اِتَّبِعُوۡا مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَيۡكُمۡ مِّنۡ رَّبِّكُمۡ وَلَا تَتَّبِعُوۡا مِنۡ دُوۡنِهٖۤ اَوۡلِيَآءَ ؕ قَلِيۡلًا مَّا تَذَكَّرُوۡنَ ۞- سورۃ نمبر 7 الأعراف آیت نمبر 3
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اِتَّبِعُوۡا مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَيۡكُمۡ مِّنۡ رَّبِّكُمۡ وَلَا تَتَّبِعُوۡا مِنۡ دُوۡنِهٖۤ اَوۡلِيَآءَ ؕ قَلِيۡلًا مَّا تَذَكَّرُوۡنَ ۞
ترجمہ:
(اے لوگو ! ) اس کی پیروی کرو جو تمہاے رب کی جانب سے تمہاری طرف نازل کیا گیا ہے، اور اللہ کو چھوڑ کر اپنے دوستوں کی پیروی نہ کرو، تم بہت کم نصیحت قبول کرتے ہو
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ” (اے لوگو ! ) اس کی پیروی کرو جو تمہاے رب کی جانب سے تمہاری طرف نازل کیا گیا ہے، اور اللہ کو چھوڑ کر اپنے دوستوں کی پیروی نہ کرو، تم بہت کم نصیحت قبول کرتے ہو “
احادیث کے حجت ہونے کے دلائل اور ان کی حجیت کی وضاحت : اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر فرمایا تھا اور اس بات کا ذکر فرمایا تھا کہ امت کو ڈرانے اور نصیحت کے لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید نازل فرمایا ہے اور اب اس آیت میں امت کو یہ حکم دیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جو کچھ نازل کیا گیا ہے وہ اس کی اتباع کریں اور اس پر عمل کریں اور اس آیت میں احادیث مبارکہ کے حجت ہونے پر دلیل ہے، کیونکہ جس طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن مجید نازل کیا گیا ہے اسی طرح آپ پر احادیث مبارکہ کی گئی ہیں، فرق یہ ہے کہ قرآن مجید کے الفاظ اور معانی دونوں نازل ہوئے ہیں، اور احادیث کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صرف معانی نازل ہوئے اور ان معانی کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے، اس آیت کے علاوہ اور بھی متعدد آیات میں احادیث مبارکہ کے حجت ہونے پر دلیل ہے، ان میں سے بعض آیات یہ ہیں :
” وما اتاکم الرسول فخذوہ و ما نہاکم عنہ فانتہوا : رسول تم کو جو (احکام) دیں ان کو قبول کرو اور جن کاموں سے تم کو منع کریں ان سے باز رہو ” (الحشر :7) ۔ اگر رسول اللہ سلی اللہ علیہ وسلم صرف قرآن مجید کے احکام پر عمل کرانے اور فقط قرآن مجید کی آیات پہنچانے پر مامور ہوتے اور قرآن مجید کے علاوہ احکام دینے مجاز نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ یہ آیت نازل نہ فرماتا۔
نیز فرمایا : ” قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ و یغفر لکم ذنوبکم : آپ کہیے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم کو محبوب بنا لے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا ” (آل عمران :31) ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت اور مغفرت کے حصول کو آپ کی اتباع پر موقوف کردیا ہے، کیونکہ یہاں یہ نہیں فرمایا کہ اگر تم اللہ کی محبت چاہتے ہو تو قرآن مجید پر عمل کرو بلکہ یہ فرمایا ہے کہ اگر تم اللہ کی محبت چاہتے ہو تو میری یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع کرو۔
” وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیھم : اور ہم نے آپ کی طرف قرآن نازل کیا تاکہ آپ لوگوں سے بیان فرمائیں کہ ان کی طرف کیا نازل کیا گیا ہے ” (النحل :44) ۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیم اور تبیین کے بغیر قرآن مجید کے معانی معلوم نہیں ہوسکتے، اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت اور اتباع کا حکم دیا ہے۔ آپ کے احکام کی اطاعت اور آپ کے افعال کی اتباع قیامت کے مسلمانوں پر واجب ہے۔ صحابہ کرام (رض) نے آپ سے براہ راست احکام حاصل کیے اور آپ کو دیکھ کر آپ کی سنت کی پیروی کی۔ اب سوال یہ ہے کہ بعد کے لوگوں کو آپ کے احکام اور آپ کے افعال کا کس ذریعہ سے علم ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے افعال کو ہمارے اعمال کے لیے نمونہ بنایا ہے۔ لہذا جب تک آپ کے افعال ہمارے افعال کے سامنے نہ ہوں ہم اپنے اعمال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے افعال کے مطابق کیسے کرسکیں گے اور آپ کے احکام کی اطاعت کیسے کرسکیں گے اور جب کہ آپ کے احکام اور آپ کے افعال کی اطلاع صرف احادیث سے ہی ممکن ہے تو معلوم ہوا کہ جس طرح صحابہ کرام (رض) کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات مبارکہ اللہ کی حجت تھی اسی طرح ہمارے حق میں آپ کی احادیث مبارکہ اللہ کی حجت ہیں۔ اور اگر ان احادیث کو معتبر ماخذ نہ مانا جائے تو بندوں پر اللہ کی حجت ناتمام رہے گی۔
نیز اس پر غور کرنا چاہیے کہ اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ بتلاتے تو ہمیں کیسے معلوم ہوتا کہ صلوۃ سے مراد یہ معروف نماز ہے۔ اذان کے ان مخصوص الفاظ کا کیسے پتہ چلتا، تکبیر تحریم سے لے کر سلام پھیرنے تک نماز کے تمام ارکان، واجبات، سنن اور آداب کا ہمیں کیسے علم ہوتا۔ زکوۃ کے نصاب اور ادائیگی کی مقدار کا اور اس کی تمام شرائط اور موانع کا ہمیں کیسے علم ہوتا، اسی طرح روزہ کی تمام تر تفصیلات، اس کی قضا اور کفارہ کا بیان ہمیں کیسے معلوم ہوتا۔ حج اور عمرہ کے ارکان، واجبات، مستحبات اور مفسدات کیسے معلوم ہوتے۔ ان میں سے کسی چیز کا بھی قرآن مجید میں بیان نہیں ہے۔ عہد رسالت میں صحابہ کرام کو یہ تمام تفصیلات براہ راست آپ سے سن کر اور آپ کو دیکھ کر حاصل ہوئیں اور بعد کے مسلمانوں کو ان احادیث سے معلوم ہوئیں جو متعدد اسانید سے صحابہ کرام سے مروی ہیں اور بعد میں ان احادیث کی باقاعدہ تدوین کی گئی اور آج ان سے استفادہ کے لیے صحاح ستہ اور دیگر کتب احادیث کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس طرح قرآن مجید کے معانی کے مبین اور معلم ہیں، اسی طرح آپ بعض احکام کے شارع بھی ہیں جیسا کہ قرآن مجید کی اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے : یحل لہم الطیبات و یحرم علیہم الخبائث : (وہ رسول) پاک چیزوں کو ان کے لیے حلال کرتے ہیں اور ناپاک چیزوں کو ان پر حرام کرتے ہیں ” (الاعراف :157)
اس سلسلہ میں حسب ذیل احادیث ہیں، امام ابوداود متوفی 275 ھ روایت کرتے ہیں : حضرت مقدام بن معدیکرب بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سنو ! مجھے کتاب دی گئی ہے اور اس کے ساتھ اس کی مثل بھی، سنو ! عنقریب ایک شکم سیر شخص اپنے تخت پر بیٹھا ہوا کہے گا تم (صرف) اس قرآن کو لازم پکڑ لو اس میں جو چیزیں تم حلال پاؤ ان کو حلال قرار دو ، اور اس میں جن چیزوں کو تم حرام پاؤ ان کو حرام قرار دو ، سنو تمہارے لیے پالتو گدھے کا گوشت حلال نہیں ہے اور نہ تمہارے لیے ہر چکلیوں والا درندہ حلال ہے اور نہ ذمی کی راستہ میں پڑی ہوئی چیز، سوا اس صورت کے کہ اس چیز کا مالک اس سے مستغنی ہو اور جو شخص کسی قوم کے پاس جائے اس قوم پر اس کی میزبانی کرنا لازم ہے۔ اگر وہ اس کی مہمان نوازی نہ کریں تو اس مہمان کے لیے ان لوگوں سے بہ قدر ضیافت مال چھین لینا جائز ہے۔
حدیث کا یہ آخری جملہ اس صورت پر محمول ہے جب مہماں حالت اضطرار میں ہو اور اس کے پاس اپنا پیٹ بھرنے کے لیے میزبان کا مال لینے کے سوا اور کوئی چارہ کار نہ ہو ورنہ قرآن مجید اور دیگر احادیث میں مسلمانوں کو ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقہ سے کھانے سے منع فرمایا ہے۔ (سنن ابو داود ج 4 رقم الحدیث 4604 ۔ سنن الترمزی ج 4 رقم الحدیث 2672 تا 2673 ۔ سنن ابن ماجہ ج 1 رقم الحدیث 12-13 ۔ مسند احمد ج 4 ص 130 ۔ 131 ۔ طبع قدیم۔ المستدرک ج 1 ص 109 ۔ سنن دارمی ج 1 رقم الحدیث 586) ۔
نیز امام عبداللہ بن عبدالرحمن دارمی سمرقندی متوفی 255 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : حضرت حسان بیان کرتے ہیں کہ حضرت جبرائیل نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اسی طرح سنت نازل کرتے تھے جس طرح قرآن مجید نازل کرتے تھے۔ (سنن دارمی، رقم الحدیث 588، مطبوعہ دار الکتاب العربی، بیروت)
مکحول بیان کرتے ہیں کہ سنت کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ سنت ہے جس پر عمل کرنا فرض ہے اور اس کو (بہ طور انکار یا اہانت) ترک کرنا کفر ہے۔ اور دوسری قسم وہ سنت ہے جس پر عمل کرنا باعث فضیلت ہے اور جس کے ترک کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے (سنن دارمی، رقم الحدیث 589)
سعید بن جبیر بیان کرتے ہیں کہ ایک دن انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک حدیث بیان کی تو ایک شخص نے کہا کتاب اللہ میں اس کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا میں تو کو ایسا کرتے ہوئے نہ دیکھوں کہ میں تم کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث بیان کروں اور تم اس حدیث کا کتاب اللہ سے معارضہ کرو۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم سے زیادہ کتاب اللہ کو جاننے والے تھے۔ (سنن دارمی، رقم الحدیث 590) ۔
اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ جو حدیث بہ ظاہر قرآن مجید کے خلاف ہو لیکن کسی باریک اور خفی وجہ سے اس کی قرآن مجید کے ساتھ مطابقت ہوسکتی ہو تو اس کو قرآن مجید کے معارض اور خلاف قرار نہیں دیا جائے گا۔ مثلاً قرآن مجید میں نماز میں مطلقاً قرآن پڑھنے کا حکم ہے اور کسی خاص سورت کو پڑھنے کا حکم نہیں دیا بلکہ فرمایا ہے : ” فاقرء وا ما تیسر من القرآن : تمہیں جنتا قرآن پڑھنا آسان لگے اتنا پڑھ لیا کرو ” (المزمل :20) ۔ اس کے بر خلاف حدیث میں ہے : حضرت عبادہ بن الصامت (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص سورة فاتحہ نہ پڑھے، اس کی نماز نہیں ہوگی۔ (صحیح البخاری، ج 1 رقم الحدیث 765، صحیح مسلم کتاب الصلوۃ :34 (394) 850 ۔ سنن ابو داود ج 1 رقم الحدیث 822 ۔ سنن الترمذی ج 1 رقم الحدیث 247 ۔ سنن النسائی ج 2 رقم الحیدث 911 ۔ سنن ابن ماجہ ج 1 رقم الحدیث 837 ۔ سنن کبریٰ للنسائی ج 5 رقم الحدیث 8009) ۔ لیکن اس حدیث کا محمل یہ ہے کہ سورة فاتحہ کے بغیر نماز کامل نہیں ہوگی۔ مطلقاً قرآن مجید نماز میں پڑھنا فرض ہے اور سورة فاتحہ کا پڑھنا واجب ہے اور اگر کسی نے نماز میں سورة فاتحہ کو نسیانا ترک کردیا تو سجدہ سہو واجب ہوگا اور اگر اس کو عمداً ترک کردیا تو نماز اس میں واجب الاعادہ ہوگی۔ اس لیے یہ حدیث قرآن مجید کے خلاف نہیں ہے۔
البتہ جو حدیث صرح قرآن کے خلاف ہو اور اس کی کوئی صحیح توجیہ ممکن نہ ہو تو اس کو قرآن مجید کے مقابلہ میں ترک کردیا جائے گا اور اس کے متعلق یہی کہا جائے گا کہ یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کلام نہیں ہے اور کسی زندیق نے اس حدیث کو گھڑ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف منسوب کردیا اور اصطلاحاً وہ حدیث موضوع قرار دی جائے گی۔ اس کی مثال یہ حدیث ہے :
امام ابو القاسم سلیمان بن احمد الطبرانی المتوفی 360 ھ اپنی سند کے ساتھ حضرت ضحاک بن زمل الجہنی سے ایک طویل حدیث روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صبح کی نماز کے بعد صحابہ سے فرمایا آج رات تم میں سے کسی نے خواب دیکھا ہے ؟ حضرت ضحاک نے ایک طویل خواب بیان کیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی تعبیر بیان فرمائی۔ اس تعبیر میں آپ کا یہ ارشاد بھی ہے دنیا (کی عمر) سات ہزار سال ہے اور میں اس کے آخری ہزار میں ہوں۔ (الحدیث) (المعجم الکبیر ج 8 رقم الحدیث 8146 ۔ دلائل النبوۃ للبیہقی ج 7 ص 36 ۔ 38 ۔ کنزالعمال ج 14 رقم الحدیث 3833 ۔ مجمع الزوائد ج 8 ص 184)
اس حدیث کی سند میں ایک راوی سلیمان بن عطا القرشی ہے جو مسلمہ بن عبداللہ الجہنی سے روایت کرنے میں منفرد ہے۔ حافظ جمال الدین ابوالحجاج یوسف المزوی المتوفی 742 ھ اس کے متعلق لکھتے ہیں : امام بخاری نے کہا اس کی احادیث میں مناکیر ہیں۔ امام ابوزرعہ نے کہا یہ منکر الحدیث ہے۔ (تہذیب الکمال فی اسماء الرجال ج 8 ص 89، مطبوعہ دار الفکر، بیروت، 1414 ھ)
حافظ احمد بن علی بن حجر عسقلانی متوفی 852 ھ اس کے متعلق لکھتے ہیں : امام ابن حبان نے کتاب الضعفاء میں اس کے متعلق لکھا ہے یہ ایک بوڑھا شخص تھا جو مسلمہ بن عبداللہ الجہنی سے ایسی چیزیں روایت کرتا تھا جو موضوعات کے مشابہ ہیں اور ثقہ راویوں کی احادیث کے مشابہ نہیں ہیں اور امام ابوحاتم نے اس کو منکر الحدیث کہا (تہذیب التہذیب ج 4 ص 191، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت، 1415 ھ) ۔
امام ابن حاتم رازی نے اپنی سند کے ساتھ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ دنیا کی عمر سات ہزار سال ہے جس میں سے چھ ہزار سال گزر چکے ہیں۔ (تفسیر ابن ابی حاتم ج 8 ص 2499، مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ 1417 ھ) ۔
امام ابن ابی حاتم نے اس حدیث کی سند زکر نہیں کی جس سے اس کا حال معلوم ہوتا۔ البتہ یہ حدیث صریح قرآن کے خلاف ہے اور اس حدیث کا موضوع اور جھوٹ ہونا بالکل ظاہر ہے کیونکہ اگر یہ حدیث صحیح ہوتی اور سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے ایک ہزار سال بعد قیامت نے آنا ہوتا تو ہر شخص کو معلوم ہوجاتا کہ اب قیامت کے آنے میں کتنا وقت باقی رہ گیا ہے۔ حالانکہ قرآن مجید میں ہے : ” لاتاتیکم الا بغتۃ : قیام تم پر اچانک ہی آئے گی ” (الاعراف :187) ۔
علاوہ ازیں اب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد ایک ہزار اور چار سو سال سے زیادہ سال گزر چکے ہیں، جبکہ اس حدیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ آپ کی بعثت کے بعد دنیا کی عمر ایک ہزار سال ہے گویا چار سو سال پہلے قیامت آجانا چاہیے تھی، لہذا اس حدیث کا جھوٹ ہونا بالکل واضح ہے۔ کسی زندیق نے ایک جعلی سند بنا کر ایک جھوٹ کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف منسوب کدیا۔ معاذ اللہ امام عبدالرحمن بن علی بن الجوزی المتوفی 597 ھ نے اس حدیث کو اپنی سند کے ساتھ حضرت انس (رض) سے روایت کیا ہے اور اس کے متعلق لکھا ہے۔ یہ حدیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وضع کی گئی ہے اور اس کو وضع کرنے والا العلاء بن زیدل ہے۔ ابن المدینی نے کہا کہ وہ حدیث وضع کرتا تھا۔ امام ابو حاتم رازی اور امام ابو داود نے کہا کہ وہ مترو الحدیث ہے اور امام ابن حبان نے کہا کہ اس نے حضرت انس (رض) سے ایک من گھڑت مجموعہ روایت کیا ہے جس کا ذکر جائز نہیں ہے۔
ملا علی بن سلطان محمد القاری المتوفی 1014 ھ نے بھی اس حدیث کو موضوع قرار دیا ہے (موضوعات کبیر، ص 98، مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی) ۔
امام علی بن عمر الدارقطنی متوفی 385 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہارے پاس عنقریب میری مختلف احادیث آئیں گی پس تمہارے پاس میری جو حدیث کتاب اللہ اور میری سنت (معروفہ) کے موافق پہنچے، وہ میری حدیث ہے اور تمہارے پاس میری جو حدیث کتاب اللہ اور میری سنت (معروفہ) کے مخالف پہنچے، وہ میری حدیث نہیں ہے۔
امام دارقطنی نے اس حدیث کو چار مختلف اسانید کے ساتھ روایت کیا ہے (سنن دار قطنی ج 4 رقم الحدیث 4427 تا 4430 ۔ مطبوعہ دار الکب العلمیہ، بیروت، 1412 ھ)
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 7 الأعراف آیت نمبر 3