أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَعَلَى الَّذِيۡنَ هَادُوۡا حَرَّمۡنَا كُلَّ ذِىۡ ظُفُرٍ‌‌ ۚ وَمِنَ الۡبَقَرِ وَالۡغَـنَمِ حَرَّمۡنَا عَلَيۡهِمۡ شُحُوۡمَهُمَاۤ اِلَّا مَا حَمَلَتۡ ظُهُوۡرُهُمَاۤ اَوِ الۡحَـوَايَاۤ اَوۡ مَا اخۡتَلَطَ بِعَظۡمٍ‌ ؕ ذٰ لِكَ جَزَيۡنٰهُمۡ بِبَـغۡيِهِمۡ‌‌ ۖ وَاِنَّا لَصٰدِقُوۡنَ ۞

ترجمہ:

اور یہودیوں پر ہم نے ہر ناخن والا جانور حرام کردیا تھا، اور ہم نے ان پر گائے اور بکری کی چربی حرام کردی تھی، مگر جو چربی ان کی پیٹھیوں پر ہو یا انکی آنتوں پر ہو یا جو چربی ان کی ہڈی پر ہو ‘ یہ ہم نے ان کو ان کی سرکشی کی سزا دی تھی اور بیشک ہم ضرور سچے ہیں۔

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور یہودیوں پر ہم نے ہر ناخن والا جانور حرام کردیا تھا، اور ہم نے ان پر گائے اور بکری کی چربی حرام کردی تھی، مگر جو چربی ان کی پیٹھیوں پر ہو یا انکی آنتوں پر ہو یا جو چربی ان کی ہڈی پر ہو ‘ یہ ہم نے ان کو ان کی سرکشی کی سزا دی تھی اور بیشک ہم ضرور سچے ہیں۔ (الانعام : ١٤٦) 

بعض الفاظ کے معنی : 

ذی ظفر : ناخن والے ‘ اس سے مراد ایسے جانور ہیں ‘ جن کے ناخن ان کی انگلیوں سے الگ نہ ہوں، جیسے اونٹ اور دیگر مویشی ‘ اس کے برخلاف پھاڑنے والے درندوں کے ناخن ان کی انگلیوں سے الگ ہوجاتے ہیں ‘ جن سے وہ شکار کرتے ہیں۔ شحم کا معنی ہے چربی اور ” الحوایا “ الحاویہ کی جمع ہے ‘ اس کا معنی ہے آنت ‘ انتڑی۔ 

سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر ایک دلیل : 

امام ابن جریر متوفی ٣١٠ ھ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ ناخن والے جانوروں سے مراد اونٹ شترمرغ اور اس قسم کے دیگر چوپائے ہیں۔ حضرت سعید بن جبیر نے کہا اس سے مراد ایسے جانور ہیں جن کی انگلیاں کھلی ہوئی نہ ہوں۔ قتادہ نے کہا اس سے مراد اونٹ ‘ شترمرغ اور پرندے ہیں۔ (جامع البیان ‘ جز ٨ ص ٩٧۔ ٩٦‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت ١٤١٥ ھ) 

پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہم نے ان پر گائے اور بکری کی چربی حرام کردی تھی۔ اس سلسلہ میں یہ حدیث ہے : 

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) کو یہ خبر پہنچی کہ فلاں شخص نے خمر (شراب) فروخت کی ہے۔ حضرت عمر (رض) نے کہا اللہ تعالیٰ فلاں شخص کو قتل کرے ‘ وہ نہیں جانتا تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا اللہ تعالیٰ یہود کو ہلاک کرے ان پر چربی حرام کی گئی تھی ‘ انہوں نے اس کو پگھلایا اور پھر فروخت کردیا۔ (صحیح البخاری ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ٢٢٢٣‘ صحیح مسلم ‘ المساقاۃ ‘ ٧٢‘ مسند احمد ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ١٧٠) 

اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کو بنو اسرائیل پر ان کی سرکشی کی وجہ سے بطور سزا حرام کیا۔ کیونکہ وہ انبیاء (علیہم السلام) کو ناحق قتل کرتے تھے اور لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے تھے اور سور کھاتے تھے اور دیگر ناجائز طریقوں سے لوگوں کا مال کھاتے تھے ‘ اور یہ اس لیے ذکر فرمایا ہے کہ یہود یہ کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر کسی چیز کو حرام نہیں کیا ماسوا اس کے جس کو حضرت یعقوب نے خود اپنے نفس پر حرام کیا تھا ‘ اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ ماضی کی خبر دی تھی جس کا کسی کو علم نہیں تھا ‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا بیشک ہم اس خبر میں ضرور سچے ہیں اور یہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی دلیل ہے کہ آپ نے یہود کو ماضی کی ایسی بات کی خبر دی جس کا کسی کو علم نہیں تھا اور جس کو جاننے کے لیے وحی کے سوا اور کوئی ذریعہ نہیں تھا۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 6 الأنعام آیت نمبر 146