یہ دل ہے کہ دشمن ہے مری جانِ حزیں کا
از: علامہ حسن رضا بریلوی
🌸
یہ دل ہے کہ دشمن ہے مری جانِ حزیں کا
مجھ کو اسی کم بخت نے رکھا نہ کہیں کا
🌸
اے مست مئے ناز ذرا دیکھ کے چلنا
پِس جائے کہیں دل نہ کسی خاک نشیں کا
🌸
پھر جھوٹوں کے وعدے پہ ہے خوش اے دلِ ناداں
کم بخت ٹھکانا ہی نہیں تیرے یقیں کا
🌸
آغازِ محبت میں اُٹھائی وہ مصیبت
کچھ ڈر نہ رہا مجھ کو دم باز پسیں کا
🌸
پسپا ہوئے جاتی ہے سرِ شوق کی ہمت
عالی ہے یہ رُتبہ تیرے کوچے کی زمیں کا
🌸
اُس شوخ کے اِنکار سے دل ٹکڑے ہوا کیوں
یا رب کوئی خنجر تو نہ تھا لفظ ’نہیں‘ کا
🌸
اک نالے ہی میں آپ جگر تھامے چلے آئے
اک وار بھی اُٹھا نہ مری جانِ حزیں کا
🌸
عالم میں اُٹھا چاہتی ہے تازہ قیامت
جوبن ہے ترقی پہ بتِ ماہِ جبیں کا
🌸
عشاق ہیں رُسوا سرِ بازارِ محبت
ادنیٰ سا یہ اک ناز ہے اُس پردہ نشیں کا
🌸
جس میں ہے تمہارے رُخ رنگیں کا تصور
اُس دل کو لقب دیجیے فردوسِ بریں کا
🌸
اِس ضعف میں اُس کوچے کو جاتا ہوں کہ ہر گام
جو دیکھے وہ سمجھے کہ اِرادہ تھا یہیں کا
🌸
پھر صبر سکھائیں مجھے ناصح تو میں جانوں
جلوہ نظر آ جائے میرے ماہ جبیں کا
🌸
گر حضرتِ دل یار سے اِقرار ہو لینا
یوں کہیے کہ مشتاق ہوں میں تیری ’نہیں‘ کا
🌸
دیکھو تو حسنؔ لوگ تمہیں کہتے ہیں کیا کیا
کیوں عشق کیا آپ نے اُس دشمنِ دیں کا