*حضرت مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ*

ساتویں صدی ہجری میں ایران کے ایک علاقے خراسان میں سادات حسینی کی سلطنت قائم تھی۔ اس کا دارالحکومت شہر سمنان تھا جس کے سربراہ اس وقت ایک نہایت ہی خدا ترس بزرگ حضرت سلطان سید محمد ابراہیم علیہ الرحمہ تھے۔ انہی کے گھر ٧١٢ھ میں شہر سمنان میں حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ کی ولادت ہوئی۔آپ چودہ سال کی عمر میں حافظ قرآن، قاری سبعہ قرات، عالم فاضل، مفتی فقیہہ اور شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ راہ سلوک میں بھی قدم رکھ چکے تھے۔ تصوف کی ابتدائی تعلیم آپ نے اس وقت کے جلیل القدر بزرگ حضرت شیخ علاؤالدولہ سمنانی قدس سرہ متوفی ٧٣٦ھ سے حاصل کی جنہوں نے طریقت کے اسرار و رموز سے آپ کو آگاہ فرمایا۔ شیخ کی خصوصی توجہ نے کمسنی میں ہی آپ کو بلند مقام پر پہنچا دیا۔ پندرہ سال کے تھے کہ والد محترم سلطان ابراہیم رحمۃ اﷲ علیہ اﷲ وصال فرما گئے۔ ٧٢٧ھ میں آپ تخت شاہی پر رونق افروز ہوئے۔ تاج شاہی سر پر رکھا گیا اور عنانِ حکومت سنبھالی۔ کاروبارِ مملکت ایسی فراست اور دانشمندی سے چلایا کہ بڑے بڑے زیرک عمائدین مملکت حیران رہ گئے۔طلب و جستجو جب انتہا کو پہنچی تو رمضان المبارک ٧٣٧ھ کی ستائیسویں شب میں حضرت خضر علیہ السلام خواب میں تشریف لائے اور فرمایا، اشرف! عرفانِ الٰہی اور تجلیات باری کی راہ میں سب سے بڑا حجاب یہ تاج و تخت ہے۔ اس سے بے نیاز ہو اور لذت وصال الٰہی کے لئے تیار ہو جاؤ۔ ہندوستان کا سفر اختیار کرو۔ وہاں شیخ علاؤالحق والدین گنج نبات علیہ الرحمہ تمہارے منتظر ہیں۔ صبح ہوتے ہی تاج و تخت کو ٹھکرا دیا۔ اپنے چھوٹے بھائی سید محمد اعراف کو تخت پر بٹھایا اور ترک سلطنت کا اعلان کردیا۔ اس وقت آپ کی عمر صرف ٢٥ سال تھی۔مہینوں سفر کرتے ہوئے بالآخر ہندوستان کے ایک شہر اوچ شریف پہنچے جو تحصیل احمد پور شرقیہ ضلع بہاولپور میں واقع ہے۔ یہاں وقت کے جلیل القدر بزرگ حضرت مخدوم سید جلال الدین بخاری جہانیاں جہاں گشت علیہ الرحمہ متوفی ٧٨٥ھ کا فیض روحانی جاری تھا۔ حضرت جہانیاں جہاں گشت قدس سرہ کو ایک سو چالیس مشائخ سے اجازت و خلافت حاصل تھی، انہوں نے کمال مہربانی فرماتے ہوئے وہ ساری نعمتیں اور خصوصاً سلسلہ قادریہ کی اجازت و خلافت حضرت مخدوم سمانی کو عطا فرمائی اور کہا آپ کی تعلیم کی تکمیل میرے بھائی علاؤ الحق والدین گنج نبات علیہ الرحمہ سے ہوگی۔ وہ آپ کے منتظر ہیں۔ بلاتاخیر وہاں جائیے۔ چلتے وقت ذکر بالجہر کی اجازت دی اور نقش غفوری مرحمت فرمایا۔ جو آج بھی خاندانِ اشرفیہ میں تعویز غفوری کے نام سے مشہور ہے۔ یہ تعویذ حل مشکلات اور دافع بلیات کے لئے تیر بہدف سمجھا جاتا ہے۔حضرت مخدوم سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ کو آپ کے پیر و مرشد حضرت شیخ علاؤالدین گنج نبات قدس سرہ نے بذریعہ کشف ان کا مقام کچھوچھہ شریف دکھا دیا تھا جو ایک تالاب کے درمیان واقع تھا۔ آپ کو اس مقام کی تلاش تھی چنانچہ سیر و سیاحت کرتے ہوئے اس مقام پر تشریف لائے اور فرمایا یہی وہ مقام ہے جس کی جانب ہمارے مخدوم نے اشارہ کیا تھا۔ اس جگہ ہندو جوگی اور جادوگر وغیرہ رہتے تھے۔ جب آپ یہاں تشریف لائے تو ایک جادوگر آپ کے مقابلے پر آیا لیکن آپ کی عظیم روحانی قوت کے سامنے اسے شکست ماننا پڑی اور پھر وہ اور اس کے چیلے آپ دست مبارک پر مسلمان ہوئے۔ لطائف اشرفی کے مطابق اس دن پانچ ہزار سے زائد افراد تائب ہو کر آپ کے حلقہ ارادت میں شامل ہوئے۔معتبر روایات کے مطابق آپ نے ۱۲۰ سال عمر پائی اور ٢٧ یا ۲۸ محرم الحرام ٨٣٢ھ کو کچھوچھہ شریف میں وصال فرمایا۔