فضائل رسولﷺ
فضائل رسولﷺ
محبوب رب العٰلمین ،رحمۃ للعالمین،مرشد انس وجان رہبر انسانیت ﷺ کے فضائل و محاسن حد و شمار سے باہر ہیں۔درحقیقت رسول کریم علیہ افضل الصلوٰۃ و التسلیم کی ذات ایک بحر ناپیداکنار ہے جس کے کنارے پر کوئی شناور نہیں پہونچ سکتا،یہ سمندر اپنی پہنائیوں کے باوجود اتنا عمیق ہے کہ کوئی غواص اس کی تہہ کو نہیں پہنچ سکتا ۔
چند احادیث کریمہ پیش ہیں ،امید ہے کہ عاشقان جمالِ نبوت کو ان کے مطالعہ سے کیف و سرور حاصل ہوگا اور بادیۂ ضلالت میں بھٹکنے والوں کو اللہ کے محبوب کا صحیح عرفان میسر آئیگا۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :آدم علیہ السلام کی تمام ذریت سے میں اپنے رب کے نزدیک معزز و مکرم ہوں۔میں یہ بات فخر و مباہات کے لئے نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ اظہار حقیقت کر رہا ہوں۔(سنن ترمذی)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ سرور عالم ﷺ نے فرمایا :ایک روز جبریل میرے پاس حاضر ہوئے اور عرض کی کہ میں نے زمین کے مشارق ومغارب کو چھان مارا ہے لیکن میں نے کوئی ایسامرد نہیں دیکھا جو محمد مصطفیٰ ﷺ سے افضل ہو اور نہ کوئی خاندان دیکھا ہے جو خاندان بنو ہاشم سے ارفع و اعلیٰ ہو۔(رواہ الطبرانی و ابو نعیم والبیہقی)
اسی لئے بریلی کے تاجدار سیدنا سرکار اعلیٰحضرت اپنے مولیٰ اکی تعریف و توصیف بیان کرتے ہوئے عرض کرتے ہیں ؎
یہی بولے سدرہ والے چمن جہاں کے تھالے
سبھی میں نے چھان ڈالے تیرے پایہ کا نہ پایا
امام مسلم علیہ الرحمہ اپنی صحیح میں روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ رعب سے میری مدد کی گئی ہے۔مجھے جوامع الکلم عطا فرمائے گئے ہیں۔اور اس وقت جب کہ میں سویاہوا تھا زمین کے خزانوں کی کنجیاں لائی گئیں اور میرے ہاتھوں میں رکھ دی گئیں اور میری ذات پر اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام کی بعثت کا سلسلہ ختم کر دیا ہے۔( شفاء شریف)
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبیٔ رحمتﷺ نے ارشاد فرمایا:اے میرے امتیو !میں تمہارا پیش رو ہوں اور میں تم پر گواہی دینے والا ہوں ۔اور میں بخدا یہاں بیٹھے ہوئے حوض کوثر کو دیکھ رہا ہوں اور بلا شبہ زمین کے خزانوں کی کنجیاں مجھے عطا فرما دی گئی ہیں اور خدا کی قسم مجھے اس بات کا ذرا اندیشہ نہیں کہ تم میرے بعد شرک کرنے لگوگے۔البتہ مجھے یہ خوف ہے کہ تم دنیا کی دولت کو اور سامان عشرت کو جمع کر نے لگوگے، اور تم دنیا کی دولت اور سامان عشرت کو جمع کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کروگے ۔ ( شفاء جلد اول)
اس حدیث پاک میں متعدد امور کو واضح فرمادیا گیا۔ اول یہ کہ حضورﷺ نے فرمایا’اِنِّیْ فَرَطٌ لَّکُمْ ‘‘ ’’میں تمہارا پیش رو ہوں ‘‘۔عربی زبان میں فرط اس کو کہتے ہیں جو اپنے کارواں سے اگلی منزل پر پہونچ جاتا ہے۔وہاں جاکر ان کے قیام و طعام کا بند و بست کرتا ہے اور ان کے جانوروں کے لئے چارے کا بند و بست کرتاہے۔سرکار اپنے آپ کو فرط کے لفظ سے ذکر فرما رہے ہیں۔پھر فرمایا کہ میں تمہارے ایمان و اعمال صالحہ پر بارگاہ رب العزت میں گواہی دوں گا۔اور یہاں اپنی چشم ما زاغ کی قوت بینائی کا ذکر بھی فرمادیا کہ مسجد نبوی میں منبر پر بیٹھے ہوئے کروڑوں میل دور حوض کوثر کو ملاحظہ فرمارہے ہیں ۔یہ بھی وضاحت فرمادی کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کے خزانوں کی ساری کنجیاں اپنے حبیب مکرم ﷺ کے حوالے کر دی ہیں۔سرور عالم فخر آدم و بنی آدم ﷺ کو اپنے علم خداداد سے اس بات کا علم تھا کہ ایک وقت وہ آئیگا کہ لوگ میرے غلاموں پر شرک کی تہمت لگائیں گے اس لئے پہلے ہی فرمادیا کہ میری امت شرک نہیں کرے گی اس کا مجھے اندیشہ نہیں ہے ،ہاں اپنی امت پر اس بات کا اندیشہ ہے کہ تم دولت و ثروت کو زیادہ سے زیادہ سمیٹنے میں ایک دوسرے کا مقابلہ کروگے۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم رئوف و رحیمﷺ نے ارشاد فرمایا :میرے رب کریم نے مجھے یہ بشارتیں عطا فرمائی ہیں ۔
}جنت میں سب سے پہلے میں داخل ہوں گا اوراس وقت میرے ساتھ ستر ہزار اہل ایمان ہوں گے جو سب میرے ساتھ جنت میں داخل ہوں گے اور روز محشر ان سے حساب نہ لیا جائیگا۔
}اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ خوشخبری بھی دی ہے کہ میری امت فاقہ سے فنا نہیں ہوگی اور نہ دشمن اس کو مغلوب کر سکیں گے۔
}اللہ جل مجدہ الکریم نے مجھے نصرت،عزت اور رعب اس طرح عطا فرما یا ہے کہ میرا دشمن مجھ سے اور میری امت سے اگر ایک ماہ کی مسافت پر ہوگاتو پھربھی وہ لرزاں و ترساں ہوگا۔
} اللہ تعالیٰ نے میرے لئے اور میری امیت کے لئے اموال غنیمت کو حلال کر دیا ہے اور بہت سی ایسی چیزیں جو پہلی امت پر حرام تھیں ۔
} اور اللہ تعالیٰ نے ہمارے دین میں کوئی ایسی چیز نہ رکھی جس میں ہمیں تنگی اور حرج ہو ۔(شفاء شریف جلد اول صفحہ ۳۱؍۲۱۵)
ابن وہب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ سرکار دو عالمﷺ نے فرمایا :کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ارشاد فرمایا اے میرے محبوب ! مجھ سے مانگو میں نے عرض کی اے میرے پروردگار !میں تجھ سے کیا مانگوں ؟تو نے حضرت ابراہیم( علیہ السلام)کو اپنا خلیل بنایا ،موسیٰ (علیہ السلام )سے بلا واسطہ کلام کیا ،نوح علیہ السلام کو چن لیا ،سلیمان علیہ السلام کو ملک عظیم عطا کیا جو آپ کے بعد کسی کو نہیں دیا جائیگا۔اپنے حبیب کریم ﷺ کا یہ جواب سن کر اللہ جل مجدہ نے فرمایا اے میرے حبیب !جو میں نے آپ کو عطا فرمایا ہے وہ ان تمام انعامات سے افضل و اعلیٰ ہے۔میں نے آپ کو کوثر عطا فرمایا۔میں نے آپ کے نام کو اپنے نام کے ساتھ ملایا ہے جو ہر اذان وشہادت کے وقت فضا میں گونجتا رہتاہے۔اور میں نے زمین کو آپ اور آپ کی امّت کے لئے طہارت کا سبب بنایا ۔اور آپ پر جو الزامات قبل ہجرت اور بعد ہجرت لگائے گئے میں نے ان سب سے آپ کے دامن کو پاک کر دیا۔آپ لوگوں میں اس حالت میں چلتے ہیںکہ آپ مغفور ہیںاور یہ مہربانی آپ سے پہلے میں نے کسی کے ساتھ نہیں کی اور میں نے آپ کے امتیوں کے دلوں کو قرآن کریم کا حامل بنا دیا اور میں نے مقام شفاعت آپ کے لئے مخصوص کر رکھا ہے حالانکہ میں نے آپ کے علاوہ کسی نبی کو یہ شان عطا نہیں فرمائی۔
اس حدیث پاک میں ان مخصوص انعامات و فضائل کا بیان ہے جن سے ربّ قدیر نے اپنے حبیب مکرم ﷺ کو سرفراز فرمایاہے اور اس بات کی بھی وضاحت کی گئی ہے کہ اگر چہ حضور کی آمد سے قبل اولو العزم رسولوں کو مقام رفعیہ پر فائز کیا گیا لیکن جو شانیں اور عظمتیں آپ کے رب نے آپ کو عطا فرمائی ہیں۔وہ تمام سابقہ انعامات سے اعلیٰ و ارفع ہیں ۔ سچ ہے :
؎حسن یو سف دم عیسیٰ ید بیضا داری آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہاداری