امام احمد رضا اور کسی ایک موضوع سے متعلق احادیث
۱۔ کسی ایک موضوع سے متعلق احادیث
امام احمد رضا محدث بریلوی قدس سرہ العزیز سے کسی مسئلہ میں سوال ہوا تو آپ نے قرآن کریم سے استدلال کے بعد احادیث سے استدلال فرمایا اور موضوع سے متعلق احادیث کا وافر ذخیرہ جمع کر دیا۔ مثلا
٭ حضرت حاجی امداداللہ صاحب مہاجرمکی علیہ الرحمہ کے خلیفہ مولانا کرامت اللہ صاحب نے دہلی باڑہ ہندو رائو سے ۳۱۱ھ میں ایک استفتاء اس مضمون کا بھیجا کہ زید درود تاج وغیرہ پڑھنے کو شرک وبدعت کہتاہے کیوں کہ اس میں حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو ’’دافع البلا ء والوباء ‘‘ وغیرہ کہا گیا ہے جو کھلا شرک ہے العیاذ باللہ ۔
یہ پڑھ کر امام احمد رضا کا قلم حرکت میں آ یا اور حضور کے دافع بلاء اور صا حب عطا ہونے کو تین سو احادیث کریمہ کے ذریعہ ثابت فرماکر وہابیہ کے خود ساختہ شرک کو ہمیشہ کیلئے خاک میں ملا دیا ۔یہ کتاب’’ الامن والعلی‘‘ کے نام سے مشہور ہے ۔امام احمد رضا نے اس کا ایک دوسرا نام بھی رکھا ہے’’ اکمال الطامۃ علی شرک سوی بالامورالعامہ‘‘ ۔
( وہابیوں کے اس شرک پر پوری قیامت ڈھانا جو امور عامہ کی طرح موجود کی تمام قسموں پر صادق ہے )
٭ امام احمد رضا قدس سرہ کے استاذ گرامی حضرت مولانا غلام قادر بیگ علیہ الرحمہ کی معرفت مونگیر لعل دروازے سے ۱۳۰۵ھ میں ایک استفتاء آیاکہ وہابیہ نے حضور سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے افضل المرسلین ہونے کا انکار کیاہے اور کہتے ہیں قرآن وحدیث سے دلیل لائو۔
اس کے جواب میں امام احمد رضا محدث بریلوی فرماتے ہیں:۔
حضور پر نور سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا افضل المرسلین سیدالاولین والآخرین ہونا قطعی ایمانی یقینی اذعانی اجماعی ایقانی مسئلہ ہے جس میں خلاف نہ کریگا مگر گمراہ بددین بندئہ شیاطین والعیاذ باللہ رب العالمین ۔
پھر ایک مبسوط کتاب’’ تجلی الیقین‘‘ کے نام سے تحریر فرمائی اور ایک سو احادیث سے اس مسئلہ کو واضح فرماکر تحقیق انیق کے دریا بہائے ۔
٭ مولانا محمدحسن صاحب کانپوری کے شاگرد مولوی احمد اللہ صاحب نے کانپور سے ۱۳۱۲ھ میں ایک سوال بھیجا کہ ہمارے دیار میں چیچک اور قحط سالی آجائے ،تو لوگ بلاء کے دفع کیلئے چاول گیہوں وغیرہ جمع کر کے پکاتے ہیں اور پھر علماء کو بلاکر اورخود محلہ والے جمع ہوکر کھاتے ہیں یہ طعام ان کیلئے جائز ہے ؟امام احمد رضا نے جواب با صواب مرحمت فرمایا، یہ طریقہ اوراہل دعوت کیلئے یہ کھانا جائز ہے اس دعوے کے ثبوت میں ساٹھ حدیثیں بطوردلیل پیش فرمائیں جو امام احمد رضا کے عظیم محدث ہونے کا واضح ثبوت ہیں ۔
٭ جمادی الآخرہ ۱۳۰۵ھ میں سماع موتی سے متعلق ایک سوال آیا ،سائل نے سوال کے ساتھ بعض منکرین کا جواب بھی منسلک کیا تھا۔ امام احمد رضا نے چارسو وجوہ سے دار وگیر فرمائی ہے، یہ رسالہ دلائل وبراہین سے مزین ۷۷؍ احادیث پر مشتمل ہے ۔
٭ مرزا قادیانی کی جعلی نبوت کو دفناتے ہوئے امام احمد رضا محدث بریلوی نے ’’جزاء اللہ عدوہ ‘‘نامی کتاب تحریر فرمائی ۔ایک سواکیس احادیث نقل فرماکر مرزا کے دعوی کو خاک میں ملا دیا جو بلا شبہ آپ کے تبحر فی فن الحدیث کا بین ثبوت ہے ۔
٭ جمعہ کے دن اذان ثانی کے موضوع پر امام احمد رضا محدث بریلوی نے ایک کتاب ’’شمائم العنبر ‘‘ نامی عربی زبان میں تحریر فرمائی جس میں ۴۵؍احادیث سے کتاب کو مزین فرمایا ۔
٭ تخلیق ملائکہ کے عنوان پر چوبیس احادیث سے استدلال فرمایا ۔
٭ خضاب کے عدم جواز میں ۱۶؍ احادیث سے استدلال ۔
٭ معانقہ کے ثبوت میں ۱۶؍ احادیث ۔
٭ داڑھی کی ضرورت و اہمیت پر ۵۶؍ احادیث ۔
٭ والدین کے حقوق پر ۹۱؍ احادیث ۔
٭ سجدئہ تحیت کی حرمت میں ۷۰؍ احادیث ۔
٭ شفاعت کے عنوان پر ۴۰؍ احادیث ۔
٭ تصاویر کے عدم جواز پر ۲۷؍ احادیث ۔
اور اسی طرح بے شمار عناوین وموضوعات پر ان گنت احادیث کریمہ سے استدلال فرماکر امت مسلمہ کو احادیث کا بیش بھا خزانہ مرحمت فرمایا ۔
در حقیقت امام احمد رضا کی تصانیف احادیث کریمہ کا ٹھا ٹھیں مارتا ہوا سمندر ہیں جس موضوع پر اشہب قلم کو مہمیز لگائی اس میں ظفر وکامیابی نے آپ کے قدم چومے ۔