قَالَ الۡمَلَاُ مِنۡ قَوۡمِهٖۤ اِنَّا لَـنَرٰٮكَ فِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنٍ ۞- سورۃ نمبر 7 الأعراف آیت نمبر 60
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
قَالَ الۡمَلَاُ مِنۡ قَوۡمِهٖۤ اِنَّا لَـنَرٰٮكَ فِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنٍ ۞
ترجمہ:
ان کی قوم کے سرداروں نے کہا بیشک ہم آپ کو یقیناً کھلی ہوئی گمراہی میں دیکھتے ہیں
تفسیر:
60 ۔۔ 62:۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ” ان کی قوم کے سرداروں نے کہا بیشک ہم آپ کو یقیناً کھلی ہوئی گمراہی میں دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا اے میری قوم مجھ میں کسی قسم کی گمراہی نہیں ہے لیکن میں رب العلمین کی جانب رسول (پیغام پہنچانے والا) ہوں۔ میں تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور تمہاری خیر خواہی کرتا ہوں اور میں اللہ کی طرف سے ان باتوں کو جانتا ہوں جنہیں تم نہیں جانتے “
اہم اور مشکل الفاظ کے معانی :
الملاء : مال دار اور معاشرہ میں با اثر لوگ جن کی لوگوں کے دلوں پر ہیبت چھائی رہتی تھی مجلس میں ان ہی کی طرف نگاہیں اٹھتی تھیں اور وہ محفل میں صدر نشین ہوتے تھے ور وہ نوح (علیہ السلام) سے مقابلہ اور مناظرہ کرتے تھے۔
فی ضلال مبین : وہ نوح (علیہ السلام) سے کہتے تھے کہ آپ کھلی ہوئی گمراہی میں ہیں۔ یعنی اللہ کی توحید، اپنی نبوت، احکام شرعیہ اور قیامت اور آخرت کے متعلق آپ جو کچھ کہتے ہیں، وہ خطا پر مبنی ہے اور غلط ہے۔
لیس بی ضلالۃ : کفار نے حضرت نوح کی طرف کھلی گمراہی کے جس عیب کی نسبت کی تھی، اس کی حضرت نوح نے اپنی ذات سے نفی کی اور اپنی سب سے مکرم اور مشرف صفت کا بیان کیا اور وہ یہ ہے کہ وہ اللہ کی جانب سے مخلوق کی طرف رسول اور پیغام رساں ہیں اور ان کو اپنے رب کے پیغامات پہنچاتے ہیں اور ان کی خیر خواہی کرتے ہیں۔ تبلیغ رسالات یعنی پیغام پہنچانے کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو جن چیزوں کا مکلف کیا ہے، یعنی اوامر اور نواہی، ان کا بیان کرتے ہیں، ان کے لیے کیا کام کرنا ضروری ہیں اور کن کاموں کا نہ کرنا ضروری ہے اور یہ کہ کن کاموں پر دنیا میں ان کی مذمت ہوگی اور آخرت میں عذاب ہوگا اور کن کاموں پر ان کی دنیا میں تحسین ہوگی اور آخرت میں ثواب ہوگا۔ یہ وہ پیغامات ہیں جن کو وہ اپنے رب کی طرف سے پہنچاتے تھے، اور نصیحت اور خیر خواہی کا معنی یہ ہے کہ ان کو ایمان اور اعمال صالحہ کی تلقین اور ترگیب دیتے تھے اور کفر اور معصیت سے روکتے تھے اور ان کو عذاب الٰہی سے ڈراتے تھے
پھر فرمایا میں اللہ کی طرف سے ان باتوں کو جانتا ہوں جن کو تم نہیں جانتے۔ یعنی میں جانتا ہوں کہ اگر تم نے اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی کی تو وہ تم کو طوفان کے عذاب میں مبتلا کرے گا جس کا تم تصور بھی نہیں کرسکتے اور اس کا معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ میں اللہ کی توحید اور صفات کو جانتا ہوں جس کو تم نہیں جانتے اور اس کا مقصد ان علوم کے حصول کی ترغیب دینا ہے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 7 الأعراف آیت نمبر 60