا پنکھے کی تو صرف اتنا ہی استعمال کرنا چاہیے لیکن آج کے دور میں تو بغیر ضرورت مسجد کی ساری لائٹیں أور پنکھیں آن رہتے ہیں جس سے انتظامیہ گنہگار ہوتی ہے ۔
قاعدہ فقہیہ ہے:
” الضرارورات تبيح المحظورات “
ضرورت بعض حرام چیز کو مباح کردیتی ہے.
لیکن یہ حرام چیز کب تک مباح رہے گی أسکے لیے بھی قاعدہ فقہیہ ہے:
” الضرورات تقدر بقدرها”
ضرورت کے تحت وہ شئے کسی خاص حد تک مباح رہے گی أگر اس سے زیادہ استعمال کیا تو حرام ہو جائے گی۔
أور یہ قواعد فقہیہ قرآن کی درج ذیل آیت مبارکہ سے لیے گے ہیں:
إنما حرم عليكم الميتة والدم ولحم الخنزير وما أهل به لغير الله فمن اضطر غير باغ ولا عاد فلا إثم عليه “
( البقرہ : 173 )
اس آیت کا مفہوم ہے کہ مردار و خون و خنزیر أور وہ جانور جو غیر اللہ کے نام پہ ذبح ہوں وہ حرام ہیں سوائے أیسے شخص کے لیے جو نہایت ہی ضرورت مند ہو أسکے پاس زندہ رہنے کے لیے کوئی أور شئے نہ ہو تو پھر یہ حرام اشیاء أسکے لیے مباح ہونگی دو شرطوں کے ساتھ:
– ضرورت ہو
– قدر ضرورت استعمال کرے تجاوز نہ کرے۔
تو انہیں دو شروط سے درج بالا قواعد مستنبط کیے گئے.
–
ایک اور غلطی:
مساجد کی کوئی شئے وقف عام ہو یعنی وہ صرف مسجد کے لیے خاص وقف نہ ہو جیسے بعض أوقات ٹھنڈے پانی کا کولر مسجد میں لگادیا جاتا ہے تاکہ لوگ استعمال کریں لیکن إس صورت میں بھی أگر مسجد کی جگہ أور بجلی استعمال ہورہی ہے تب أسکا مشترکہ استعمال مسجد سے خیانت ہے جو کہ حرام ہے.۔
اثر سنن أبی داود میں ہے:
“إن الحصاة لتناشد الذي يخرجها من المسجد”
( سنن أبی داود ، باب فی حصی المسجد ، حدیث نمبر: 460 ، حکم حدیث:
اختلاف ہے مرفوعاً و موقوفا و مقطوعا ، یہ اثر مقطوعا صحیح ہے ،اور حضرت أبو ہریرہ کے طریق میں أبو بدر راوی کو اس حدیث کے مرفوع ہونے میں شک ہے )
ترجمہ: بے شک چھوڑے چھوٹے پتھر ( کنکریاں) جو مسجد سے نکالے گے أنکو واپس لیا جائے گا.
اس اثر میں یہاں تک فرمایا گیا کہ جو مسجد سے چھوٹے چھوٹے پتھر بھی نکالتا ہے أسکو بھی واپس لیا جائے گا ،
جب مسجد کی چھوٹی سے شئے استعمال کرنے کی إجازت نہیں تو من باب أولی بڑی شئے استعمال کرنے کی إجازت نہیں ہوسکتی لہذا اسکو قیاس اولویت کہتے ہیں ،
آج کے بعد ہمیں مساجد کے ان استعمالات کو بند کرنا ہوگا جس سے مساجد کا خرچہ بھی کم ہوگا أور إمام مسجد کی تنخواہ میں بآسانی اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے.
اللہ تعالیٰ ہمیں مساجد کی أشیاء کا استعمال موافق شرع کرنے کی توفیق عطاء فرمائے.